جموں وکشمیر میں اُردوادب اکیسویں صدی کے حوالے سے

\"\"
٭پروفیسرشہاب عنایت ملک
صدرشعبہ اُردوجموں یونیورسٹی
رابطہ نمبر:094191-81351

جموں وکشمیرمیں اُردوزبان وادب کی تاریخ دوسوسال سے کم ہے لیکن اس کے باوجود اس زبان میں یہاں ایسے نامورشعراوادباپیداہوئے جنھوں نے اُردوشعروادب میں ایک منفرد مقام حاصل کیاجن کی نگارشات کی وجہ سے یہاں اُردوشعروادب کاایک وافرذخیرہ موجود ہے۔اس ذخیرہ میں سے اگرچہ کہ بعض حصہ مختلف حادثات ،واقعات کے سبب تلف ہوچکاہے لیکن اس کے باوجوددبستان جموں وکشمیرمیں اُردوزبان وادب نے ترقی کی مختلف سیڑھیوں کوطے کیاہے ۔ابتدامیں یہاں شعروادب میں فنی تاریخ رقم کرنے والوں میں محمددین فوق ،نرسنگھ داس نرگس ،قدرت اللہ شہاب ،پریم ناتھ در ،پریم ناتھ پردیسی ،محمودہاشمی ،محمد عمرنورالٰہی ،صاحبزادہ محمدعمر،عزیزکاش ،موہن یاور ،جگدیش کنول ،سوم ناتھ زتشی،گلزاراحمدفدا ،غلام حیدرچشتی اوررامانند ساگرسے لے کرنورشاہ، پشکرناتھ ،علی محمد لون ،ویدراہی ،برج کتیال اور غلام رسول سنتوش وغیرہ تک افسانہ نگاراورادیب شامل ہیں وہیں شاعری میں میاں غلام محی الدین، پنڈت دیوان شیوناتھ کول منتظر، سالک رام سالک، ہرگوپال خستہ ،پنڈت نندرام جوپرمانند، پنڈت لچھمی نارائن بھان عاجزؔ،حسن ڈار، بابورحیم بخش شیدا، سیدمحمدانورشاہ ،زینب بی بی محبوب ؔ،رسل میرحسین شیروانی، حبیب اللہ کوثر ،منورلعل دل ، غلام حسین رساؔ،عشرت کاشمیری ،غلام حیدرگگڑو ،نشاط ؔکشتواڑی ،غلام رسول کامگارسے لے کرعبدالقدوس رساؔجاودانی ،دیناناتھ رفیق ،چراغ حسن حسرت ،میرغلام رسول نازکی ،شہہ زور کاشمیری ،شوریدہ کاشمیری ،قاضی غلام محمد ،میکش کاشمیری ،اندرجیت لطف ، پنڈت ودیارتن عاصی ،ہمدم کاشمیری،عابدمناوری اورحکیم منظور تک اُردوشاعری کی ایک سنہری تاریخ موجود ہے ۔شعروادب کی یہ تاریخی فہرست نامکمل ہے ۔اس سلسلے میں متعددنام اس فہرست میں اوربھی جوڑے جاسکتے ہیں لیکن یہاں چوں کہ اکیسویں صدی کے شعروادب سے بات کرنی مقصود ہے اس لئے میں اسی صدی کے شعراوادباء تک اپنے آپ کومحدود رکھتاہوں۔ اکیسویں صدی میں بھی شاعری اورافسانوی ادب یعنی ناولٹ وافسانہ کے حوالے سے ہی بات کرنے کی جسارت کررہاہوں۔
جموں وکشمیر تقریباً پانچ چھ صدیوں سے ہی مغلویت اورمظلومیت کاشکاررہاہے ۔پہلے یہ علاوہ چکوں کی جبرہ دستی کاشکاررہااوربعدمیں مغلوں،ڈوگروں اورانگریزسامراج کے ہاتھوں پستارہا۔ملک کی غیرفطری تقسیم جموں وکشمیرکے لئے ایک ایک ناسوربن کرآئی۔ان حالات کی وجہ سے یہاں ایساماحول تیارہواجہاں کراہنابھی ممنوع تھا۔