جموں//شعبہ اُردوجموں یونیورسٹی کے زیراہتمام پروفیسرگیان چندجین سیمی نار ہال میں’’موجودہ دورمیں حالی کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر دوروزہ بین الاقومی سیمی نار کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی ۔ اس دوران تقریب کی صدارت ناموراُردوادیب وسیاستدان محمدیوسف ٹینگ نے کی ۔ اس موقعہ پرڈین اکیڈمک افیئرس جموں یونیورسٹی پروفیسرپونم دھون مہمان خصوصی تھیں۔اس دوران ایوان صدارت میں ڈاکٹروفایزدان (ایران)،پروفیسرخواجہ اکرام الدین (جے این یو)، پروفیسرانورپاشا(جے این یو)، ڈاکٹرنازیہ جعفرو(ماریشس) بھی موجودتھے۔ اس دوران کنیڈاکے عالمی شہرت یافتہ ادیب ڈاکٹرسیدتقی عابدی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے الطاف حسین حالی کو اُردوکابلندپایہ ادیب قراردیا۔انہوں نے کہاکہ حالیؔ سرسیداحمدخان کے ان قریبی دوستوں میں سے تھے جنھوں نے تحریک سرسیدکو اپنی تحریروں کے ذریعے عوام تک پہنچایا۔ انہوں نے کہاکہ پانی پت میں پیداہوئے الطاف حسین حالی ؔ نے اُردوادب کیلئے نمایاں خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹرعابدی نے کہاکہ حالی ؔ نے مولانامحمدحسین آزادمل کرشاعری کی نئی صنف جسے جدیدنظم کہاجاتاہے کی بنیادڈالی ۔اس کے علاوہ حالی ؔ نے مسدّس حالی ،چپ کی فریاد اورمتعدددیگرنظمیں لکھیں جنھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کوبیدارکیا۔ڈاکٹرسیدتقی عابدی نے کہاکہ موجودہ دورمیں حالی کی آئیڈیالوجی( افکار) کی کافی زیادہ اہمیت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ عصرحاضرجس میں دُنیا دہشت گردی جیسی مختلف مشکلات سے لڑرہی ہے میں حالی کی شاعری پوری دنیاکو امن کاگہوارہ بنانے کاپیغام دیتی ہے۔ محمدیوسف ٹینگ نے صدارتی خطاب میں شعبہ اُردوجموں یونیورسٹی کواہم موضوع پربین الاقوامی سیمینار منعقدکرنے کیلئے مبارکبادپیش کی ۔ انہوں نے ڈاکٹرتقی عابدی کے کلیدی خطبے کو قابل ستائش قراردیتے ہوئے کہاکہ حالی ایک اُردوکے ان شعراء میں سے ایک ہیں جنھوں نے سماجی بہبودکیلئے اپنی شاعری ودیگرتحریروں کے ذریعے نمایاں رول اداکیا۔ انہوں نے کہاکہ الطاف حسین حالی ؔ نے ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے سرسیدتحریک کوپھیلانے میں سرسیداحمدخان کوتعاون دیا۔انہوں نے انقلابی شاعری کے ذریعے عوام میںبیداری پیدا کی۔ محمدیوسف ٹینگ نے کہاکہ الطاف حسین حالی اُردوادب کے وہ ادیب ہیں جواُردونثرکی صنف ’’تنقید‘ کے موجدہیں۔حالی ؔ کی تنقیدی کتاب،’ مقدمہ شعروشاعری ‘کی موجودہ دورمیں کافی زیادہ اہمیت ہے۔