جدیداُردو افسانہ اور خواتین افسانہ نگاروں کے موضوعات

\"\"
٭ڈاکٹر لبنی فرحین

افسانہ خواہ کسی بھی عہد میں لکھا گیا ہواُس کا اپنا ایک موضوع ضرور رہا ہے۔پریم چند کے افسانوں کے موضو ع دیہی زندگی کے مسائل ہے۔ سماجی ناہمواری اور طبقاتی کشمکش اُن کا پسندیدہ موضوع ہے۔حقیقت پسندی کے نمائیدہ افسانہ نگار ہو یا رومانی ‘ اصلاحی یا ترقی پسند تحریک کے علمبردار افسانہ نگار سبھی افسانے تخلیق کیئے۔
۱۹۶۰ء کے بعد جدیدیت کے دور کی ابتداء تسلیم ککی جاتی ہے اسی زمانے کے حالات مسائل اور سماجی زندگی افسانے کا موضوع رہے ہیں یہ بات بھی ذہین نشین رہنی چاہئے کہ ہر عہد اپنے ساتھ کچھ نئے مسائل اور موضو عات لیکر آ تا ہے۔ گزشتہ نسل کی وراثت اور نئے مسائل حالات سے مقابلہ کر نے کا حوصلہ انسانی زندگی کی بقاکے لیے ضروری ہے خاص طور سے جب سائنس اور تکنالوجی کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی لی بدلتی ہوئی قدریں ا اور اُص کے ساتھ ترقی کے امکانات جس نے ادیبوں کو حیران کردیا ہے۔
زمانے کے بدلتے ہوئے حالات مزاج فکر اور مشینی زندگی نے سماجی تانے بانے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ انسانی سونچ و فکر میں تبدیلی نا گزیر ہوگئی ہے یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ جب زندگی سماجی معاشی اور سیاسی مسائل میں الجھ جائے توانسانی سونچ و فکر میں بھی الجھ و پیدا ہو جاتا ہے۔ فنکار چوں کہ ایک حساس ذہین کا مالک ہوتا ہے اور جب زمانے میں تبدیلی آتی ہے تو اُس فنکار کے سامنے نئے نئے موضوعات ماحول کی مناسبت سے سر اُٹھا تے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
چناچہ جدید افسانہ نگاروں کے سامنے بھی ایسے کئی موضوعات تھے جن کو اُنھوں نے مختلف ، تکنیک اور زبان و بیان کے افسانہ نگار کسی سے پیجھے نہیں رہی ۔جدید افسانے کے جن موضوعات کو خواتین نے اپنے افسانوںمیں بیان کیا وہ کچھ اسطر ح ہیں ۔
۱)سماجی ناانصافی:۔
جدیدیت سے متاثر خواتین افسانہ نگاروں نے سماجی نا انصافی کے خلاف آواز اُٹھائی اور افسانوں میں انھیں اپنا موضوع بنایا قراۃالعین حیدرکے افسانوی مجموعہ ستاروں سے آگے میں اس کی مثال ملتی ہے۔ اُن کے افسانوںکے موضوعات بالائی طبقہ کی رقص و سرور میںالجھے ہوئے جاگیر دار انہ نسوانی کردار متوسطہ طبقہ کی خواتین سے ہونے والی ناانصافیوں پر منحصر ہے۔ اسی طرح حاجرہ مسرور خدیجہ مستور واجدہ تبسم نے بھی سماجی ناانصا فیوں میں گھری عورت کے مسائل کو موضوع بنایا ایسے افسانوں میں گوری گلاباں ۔لال چوبارہ ‘ چڑھتا سورج ایسے ہی موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔
۲) معاشرتی اقدار کی تبدیلی:۔
جدید اردو افسانے کا ایک موضوع سماجی اقدار ہیں خواتین افسانہ نگاروں نے اس موضوع کو اپنے افسانوں میں بیان کیا ہے۔جمیلہ ہا شمی ۔شکیلہ اختر ۔الطاف فاطمہ اور نگہت حسین کے یہاں یہ موضو ع معا شرتی اقدار کی تبدیلی کے احساس کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ صدیقہ بیگم کا افسانہ مشاہے یا جوکر اس کی بہترین مثال ہے جو خاندان کے بدلتے ہوئے تصویر اور پوری نسوائی برادری کا عکس جھلکتا ہے۔
۳)عدم تحفظ:۔
دور حاضر کا اور خاص طور سے جدیدیت کے ماننے والوں کا سب سے اہم موضوع عدم تحفظ رہا ہے۔
جدید خواتین افسانہ نگار وں نے بھی عدم تحفظ کو اپنا موضوع بنا یا لیکن خواتین افسانہ مگاروں کے افسانوں میں یہ موضوع صرف خواتین کا مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔جن خواتین افسانہ نگاروں نے خواتین میں عدم تحفظ کو موضوع بنایا اُن میں نجمہ محمود کا افسانوی مجموعہ ’چٹان اور پانی‘‘شامل ہے۔ذکہ مشہدی کاافسانہ ایک مکوٹرے کی موت ہے۔اُن کی عید۔ بھیڑ تھے۔افسانے بھی عدم تحفظ کے موضوع پر تخلیق کئے گئے ہیں ۔خالدہ حسین کا افسانہ سایہ بھی خوف ۔نفرت ۔اذیت اور تشکیک کی فضاء سے معمور ہے۔جو عام تحفظ کو جنم دیتا ہے۔
