جموں یونیورسٹی میں ’’دکنی شعراء کا تنقیدی شعور‘‘ کے موضوع پرمنعقدہ یک روزہ قومی سیمینار کا اختتام

\"urdu1\"

جموں،(اسٹاف رپورٹر) ’’ اگرچہ اُردو دہلی اوراس کے گردونواح میں پیداہوئی لیکن ابتدائی دورمیں پروان دکن میں چڑھی۔ دکن نے اُردوزبان وادب کے فروغ وترویج میں نمایاں رول اداکیاہے۔ اُردوکی بیشتراصناف دکن میں پیدااورپروان چڑھیں۔ دکن نے اُردوزبان وادب کوولی دکنی ؔ، نصرتی ، وجہی ودیگرادباء وشعرادیئے جنہوں نے نثروشاعری دونوں میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ ان خیالا ت کااظہاراسکالرزنے شعبہ اُردوجموں یونیورسٹی کی طرف سے پروفیسرگیان چندجین سیمی نارہال میں ’’دکنی شعراء کا تنقیدی شعور‘‘ کے موضوع پرمنعقدہ یک روزہ قومی سیمینار کے دوران کیا۔ اس موقعہ پر چیئرمین شعبہ اُردو میسوریونیورسٹی پروفیسر مسعودسراج ، صدرشعبہ عربی وفارسی باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری ڈاکٹرشمس کمال انجم ، سابق صدرشعبہ اُردوکشمیریونیورسٹی پروفیسرقدوس جاوید اورپروفیسر محمداسداللہ وانی ریسورس پرسنز کے طورپرموجودتھے۔ اس دوران قومی سیمینارکاافتتاح رجسٹرار جموں یونیورسٹی پروفیسر کیشوشرما نے کیا۔انہوں نے افتتاحی خطاب میں کہاکہ اُردوایک شیریں زبان ہے ۔انہوں نے کہاکہ اس زبان کاتعلق کسی مخصوص علاقہ یامذہب سے نہیں ۔انہوں نے کہاکہ اُردوہی ایک ایسی واحدزبان ہے جوہندوستان کوکشمیرسے لیکرکنیاکماری تک متحدرکھتی ہے۔ پروفیسرکیشوشرمانے کہاکہ شعبہ اُردوملک کااہم شعبہ ہے جہاں اُردوزبان وادب کے فروغ کے لئے تیزی کے ساتھ کام ہورہاہے۔ انہوں نے اُردوکے نامورشعراکے اشعاربھی پڑھے جنہیں شرکاء نے کافی سراہا۔ انہوں نے کہاکہ اُردوزبان نے برصغیربالخصوص ہندوستان اورپاکستان میں امن قائم کرنے میں اہم کردارنبھایاہے۔ انہوں نے کہاکہ اُردو دُنیامیں بولی جانی والی تیسری بڑی زبان ہے جس کادائرہ امریکہ اورشکاگوتک پھیلاہواہے۔ پروفیسر مسعودمعراج نے موضوع سے متعلق تفصیلی مقالہ پیش کرتے ہوئے دکن کو اُردوشعراء وادباء کی سرزمین قراردیا۔انہوں نے شعراء وادباء مثلاً ولی دکنی اورنصرتی ،ابنِ نشاطی کی اُردوکے فروغ کے لئے خدمات کواُجاگرکرتے ہوئے ان کے تنقیدی شعورپرتفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ دکنی اُردو تمام اُردوشعبہ جات کے نصاب میں شامل ہے۔ڈاکٹرشمس کمال انجم نے شعبہ اُردوکواہمیت کے حامل موضوع پر قومی سیمینار کے انعقاد کے لئے مبارکبادپیش کی۔ انہوں نے کہاکہ اُردومیں تنقیدی نظریہ عربی وفارسی زبان سے آیاہے ۔ انہوں نے موضوع سے متعلق بولتے ہوئے کہاکہ صرف دکنی شعراء ہی نے نہیں بلکہ تمام دکنی نثرنگاروں نے بھی اُردوزبان وادب کوامیربنانے میں گراں قدرخدمات انجام دیں۔ انہوں نے دکنی اُردوکاتقابلی مطالعہ پیش کرتے ہوئے دکنی شعراء کے اشعاربھی پڑھے۔پروفیسرقدوس جاوید نے دکن کوشعراء، فنکاروں اورنثرنگاروں کی سرزمین قراردیا۔انہوں نے ولی دکنی اوروجہی کی اُردوزبان وادب کے حوالے سے خدمات کاتفصیلی خلاصہ پیش کیا۔انہوں نے کہاکہ زبان وادب کے سلسلے میں دکن کافی زرخیزہے جس کاثبوت یہ ہے کہ دکن نے بے شمارادباء وشعراء پیداکرکے اُردوزبان وادب کے خزانے کوامیربنایا۔پروفیسر محمداسداللہ وانی نے ولی دکنی کی خدمات سے متعلق پرمغزمقالہ پڑھا۔انہوںنے کہاکہ ولی دکنی کواُردوزبا ن کا پہلاشاعرقراردیاجس نے شمالی ہندوستان کے شعراء کوتحریک بخشی۔قبل ازیں استقبالیہ خطاب پیش کرتے ہوئے صدرشعبہ اُردوپروفیسرشہاب عنایت ملک نے فرقہ پرستوں کوہدف تنقیدبناتے ہوئے اُردوکوایک خاص مذہب کے ساتھ جوڑنے پرتشویش ظاہرکی۔ انہوں نے کہاکہ اُردوزبان کاکسی خطے یامذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ اُردوایک سیکولرزبان ہے جس نے جنگ آزادی ٔ ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوبرقراررکھنے میں اہم رول اداکیا۔پروفیسرشہاب عنایت ملک نے کہاکہ اُردوزبان امیرثقافتی ورثہ رکھتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ اُردوکے بغیرہندوستان کاوجودنامکمل ہے۔ انہوں نے اُردوکوخاص فرقے یامذہب کے ساتھ جوڑنے والی فرقہ پرست طاقتوں کوجلدبے نقاب کرنے پرزوردیا ۔انہوں نے ریاست میں اُردواکادمی کوبلاتاخیرقائم کرنے کی مانگ کوبھی اُجاگرکیا۔اس دوران سیمینار کی نظامت کے فرائض ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اُردوڈاکٹرمحمدریاض نے انجام دیئے جبکہ ڈاکٹرعبدالرشیدمنہاس نے شکریہ کی تحریک پیش کی۔اس موقعہ پر ڈاکٹرچمن لعل ، ڈاکٹرفرحت شمیم،ڈاکٹررقیہ لداخی ودیگران کے علاوہ بھاری تعدادمیں طلباء،اسکالرزاورسول سوسائٹی ممبران بھی موجودتھے۔
\"urdu\"

Leave a Comment