ایسے حالات میںتخلیق اور فن کاروں نے علامتوں،تمثیلوں ،بہم تشبیہات واستعارات کی آڑلے کراپنے جذبات کوقلم بند کیا۔ یہ علامتیں ہمیں بیسویں صدی کے ادب کے ساتھ ساتھ اکیسویں صدی کے ادب میں واضح طورپردکھائی دیتی ہیں ۔اکیسویں صدی میں چوں کہ افسانہ اورناولٹ فنی جمالیات اور عصری مسائل، ماحول اورفضاکوکامیابی کے ساتھ سمیٹ پاتاہے اس لئے ان اصناف میں بھی اکیسویں صدی میں جموں وکشمیرمیں اچھاخاصا ادب تخلیق کیاجارہاہے بلکہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ جموں وکشمیرمیں اکیسویں صدی میں اُردوادب میں افسانہ اورنظم اپنے مختلف موضوعات اورہیتوں کے ساتھ وافرمقدارمیں تخلیق کیاجارہاہے ۔اکیسویں صدی کے ابتدائی دہائی میں بعض ادیب وشاعرایسے تھے جن کوریاستی ادب کامعیارحاصل تھا لیکن اب وہ موت کی آغوش میں جاچکے ہیں ۔بعض بزرگ شاعروادیب ابھی تک تخلیقی منصب کے ساتھ وفاکررہے ہیں اوربعض جوان اورنوجوان بھی شعروادب کی زلف گرہ گیرکوسلجھانے میں شب وروز ہمہ تن مصروف عمل ہیں یہاں میں بعض نمائندہ نظم اورغزل گوشعراکی خدمات کاسرسری طورپرجائزہ لینے کی سعی کررہاہوں۔
اکیسویں صدی کے نظم گواورغزل گوشعرا
اکیسویں صدی میں جموں وکشمیرکے جن شعراء کواعتبار حاصل رہاہے ۔ان میں حامدی کاشمیری ،حکیم منظور ،قیصرقلندراورفاروق نازکی کے نام خاص اہمیت کے حامل ہیں۔بزرگ اورپختہ مشق جواب بھی فنی پختگی کے ساتھ غزلیں اورنظمیں تحریرکررہے ہیں ان میں فاروق نازکی ،غلام نبی خیال ،ایازرسول نازکی،ڈاکٹرنذیرآزاد،شجاع سلطان ،شبنم عشائی ،رخسانہ جبین، ترنم ریاض ،شفق سوپوری ،بشیردادا،حیات عامر حسینی،بشیرمنظر ،نسرین نقاش ،پروین راجہ ،طاہرمظفر ،مشتاق مہدی ،زاہدمختار،جان محمدآزاد،نگہت نظر، ستیش ومل ، پرویزمانوس ،کے ڈی مینی، ساغرصحرائی ، خالدکرار،پرویزملک،لیاقت جعفری خاص طورپرشامل ہیں۔ان شعرامیں بعض صرف غزل کوہی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ایسے شعراء میں عرش صہبائی ،پنڈت ودیاپنڈت عاصی، رفیق راز ،شفق سوپوری،شبیب رضوی ،خالدبشیر ،اشر ف آثاری ،ساغرصحرائی ،فاروق آفاق ،رفیق انجم،خالدکرار،لیاقت نیر ،پرویزملک اورلیاقت جعفری وغیرہ شعراء کوشامل کیاجاسکتاہے ۔حامدی کاشمیری کی ایک نظم کے یہ اشعارملاحظہ ہوں ۔
گونگے چہرے
آئینہ درآئینہ
تم خواب مِرگ ہو
میں اکیلابرف کے طوفان سے
لڑتارہا (حامدی کاشمیری)
حامدی کی اس نظم میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ زبان کیسے کنگ ہے ، عصری حسیت ہی نہیں بلکہ کشمیرپرماضی سے جوظلم کے بادل چھائے رہے ہیں اورحاکمیت کاقہران کے اس لب ولہجہ سے بخوبی محسوس کیاجاسکتاہے۔