ٹینگ نے کہاکہ اس کتاب میں حالی ؔنے شاعری کیلئے کچھ اصول مقررکئے۔اس کے علاوہ حالی نے جوخطوط لکھے ہیں ان کی بھی عصرحاضرمیں اپنی اہمیت ہے کیونکہ ان سے قاری کو ہندوستانی تہذیب وثقافت سے متعلق تفصیلی جانکاری ملتی ہے۔اس موقعہ پر ڈین اکیڈمک افیئرس جموں یونیورسٹی پروفیسرپونم دھون نے کہاکہ اُردوایک میٹھی زبان ہے ۔انہوں نے کہاکہ جواُردوپڑھنالکھنانہیں جانتاپھربھی وہ اُردوغزلیں سن کراُردوکاشیدائی ہوجاتاہے۔ انہوں نے اُردوہندوستانی زبان ہے جس کے فروغ کیلئے شعبہ اُردوقابل ستائش کردارنبھارہاہے۔ قبل ازیں صدرشعبہ اُردوپروفیسرشہاب عنایت ملک نے استقبالیہ خطبے میں بین الاقوامی سیمینار کے انعقادکے اغراض ومقاصد بیان کئے۔ انہوں نے کہاکہ شعبہ اُردومیں 30 سا ل کے وقفے کے بعد بین القوامی سیمی نارمنعقدکیاہے جس میں کنیڈا، ماریشس اورایران جیسے ممالک کے علاوہ ملک کی مختلف ریاستوں سے مندوبین نے شرکت کرکے موضوع سے متعلق مقالات پیش کئے۔ اس دوران سیمی نار کی افتتاحی تقریب کی نظامت ڈاکٹرریاض احمد نے کی جبکہ شکریہ کی تحریک پروفیسرسکھ چین سنگھ نے پیش کی۔ اس موقعہ پر اُردوطلباء واسکالرز، فیکلٹی ممبران ، سول سوسائٹی ممبران کی کثیرتعدادموجودتھی۔بعدازاں’’موجودہ دورمیں حالی ؔ کی اہمیت ‘‘کے موضوع پر اکیڈمک اجلاس منعقد ہواجس کی صدارت پروفیسرانورپاشا، پروفیسرخواجہ اکرام اورآنندلہرنے مشترکہ طورپرکی ۔ اس موقعہ پر پروفیسرقدوس جاوید، ڈاکٹروفایزدان (ایران) ، ڈاکٹرنازیہ (ماریشس) ،ڈاکٹرریاض احمد، ڈاکٹرآصف ملک، ڈاکٹرعاشق حسین اورڈاکٹرالطاف حسین نے موضوع سے متعلق مقالات پیش کئے۔اس دوران اکیڈمک اجلاس کی نظامت ڈاکٹرعبدالرشیدمنہاس نے کی جبکہ شکریہ کی تحریک ڈاکٹرفرحت شمیم نے پیش کی۔اُردوکے معروف فکشن نگار رااجندرسنگھ بیدی کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ان کاریڈیوڈرامہ ’’نقل مکانی ‘‘ بھی پروفیسرریتاجتندرااوردیگرریڈیوآرٹسٹوں نے پیش کیاگیا۔واضح رہے کہ شعبہ اُردوجموں یونیورسٹی میں ’’موجودہ دورمیں حالی ؔ کی اہمیت‘‘ کے موضوع پرمنعقدہ دوروزہ بین الاقوامی سیمینارمیں جو قومی اوربین الاقوامی اسکالرشرکت کررہے ہیں ان میں ڈاکٹروفایزدان ، مدیحہ نزہد شیخ ، موریانزہد شیخ (ایران)، ڈاکٹرتقی عابدی (کنیڈا)، ڈاکٹرنازیہ جعفرو(ماریشس)، پروفیسرناشرنقوی (پنجاب)، ڈاکٹررغبت شمیم (کلکتہ )، پروفیسرخواجہ اکرام، پروفیسرانورپاشا ، لیاقت علی اوررحمت یونس (جواہرلال نہرویونیورسٹی دہلی)، پروفیسرعارفہ بشریٰ (سرینگر)، ڈاکٹرشہزادقادری (سرینگر) قابل ذکرہیں۔