٭فاضل جمیلی
مدیر روز نامہ جنگ، کراچی ،پاکستان
جاپان خوبصورت جزیروں اور دیومالائی داستانوں کی سرزمیں ہےجہاںلگ بھگ اسی ہزار عبادت گاہیں آج بھی دیویوں اور دیوتائوں کی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔جنوبی جاپان کے تاریخی شہر’’فوکواوکا‘‘میں ہمارے سفر کا آغاز بھی ایک قدیم عبادت گاہ’’کوشیداشرائن‘‘سے ہوا۔عبادت گاہ کے باہرموجود حوض سے ہم نے پانی پیا اور جاپانی رسم رواج کے مطابق پہلے بایاں ہاتھ دھویا، پھر دایاں ہاتھ، اس کے بعد منہ اور آخر میں بایاں ہاتھ دوبارہ دھویا۔چند سکےپانی میں بھگو کرواپس رکھ لیے۔جاپانیوں کا خیال ہے کہ مقدس حوض کے پانی سے دُھلے سکے خرچ کرنے سے دولت کی دیوی مہربان ہوجاتی ہے۔
عبادت گاہ کے سامنے اسٹریٹ بازارہے جس میں انواع و اقسام کے کھاجوں، تازہ پھلوں اور سبزیوں کی دُکانیں ہیں۔بیشتر دکانوںپر ادرک ہی ادرک دکھائی دی۔ کھیتوں سے لائی گئی تازہ ادرک کو جاپانی لوگ خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیںاور اپنی مقبول ِ عام ڈش ’’سوشی‘‘ کے ساتھ کچی ادرک ضرور کھاتے ہیں۔فوکواوکا میں ہم نے ’’سوشی‘‘ اپنے ہاتھوں سےبنائی بھی اور کچی ادرک کے ساتھ کھائی بھی ۔جاپان کےاس شہر میں ’’ذائقہ‘‘ اور ’’نوی سان‘‘ کے نام سے دو ایسے ریسٹورنٹس بھی موجود ہیں جہاں پاکستانی، انڈین اور مصری کھانے ملتے ہیں۔ایک اور ہوٹل ’’حیدر‘‘ کے نام سے ہے جہاں سوڈانی اور مشرق وسطٰی کے کھانے کھائے جا سکتے ہیں۔مسلمان سیاحوں کے لیے’’فوکواوکامسجد‘‘موجود ہے جسے ’’النوراسلامک سینٹر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
جاپان کے اس تاریخی شہر کو ایشیاکا ثقافتی دروازہ کہتے ہیں جو آبادی کےلحاظ سے جاپان کا چھٹا بڑا شہر ہے۔کورین جزیرہ نمااور چین کی سمندری حدودکے نزدیک ہونے کے سبب لگ بھگ دو ہزاربرسوں سےیہ شہر تجارت اور ثقافت کا مرکزہےاور اپنی اس نمایاںحیثیت کو برقراررکھنے کے لیے شہری انتظامیہ جو اقدامات کر رہی ہے اس کے مظاہرجا بہ جا دیکھے جاسکتے ہیں۔تاریخی عجائب گھروں سے لے کر جدیددرس گاہوں تک ’’فوکواوکا‘‘شہر کوروایت اور جدت کا حسین ملاپ قراردیا جاسکتاہے۔ایک دریا بھی اس شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے جس سے اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گیا ہے۔یہاں کے لوگ روایتی میلے بہت جوش و خروش سے مناتے ہیں۔فوکواوکا کی گلیوں اور بازاروں میں گھومتے ہوئے نہ جانے کیوں بحیرہ ٔ روم کے کنارے آباد ترکی کا قدیم شہر انطالیہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔وہی صاف ستھری سڑکیں اور فٹ پاتھ۔وہی سمندر کے کنارے آباد گلیوں اور بازاروں میں رواں دواں پرسکون زندگی۔اگرچہ سیاحوں کے اعتبار سے یہ شہر انطالیہ سے بہت پیچھے ہے لیکن اپنے طرزِ بودوباش، سرسبزوشاداب باغات اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے اسے سڈنی ، سنگاپور اور پیرس پر فوقیت حاصل رہی ہے۔
