٭پروفیسرشہاب عنایت ملک
صدرشعبہ اُردو،جموں یونیورسٹی
رابطہ نمبر:09419181351
گزشتہ چنددنوں میں جموں وکشمیریہ افواہ بڑی تیزی سے گردش کررہی ہے کہ یہاں کی سرکاراُردوکے بجائے ہندی کوسرکاری زبان کادرجہ دینے جارہی ہے۔یہ افواہیں اُس وقت زیادہ زورپکڑگئیں جب ایک مخصوص ذہن والے چندوکلاء نے عدالت عالیہ میں یہ عرضی دائر کردی کہ چوں کہ جموں وکشمیرکا تمام سرکاری ریکارڈاُردومیں ہے اس لئے جموں میں ہندی بولنے والے عوام کوکئی طرح کی دقتوں کاسامنا کرناپڑتاہے۔عدالت عالیہ نے سرکارکے مختلف دفاترکونوٹس جاری کرتے ہوئے یہ پوچھاہے کہ آخرکیوںہندی کوسرکاری زبان کادرجہ نہ دیاجائے اس سلسلے میں سرکاری محکموں کاجواب آنا ابھی باقی ہے ۔
جموں وکشمیرمیں اُردوتقریباً 131 سال سے سرکاری زبان کے فرائض انجام دے رہی ہے اوراس کویہ حق ڈوگرہ حکمرانوں نے دیاہے۔انہوں نے ہی اس زبان کواسکولوں ،کالجوں اورمختلف دفاترمیں رائج کیااوراس کے فروغ کے لئے طرح طرح کے اقدامات اٹھائے ۔ مہاراجہ رنبیرسنگھ کے دورسے لے کر مہاراجہ ہری سنگھ کے دورتک یہ زبان بلالحاظ مذہب وملت ہرکسی کااوڑھنابچھونابن گئی ۔ ڈوگرہ حکمرانوں کوشایداس بات کااحساس ہوچکاتھا کہ اُردوہی وہ واحدزبان ہے جوپوری ریاست کی وحدت کوبرقراررکھ سکتی ہے ورنہ وہ ڈوگری زبان کویہاں کی سرکاری زبان بنانے میں ضرورحکم نامہ جاری کرتے۔یہاں جب میں ریاست کی بات کرتاہوں تومیری مراد جموں وکشمیرکاوہ علاقہ ہے جو1947ء سے پہلے ہمارے پاس تھا یعنی جموں کشمیرلداخ گلگت بلتستان اورپاکستان کے زیرانتظام جموں وکشمیر ۔اس پورے علاقے میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجودتھے ۔لسانی اعتبارسے بھی یہاں مختلف زبانیں اوربولیاں بولی جاتی تھیں جن میں کشمیری ،ڈوگری،شینا،بلتی،پہاڑی گوجری،بھدرواہی، کشتواڑی،سرازی وغیرہ بولیاں اورزبانیں شامل ہیں۔ اُردویہاں ایک واحدزبان تھی جوڈوگرہ حکمرانوں کے دورمیں ایک رابطے کی زبان اُبھرکرسامنے آئی۔ اسی بات کومدنظررکھتے ہوئے مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے 1889ء میں ایک دانشمندانہ فیصلہ لیتے ہوئے صوبہ جموں کی عدالتوں اورسرکاری دفتروںکی اُردوکوسرکاری زبان بنانے کافیصلہ لیا۔غیرسرکاری طورپرمہاراجہ رنبیرسنگھ کے دورسے ہی یہ زبان اپنی مقبولیت کی وجہ سے سرکاری اسکولوں اورکاروباری اداروں میں داخل ہوچکی تھی۔مہاراجہ رنبیرسنگھ نے اُردوکے فروغ کے لئے بڑے بڑے اقدامات اٹھائے جن کی فہرست طویل ہے۔ بدیابلاس سبھااوردارالترجمہ مہاراجہ رنبیرسنگھ کی ہی دین ہیں۔ریاست کاپہلاسرکاری اُردواخباربدیابلاس بھی اسی دورمیں شائع ہوا۔ مہاراجہ رنبیرسنگھ نے اُردوکے حوالے سے جواقدامات اُٹھائے وہ تاریخ کاایک روشن باب ہیں۔
1889ء میں سرکاری زبان کادرجہ ملنے کے بعد اس زبان نے جموں کی عدالتوں اورسرکاری دفاترپر پوری طرح اپناقبضہ جمالیا۔نجی اداروں میں اسی دورمیں اسی زبان کورائج کرنے کاسلسلہ بھی شروع ہوجاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جموں وکشمیر کی تمام عدالتوں،محکمہ مال ،محکمہ پولیس اورمحکمہ جنگلات کاتمام ریکارڈ اسی زبان میں محفوظ ہے جس کامشاہدہ ہم اس وقت بھی ریاستی حکومت کے محافظ خانے میں کرسکتے ہیں ۔یہاں میں یہ بھی واضح کردوں کہ اُردوڈوگرہ حکمرانوں کے دورمیں پہلے جموں میں داخل ہوئی ۔یہیں یہ پل بڑھ کر جوان ہوئی ۔اس کے بعدیہ کشمیرمیں داخل ہوکرعوامی سطح پرلوگوں کے دلوں پرراج کرناشروع کرتی ہے۔ 1947ء تک صوبہ جموں کے عوام بلالحاظ مذہب وملت اُردو کواپنااوڑھنابچھونابناتے ہیں۔
