جشنِ ریختہ ۔۔۔۔دِلی میں سجاادبی میلہ

’’ اُردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے۔۔۔‘‘
\"05_01\"

فاضل جمیلی کراچی
اُردو کی مٹھاس شاعری، موسیقی، فلم ، ناٹک اور مکالمے کے ذریعے آپ تک پہنچی ہے تو یقینی طور پر آپ اس نعمت کے حصول میں وسیلہ بننے والی کرشماتی شخصیات کو قریب سے دیکھنا اور سننا چاہیں گے۔اگر آپ کو ایک ہی پر مقام اپنے اپنے شعبے کی ساری شخصیات ایک ساتھ مل جائیں تو آپ اپنے آپ کو ایک ایسی ضیافت میں مدعو پائیں گے جہاں آپ کے سامنے طرح طرح کے کھاجے چن دیے گئے ہوں اور آپ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ کوئی ایک ذائقہ بھی ’’سیلفی‘‘ میں ڈھلنے سے رہ نہ جائے۔
نیودہلی میں ہونے والے ’’جشنِ ریختہ‘‘ میں کچھ ایسا ہی اہتمام تھا۔ایک طرف گلزاراُردو سے محبت کے قصے سنا رہے تھے تو دوسری طرف انورمقصود غالب اور میرکو یاد کرتے ہوئے دلی کے بار بار اجڑنے کو کچھ اس انداز میں بیان کر رہے تھے کہ ہنسی ہنسی میں رلانے کی شام ہو جیسے۔جاوید اختر اور شبانہ اعظمی ’’کیفی اورمیں‘‘کے روپ میں الگ مجمع جمائے بیٹھے تھے۔نندیتا داس منٹو کو یاد کرتی پھر رہی تھیں اور اُستاد رفاقت علی خان اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے۔اس موقع پر ان کے کمسن بیٹے بخت علی خاں نے بھی خوب رنگ جمایا۔اسے کہتے ہیں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔
ایک نشست ایسی بھی تھی جس میں دھوپ چھائوں کا احساس ایک ساتھ نمایاں تھا۔شکیل عادل زادہ ’نے’سب رنگ‘‘ کے سنورتے بکھرتے رنگوں کی روداد سنا ئی تو شاہد رسام نے اسد محمد خان سے پوچھ لیاکہ آپ کو کہانی کہاں ملی تھی؟ اسدمحمود خاں نے اپنی مشہورِ زمانہ کہانی ’’باسودے کی مریم‘‘ سنانا شروع کی توفروری کی تیز دھوپ میں حاضرین کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔اس کے بعد بادل کا ایک ٹکڑا گزرا جس میں سے انور مسعود کا چہرہ نمودار ہوا اور انہوں نے اپنی نظمیں ’’بنیان‘‘ اور ’’جہلم کا پل‘‘سنا کر محفل کو زعفرانِ زار بنادیا۔
فلموں میں اُردو کے عنوان سے ایک گفتگو میں جاوید صدیقی ، جاوید اختر اور امتیاز علی شریک تھے۔ جاوید صدیقی کہہ رہے تھے کہ کسی فلم کی کوئی زبان نہیں ہوتی ۔زبان تو کرداروں کی ہوتی ہے۔وہ ہندی بولیں تو ہندی۔ اُردو بولیں تو اُردو۔زبان تو گانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ وفا، صنم جیسے لفظوں کے بنا آج بھی گانے نہیں لکھے جاتے۔اُردو کاچلن آج بھی تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود یہی ہے کہ یہ عوام کی زبان ہے۔فلمیں بھی ہم عوام ہی کے لیے بناتے ہیں۔کشمیر سے کنہیاکماری تک آج بھی اُردو اپنا پیغام ہر جگہ پہنچا دیتی ہے۔
امتیازعلی نے گفتگو کا آغاز کیا تو ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئے ، جیسے خودکلامی کر رہے ہوں ۔کہنے لگے کہ تب اُردو شاعری کارواج تھا۔بچپن میں گھر میں بیگم اختر سنتے تھے۔اس لیے آج بھی وہی جھلکتا ہے۔میں انگلش لٹریچر کا طالبعلم ہوں۔اس زبان میں بھی شاعری پڑھی ہے میںنے۔کیٹس ، بائرن بہت پسند ہیں مجھےلیکن اُردو میں جب میں شاعری سنتا ہوں تو ایسا لگتا ہے فیض میرے پہلو میں کھڑے ہوں اور میرے لیے بول رہے ہوں۔ایسی چھاپ صرف اپنی زبان ہی کی ہو سکتی ہے۔
جاوید اختر کا کہنا تھا کہ اپنی زبان میں دال چاول کا سکون ملتا ہے۔آپ چاہے جتنی بھی مغربی موسیقی سن لیںلیکن جب ڈھولک بجے گی تو لگے گا کہ ڈی این اے میں ہے۔لگے گا کہ گھر آ گئے ۔اس گفتگو سے ہٹ کر ایک کھلے پنڈال میں ’’غالب کے خطوط‘‘ پر مبنی کھیل پیش کرنے کے لیے ٹام آلٹر موجود تھے ۔کھیل سے پہلے انہوں نے اُردو سے اپنی محبت کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ کہ اگر اُردو زبان مر رہی ہے تو میں بھی اسی انداز میں مرنا چاہوں گا۔
راجندرسنگھ بیدی کے حوالے سے گفتگو میں محمد حمید شاہد شریک تھےجبکہ آصف فرخی ’’برصغیر کا افسانہ‘‘ کے عنوان سے ہونے والےسیشن میں انتظار حسین کی یادیں تازہ کررہے تھے۔کراچی لٹریچر فیسٹیول کی طرح دہلی کے جشنِ ریختہ میں بھی تقریبا ہرنشست میں انتظار حسین کو یاد کیا گیا۔ان کے ساتھ ساتھ ندافاضلی بھی بہت یاد آئے ۔یوں لگتا تھاجیسے ان کی نظم جو انہوں نے اپنے والد کی وفات پر لکھی تھی۔اندراگاندھی نیشنل سینٹر کی راہداریوں میں گونج رہی ہو۔

تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھاتم مر نہیں سکتے
تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اُڑائی تھی
وہ جھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سوکھا ہوا پتا ہوا سے مل کے ٹوٹا تھا
میری آنکھیں
تمہارے منظروں میںقید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں ، وہ وہی ہے
جو تمہاری نیک نامی اور بدنامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمہارے ہاتھ
میری انگلیوں میںسانس لیتے ہیں
میں لکھنے کیلئے
جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں
تمھیں بیٹھا ہُوا میںاپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرےجتنا بھی لہو ہے
وہ تمہاری لغزشوں،ناکامیوں کے ساتھ رہتا ہے
میری آواز میں چھپ کرتمہارا ذہن رہتا ہے
میری بیماریوں میں تم
میری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پرجس نے تمہارا نام لکھا تھا
وہ جھوٹا تھا
تمہاری قبر میں،میں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو
فاتحہ پڑھنے چلے آنا.

ریختہ کے اس ادبی میلے میں جہاں گفتگو کے پرندے اُڑانیں بھر رہے تھے وہیں نئی پرانی کتابوں کے پھول بھی کھلے تھے۔ایک باغیچہ نئی کتابوں کی رونمائیوں کے لیے مختص تھا جسے عشرت آفرین کی نظم ’’کنج پیلے پھولوں کا‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔یہاں محمد علوی، محمد حمید شاہد، آصف فرخی ، فرحت احساس،شاہین عباس، نجمہ رحمانی اور خوشبیر سنگھ شاد موجود تھے اور رحمٰن عباس کے ناول’’روحزن‘‘، ژولیان کے افسانوی مجموعے اور علینہ عطرت کے شعری مجموعے ’’سورج جائو تم ‘‘ کی مہورتیں دعائیہ کلمات کے ساتھ انجام پا رہی تھیں۔ریختہ ٹیم کے فعال ارکان زمردمغل اورسالم سلیم بھی ہر جا موجود تھے۔
روایت شکن عورت کے عنوان سے ہونے والی ایک نشست میں جیلانی بانو اور زاہدہ حنا عورتوں کی منٹو، عصمت چغتائی کو یاد کر رہی تھیں۔جیلانی بانونے انہیں رشید جہاں کے بعد ہندوستان کی دوسری بڑی باغی عورت قراردیا لیکن زاہدہ حنا کے خیال میں وہ اتنی باغی بھی نہیں تھیں۔اپنے شوہر کی وجہ سے انہوں نے اونچی ایڑھی کے جوتے پہننا چھوڑ دیا تھاکہ وہ ان سے قدآور نہ دکھائی دیں۔جب ان پر لاہور کی ایک عدالت میں مقدمہ چلاتوشاہد لطیف نے انہیں طلاق کی دھمکی دی تھی جس کے بعد انہوں نے عصمت چغتائی کے بجائے عصمت لطیف کے نام سے کئی کہانیاں لکھیں۔