فوکواوکا کی تاریخ رہتی دنیا کی ثقافتوں سے مکالمے کی تاریخ ہے۔کہا جاتا ہے کہ جاپان میں چاول کی کاشت یہیں سے شروع ہوئی تھی۔پرانے زمانے میں یہ شہر’’ ہتاکا‘‘ کہلاتا تھا۔فوکواوکا میں پائی جانے والی 57 عیسوی کی چین کی طرف سےتحفے میں دی جانے والی سونے کی مہر دونوں ملکوں کے درمیان قدیم تعلقات کا پتہ دیتی ہے اگرچہ اب یہ تعلقات کسی حد تک تنائو کا شکار ہیں۔دلی کی طرح فوکواوکا بھی کئی بار اُجڑا اور آباد ہوا ہے۔تیرہویں صدی میں منگولوں نے اس شہر پر دو مرتبہ حملہ کیا۔پندرہویں صدی میںپھر سے آباد ہونے سے قبل اس شہر کو حملہ آوروں نے جلا کرراکھ کر دیا تھا۔لیکن اس راکھ سے جو رنگ برنگی کونپلیں پھوٹی ہیں، ان کی تازگی اور تابندگی اس شہر کے گلی کوچوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔یہاں کے لوگوں نے ’’دانہ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتا ہے‘‘ کے مصداق اپنی ہستی کو مٹا کر اپنے طرز ِ زندگی میں جو ترتیب اور تہذیب پیدا کی ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بازاروں میں گاڑیاں ، سائیکل یا موٹرسائیکل دکھائی نہیں دیتے۔سڑکوں پر کہیں بھی ٹریفک کنٹرول کے لیے پولیس اہلکار موجود نہیں ہوتے۔چوراہوں پرگاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کے لیے الگ الگ سگنل لگے ہیں۔نہ تو کوئی گاڑی سگنل توڑتی ہے اور نہ ہی کوئی پیدل چلنے والا۔پرہجوم مقامات پر بھی گمان سے باہر ہے کہ کوئی شخص بے خیالی ہی میں سہی کسی دوسرے آدمی سے ٹکرا جائے۔ہمیں شدت سے کراچی کی یاد آئی جہاں فٹ پاتھوں پر موٹرسائیکل چلتے ہیںاور گلیوں اور بازاروں میں کوئی بھی آپ کو کہنی مارتاہوا یا پائوں پر پائوں رکھتا ہوا گزرجاتاہے ۔
خوش اخلاقی جاپانیوں کی گھٹی میں پڑی ہے۔فٹ پاتھوں پر سائیکل چلانے والوں کے لیے الگ لین ہیں ۔جہاں سےنوجوان لڑکیاں اسکولوں ، کالجوں سے تازہ ہوا کے جھونکوں کی طرح آتی جاتی ہیں۔درس گاہیں ہوںیا کاروباری عمارتیں ، ہرجگہ سائیکل اسٹینڈ موجود ہیں۔جوتے رکھنے کے شیلف بھی ہوتے ہیں۔جاپانی لوگ گھروں ، درس گاہوں اور دفاتر میں جوتوں سمیت داخل نہیںہوتے۔ننگے پائوں جاتے ہیں یا کپڑے اور چمڑے سے بنے چپل پہن لیتے ہیں۔ٹوکیو کے نریتاائرپورٹ پر کسٹمز امیگریشن کے دوران جوتے اُتارتے وقت جب ہمیں ایک خوبصورت خاتون نے چپل پیش کیے توہمارے لیے کسی غیرملکی سفر کے دوران ملنے والی یہ پہلی خوشگوار حیرت تھی۔ وہی خاتون جوتے پہنانے میں مدد کے لیے بھی موجود تھی۔کسٹم آفیسر نے بھی صرف جاپان آنے کا مقصد پوچھا اور جواب سنتے ہی خوشگوار حیرتوں کی سرزمین پر ہمیں خوش آمدید کہا۔
