جواں جواں صلاحیتوں کی متحرک ، متکلم تصویر\”عبدالحی\”

\"farooq-argali\"

٭ فاروق ارگلی ،سینئر صحافی نئی دہلی۔

\"945014_10201220822747441_1482048069_n\"

ہرچند کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں اُردو کے لیے میدان تنگ ہونے لگا تھا، لیکن گنگاجمنی تہذیب کی زمین پر کھڑے اس چھتنار درخت کی جڑیں اتنے گہرے تک پیوست تھیں کہ وقت کی تیزوتند آندھیاں بھی اسے ایک دم اپنی جڑوں سے اُکھاڑ نہیں سکیں۔ تقسیم کی تباہ کاریوں کے بعد اُردو کی راجدھانی دہلی میں پنجاب سے آنے والے پناہ گزیں اُردو والوں اور بچے کھچے مقامیوں نے پھر اس تاریک ہوچکے ایوان میں اُردو کے چراغ روشن کردیئے۔ ہم نے آزادی کے بعد وہ شاندار زمانہ دیکھا ہے جب یہ شہر اُردو کی مجلاتی صحافت کا ہندوستان میں سب سے بڑا مرکز تھا۔ بیسویں صدی، شمع، جمالستان، آستانہ، دین دنیا، خاتونِ مشرق، بانو، روبی، ہما، ہدیٰ’ شبستاں، تحریک اور جانے کتنے ادبی، مذہبی، سیاسی، فلمی رسالے شائع ہوکر اُردو دُنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ رہے تھے اور گھر گھر میں پڑھے جاتے تھے۔ ہر طرح کے لکھنے والے اور پڑھنے والے ہر جگہ موجود تھے۔ گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی تک پہنچتے پہنچتے وقت کی نظربد کے سائے گہرانے لگے۔ اُردو عوام کی پرانی نسل رخصت ہوتی گئی اور ملک کے بڑے حصے یوپی، راجستھان، ایم پی، پنجاب، ہریانہ وغیرہ کی نئی پیڑھیاں اُردو سے محروم ہوگئیں۔ پڑھنے والوں کی تعداد گھٹی تو عوامی مجلاتی صحافت بھی لڑکھڑانے لگی۔ ایک ایک کرکے وہ بڑے بڑے جو جریدے دم توڑنے لگے جن کے ہزارہا خریدار اور لاکھوں پڑھنے والے تھے۔ رہی سہی کسر ٹیلی ویژن انقلاب نے پوری کردی۔ تفریحاً رسالے، افسانے، ناول پڑھنے والا طبقہ اس جادوئی بکسے کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اُردو صحافت روزناموں اور ہفت روزوں میں سمٹنے لگی اُردو اخباروں کی تعداد یہ بھرم قائم رکھنے میں کچھ نہ کچھ کامیاب رہی کہ ابھی اُردو زندہ ہے اور آج یہ صورتِ حال ہے کہ اکادُکا محدود اشاعت والے نجی مذہبی، ادبی، سیاسی جرائد اور ڈائجسٹوں وغیرہ کو چھوڑ کر دہلی کی مجلاتی صحافت کے نام پر سرکاری رسالے آجکل، اُردو دُنیا اور ایوانِ اُردو ہی باقی رہ گئے جنھیں اُردو کے خاص طبقے کی ذہنی آسودگی کا وسیلہ کہا جاسکتاہے۔ اس نازک دور میں جب شمالی ہند میں اُردو عوام اُردو سے دور ہوتے جارہے تھے، جنوبی ہند میں حیدرآباد، مہاراشٹر اور کرناٹک کے اُردو والوں نے وقت کی نامساعدت کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زبان اور تہذیب کو بچائے رکھنے کی کوشش کی۔ شمالی ہندوستان میں غیرمنقسم بہار وہ واحد ریاست تھی جہاں سیاستِ وقت کی بے رحم آندھیوں میں بھی اُردو کے چراغ روشن رہے، جن کی روشنی اُردو کا گہوارہ کہی جانے والی غالبؔ و میرؔ کی دلّی تک پہنچی اور اس طرح پہنچی کہ آج ان بہاری چراغوں سے تعلیم و تعلّم، شعروادب، تہذیب و ثقافت اور اُردو صحافت کے اجالے پھیل رہے ہیں۔