منٹو کا ذکر آیا تو حال ہی میں ’’منٹو‘‘ فلم سے شہرت حاصل کرنے والے پاکستانی اداکارسرمدکھوسٹ نے برجستہ کہا کہ اگر آج منٹو زندہ ہوتے تو نہ صرف ان پر فحاشی کا الزام لگتا بلکہ ملک دشمنی اور بغاوت کےالزام میں بھی پکڑے جاتے۔ اس پر حاضرین نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور ایک آواز آئی ’’ویسے بھی ان دنوں بغاوتوں کا موسم ہے‘‘۔ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد چچا سام کے نام منٹو کے خطوط پڑھ کر سنائے گئے تو لگا پچاس سال گزر جانے کے باوجود کچھ بھی نہیں بدلا۔’’منٹو‘‘ فلم میں صفیہ کا کرداراداکرنے والی ثانیہ سعید بھی وہاں موجود تھیں۔
رات ذرا بھیگی تو مشاعرے کا پنڈال سج چکا تھا جس میں ہندوستان اور پاکستان کے صرف دس شاعرمحمد علوی، انورمسعود، عباس تابش،خوشبیر سنگھ شاد، فاضل جمیلی،شارق کیفی، راجیش ریڈی، شمیم عباس ، کاشف رضا اور منیش شکلا شریک تھے اور سامنے ہزاروں کا مجمع تھا۔ کاشف رضا کا خیال تھا کہ قوالی کے بعد مشاعرہ اپنا رنگ نہیں جماپائے گا ۔ قوالی پر دھمالیں ڈالنے والے سامعین کسی شاعر کو کیا داد دیں گے لیکن دلی کے دل والوں نے تو ایسی داد دی کہہر شاعر خود کو مشاعرے کا فاتح سمجھ کر اٹھا۔زہرہ نگاہ اپنی ہمشیرہ فاطمہ ثریا بجیا کے انتقال کے باعث مشاعرے میں شریک نہ ہو سکیں۔افتخار عارف نے ایران سے آنا تھا لیکن وہ بھی دہلی نہیں آئے ۔
مشاعرے کے ساتھ ساتھ ایک سیشن ’’بیت بازی‘‘ کا بھی تھا جس میں’ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا ‘کے مصداق دلی کے مختلف کالجوں کی آٹھ ٹیموں نے میرتقی میر، غالب، فراق گورکھپوری، احمد فراز، جون ایلیا، داغ دہلوی اورذوق کے نام سے حصہ لیا۔دلچسپ مقابلے کے بعد میرتقی میراور فراق کی ٹیمیں فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں اور پھر میرتقی میر، فراق گورکھپوری سے ہار گئے۔معروف پاکستانی مصور شاہد رسام نے موسیقی کی دُھنوں پر لائیوپینٹنگ کا مظاہرہ کر کے دلی والوں کی دل جیت لیے۔
تین دن تک جاری رہنے والے’’جشن ِ ریختہ‘‘ نے دہلی کو ایک بار پھر اُردو تہذیب سے جوڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس ادبی میلے کے روح ِ رواں سنجیوصراف پرعزم دکھائی دیے کہ وہ لوگوں کو اس حقیقت کو ماننے پر مجبور کردیں گے کہ ملک تو تقسیم ہو سکتے ہیں لیکن کسی زبان کا بٹوارہ نہیں ہو سکتا۔ اُردو پاکستان یا مسلمانوں ہی کی نہیں ہندوستان کی بھی زبان
ہے اور ریختہ کے پلیٹ فارم سے اس کے فروغ کی کوششیں جاری رہیں گی ۔سنجیوصرف اور اُن کی ٹیم کی پہلی کامیابی تو یہی ہے کہ اس ادبی میلے میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے نوجوان موجود تھے جن کے گھروں میں اُردو نہیں بولی جاتی اور ان کی درس گاہوں میں اُردو نہیں پڑھائی جاتی لیکن اُردوتہذیب کی کشش انہیں اپنی طرف کھینج لائی ہے۔
\"12715549\"
\"12729125\"
\"12733398\"
\"12744157\"
\"12662662\"
\"1274736\"
\"1040937\"

Leave a Comment