حیات عامر کی ایک نظم دیکھیں جس میں اگرچہ کہ ایک تروتازہ اندازِ بیان اورموضوع کاتنوع ملتاہے وہیں یہ نظم ذہن ودِل کوغوروفکر کی دعوت بھی دیتی ہے۔ نظم اس طرح سے ہے۔
کالی سڑکوں کی بوباس چھُپنے لگی
رات اُگنے لگی
شام دُھند لی نگاہوں کی دہلیز ہے
سارے الفاظ اظہار مرگھٹ زدہ
ناترا شیدہ کتابوں میں سمٹے ہوئے
رت جگی خواہش
ایک دُکھتابدن
ایک جنگل چڑیوں کااُگتاہوا
زمہرمیری دشائوں کاایک سلسلہ
ایک گھائل مسافت کارستابدن
نام دیمک زدہ
حیات عامرکی نظم گوئی سے متعلق اسعدبدایونی رقمطراز ہیں۔
’’جوناآسودگی یااُدباسی آج کے ہرانسان کو سماجی،معاشی اوراخلاقی اقدار میں تبدیلی کے باعث تحفے میں ملی ہے۔حیات عامر بھی اُسی اُداسی کی حکایتیں کہتے اورشکایتیں کرتے نظرآتے ہیں لیکن اُن کالہجہ احتجاج کے باوجودنعرہ نہیں بنتا‘‘۔
جموں وکشمیرمیں نسائی لب ولہجے کی ایک کامیاب شاعرہ شبنم عشائی ہیں۔اپنے لفظوں اورتراکیب کی سنجیدگی کے ساتھ نسائی مسائل کوفنی پختگی کے ساتھ نظم کے قالب میں ڈھالنے کی شبنم عشائی مہارت رکھتی ہیں ۔یہ نہ صرف جموں وکشمیربلکہ برصغیرمیں اپنے نظمیہ لہجے سے ایک انفرادی پہچان رکھتی ہیں۔ان کی یہ نظم ملاحظہ ہو۔
’’تم مجھ میں
اُگ سکتے
کھِل سکتے
لہلہاسکتے
جذب ہوسکتے تھے
میں تخلیق کی مٹی ہوں
کیسینوں کی ٹیبل نہیں
کہ تم مجھ پرداولگائو
جیتو!
کہ دیوالیہ ہوجائے ‘‘
جدیدیت اورمابعدجدیدیت کی فضائوں میں اٹھنے والے عالمی سوالات،حیات وکائنات میں گم انسان کی نفسیات ، انسان کااپنے وجوداورناوجود کی کشمکش کیفیت ،خدااورمخلو ق کے مابین تعلق کانافہمیدہ معمّہ ہم اقبال فہیمؔ کی اس نظم میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔
’’دھوپ آنگن میں اترآئی ہے
کوئی آنکھوں میں انگلیاں ٹھوس کر
پوچھتاہے ہراک سے خداکون ہے
کس نے چاہی تھی پرستش مری
لامکان لاالہ ٰ کی حقیقت ہے کیا
کب خداہوگیا،آدمی کب ہوا
طاقِ ادراک کے اے صحیفے بتا
کالے حرفوں کے رنگین معنی بتا
پھروہ سورج اُترکرمجھے پی گیا
میں ہوں ادراک کااب دھواں ہی دھواں۔‘‘
یہاںچندنمائندہ غزل گوشعراکی بات بھی کرنی ضروری ہے جنھوں نے اپنی غزلوں کے ذریعے یہاں بسنے والے انسانوں کادرد ،غزلیہ ترکیبوں اورلفظیات سے پیش کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے ۔جموں وکشمیر جب سے خارجی بے رحم طاقتوں کے پنجوں میں آیاہے تبھی سے کشمیرکی جھیل ،چنار،برف ،جنگل ،ہرمکھ ،ہرے بھرے خوبصورت پودوں کے روایتی اورنشاط آمیز بدل کرخوں چکاں معنی میں ڈوب چکے ہیںاس کواحتجاج یامزاحمت کہیں یاخون کے خموش آنسوئوں کی بے بسی اپنے اپنے تخیلٔ کے مطابق جو بھی آپ معنی دیناچاہیں ،دے سکتے ہیں۔ان تمام حالات کواکیسویں صدی کے غزل گوشعرانے موثراندازمیں اپنی غزلوں میں پیش کیاہے۔چنداشعارملاحظہ ہوں۔