ہم نے نریتا ائرپورٹ سے فوکواوکا کی فلائٹ لی جہاں ستائیسویں’’ فوکواوکاایوارڈز‘‘کی تقریب کے ساتھ ساتھ کئی ایک رنگارنگ تقریبات ہماری منتظر تھیں۔ہوٹل پہنچتے ہیں نیندنے آلیا،صبح سویرے آنکھ کھلی تو راستے بھر کی تھکن کا کہیں نام نہیںتھا۔کوشیدا شرائن پر حاضری کے بعد ہمیں لڑکیوں کے ایک اسکول لے جایا گیا جہاں پاکستان کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ یاسمین لاری کی خصوصی گفتگو کا اہتمام تھا۔سہ پہر کو ایک فائیواسٹار ہوٹل میں ’’فوکواوکاایوارڈز‘‘ کے حوالے سے پریس بریفنگ تھی جس میں اس سال کے تینوں ایوارڈیافتگان ،بھارت کے عالمی شہرت یافتہ موسیقاراے آررحمٰن ، فلپائن کے ماہر تعلیم امبیتھ آراوکیمپو اور پاکستان کی ماہرِ تعمیرات یاسمین لاری موجود تھیں۔سب سے پہلے فوکواوکا شہر کے نوجوان میئر تاکاشیماسوئی چیرونےمہمانوں کا خیرمقدم کیا۔پھر ایوارڈیافتگان کا مختصر تعارف پیش کیا گیا جس کے بعد صاحبانِ اعزاز نے صحافیوں کے سوالوں کے مختصر جواب دیے۔ یہیں ہماری ملاقات پاکستانی صحافی ہمایوں مغل سے ہوئی، انہوں نے ہمیں بتایا کہ تاکاشیما سوئی چیرو ایک مقامی ٹیلی وژن کے اینکر رہ چکے ہیں۔ٹی وی اسکرین سے ملنے والی مقبولیت انہیں سیاست میں لے آئی اور فوکواوکا کے شہریوں نے انہیں اپنا میئر منتخب کر لیا۔ہمایوں مغل گزشتہ تیس سال سے جاپان میں مقیم ہیں اور جاپانی اتنی روانی سے بولتے ہیں کہ مقامی لوگ بھی کیا بولتے ہوں گے۔ان کی وجہ سے ہمیں وہاں کے میئر سمیت دیگر اہم شخصیات سے ملنےمیں سہولت اور ان سے گفت و شنید میں خاصی آسانی رہی۔
جاپان نے ایشیائی ثقافتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے اپنے تاریخی شہر ’’فوکواوکا‘‘ کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر منتخب کیا ہےاور اب یہ شہر اپنے اس کردار کو انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھارہا ہے۔یہیں آ کر ہمیں معلوم ہوا کہ فوکواوکا ایوارڈ کے ساتھ ساتھ یہاں ایشیائی فلموں کا میلہ بھی سجنے والا ہے جس میں 23ایشیائی ملکوں کی فلمیں دکھائی جا رہی ہیں۔شام کو اس فلمی میلے کی ریڈکارپٹ افتتاحی تقریب تھی۔ہتاکادریا کے کنارےایک خوبصورت باغ میں ہونے والی اس تقریب میں فلمی ستاروں کی کہکشاں اُتری تو رنگ باتیں کرنے لگے اور باتوں کی خوشبودل ودماغ کو معطر کرتی چلی گئی۔فوکواوکا کے میئر اور فیسٹیول ایگزیکیٹوکمیٹی کے چیئرمین اسٹیج پر فلم ڈائریکٹرز، اداکاروں اور ادکارائوں کا خیرمقدم کر رہے تھےاور روشنی پنڈال میں موجود حاضرین کے چہروں سے پھوٹ رہی تھی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے فوکواوکا انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے ڈائریکٹر یاسوہیروہاریکی نے کہا کہ فلم گھر کے باہر کھلنے والی کھڑکی کی طرح ہوتی ہے ۔ہم نے بہت ساری کھڑکیاں ایک ساتھ کھول دی ہیں۔یہ کھڑکیاں مختلف قسم کی ہیں۔چھوٹی اور بڑی۔کچھ بہت خوبصورت اور کچھ ایسی جو بہت زیادہ خوبصورت نہیں ہیں۔آپ کو ہر کھڑکی سے ایک الگ دنیا دیکھنے کو ملے گی۔بالکل ایک نیا لینڈ اسکیپ جو پہلے آپ نے نہیں دیکھاہوگا۔رنگارنگ افتتاحی تقریب کے بعد فلمی ستاروں اور دیگر مہمانوں کے اعزاز میں پرتکلف عشائیے کا اہتمام تھاجہاں ہماری ملاقات پنجابی فلم ’’چوتھی کُوٹ‘‘کے ڈائریکٹر گروندرسنگھ سے ہوئی۔یہ فلم اسی کی دہائی میں سکھوں کی بھارتی حکومت کے خلاف بغاوت اور پھرگولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کی چڑھائی سے پیدا ہونے والے منظرنامے کا احاطہ کرتی ہے۔گروندر سنگھ اب پاکستان اور بھارت کے منقسم پنجابی خاندانوں پر فلم بنانے کا ارادہ رکھتے ہیںاور اس مقصد کے لیے پاکستان آنے کے خواہشمند ہیں۔
