ادبی وصحافتی حلقوں میں دکھ کی لہر
م ۔ناگ :چوتھی سیٹ کا مسافر خاموش ہو گیا
ممبئی،۲۱؍اکتوبر: (اسٹاف رپورٹر)اردو کے منفر دافسانہ نگار اور نامور صحافی م۔ ناگ آج (جمعہ) شام ساڑھے چار بجے اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ انہیں کئی مہینوں سے پھیپڑوں کا عارضہ لاحق تھا او ران کی صحت مستقل خراب ہورہی تھی۔ م۔ناگ کی اکلوتی بیٹی ثناء کے مطابق انہوں نے جیا ٹاکیز کمپائونڈ (بوریولی) میں واقع رہائش گاہ پر آخری سانس لی۔ م۔ناگ کی پیدائش یکم جولائی 1950 کو دیول گھاٹ ضلع بلڈانہ میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ناگپور یونیورسٹی سے انٹر میڈیٹ کیا تھا۔ ان کا پیدائشی نام مختار سید تھا لیکن جدیدیت کی تحریک کے دوران جب عام روش سے ہٹ کر چونکانے والا نام رکھنے کا رواج چل پڑا تو انہوں نے اکرام باگ کے نام سے متاثر ہوکر اپنا نام ’م۔ناگ‘ رکھ لیاتھا۔ انہوں نے مختار سے م ا ور ناگپور سے ناگ اخذ کیا تھا اور ناگپور میں نام تبدیل کرنے کی باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں ندا فاضلی اور شاہد کبیر نے بھی شرکت کی تھی۔ م۔ناگ کے والد پولس محکمہ میں افسر تھے، ان کی پوری زندگی جدوجہد میں گزری اور انہوں نے ساری زندگی اردو کے ادیب اور صحافی ہونے کا قرض چکایا اور کبھی فراغت نصیب نہیں ہوئی ۔ م۔ناگ اپنے حلقے میں بے حد مقبول تھے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے ڈاکو طے کریںگے، غلط پتہ اور چوتھی سیٹ کا مسافر شائع ہوکر مقبول ہوچکے ہیں۔ ادبی جریدہ ’’نیا ورق‘‘ میں ناول ’’دکھی من میرے‘‘ قسط وار شائع ہورہا تھا اور افسانوں کا ایک اور مجموعہ ’’پھٹی کتاب‘‘ زیر ترتیب تھا۔ م۔ناگ طویل صحافتی تجربہ بھی رکھتے تھے اور ودربھ نامہ (ناگپور) ، روزنامہ تعمیر (بیڑ)، اردو ٹائمز (ممبئی)، روزنامہ راشٹریہ سہارا(ممبئی) اور روزنامہ صحافت (ممبئی)سے بھی منسلک تھے۔ علاوہ ازیں ہفت روزہ بلٹنر ،روزنامہ انقلاب، ہندی جن ستہ اور ہفت روزہ مسلم ٹائمز، کے لئے بھی انہوں نے کام کیا تھا۔اس کے علاوہ مجوزہ اخبار’ ہم اور آپ ‘نے بھی ان کو خدمات کے لئے منتخب کیا تھا جہاں وہ پابندی سے جابھی رہے تھےلیکن اجل کو یہ منظور نہیں تھا اور آج وہ اردو ادب و صحافت کو داغ مفارقت دے گئے ۔م۔ناگ کی تدفین جمعہ کی شب میں بوریولی کے ایکسر نامی گائوں میں ہوئی۔ ان کے پسماندگان میںاہلیہ سعیدہ کے علاوہ ایک بیٹی ثناء میرا روڈ اور بیٹا جنید امریکہ میں مقیم ہے۔
موصوف نےاپنی پوری زندگی اردو ادب و صحافت کی خدمت میں گزار دی ۔انہوں نے کبھی اس بات کی کوشش نہیںکی کہ انہیں ایوارڈ سے سرفراز کیا جائے ۔چوتھی سیٹ کا مسافر،ڈاکو طے کریں گے اور غلط پتہ ان کی تصانیف ہیں ۔جس میں چوتھی سیٹ کا مسافر معروف ہے ۔سادہ زندگی گزارنے والے م ناگ ان ادیبوں اور صحافیوں میں سے نہیں تھے جو سرمایہ داروں اور ارباب اقتدار کی چاپلوسی کرتے ہیں اور بدلے میں شہرت ،دولت اور انعامات پاتے ہیں ۔انہوں نے اپنے افسانے اور ناولوں یا خبر نگاری میں ہمیشہ عوامی مفاد کو مقدم رکھا ۔انہوں نے کئی اخبارات و رسائل میں اپنی خدمات پیش۔موصوف اردو ٹائمز میں ایک مستقل کالم ممبئی ڈائری کے نام سے لکھا کرتے تھے جو قارئین میں کافی مقبول رہا۔اردو اکیڈمی مہاراشٹر نے انہیں افسانوی مجموعہ’ ڈاکو طے کریں گے‘ کو انعام سے بھی نوازا تھا ۔
ناگپورکے مشہور شاعر ظفر کلیم نے ان کی موت پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا ’’وہ ایک بڑے نثر نگار، مخلص آدمی اور سادگی کے پیکر تھے اور جوان سے ایک بار ملتا تھا اس کا دل ان سے بار بار ملنے کو تڑپتا تھا‘‘۔ ناگپور کے ایک اور ادیب وکیل نجیب کے بقول ’’م۔ناگ کی موت اردو ا فسانچہ اور افسانے کا زبردست نقصان ہے وہ اپنے اسلوب کے منفرد افسانہ نگار تھے اور یہ اسلوب ان کا اپنا ایجاد کردہ تھا‘‘۔ شاداب رشید کے مطابق ’’وہ میرے والد کےبے حد قریب تھے جس کی وجہ سے میری بھی ان سے قربت رہی۔ مجھے گزشتہ ایک ہفتے سے ان کی گرتی طبیعت کو لے کر تشویش لاحق تھی‘‘۔ ڈرامہ نویس اسلم پرویز نے کہا ’ہم لوگ افسانوں کی وجہ سے م۔ناگ اور م۔ناگ کی وجہ سے افسانوں کو پہنچاتے تھے۔ وہ شہر کے ایسے افسانہ نگار تھے جن کا افسانہ پڑھتے ہی ان کا نام ذہن میں ابھرتا تھا کہ یہ افسانہ م۔ناگ کاہے۔ وہ اپنی نسل کے اوریجنل افسانہ نگار تھے۔ ان کے وہاں سیکس کے ساتھ ہیومر بھی تھا جو انہیں سب سے ممتاز بناتا تھا‘‘۔ م۔ناگ کے انتقال پر افسانہ نگار عبدالعزیز خان، فاروق سید، اشتیاق سعید، انور مرزا، ناول نویس رحمن عباس، سلام بن رزاق، شجاع الدین شاہد، اقبال نیازی، قاسم امام، سرفراز آرزو، آفتاب حسنین، اسلم کرتپوری، کلیم ضیاء، طارق اقبال، مشرف شمسی، عبدالاحد ساز، انور قمر، خلیل زاہد، سکندر مرزااور شمیم عباس کےعلاوہ ادبی وصحافتی حلقے کے تقریباً ہر فرد نے دکھ کا اظہار کیا ہے۔