شیشوں کی آنکھوں میں صحرائوں کی آگ
مرگئے باقی جوہیں ان کوجنوں ہوجائے گا (حامدی کاشمیری )
گل زمینوں پرجوتپتی آج اتنی دھوپ ہے
ہونہ ہو نکلے گایاں ہی سے سمندرایک دن (نذیرآزاد)
سنگ باری کے لیے موسم نہیں مخصوص اب
سنگ باری ڈھونڈلیتی ہے ہمیشہ سراپنا (فاروق نازکی)
شدت پرہے ہرے بھرے پتوں کی پیاس
صحراصحراخون سمندرلکھنا
(فاروق نازکی)
کسی نے آج تک پوچھانہیں ہے
یہ کس کی آگ ہے ،کس کادھواں ہے (ہمدم کاشمیری)
کھلتی ہے آنکھ جلتے مکانوں کے درمیاں
لگتی ہے آنکھ پڑھ کے فسانے ثمودکے (رفیق راز)
لڑکیوں کی ہیں انگلیاں زخمی
اس جگہ سے وہ نوجوان گزرا
لگی ہے آگ دل میں یاشجرمیں
یہ نغمہ لن ترانی ہوگیاہے (ایازرسول نازکی)
رُت کوبھانگ کے بیٹھاہوگا
پنچھی کب بے پرلگتاہے
متاعِ حوض توپرویزؔ پاس ہوکوئی
تجھے گلاس میں راوی چناب کیسے دوں
شام ڈھلتے تواپناآنگن
کرگل کابارڈرلگتاہے (پرویزؔ ملک )
اُردوافسانہ اورناولٹ اکیسویں صدی میں:
اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں کی افسانہ نگاری کاجائزہ لینے سے پہلے یہ ضروری بنتاہے کہ ہم پہلے اُن کے پیش روافسانہ نگاروں کے چند نمائندہ نام اورافسانے پیش کریں جنھوں نے جموں وکشمیرمیں اُردوافسانے کی روایت کومستحکم کیا۔ان افسانہ نگاروں میں موہن یاور، ویدراہیؔ ،مالک رام آنند ،وجے سوری اوررام کمارابرول قابل ذکرہیں ۔موہن یاور افسانہ نگارکے علاوہ ڈرامانویس بھی ہیں۔’’وہسکی کی بوتل ‘‘،’’سیاہ تاج محل ‘‘اور ’’تیسری آنکھ ‘‘ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ مالک رام آنندنے ناول بھی لکھے جبکہ ’’شہرکی خوشبو‘‘ اور’’تصویر کے پھول ‘‘ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔وجے سوری کے افسانوی مجموعے کانام ’’آخری سودا‘‘ ہے ۔’’انسان جیت گیا ‘‘اور’’جے بنگلہ دیش ‘‘رام کمارابرول کے افسانوی مجموعے ہیں۔ان پیش رو افسانہ نگاروں کے افسانے رومان اورحقیقت نگاری پرمشتمل ہیں ۔متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افرادان افسانوںکے کردارہیں۔
اکیسویں صدی میں افسانہ نگاری کے نمائندہ نام نورشاہ، آنندلہر، حامدی کاشمیری ، پروفیسرظہورالدین ،خالدحسین ، شبنم قیوم ،ریاض پنجابی ،عمرمجید،موتی لال کیمو، شمس الدین شمیم ،بلراج بخشی ،وحشی سعید وغیرہ کے ہیں۔ان کے بعد لکھنے والوں میں ترنم ریاض، ایس ۔ایم۔قمر،دیپک کنول،دیپک بدکی، راجہ نذیربونیاری، بشیردادا،غمگین غلام نبی، م۔م صدیقی، ایم نسا،ریاض توحیدی ،زنفرکھوکھر افسانہ نگاری میں وہ اہم نام ہیںجوتواترکے ساتھ افسانے تحریرکررہے ہیں۔