یوں تو اس میلے میں ایشیاکے سارے رنگ وروپ دیکھنے کو ملے لیکن ایک کمی کا احساس بھی رہا کہ کوئی پاکستانی فلم اس میلے میں شریک نہیں تھی۔ہم نے یہ سوال فلم فیسٹیول کے ڈائریکٹرسوہیرو ہاریکی سے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی پاکستانی فلم مقابلے میں نہیں آئی۔اگلے سال کے لیے آپ پاکستان سے کچھ انٹریز بھجوادیں گے تو یقینی طور پر پاکستانی فلم کو ایشیائی فلمی میلے میں شریک کرکے انہیں بہت خوشی ہوگی۔ہم نے ان سے وعدہ کیا کہ پاکستان واپس جاتے ہی ہم اپنے دوست سرمد کھوسٹ، شرمین عبید چنائے ، سہیل خان اور دیگر فلمسازوں سے کہیں گےکہ وہ فوکواوکا فلم فیسٹیول کے لیے اپنی فلمیں ضرور بھجوائیں۔
فلمی میلے کے دوران ناظرین کی طرف سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی فلم کو ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے ۔اس سال یہ ایوارڈ لبنانی فلم ’’حلال محبت‘‘کو ملا۔دوسرے نمبر پر سنگاپور کی فلم ’’سیون لیٹرز‘‘ رہی۔ہمیں یقین ہے کہ اگر سرمد کھوسٹ کی فلم ’’منٹو‘‘وہاں دکھائی جاتی تو لازمی طور پر ایوارڈ کی حقدار ٹھہرتی۔لبنانی اداکارہ دارین حمزےنے ’’حلال محبت‘‘ کو ملنے والا ایوارڈ وصول کیا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اس خوبرواداکارہ کا کہنا تھا کہ سینماہمیں اپنی اپنی کہانیوں ،مختلف ثقافتوں، مذاہب ، افکار، نکتہ نظراور یکسر الگ طرزِ زندگی کےباوجود ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔انہوں نے سوہیروہاریکی کی بات دہراتے ہوئے کہا کہ فلم واقعی ایک کھڑکی کی طرح ہوتی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ ہم نے اپنی کھڑکی آپ کے صحن کی طرف کھولی ہے۔
ہمارے لیے فوکواوکا بھی ایسی ہی ایک کھڑکی کی طرح تھا۔جہاں سال میں ایک ہزار آٹھ سو سڑسٹھ گھنٹے سورج چمکتا ہےاور اس کا پچپن فیصد حصہ گھنے درختوں میں گھری ہری بھری راہداریوں پر مشتمل ہے۔ہم نےجب جب بھی اس کھڑکی سے باہر جھانکا ،ہریالی و شادابی کا ایک نیا منظر دکھائی دیا۔ہتاکادور کی ٹیکسٹائل فیکٹری گئے تو جاپان کے ابتدائی دور کے ہنرمندوں کے کمالات دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ آج کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے سبب ٹیکسٹائل کے شعبے میں جو نفاست آئی ہے، وہی نفاست جاپانیوں کے ہاتھوں میں کئی سو سال پہلے موجود تھی۔جاپانی ٹیکسٹائل کی تاریخ سے نکلے تو ایک قدیم باغ کا دروازہ کھلا تھاجہاں ہمارے لیے روایتی جاپانی چائے کا اہتمام تھا۔یہ چائے باقاعدہ ایک رسم کے طور پی جاتی ہے۔باغ میں ایک نوبیاہتا جوڑاقدیم درختوں اور قدرتی آبشاروں کے ساتھ تصاویر بنوانے میں مشغول تھا۔