اُردوادب کی تخلیق بھی ڈوگرہ شاہی دورمیں ہی شروع ہوجاتی ہے ۔اوریہاں کے ادیبوں اورشاعروں نے اسی زبان کو اظہار ِ خیال کاوسیلہ بنایا۔جموں میں مشاعروں کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے اورملک کے نامی گرامی شعراکاان مشاعروں میں آنے جانے کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے۔یہیں سے بابائے صحافت ملک راج صراف ، اُردوکاپہلااخبار ’’رنبیر‘‘شروع کردیتے ہیں۔رام لیلائیں یہاں اُردوزبان میں ہی کثرت سے کھیلی جاتی ہیں۔ادبی محفلوں کاانعقادوسیع پیمانے پرکیاجاتاہے ان ہی سرگرمیوں کی وجہ سے جموں کواُردوکاشہربھی کہاجاتاتھا۔موجودہ راجندربازار 1947ء سے پہلے اُردوبازارکے نام سے جاناجاتاتھا۔1944ء میں جب نیاکشمیرکاآئین ترتیب دیاگیاتواس میں بھی اُردوکوہی سرکاری زبان کادرجہ دیاگیا۔
ملک کی تقسیم کے بعدجموں وکشمیرکی سرکاری زبان اُردوہی رہی ۔اُردوکاجنم اگرچہ کہ دہلی اوراس کے گردونواح کے علاقوں میں ہوایہیں اس کابچپن گذرا،جوانی کی دہلیزیں اس نے دکن میں طے کرکے دوبارہ شمالی ہندوستان میں اپنی جڑیں مضبوط کیں لیکن آزادی کے بعد اگرکسی ریاست نے اُردوکو گھردیاتووہ ریاست جموں وکشمیرہی تھی۔ملک کے دوسرے حصّوں میں اس زبان پرفرقہ پرستوں نے کبھی اسے ایک مخصوص مذہب سے جوڑکر اورکبھی پاکستانی زبان قراردے کراس پرتابڑتوڑ حملے کئے لیکن یہ اتنی سخت جان تھی کہ ان حملوں کے باوجود اس نے اب تک پورے ہندوستان میں اپنی شناخت کوقائم رکھاہے ۔ادھرجموں وکشمیرمیں بھی سرکاری سطح پراسے وہ سرپرستی نہیں ملی جواسے ڈوگرہ حکمرانوں نے دی تھی۔اس کے باوجود محکمہ مال ،عدالتوں،محکمہ پولیس، محکمہ جنگلات اوردیگرچند محکموں کی زبان اُردوہی رہی۔گویاآزادی کے بعدبھی ان تمام محکمہ جات کاکام کاج ہمیں اُردوزبان میں ہی دستیاب ہے اوریہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
5 اگست 2019ء کومرکزی سرکارنے جہاں دفعہ 370اور35A کے خاتمے کااعلان کیاوہیں ڈوگروں کی قائم کردہ اس بڑی ریاست کودوحصوں میں تقسیم کیا۔جموں کشمیراورلداخ اس کے دوحصے بن گئے۔اب ریاست ڈوگرہ حکمرانوں کی ریاست نہیں رہی ۔بل کہ ریاست کے دونوں حصے مرکزکے زیرانتظام چلائے جانے والے دومعمولی خطے بن کررہ گئے۔ مرکزکے اس فیصلے سے یہاں کے عوام کتنے مطمئن ہیں اس پربحث کرنامیرا یہاں مقصد نہیں ہے البتہ فرقہ پرست طاقتوں نے ایک دفعہ پھرکمرکس لی اوراُردوکے سرکاری درجہ کوہٹانے کی آوازیں بلندکرناشروع کیں۔ یہ آوازیںاب اتنی تیزہوگئی ہیں کہ محسوس ہوتاہے کہ حکومت نے اب اس کوہٹانے کاتہیہ کرلیاہے ۔
اُردوزبان نے جموں وکشمیرمیں جڑیں اتنی مضبوط کی ہیں کہ اگرسرکاری زبان کے درجے کوہٹایابھی جائے تواسے کوئی فرق نہیں پڑے گاکیوں کہ یہ زبان یہاں کی نہ صرف شناخت ہے بلکہ عوام کے دلوں میں رچ بس گئی ہے ۔بڑے بڑے شاعروادیب اس زبان میں معیاری ادب بھی تخلیق کررہے ہیں ۔اس وقت بھی یہ زبان پورے خطے کے رابطے کی زبان ہے ۔ البتہ سرکاری زبان کے درجے کوہٹانا جموں وکشمیرکااپناہی نقصان ہے ۔یہ احمقانہ فیصلہ لے کرحکومت گذشتہ 131سال کاسرکاری ریکارڈ تباہ وبربادکرنے کاموجب بھی بنے گی۔ قدیم دفتری کاموں کودوسری کسی زبان میں منتقل کرنادشواری ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے پھر جموں وکشمیر کی سا لمیت اوروحدت بھی خطرے میں پڑسکتی ہے ۔خطہ کشمیروادیٔ چناب ،پیرپنچال ، ضلع کٹھوعہ، اودہم پور،ریاسی یہاں تک کہ ضلع جموں کے بعض ایسے علاقے ہیں جہاں طالب علم نہ صرف اس زبان کوبلالحاظ مذہب وملت پڑھتے ہیں بلکہ عوام کی 90فیصدآبادی اسے بولتی،سمجھتی اورلکھتی بھی ہے ۔ یہ ان تمام علاقوں کی گویارابطے کی زبان بھی ہے۔اسے سرکاری زبان کے درجے سے ہٹاناگویا ان علاقوں کوالگ تھلگ کرنے کے مترادف ہوگا۔