حامدی کاشمیری : حامدی کاشمیری کااب انتقال ہوچکاہے،وہ محقق ،نقاد،شاعر،افسانہ نگارکے علاوہ بہت ساری ادبی جہتوں کے مالک تھے۔ان کے مقبول ہونے والے افسانے ’’سراب ‘‘،’’سندری ‘‘،’’وادی کے پھول‘‘ ،’’برف میں آگ‘‘، اور’’آگ ہے دھواں نہیں‘‘ وغیرہ ہیں۔ ان کے ابتدائی افسانوں پراصلاحی اورمعاشرتی رنگ غالب نظرآتاہے لیکن بعدکے افسانوں میں جیسے جیسے عالمی ،ملکی اورریاستی رویے اورمسائل بدلتے رہے اُن کافن بھی تغیرپذیر ہوتارہا۔ جدید اورمابعد جدید عناصر بھی ان کے بعد کے افسانوں میںنمایاں طورپرنظرآتے ہیں ۔اپنے افسانوں میں جہاں حامدی ؔکشمیرکی تہذیبی اورتمدنی زندگی کوموضوع بناتے ہیں وہیں دوسری طرف یہاں کی عوام کی نفسیات کی جھلکیاں بھی ان کے افسانوں میں واضح طورپر دکھائی دیتی ہیں۔
نورشاہ: نورشاہ کے افسانوں میں رومانیت اورشعری تخیل کاایک بہترین امتزاج ملتاہے ۔اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں زخم خوردہ انسانیت کی دھڑکنیں بھی سمٹ آئی ہیں ۔’’ویرانے کے پھول ‘‘، ’’ایک رات کی نائو ‘‘ ،’’من کاآنگن اُداس اُداس ‘‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
آنندلہر:آنندلہر صوبہ جموں کے اُردوافسانے اورناول نگاری میں ممتازمقام رکھتے ہیں ۔گزشتہ سال ان کاانتقال ہواان کے افسانوں کاپہلامجموعہ ’’نروان‘‘ اوردوسرا’’انحراف‘‘ ہے۔آنندلہر موضوعاتی اورہیئتی اعتبارسے جدید افسانے کی نمائندگی اورترجمانی کرتے ہیں۔ان کے افسانوں اورناولوں کے موضوعات تقسیم ہند کاالمیہ اور اس غیرفطری تقسیم سے پیداہونے والے حالات وواقعات ہیں۔
خالدحسین :خالدحسین اگرچہ کہ بنیادی طورپر پنجابی کے کہانی کار ہیں لیکن اُردوزبان وتہذیب سے بھی خوب دلچسپی رکھتے ہیں ۔اُردوکوانہوں نے ’’ٹھنڈی کانگڑی کادھواں‘‘ ،’’اشتہاروں والی حویلی ‘‘اور’’ستی سرکاسورج‘‘جیسے کامیاب مجموعے دیئے ۔
ڈاکٹرریاض توحیدی: ریاض توحیدی جموں وکشمیرمیں موجودہ دورمیں افسانے کاایک اہم نام اُبھرکرسامنے آیا۔ان کے افسانوں کامجموعہ بھی شائع ہوکرادبی حلقوں سے دادِ تحسین حاصل کرچکاہے جس کی وجہ سے معاصراُردوافسانہ نگاروں میں انہوں نے بہت جلداپنی شناخت بنالی ۔ان کے افسانوں کے موضوعات عالمی سطح پر حقوق اانسانی کی پائمالی پرحساس احتجاج پرمشتمل ہیں۔