ہم ان کے قریب سے گزرے تو دولہا نے ہمیں روایتی جاپانی انداز میں جھک کر سلام کیا۔چائے پینے کی رسم کے بعد میزبانوں کو ہمارا امتحاں مقصود تھا۔ہمیں نہ صرف جاپانی ڈش’سوشی‘ کھانی تھابلکہ بنانی بھی خود تھا۔انگریزی بولنے والے جاپانی شیف نے ہمیں سوشی بنانے کے مختلف مراحل بتائے اور ہم ان مراحل سے کامیابی کے ساتھ گزرتے چلے گئے۔آخری مرحلہ اپنے ہاتھوں سے تیارکردہ ’ڈش‘کھانے کا تھا۔سو یہ معرکہ بھی سر کرنے میں ہم کسی سے پیچھے نہ رہے۔
فوکواوکا کو عجائب گھروں کا شہر بھی کہا جاسکتا ہے۔فوکواوکا آرٹ میوزیم سےلے کر فوکواوکا ایشین آرٹ میوزیم تک مٹرگشت کے دوران کہیںسٹی میوزیم تو کہیں ہتاکا فوک میوزیم اورکہیںفوکواوکا کلچرل سینٹر،آرٹ اور کلچر میں دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی اپنی دُنیائوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ہم ایشین آرٹ میوزیم کی عمارت میں داخل ہوئے تو گویا ایشیائی ثقافتوں کے کئی ایک دروازے ایک ساتھ کھلتے چلے گئے۔فوکواوکا ایشین آرٹ میوزیم دنیا کا واحد میوزیم ہے جہاں جدید اور عصری ایشیائی آرٹ کے نمونے نمائش کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔میوزیم کی آٹھ منزلہ عمارت کی ہر منزل پر ایک الگ جہاں آباد ہے۔ساتویں منزل پر ایشین گیلری میں مختلف مصوروں کے شاہکار دیکھتے ہوئے ایک تصویرپر نظر پڑی تو کچھ شناسا سی لگی۔قریب جا کر دیکھا تویہ تصویر ماضی کی پاکستانی اداکارہ فردوس کی ویتنام جنگ کے پس منظر میں بنائی گئی پینٹنگ تھی اور مصور کا نام لکھا تھا۔میاں اعجازالحسن (پاکستان۔1940)۔پاکستانی مصور کی پینٹنگ دیکھ کر ہمارا تجسس بڑھا کہ جاپان کا دُوراُفتادہ شہر فوکواوکا اور پاکستانی مصور؟
فوکواوکا ایشین آرٹ میوزیم کے چیف کیوریٹرکورودا رائجی ہمارے ساتھ موجود تھے۔انہوں نے بتایا کہ کئی ایک پاکستانی مصوروں کی پینٹنگز کی نمائش یہاں ہو چکی ہے۔دو پاکستانی مصوروں کو ریذیڈنسی بھی مل چکی ہے۔میوزیم کے کلیکشن میں اب بھی پاکستانی مصوروں کی 42پینٹنگز، 11مجسمے، 105پرنٹ، 3فوٹوگراف اور9 وڈیوز موجود ہیں۔ایشین میوزیم ہر تین سال کے بعد ایشیائی ملکوں کے اُبھرتے ہوئے مصوروں کی نمائش منعقد کرتا ہے ۔ان سہ سالہ نمائشوں میں اب تک پاکستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، برونائی، کمبوڈیا، چین، بھارت، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، شمالی کوریا، ملائیشیا، مالدیپ، منگولیا، میانمار، نیپال، فلپائن،سنگاپور، سری لنکا،تائیوان، تھائی لینڈ، ویتنام اور جاپان کے مصوروں کی پینٹنگز ڈسپلے ہو چکی ہیں۔1999ء میں پہلی سہ سالہ نمائش میں پاکستانی مصورافتخارڈیڈی، دُریاقاضی اور ڈیوڈ ایلس ورتھ کی تصویریں نمائش کے لیے رکھی گئیں۔تین سال بعد 2002ء میں عائشہ خالد، عدیلہ سلیمان اور ریشام سید،2005ء میں راشد رانا، بنی عابدی اور معصومہ سید، 2009ء میں شازیہ سکندر اور سیما نصرت جبکہ 2014ء میں حیدرعلی جان اور مہرین مرتضیٰ کی بنائی ہوئی پینٹنگزان سہ سالہ نمائشوں کی زینت بن چکی ہیں۔2002ء میں پاکستانی کیوریٹر عاصم اختر اور 2008ء میں پاکستانی مصور خادم علی کو ریذیڈنسی بھی مل چکی ہے۔ایشین آرٹ میوزیم کی دیومالائی دنیا سے باہر آئے تو شام بھیگ چکی تھی۔
