سفر نامہ ماریشس (دوسری قسط)
٭پروفیسرشہاب عنایت ملک
9419181351
ممبئی سے جموں آنے کے بعدمیرارابطہ ڈاکٹرآصف سے برابربرقراررہا۔کبھی وہ مجھے فون کرتے اورکبھی میں انہیں دوستی کاپاک رشتہ ہمارے درمیان پنپ رہاتھا۔وہ جنت بے نظیر ماریشس کے قصّے سناتااورمیں جنت بے نظیر کشمیرکے۔فون نے چندہی مہینوں میں ہم دونوں کوبے حدقریب کردیا۔مارچ کے آخری ہفتے میں،میں نے آصف سے ماریشس آنے کی خواہش ظاہرکی۔آصف نے میری خواہش کااحترام کرتے ہوئے مجھے فوراً ماریشس آنے کادعوت نامہ بھیجا۔دعوت نامے کے ساتھ انہوں نے اپنی کتاب”ماریشس میں اُردو“شائع کروانے کی بات بھی کی۔آصف چاہتے تھے کہ میں کتاب شائع کرکے اپنے ساتھ ماریشس لے آؤں تاکہ میرے ہی ہاتھوں وہاں اس کااجراہوسکے۔ میں نے اُسی وقت قاسمی کتب خانہ جموں کے مالک آزادسے بات کی کہ اتنے کم عرصے میں کیایہ ممکن ہے کہ کتاب شائع ہوسکے۔ آزادنے جب حامی بھرلی توبذریعہ میل آصف سے میں نے مسودہ منگوالیا۔طے یہ ہوا کہ6 اپریل کومیں جموں سے ممبئی پہنچوں اور7 اپریل کوممبئی سے ماریشس چونکہ ممبئی سے ہی روزانہ سیدھی فلائٹ ماریشس جاتی ہے۔چناں چہ جموں سے ممبئی اورممبئی سے ماریشس کاٹکٹ بنوایاگیا۔ ماریشس گھومنے کی جوخواہش میرے دِل میں طالب علمی کے دوران جاگی تھی وہ اب پوری ہونے جارہی تھی۔جوں جوں دن قریب آتے جارہے تھے توں توں میرے دِل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی تھیں۔ ادھرقاسمی کتب خانے کے مالک آزاد،رات دن کتاب شائع کرنے کے لیے تگ ودومیں لگے ہوئے تھے۔ بہرحال 6اپریل کو”ماریشس میں اُردو“جب شائع ہوکرمیرے پاس آئی تومیری خوشی کی انتہانہ رہی۔ میں نے دوست سے کیاہوا اہم وعدہ پوراکردیاتھا۔ممبئی روانہ ہونے سے پہلے میں نے اپنے دوست اور صدرشعبہئ اُردو ممبئی یونیورسٹی پروفیسرصاحب علی کوممبئی آنے کی اطلاع پہلے سے ہی دے رکھی تھی۔انہوں نے 7اپریل کومیرے رہنے کاانتظام ممبئی یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں کررکھاتھا کیونکہ 8 اپریل کی صبح 6 بجے میری فلائٹ ماریشس کے لیے تھی۔پروگرام کے مطابق میں 7اپریل کوشام 6 بجے سپائس جیٹ کی فلائٹ سے جموں ایئرپورٹ سے ممبئی پہنچا۔ میرے پاس صبح 4 بجے تک کاوقت تھااس لیے میں نے اپنے دوست امتیازگورکھپوری کوپہلے سے ہی گیسٹ ہاؤس آنے کوکہہ دیاتھا۔ممبئی یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس پہنچنے کے تھوڑی دیربعدامتیازمجھ سے ملنے پہنچ گئے۔امتیازاُردومیگزین ”آنگن“کے مدیراعلیٰ ہیں۔اُردوکا یہ معیاری رسالہ دُنیامیں اپنی خاصی پہچان بنا چکاہے۔امتیازمعروف شاعرظفرگورکھپوری کے فرزندارجمندہیں۔یہ وہی ظفرگورکھپوری ہیں جنھوں نے فلموں کے لیے بھی کامیاب نغمے تحریرکئے۔ممبئی یونیورسٹی کے صدرشعبہ اُردوپروفیسرصاحب علی چنددنوں سے بیمارچلے آرہے تھے۔اس لیے میں ان کی مزاج پرسی کے لیے ان کے گھرگیا۔پروفیسرصاحب علی یونیورسٹی کے ہی ایک مکان میں قیام پذیرہیں۔مزاج پرسی کرنے کے بعدکرائے کی ایک ٹیکسی منگوالی گئی۔ماریشس کی فلائٹ ابھی 9 گھنٹے کے بعدروانہ ہونی تھی۔اس لیے میں اورامتیازممبئی کی سیرکونکلے۔ممبئی کی رات کافی حسین ہوتی ہے۔مختلف رنگوں کی روشنیاں ممبئی کی خوبصورتی میں مزیداضافہ کرتی ہیں۔رات کوممبئی ایک نئی نویلی دلہن کی طرح لگتی ہے۔ہم دونوں ممبئی کے مختلف علاقوں سے گذرتے ہوئے جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ممبئی میں گرمی کافی بڑھ چکی تھی۔ٹھنڈے مشروبات لینے کے علاوہ ہم تھوڑی دیربعدچائے سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ڈرائیور مختلف علاقوں میں گاڑی تیزی سے دوڑارہاتھااورمیں اورامتیاز بھائی کبھی آصف کویادکررہے تھے توکبھی تاشیانہ کو۔کبھی ہم امتیازبھائی کے اس ادبی تقریب کی بات کررہے تھے جووہ جون میں منعقدکروانے جارہے ہیں۔بھنڈی بازار کے قریب ہی ڈرائیورنے گاڑی کوبریک لگادی۔اعجازبھائی اورمیں ایک ریسٹورنٹ میں رات کاکھاناکھانے کے لیے چلے گئے۔اس وقت رات کے 11 بج رہے تھے۔امتیازبھائی نے بتایاکہ یہ ہوٹل سنجیوباباکے نام سے مشہورہے۔انہوں نے مزید کہاکہ معروف فلمی اداکارسنجے دت ایک دفعہ اس ہوٹل میں آئے تھے اورانہوں نے یہاں کے کچن میں جاکرخوداپنے لیے ایک مرغ پکایا۔ اب خاصی تعدادمیں لوگ یہاں سنجیوباباکاچکن کھانے کے لیے آتے ہیں جس وقت ہم ہوٹل میں گئے وہاں بہت رش تھا۔ کسی طرح ہم نے اپنے لئے جگہ حاصل کی۔سنجیوباباکے چکن کے علاوہ ہم نے سیخ کباب،مٹن شوربااورنان کے ساتھ رات کاکھاناکھایا۔کھاناکھانے کے بعد ہم ایک دفعہ پھرٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ڈرائیورکارُخ اب یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس کی طرف تھا۔ راستے میں ہم نے پان بھی کھایااوریوں ممبئی کی رات کامزہ لیتے ہوئے ہم تقریباً 12 بجے یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس پہنچے۔ماریشس جانے والی فلائٹ کوابھی بھی چارگھنٹے باقی تھے۔امتیازبھائی مجھ سے اجازت لے کر گھرچلے گئے اورمیں نہادھوکرٹیکسی ڈرائیورکے ساتھ ماریشس جانے کے لئے ممبئی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ممبئی کاایئرپورٹ ممبئی یونیورسٹی سے بالکل قریب ہی ہے۔اس لیے چندمنٹوں کے اندرڈرائیورمجھے ایئرپورٹ کے باہرچھوڑکرواپس چلاگیا۔