جشن ِ ریختہ میں فلمی ستارے

\"05_01\"
فاضل جمیلی کراچی
نئی دہلی ۔میں ہونے والے ادبی میلے’’جشنِ ریختہ ‘‘ میں اس بار فلمی ستاروں کی کہکشاں بھی اُتر آئی تھی۔نندیتا داس اور ثانیہ سعید ہر دوسرے سیشن میں موجود تھیں۔عرفان خان حاضرین میں بیٹھے تھے اورکنول جیت سنگھ میلے میں ایسے گھوم رہے تھے جیسے یہ میلہ سجا ہی ان کے لیے ہے۔ٹام آلٹر کو جا بہ جا اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ سرمد سلطان کھوسٹ نےمنٹو کے نام کا پرنٹڈ کرتا پہن رکھا تھا جسے نندیتا داس نے بہت پسند کیاجس پر سرمد نےمنٹو نام کی پرنٹڈ شال نندیتا داس کو پیش کر دی۔
نندیتا داس نے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کے لیے پاکستان آنا تھا لیکن ناسازی ء طبع کے باعث نہ آسکیں۔ ہم نے پوچھا تو کہنے لگیں انہیں کراچی آنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔اب جبکہ وہ منٹوپر فلم بنا رہی ہیں تو یقینی طور پر اس سلسلے میں بھی پاکستان آنا ہو گااور کراچی بھی ضرور آئیں گی۔ثانیہ سعید اور سرمدسلطان کھوسٹ انہیں پہلے ہی کراچی اور لاہور آنے کی دعوت دے چکے ہیں۔
شبانہ اعظمی بھی موجود تھیں اور جاوید اختر کے ہمراہ اپنے بابا کیفی اعظمی اور اماں شوکت کیفی کی یادیں تازہ کررہی تھیں۔شبانہ اعظمی نے حاضرین کو ہنسایا بھی بہت اور رُلایا بھی بہت۔ جب وہ ہنستی تھیں تو سب کے چہرے کھل اُٹھتے تھے اور جب ان کی آواز بھرا جاتی تھی تو ہر آنکھ نم ہو جاتی تھی۔جاوید اختر نے کھیل کے آخر میں کیفی اعظمی کو ان الفاظ میں خراج ِ تحسین پیش کیا۔ عجیب آدمی تھا وہ۔۔۔وہ زندگی کے سارے غم،تمام دُکھ۔۔۔ہر اک ستم سے کہتا تھا ، میں تم سے جیت جائوں گا۔
سرمدسلطان کھوسٹ جو فنکاروں سے زیادہ ادیبوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف دکھائی دیے۔اپنی فلم ’’منٹو ‘‘ کی بھارت میں پذیرائی پر بہت خوش تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں فلمیں تو بلندیوں کی کئی ایک حدیں عبور کر رہی ہیں لیکن ٹیلی وژن ڈرامہ پاکستانی ڈرامے کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔سرمدکھوسٹ’’جشن ِ ریختہ‘‘ ایک سیشن’’زندگی کی صورت گری۔۔ٹی وی پر اُردو کے رنگ‘‘ میں ساتھی اداکارہ ثانیہ سعید، بھارتی اداکارکنول جیت سنگھ اور لبنیٰ سلیم کے ساتھ شریک تھے۔
میلے میں ایک سیشن فلمساز و نغمہ نگار گلزار کے ساتھ بھی تھا جس میں انہوں نے اُردو کو اپنی پہلی محبت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اُردو فقیری میں بھی امیری کا مزادیتی ہے۔ان دنوں گھر واپسی کا موسم ہے لیکن میرا تو ایک ہی گھر دینہ اور وہ پاکستان میں ہے۔آخر میں انہوں نے اپنی نظم’’کتابیں ‘‘ سنا کر سب کو رلا دیا۔’’جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں۔۔۔اب اکثر گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر۔۔۔کتابیں مانگنے ، گرنے ، اُٹھانے کے بہانے ۔۔۔جو رشتے بنتے تھے ، اب ان کا کیا ہوگا‘‘۔

Leave a Comment