شام کو ’’فوکواوکاسمفنی ہال ‘‘ میں مرکزی تقریب تھی جس میں اس سال کے ایوارڈیافتگان کو جاپان کے ولی عہد شہزادہ اکی شینواور شہزادی ماساکو کی موجودگی میں پرائز میڈلز اور سرٹیفیکیٹس دیے گئے۔اس دوران پورا ہال تالیوں سے گونجتارہا۔اس دوران کئی بار پاکستان کا نام بھی پکارا گیاکہ اسی پروقار تقریب میں یاسمین لاری موجود تھیں جنہیں آرٹ اور کلچر کے شعبے میں فوکواوکا پرائز سے نوازا گیا۔تقریب میں جاپان میں پاکستان کے سفیرفرخ عامل بھی شریک تھے۔خوشی اس بات کی تھی کہ جہاں ایک طرف بھارتی موسیقاراے آر رحمٰن کو گرینڈ پرائز دیا گیا وہیں پاکستان کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ یاسمین لاری کو آرٹ اینڈکلچرپرائزملا۔فلپائن کے ایمبیتھ آر اوکیمپو کو اکیڈمک پرائز دیاگیا۔فوکواوکاپرائز ہر سال مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینی والی تین ایشیائی شخصیات کو دیا جاتا ہے۔اس سے پہلے یہ ایوارڈ اُستاد نصرت فتح علی خاں، روی شنکر، پدما سبرامنیم، محمد یونس، امجد علی خان اور عکسی مفتی کوبھی مل چکا ہے۔
رات کو ایوارڈیافتگان کے اعزاز میں پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھاجس میں جاپان میں پاکستان اور بھارت کے سفیر بھی شریک تھے۔اس موقع پر میئر فوکواوکا نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیاجبکہ پاکستان اور بھارت کے سفیروں نے اپنے اپنے خطاب میں فوکواوکا پرائز کو ایشیائی ملکوں کی ثقافتوں کو فروغ دینے کے سلسلے میں انتہائی مثبت اقدام قراردیا۔پاکستانی سفیر فرخ عامل کہہ رہے تھے کہ لاہور کے تاریخی و تہذیبی شہر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ آرٹ، ادب اور موسیقی کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیںاور فوکواوکا پرائز کو ان تین شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے والوں کے لیے ایک ایسے انعام کے طور پر دیکھتے ہیں جسے حاصل کرنا نہ صرف انفرادی کارنامہ ہے بلکہ یہ پورے ایشیاکے لیے بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔
عشائیے کے دوران بھارتی موسیقار اے آررحمٰن کی صاحبزادی رحیمہ کی سالگرہ بھی منائی گئی۔اے آررحمٰن سے ہم نے پوچھا کہ دنیا بھر کے ایوارڈز حاصل کرنے کے بعد فوکواوکا پرائز کے حصول کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ ان کا جواب تھا کہ ایوارڈز کبھی بھی میری منزل نہیں رہے لیکن اس ایوارڈز کی اہمیت میرے نزدیک اس لیے بھی زیادہ ہے کہ مجھ سے پہلے یہ ایوارڈز نصرت فتح علی خان کو مل چکا ہے۔میں ان کے فن سے بہت متاثر ہوں۔دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوئے تو پاکستان ضرورآئوں گا اور راحت فتح علی اور عاطف اسلم کے ساتھ پرفارم کروں گا۔