مہاراجہ رنبیرسنگھ نے اپنے دورِ حکومت میں جس دارالترجمہ کاقیام عمل میں لایاتھا اُس کامقصدعلمی،ادبی اورمذہبی اورتاریخی کتابوں کوڈوگری اوراُردوزبان میں منتقل کرنابھی تھا ۔اس دورمیں لاتعدادعلمی ،تاریخی اورمذہبی کتابیں اُردوزبان میں ترجمہ ہوئیں۔ہندواورمسلمان مذہب کے علاوہ سکھ مذہب کی کتابیں کافی تعدادمیں اسی دورمیں معرض وجودمیں آئیں۔ اب اگر اس زبان کونئی نسل میں منتقل نہیں کیاجاتاہے توہماری نئی نسل اپنی تاریخ،مذہب،تہذیب اورادب سے محروم ہوکر رہ جائے گی۔ یہ وہ نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ابھی شاید ہمیں اس کااحسا س نہ ہو کیوں کہ ابھی ہم ہرچیز کوایک مخصوص نقطہ نظرسے دیکھ رہے ہیں لیکن بعدمیں ہمیں بے نقصان دیکھنے کوملے گا کیوں کہ کہاجاتاہے کہ اگرکسی قوم کوزوال پذیر کرناہوتواس سے اس کی زبان ،کلچراورتاریخ چھین لو قوم خود بخود ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ہمیں اگرجموں کشمیرکی وحدت اسکی تہذیب تاریخ اورتمدن کوزندہ رکھناہے تویہ ضروری بنتاہے کہ اُردوکی سرکاری حیثیت کوبرقرار رکھاجائے ۔ نہ صرف برقرار رکھاجائے بل کہ اس کے فروغ کے لئے ضروری اقدامات اُٹھائے جائیں ۔بجائے اس کے کہ دوسری کسی زبان کوسرکاری زبان کادرجہ دیاجائے اسی زبان کوریاست کے تمام اسکولوں اورکالجوں میں ضروری مضمون کے طورپرپڑھانے کابندوبست کیاجائے تاکہ جموں وکشمیرکی ایک صدی سے زیادہ ثقافت، تمدن اورتہذیب کوبچایاجاسکے۔
جموں وکشمیرمیں اُردوروزی روٹی کے مسئلے سے بھی جڑی ہوئی ہے۔اُروپڑھے ہوئے طلباء کوروزگارحاصل کرنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آتی ہے ۔ اکثراُردوکے طلبابلالحاظ مذہب وملت اُردوپڑھنے کے بعدمحکمہ تعلیم ،محکمہ مال ، عدالتوں، پولیس اور محکمہ جنگلات میں آسانی سے سرکاری نوکریاں حاصل کرلیتے ہیں اوراگروہ کسی طرح سے سرکاری اداروں میں نوکری حاصل نہیں کرپاتے ہیں توپرائیویٹ سیکٹرمیں وہ اپنی روزی روٹی کمالیتے ہیں ۔پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیامیں ابھی بھی اُردوپڑھے ہوئے طلباء کی مانگ بہت زیادہ ہے ۔ان اداروں کی زبان ابھی بھی نہ صرف جموں وکشمیرمیں بل کہ پورے ہندوستان میں اُردوہی ہے۔
اگراُردوکاسرکاری زبان کادرجہ ہٹالیاجاتاہے تونوجوانوں میں بے روزگاری اورزیادہ بڑھ سکتی ہے۔ اسی لئے اس بات کی اشدضرورت ہے کہ اُردوکاسرکاری زبان کادرجہ برقراررہے ۔ہندی ہماری قومی زبان ہے۔بحیثیت قومی زبان اس زبان سے ہمیں محبت ہے۔ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس زبان کووہ تمام حقوق دیئے جائیں جس کی یہ مستحق ہے لیکن اُردوکی قیمت پرہرگزنہیں۔کیوں کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیامیں اُردوکی اپنی ایک الگ شناخت ہے ۔داغ دہلوی نے کہاتھا ؎
اُردوہے جسکانام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے