سفر نامہ ماریشس (قسط اول)
٭پروفیسرشہاب عنایت ملک
9419181351
ماریشس کے نام سے میں اُس وقت سے واقف تھا جب میں ایم۔اے اُردوکاطالب علم تھا۔ جموں یونیورسٹی کے پرانے کیمپس میں میرے ساتھ ماریشس کاایک طالب علم ہوسٹل میں قیام پذیرتھا۔ اس وقت اُس کانام ذہن میں نہیں آرہاہے البتہ وہ جموں کے کسی کالج سے بی۔اے کی ڈگری حاصل کررہاتھا۔ بعدمیں اُس نے بھدرواہ کی ایک لڑکی سے شادی کرلی اورپھرسننے میں آیاکہ وہ یہیں کاہوکررہ گیا۔ماریشس کی خوبصورتی اوراس ملک کے جغرافیائی حالات پہلی مرتبہ اُس لڑکے سے ہی سننے کوملے۔وہ جب بھی ماریشس جاتامیرے لئے کوئی تحفہ ضرورلاتااورپھروہاں کے سمندرخوبصورت گنےّ کے کھیتوں اور صاف وشفاف سڑکوں کاذکر ضرورکرتا۔شعبہ اُردومیں لیکچرارتعینات ہونے کے بعد ملک کے مختلف اُردواسکالروں سے ملاقات کے دوران اس بات کازیادہ علم ہواکہ ماریشس اُردوکے حوالے سے ایک زرخیززمین ہے اوروہاں نہ صرف اُردوزبان بولی جاتی ہے بلکہ اسکولوں اورکالجوں میں پڑھائی بھی جاتی ہے۔یہی نہیں بلکہ اُردوکے حوالے سے یہاں عالمی سطح کے سیمی نار اورکانفرنسیں وقتاً فوقتاًمنعقدہوتی رہتی۔ایسی ہی ایک کانفرنس سے ہمارے شعبہ سے پروفیسرظہورالدین بھی شرکت کرنے کے لئے ایک دفعہ ماریشس چلے گئے۔ واپسی پرانہوں نے ماریشس کاایک سفرنامہ بھی تحریرکیا جوشعبہ کے ششماہی مجلہ ”تسلسل“ میں شائع بھی ہوا۔ یہ سفرنامہ پڑھنے کے بعدماریشس دیکھنے کااوربھی زیادہ اشتیاق پیداہوا۔ 2015ء میں مجھے ماریشس جانے کاایک موقع اُس وقت ملاجب وہاں کی اُردوسپیکنگ یونین نے ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے ماریشس مدعوکیالیکن اُس وقت بعض گھریلوپریشانیوں کی وجہ سے میں اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے قاصررہا۔اُس کے بعداس جنت بے نظیر سے متعلق میں نے بہت سے اُردودانشوروں کے تحریرکردہ سفرنامے بھی پڑھے جن سے اس ملک کی خوبصورتی اورادبی ذوق وشوق سے متعلق مزیدجانکاری فراہم ہوئی۔اسی دوران جے این یوکے ایک سیمی نار میں میری ملاقات نازیہ بیگم جافوسے ہوئی۔ نازیہ ماریشس کی رہنے والی ہیں اس وقت وہ مہاتماگاندھی انسٹی ٹیوٹ میں اُردوکی لیکچرارہیں۔نازیہ سے جب میری ملاقات ہوئی تومیں نے اُسے جموں یونیورسٹی کے سیمینارمیں شرکت کرنے کی دعوت دی جواُس نے خندہ پیشانی سے قبول کی۔نازیہ تین دن جموں میں رہی۔ میں نے اس سے چوں کہ ماریشس اورماریشس میں اُردوکی صورتحال سے متعلق ایک انٹرویو لیا۔اس انٹرویوکی بنا پر میں نے روزنامہ اُڑان کے لئے نازیہ پرایک کالم بھی تحریرکیا۔ نازیہ دراصل ماریشس کی پہلی خاتون تھیں جوجامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کے لئے قرۃ العین حیدرکے افسانوں پرپروفیسروہاج الدین علوی کے زیرنگرانی اپناتحقیقی مقالہ تحریرکررہی تھیں اورچوں کہ ایم فل اورپی ایچ ڈی پرراقم کاکام بھی اُردوکی مایہ ناز افسانہ نگار قرۃ العین حیدر پرہی تھااس لئے میں نے نازیہ کوبعض کتابیں تحفے میں دیں جو اُس کومددگارثابت ہوسکتی تھیں۔نازیہ نے مجھے ماریشس کے رہن سہن،لباس اور زبان سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کرنے کے علاوہ ماریشس کی تاریخی اہمیت پربھی روشنی ڈالی۔ نازیہ سے ہی مجھے معلوم ہواکہ بڑی مدت تک ماریشس انگریزوں اورفرانسیسیوں کے قبضے میں رہاجس کی وجہ سے یہاں کی سرکار ی زبان انگریزی اورفرانسیسی ہی ہے۔نازیہ سے ملاقات کے بعدماریشس کاسفرکرنے کی خواہش میرے دِل میں تیزہوگئی اورمیں ماریشس جانے کابہانہ ڈھونڈنے لگا۔
دسمبر 2018ء میں ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ اُردوکے عالمی سیمینار میں میری ملاقات ڈاکٹرآصف اورتاشیانہ سے ہوئی۔یہ دونوں اُردوکے اسکالربھی۔اسی سیمینار میں مدعوتھے۔منتظمین نے رہنے کاانتظام یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں کیاہواتھا۔میرے سامنے والے کمرے میں ڈاکٹرآصف اورتاشیانہ کوٹھہرایاگیاتھا جس کی وجہ سے ان دونوں سے میری ملاقاتیں دن میں متعدددفعہ ہوتی رہتی تھیں۔بہت جلد ہم تینوں کی ملاقاتیں ایک مضبوط دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ ڈاکٹرآصف ماریشس کے مہاتماگاندھی انسٹی ٹیوٹ میں اُردوکے صدرہیں جبکہ تاشیانہ مقامی کالج میں اُردوکی ایک ذہین اُستادہیں۔ دونوں نے ممبئی یونیورسٹی کے سیمینار میں معیاری مقالے پڑھ کرسامعین سے خوب داد وصول کی۔ ان کے مقالہ سے اندازہ لگانے میں ذرابھی دیرنہیں لگی کہ ماریشس میں اُردوکی صورتحال نہ صرف اطمینان بخش ہے بلکہ وہاں تحقیقی کام بھی ہورہاتھا۔ ان دونوں سے ملنے کے بعدماریشس گھومنے کی خواہش شدت اختیارکرنے لگی۔ ممبئی سے جموں آنے سے پہلے دن آصف نے مجھے ماریشس آنے کی دعوت دی اوراپنی کتاب ”ماریشس میں اُردو“شائع کرنے کی خواہش بھی ظاہرکی۔میں نے آصف سے کتا ب شائع کروانے کاوعدہ توکیالیکن ماریشس کاسفرکرنے کے لئے میں ابھی بھی کسی بہانے کی تلاش میں تھا۔(جاری)