مندرجہ بالا افسانہ نگاروں کے علاوہ اکیسویں صدی میں جموں وکشمیر میں افسانہ لکھنے والوں میں عبدالرحمن بہزاد،مسعود سامون ،زاہدمختار،مشتاق مہدی ، ناصرضمیر ،ایثارکشمیری ،نکہت نظر ،نیلوفر نازنحوی ، ایوب شبنم ،طارق شبنم ، ملک ریاض ملک ،مشتاق وانی،ترنم ریاض وغیرہ اہم نام ہیں۔ان میں سے بعض افسانہ نگاروں کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں اوربعض کے افسانے اخبارات ،رسائل اورجرائد میں آئے دن شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ناولٹ نگاری
جموں وکشمیرمیں ناولٹ نگاری میں بھی اکثروبیشتروہی نام ہیں جن کاذکرمیں افسانہ نگاری کے سلسلے میں کرچکاہوں۔جموں وکشمیر کے اکیسویں صدی کے اُردوادب میں ناول کی تخلیق کی کمی ضرورمتفکر ہونے پرمجبورکرتی ہے۔وقت کی کمی اورنامساعدحالات کی مجبوری کی وجہ سے اس صدی میں ناول اُس طرح سے نہیں لکھاجارہاہے جس طرح سے افسانہ البتہ اس صدی میں شفق سوپوری ایسے ادیب ہیں جنھوں نے اس صنف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔اُن کاناول ’’نیلما‘‘ ادبی حلقوں میں بے حدمقبول ہوا ۔حال ہی میں ان کے دواورناول بھی شائع ہوکرمنظرعام پرآچکے ہیں ۔شفق سوپوری کے علاوہ اس صدی میں کوئی دوسراناول نگار ایسادکھائی نہیں دیتا ہے جواس فن کی طرف مائل ہواہو البتہ چند ایسے ادیب ہیں جنھوں نے ناولٹ تخلیق کئے ہیں ان ناول نگاروں میں نورشاہ،وحشی سعید ،ترنم ریاض اوردیپک کنول نمائندہ نام مانے جاتے ہیں۔نورشاہ کا ’’قفس اداس ہے‘‘ ۔وحشی سعید کا ’’فطرت ‘‘ترنم ریاض کا’’مورتی ‘‘اور دیپک کنول کا’’دردانہ ‘‘جموں وکشمیرمیں اکیسویں صدی کی ناولٹ نگاری میں روشن باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان ناولٹوں میں جہاں ایک طرف ہمیںتقسیم وطن سے قبل اوربعدکے عرضی مسائل دکھائی دیتے ہیں وہیں دوسری طرف مظلوم وبے بس عوام کی آہیں اورنسائی مسائل کی کسک بھی سمٹ آئی ہے۔
مجموعی طورپر کہاجاسکتاہے کہ جیسے اُردوزبان جموں وکشمیر میں ایک محفوظ پناہ گاہ رکھتی ہے وہیں موجودہ صدی میں شعروادب کاعصر ِ رواں اورمستقبل اُمیدافزااورپُراعتماد ہے ۔خواہ موضوع کے لحاظ سے ہو یاتکنیک وہیئت کے لحاظ سے موجودہ صدی میں جموں وکشمیرکااُردوادب اپنے فن وجمال اورسماج ہرلحاظ سے منفرداور حوصلہ افزا ہے۔
ماخذ ومراجع :
۱۔شیرازہ :اُردوشاعری نمبر۔جموں اینڈ کشمیراکیڈیمی آف آرٹ ،کلچراینڈلنگویجز
۲۔شیرازہ :معاصراُردونظم نمبر۔جموں اینڈ کشمیراکیڈیمی آف آرٹ ،کلچراینڈلنگویجز
۳۔شیرازہ : جموں وکشمیرمیں اُردوافسانہ نمبر۔جموں اینڈ کشمیراکیڈیمی آف آرٹ ،کلچراینڈلنگویجز
۴۔شیرازہ ۔ہم عصرناولٹ نمبر ۔جموں اینڈ کشمیراکیڈیمی آف آرٹ ،کلچراینڈلنگویجز
۵۔جموں وکشمیرمعاصر نسائی ادب نمبر۔جموں اینڈ کشمیراکیڈیمی آف آرٹ ،کلچراینڈلنگویجز

Leave a Comment