۴) وجودیت:۔
جدید افسانے کا ایک اہم موضوع فلسفہ وجودیت ہے۱۹۶۰ء کے بعد جب ہندوستان کی آزادی کے منفی اثرات نے سر ابھا رنا شروع کیااور عالمی افراتفری کے ماحول میں انسانی زندگی کی بقاء کا اہم مسئلہ سامنے آیا تو افسانہ نگاروں نے انسانی وجود کے اس مسئلہ کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا؛ کیوں کہ دہشتانگیزی۔سیاسی مفادات ۔کی وجہ سے انسان خود کو ٹھگا ہو امحسوس کرنے لگا۔
جدید خواتین افسانہ نگاروں نے بھی اسے شدت سے محسوس کیا اور اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ رفعیہ منظور الامین کا فسانہ ’جونک‘ قابل ذکر ہے۔ اسی طرح ذکیہ مشہدی کے افسانے بھی کا فی اہمیت کے حامل ہیں۔ان افسانوں پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ اُن کا موضوع آج کا انسان اپنے وجود کی تلاش میں ہے۔زندگی اور آزادی کے انتخاب میں موت کی جیت وقت جبر اور انسان کی مظلومیت ‘ عورتوں پر عائد پابندیاں اور اُن پر ڈھائے جانے والے مظالم‘ سماجی نا برابری اور اُن سے نبر آزماں زندگی جو اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے۔اہم گردانی جاتی ہے۔
۵)اقدار شکست وریخت:۔
عہد حاضرمیں قدروں کی پالی اور روایتوں کے ٹوٹنے بکھرنے کا عمل جاری ساری ہے ۔ جدیدیت کی تحریک سے متا ثر افسانہ نگاروں نے قدروں کے زوال و شکست وریخت کے احساس کو دور حاضر کے سیاسی ۔سماجی ۔تہذیبی اور معاشرتی تناظر میں اجاگر کرنے کی کو شش کی ہے۔ خواتین افسانہ نگاروں نے بھی اپنے طور پرا س موضو ع کا پنایاہے۔
نگار عظیم کا افسانہ زاہدہ مقدس ایک ایسا ہی افسانہ ہے ۔جس میں قدروں کی شکست ر تیخت کو موضوع بنایا گیا ۔انھیں کا ایک اورا فسانہ جشن بھی اقدار کی بدلتی ہو ئی تصویر کو پیش کرتا ہے۔
بانو قدسیہ کا افسانہ انتر ہوت اُداسی بھی ماں اور بیٹی و بیوی کے مقدس رشتوں کا بیان ہے۔ان رشتوں کا تقدس اور مذہبی اقدار کی علامتیں ہیں اور ان کی پامالی کو موضو ع بنایا گیا۔
جیلانی بانوکا افسانہ پرانا گھربھی جدید دور کی مادہ پرستی قدروں کے زوال اور انسانی رشتوں کے ٹوٹنے بکھرنے کی کہانی ہے۔
جدیدیت کی تحریک سے متاثر خواتین افسانہ نگاروں میں تجریدی ۔اور علامتی افسانہ لکھنے والی تین اہم افسانہ نگار ملتی ہیں جنھوں نے علامتی اورتجریدی افسانے لکھے اور عصری حسیت کا احساس دلایایہ تین خوا تین افسانہ نگار ہیں نزہت نوری شمیم صادقہ اور نزہت پروین ان خواتین افسانہ نگاروں نے اپنے جدیداسلوب کوا پنایا۔و
شمیم صادقہ کے تین افسانوی مجموعہ ہیں ۱۔ کرچپاں ‘۔ ادھورے چہرے ۳۔ طرح دیگر
نثرت نوری کے افسانے ۔سناٹا ۔ روپ بہروپ شیرازہ قابل ذکر ہیں۔ نزہت پروین کے افسانے تلاش کے پتے۔ روشن اندھیراور سرخ نشان ہیں
مذکورہ تینوں خواتین افسانہ نگاروں نے زندگی کے معمولی سے واقعات جو بظاہر غیر اہم نظر آتے ہیں ۔انھیں موضوع بنایا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں اشارتی اور استعاراتی یا تمثیلی جملوں سے جدید حسیت کو بیان کرتی ہیں جو جدیدافسانے کی پہچان کی جاسکتی ہیں۔
یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگاکہ جدید افسانے کے فروغ میں جہاں مرد افسانہ نگار اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوارہے تھے وہیں خواتین افسانہ نگار بھی اُن کے دوش بدوش اپنی صلاحیتوں سے جدید افسانے کے مستقبل کو منور کرنے کی بھر پور کوشش کررہی تھیں۔

Leave a Comment