آج دہلی کے اُردو اخبارات زیادہ تر بہاری صحافیوں اور کارکنوں کے ذریعہ چل رہے ہیں۔ خوشگوار سچائی یہ ہے کہ اُردو کے ملک گیر معیاری اُردو جریدے، حکومت ہند کے ’آجکل‘ اور عالمگیر ماہنامہ ’اُردو دُنیا‘ کی ادارتی ذمہ داریاں بھی بہار کے ہی لائق و فائق صحافی سنبھال رہے ہیں۔ ’آجکل‘ کے مدیر جناب ابرار رحمانی کا شمار اُردو کے مقتدر اور سینئر صحافیوں میں ہوتا ہے جبکہ ملک کے سب سے بڑے علمی ادبی رسالے ’اُردو دُنیا‘ کی ادارت سے وابستہ مسٹر عبدالحئی اُردو دُنیا کے سب سے کم عمر لیکن نہایت باصلاحیت صحیفہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ ریکارڈ بھی ان کے ہی نام ہے کہ بہت کم مدت میں انھوں نے اُردو کے سرکردہ مجلاتی صحافیوں کی اگلی صف میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ فی الوقت قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، وزارتِ تعلیمات (فروغِ انسانی وسائل حکومت ہند) کا ماہنامہ ’اُردو دُنیا‘ سہ ماہی علمی جریدہ ’فکروتحقیق‘ اور ’بچوں کی دُنیا‘ ہندوستان کے سب سے خوبصورت، سب سے معیاری اور سب سے زیادہ مقبول رسائل کونسل کے ڈائریکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم کی دانشورانہ قیادت اور عبدالحئی کی محنت و صلاحیت کا عملی اظہار ہیں۔
عبدالحئی جسمانی اعتبار سے جس قدر دُبلے پتلے اور نازک بدن ہیں علمی، ادبی اور صحافتی اعتبار سے اتنے ہی لحیم شحیم ہیں۔ انھوں نے خود کو ذہنی اور عملی طور پر توانا و تنومند بنانے کے لیے دل و جان سے محنت و ریاضت کی ہے۔ ان کی تحریروں اور ادارتی خوبیوں سے آج ساری اُردو دُنیا متعارف ہے لیکن ان کی شخصیت اور جہد مسلسل کی روداد سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
میں عرصہ سے ان کی صلاحیتوں اور شخصی خوبیوں کا معترف ہوں۔ ان سے کئی بار کہا کہ ’ہمارا سماج‘ کا ایک صفحہ آپ کے لیے بھی مختص ہے، لیکن ہر باریہی کہہ کر وہ میری بات ٹال گئے۔ ’’آپ بہار کی عظیم شخصیات پر لکھ رہے ہیں، ابھی علم و ادب میں میری حیثیت ہی کیا ہے۔‘‘ میں نے اس دن زور دے کر کہا ’’میں اس لیے آپ پر تعارفی مضمون لکھنا چاہتا ہوں کہ دوسرے نوجوانوں کو اس سے روشنی اور ترغیب حاصل ہو کہ اُردو صحافت بھی بہترین مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے بشرطیکہ وہ عبدالحئی کی طرح اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت سے محبت کریں اور کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ایسی ہی محنت، شوق اور لگن سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں‘‘۔ بالآخر عبدالحئی اپنے بارے میں بتانے کے لیے رضامند ہوگئے۔ انھوں نے متعدد علمی ادبی شخصیتوں سے انٹرویو لیے ہیں۔ شاید پہلی بار راقم نے ان کا انٹرویو لیا تھا جس کے مطابق : عبدالحئی ضلع گیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں بھدیہ، تھانہ بارہ چٹی میں 5فروری 1980ء کو ایک معزز دیندار خانوادے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حافظ محمد یاسین خاںصاحب اور والدہ محترمہ عظمت خانم نے بیٹے عارفین خان یعنی عبدالحئی کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے موضع بگہہ میں واقع ان کی ننہال بھیج دیا کیونکہ ان کے نانا حضرت مولانا عالم خاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور علم دوست انسان تھے۔ عالم خاں صاحب ریلوے میں گارڈ رہے تھے، وہ انگریزی، اُردو، عربی میں ماہر تھے۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ گاؤں کی مسجد میں امامت کرنے لگے تھے، ساتھ ہی بچوں کو قرآن کریم اور دینیات کی تعلیم سے بھی آراستہ کرتے تھے۔ عبدالحئی نے ناظرہ قرآن مجید وہیں مکمل کیا۔ انگریزی اور اُردو کی ابتدائی تعلیم بھی نانا جان سے حاصل کی، پھر بھدیہ مڈل اسکول میں داخل ہوئے۔ بھدیہ گاؤں کے اسی اسکول میں نامور شاعر ناوکؔ حمزہ پوری نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ مڈل پاس کرنے کے بعد جی ایم اُردو ہائی اسکول چیرکی سے میٹرک پاس کیا جو گاؤں سے فاصلے پر ہے اس لیے ہوسٹل میں رہے۔ بہار سے ریاضی میں آئی ایس سی اور تاریخ میں گریجویشن کی سند حاصل کرنے کے بعد آگے کی تعلیم کے لیے دہلی کا رُخ کیا۔ اپنے تعلیمی سفر اور اُردو زبان و ادب سے گہرے تعلق کے بارے میں عبدالحئی بتاتے ہیں:
’’گھر میں اُردو کا ماحول تھا، اُردو زبان و ادب سے لگاؤ والد صاحب سے ورثے میں ملا، آپ بی یو ایم ایس ڈاکٹر تھے۔ سنسکرت میں انھوں نے ایم اے کیا تھا اور شیرگھاٹی کے مڈل اسکول میں ہیڈماسٹر رہے تھے لیکن اُردو پڑھنے لکھنے کا گہرا شوق تھا۔ ہما ڈائجسٹ، چہاررنگ، جرائم، بیسویں صدی، آتش گل وغیرہ رسائل کے مستقل خریدار تھے، گھر میں صادق صدیقی سردھنوی، الیاس سیتاپوری وغیرہ کے ڈھیروں تاریخی ناول موجود تھے، وہ سب پڑھ ڈالے، اس کے بعد ابن صفی، ایم اے راحت، محی الدین نواب اور اظہار اثر وغیرہ کے ناولوں میں دلچسپی بڑھ گئی۔ ابن صفی تو دل و دماغ پر چھا گئے۔ ان کے ناولوں کا ذخیرہ جمع کرلیا تھا۔ انٹرمیڈیٹ میتھمیٹکس میں کیا تھالیکن اُردو زبان و ادب کی چاشنی ذہن پر حاوی ہوچکی تھی کہ گریجویشن میں تاریخ لے لی۔ لوگ کہتے تھے کہ اُردو میں کیریئر نہیں ہے مگر اُردو ساتھ نہیں چھوڑ رہی تھی۔ 2002ء میں مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا سے بی اے آنرز مکمل کرنے کے بعد جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی آگیا۔ اُردو سے رشتہ اس قدر مضبوط ہوچکا تھا کہ ایم اے اُردو میں داخلہ لیا۔ 2004ء میں ایم اے کرلیا اور 2007ء میں ایم فل مکمل کیا۔ موضوع تھا ’’سرسیّد کی صحافت ’تہذیب الاخلاق‘ کے حوالے سے‘‘۔ اس سلسلے میں سرسیّد احمد خاں کی عظیم شخصیت اور ان کی تاریخ ساز تحریک کو سمجھنے کا موقع ملا۔ وہ بلاشبہ ملت اسلامیہ ہند کے عظیم مصلح اور رہبر تھے، برصغیر کی مسلم قوم ان کے احسانات کو قیامت تک فراموش نہیں کرسکتی۔ اب سے صرف پانچ سال پہلے 2011ء میں جے این یو سے پی ایچ ڈی کی سند بھی خدا کے فضل و کرم سے حاصل کرلی۔ میرے مقالے کا موضوع تھا ’ہندوستان میں اُردو کی مجلاتی صحافت کا تنقیدی مطالعہ آزادی کے بعد‘ لیکن اس دورانیے میں سنہ 2009ء میں پارٹ ٹائم پروگرام کے تحت ’ایڈوانسڈ ڈپلوما اِن اُردو ماس میڈیا‘ بھی حاصل کیا۔ اس دوران سے قبل 2008ء میں الاگپا یونیورسٹی تمل ناڈو کے فاصلاتی تعلیمی پروگرام میں شامل ہوکر ماس کمیونی کیشن اینڈ جرنلزم میں ایم اے کرلیا تھا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ پی ایچ ڈی کے لیے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے جونیئر ریسرچ فیلوشپ ملی۔ ایم اے میں اسکالرشپ سے نوازا گیا۔ 2004ء میں ’گاندھی ہمارے عہد میں‘ کے عنوان سے یونیورسٹی سطح کے مسابقے میں دوسرا انعام مل چکا تھا۔‘‘
عبدالحئی نے جے این یو میں آتے ہی اُردو صحافت کے میدان میں آگے جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اسی لیے انھوں نے ماس میڈیا ڈپلوما اور جرنلزم میں ایم اے کیا تھا لیکن یہ راہ کتنی کٹھن تھی اس کا اندازہ مشکل ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ جزوقتی ملازمتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ان ملازمتوں سے انھیں زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے کا موقع ملا۔ 2006ء میں ای ٹی وی نیوز ٹوڈے میں رپورٹر اور کاپی ایڈیٹر کے طور پر وہ حیدرآباد گئے تھے لیکن وہاں چند ماہ ہی رہ سکے کیونکہ انھیں حکومت ہند کی ریسرچ فیلوشپ مل گئی۔ دہلی واپس آکر وہ آل انڈیا ریڈیو میں کچھ عرصہ کے لیے ٹرانسلیٹر اور عارضی نیوز ریڈر بن گئے۔ اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے الیکٹرانک میڈیا پروڈکشن سینٹر میں اناؤنسر بھی رہے۔ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے عارضی نیوز ایڈیٹر اور دہلی دوردرشن میں اُردو نیوز ایڈیٹرنیز پریس انفارمیشن بیورو میں اُردو ٹرانسلیٹر کے فرائض بھی انجام دیئے۔ چند ماہ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے الیکٹرانک میڈیا مانیٹرنگ سینٹر میں بطور انگلش مانیٹر بھی کام کیا۔ علاوہ ازیں امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا اسٹڈیز لکھنؤ کے کور پروگرام میں طلبہ کو اُردو پڑھائی۔ 9دسمبر 2011ء کو پی ایچ ڈی کا وائیوا ہوا اور اس سے دو دن بعد بطور معاون ایڈیٹر قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان میں ان کا تقرر ہوگیا۔ گزشتہ پانچ برسوں سے وہ ’اُردو دُنیا‘، ’فکر و تحقیق‘ اور ’بچوں کی دُنیا‘ کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ لکھنے کا شوق شروع ہی سے تھا۔ پاکیزہ دینی ماحول میں پرورش پائی تھی اس لیے اسلامی تعلیمات کا اثر غالب تھا۔ پہلا مضمون ’قربانی ایک درسِ عمل‘ خالد مصطفی صدیقی کے مشہور ڈائجسٹ ’پاکیزہ آنچل‘ کے شمارہ بابت مارچ 2002ء میںگھریلو نام عارفین خان عرفی کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد مختلف رسائل و اخبارات میں ان کی تحریریں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ ہندی بھاشا پر بھی اچھی دسترس ہے، انھوں نے پرتیکچھ بھارت، ایشان ٹائمز اور نیوز پیپر ایسوسی ایشن آف انڈیا وغیرہ میں ہنگامی موضوعات پر آرٹیکلز لکھے۔راقم نے ان کے کچھ ہندی مضامین دیکھے ہیں، وہ اہل زبان لیکھکوں کی طرح خوبصورت ہندی لکھتے ہیں۔ عبدالحئی چاہتے تو ہندی لیکھن کو میدان بنا سکتے تھے لیکن اس جہت میں وہ زیادہ سنجیدہ نہیں تھے، اس لیے جلدی ہی ہندی کو خیرباد کہہ کر پوری توجہ اُردو پر مرکوز کردی۔ ان کے علمی ادبی مضامین ’آجکل‘، ’ایوانِ اُردو‘، ’کتاب نما‘، ’نیا دَور‘، ’انشا‘، ’قومی زبان‘، ’اُردو بک ریویو‘ وغیرہ معیاری جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ ’اُردو دُنیا‘ میں ان کے مضامین اور انٹرویوز خاص اہیت کے حامل ہیں۔ انھوں نے پروفیسر عتیق اللہ، مقصود الٰہی شیخ، وسیم بریلوی، حیدر سہروردی اور مرزا حامد بیگ جیسی اہم ادبی شخصیتوں سے یادگار انٹرویوز لیے ہیں۔ اندازِ بیان و تحریر سے ان کی ادبی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
عبدالحئی نے ’اقبال کی شاعری میں مردِمومن کا تصور‘ اور ’اقبال کا پیغام‘ کے عنوانات سے جو مضامین لکھے ہیں ان سے اقبالیات پر ان کی اچھی خاصی دسترس کا پتہ چلتا ہے۔ تحریر میں بلاغت اور گہرائی کے ساتھ سلاست اور روانی ہے۔ اقبال کے اس شعر:
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
کی تشریح عبدالحئی کے قلم سے ملاحظہ ہو:
’’اقبال کے اس شعر سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ مومن کی تخلیق کیسے ہوتی ہے اور مومن کو کس طرح پہچانا جاسکتا ہے۔ اس کی دلسوزی، روشن ضمیری، رواداری اور شریعت کی پابندی، اسلامی اصولوں کی پاسداری سے ہی اس کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ وہ آزادانہ فطرت کا مالک ہوتا ہے اور کسی بھی دنیاوی طاقت سے خوف نہیں کھاتا، مشکلات کبھی اس کے لیے سدراہ ثابت نہیں ہوتی ہیں۔ اس میں وہ حرکت اور سوزِ نہاں ہوتا ہے جو موت کے بعد بھی آسودگی قبول نہیں کرتا۔ اسے حیاتِ جاوید حاصل ہوتی ہے، وہ موت سے نہیں ڈرتا بلکہ خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرتا ہے، اس کو موت کی تمنا ہوتی ہے اس لیے وہ اسے راہِ شوق کی آخری منزل مانتا ہے اور یہ شہادت اسے کوئے دوست میں پہنچا دیتی ہے۔ وجودِ انسانی ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے، جس کے حل کرنے کے لیے انسان سرگرداں رہا۔ اقبال نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان کی اندرونی قوت، خداترسی، ایمان و عشق، عبادت و ریاضت، اخلاق و محبت اس کے اعلیٰ کردار سے ہی جلاپاتی ہیںاور ان کے برعکس اوصاف سے نہ صرف اندرونی قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں بلکہ فنا ہوجاتی ہیں۔ انسان میں خدائی اوصاف پیدا کرنے کی پوری صلاحیتیں موجود رہتی ہیں۔ عام انسان ان صلاحیتوں سے کام لے کر انسان کامل بن سکتا ہے۔‘‘
عبدالحئی کے ایک فکرانگیز مضمون ’اُردو اور ہندی کا لسانی رشتہ‘ میں دونوں زبانوں کی اہمیت اور معنویت کو درشاتے ہوئے ایک دوسرے کو قریب لانے پر زور دیا گیا ہے:
’’موجودہ دَور میں ہندی اور اُردو کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے سے الگ ہوہی نہیں سکتیں، ہندی کے علمبردار ہندی کی ترقی اور اصلاح کے لیے جس قدر کوشاں ہیں اُردو کے لیے ایسی کوششیں نہیں ہورہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر بچے کو اُردو زبان کی تعلیم دلانے کا معقول انتظام کیا جائے، پرائمری سطح پر اُردو کو ضروری قرار دے کر اس کی تعلیم عام کی جائے تب کہیں اُردو کو اس کا جائز مقام ملے گا، اُردو اور ہندی لسانیاتی مفہوم میں دو زبانیں ہیں ہی نہیں لیکن عملی حیثیت سے انھیں دو زبانوں کا مرتبہ حاصل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اُردو اور ہندی کھڑی بولی کے دو روپ ہیں۔ کھڑی بولی کی پیدائش ہندی روایات اور ناگری رسم الحظ میں ہوئی لیکن اس کا روپ اُردو کے ذریعہ سنوارا گیا۔ یہاں میں چھوٹی سی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں، مثلاً اگر چھوٹے بچے کو ہم یہ سکھاتے ہیں کہ بیٹا Love کے معنی پریم ہوتے ہیں، اگر بچہ نہ سمجھے تو کہیں گے بیٹا پریم کے معنی محبت اور اسی طرح Mother کے معنی ماتا ہوتے ہیں مگر سمجھانے کے لیے اسے ماں، اماں، امی کہہ کر بتائیں گے۔ اس مثال سے راقم کی مراد یہ ہے کہ اگر کوئی ہندی زبان بھی سیکھتا ہے تو میرے خیال میں اس کا سیکھنا اُردو کے بغیر ناممکن ہے، ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اُردو کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اسی طرح اُردو سیکھنے کے لیے ہمیں ہندی کا سہارا لینا پڑے گا کیونکہ دونوں زبانیں مشترک ہیں۔ ان کے بیچ کبھی نہ ختم ہونے والا لسانی رشتہ ہے۔ دونوں میں ایک ایسا بندھن ہے جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتا، یہ دونوں زبانیں ایک دوسرے سے بنی ہیں، ایک دوسرے کے لیے بنی ہیں۔‘‘
’سرسیّد احمد خاں اور تحریک علی گڑھ‘، ’اُردو صحافت کی ترویج میں سرسیّد کی خدمات‘، ’صحافت کا جوہر: محمد علی جوہر‘، ’دیوندر اسر خوشبو بن کے لوٹیں گے‘ اور ’آتش رفتہ کا سراغ اور ذوقی‘ جیسی دلچسپ معلوماتی اور تجزیاتی تحریریں عبدالحئی کی فکری پختگی اور ادبی بالیدگی کی غماز ہیں۔ 2012ء میں اُردو کے عظیم افسانہ نگار اور اپنے استاد رہ چکے دیوندر اسر کے انتقال پر عبدالحئی اپنے تعزیتی مضمون میں آنجہانی کے ساتھ اپنی یادیں تازہ کرتے ہیں:
’’ایک خاموش طبع، متین و نفیس انسان، خوبصورت نقرئی بال، صاف اور میٹھی آواز کے مالک، معلومات کا بحرِ بیکراں،ایک شفیق استاد، زمانے کی بے اعتنائی و بے مروّتی سے نبردآزما ایک مفلوک الحال افسانہ نگار، ایک کامیاب اور حقیقیت پسند صحافی و نئے دور کے ممتاز نقاد دیوندر اسر بھی اب ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ دیوندر اسر سے میری پہلی ملاقات ستمبر 2002ء میں ہوئی تھی جب میں جے این یو میں ایم اے کا طالب علم تھا اور وہ وہاں ماس میڈیا اور کمیونی کیشن تھیوری پڑھانے آتے تھے۔ پہلی دفعہ جب وہ کلاس میں آئے تو کلاس میں کسی بھی طالب علم کو ایسا محسوس نہیں ہوا کہ یہ منحنی سا شخص دیوندر اسر ہے جس نے ’خوشبو بن کر لوٹیں گے‘، ’پرندے اب کیوں نہیں اُڑتے‘ اور ’مستقبل کے روبرو‘ جیسی تحریریں ہمیں دی ہیں اور اُردو زبان و ادب کو ایک نئے اسلوب سے متعارف کرایا ہے۔ انھوں نے خود ہی اپنا تعارف کرایا اور اپنے بارے میں جب بتایا تو ہم سبھی طالب علم ان کی سادگی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ دوچار کلاسوں کے بعد ہم ان سے کافی گھل مل گئے اور مختلف موضوعات پر ان سے کافی گفتگو ہونے لگی۔ وہ ہمارے سبھی سوالوں کے جوابات بڑی تفصیل سے دیا کرتے تھے اور اس بات پر خصوصی توجہ دیتے تھے کہ ان کی باتیں ہماری سمجھ میں آجائیں۔ دیوندر اسر سے ملاقات تو جے این یو میں ہوئی تھی لیکن ان کے بارے میں مکمل جانکاری نندکشور وکرم کے ترتیب دیئے ہوئے عالمی اُردو ادب سے حاصل ہوئی۔ اس خاص شمارے کے مطالعے سے ہم پر دیوندر اسر کی شخصیت واضح ہوئی کہ ہم جس استاد سے عوامی ذرائع ترسیل کے بنیادی نکات پڑھ رہے ہیں وہ کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ ایک کامیاب افسانہ نگار، ناول نگار، ڈرامہ نگار، ناقد، ادبی صحافی، ترجمہ نگار اور محقق و دانشور ہے۔ انھوں نے اُردو، ہندی، انگریزی اور پنجابی زبانوں میں اپنی تحریروں کے رنگارنگ جلوے بکھیرے ہیں۔ 1950ء کے بعد اُبھرنے والے ادیبوں میں دیوندر اسر واحد ایسے ادیب تھے جو اُردو ادب کے ساتھ ساتھ ہندی اور پنجابی ادب میں بھی اہم مقام رکھتے تھے۔ ابھی تک کی زندگی میں جن استادوں نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ان میں دیوندر اسر خاص ہیں۔ کلاس میں دورانِ گفتگو وہ میرے غیرموضوع سوالات سے کبھی ناراض نہیں ہوئے۔ میری کم علمی کو نظرانداز کرتے ہوئے انھوں نے میڈیا، سماج، ادب اور عوام سے متعلق سبھی سوالات کا تشفی بخش جواب دیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ایک دن میں کلاس نہیں جاسکا تھا تو انھوں نے جے این یو کے شعبۂ اُردو سے میرے ہاسٹل فون کروایا اور مجھے بلوایا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ یہی نہیں اگر میں نے کوئی لکچر چھوڑ دیا تو انھوں نے دوسرے دن مجھے الگ سے وقت دیا۔ مانسون سمسٹر کے اختتام پر ان سے ملاقات نہیں ہوپاتی تھی، ان کے لکچرس، سادہ گوئی، خوش خلقی اور محبت و شفقت نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں ان کا پتہ ڈھونڈتا ہوا ان کی رہائش گاہ B-3 ، جنک پوری پہنچ گیا۔ وہاں وہ مجھ سے اس قدر گرم جوشی سے ملے کہ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنے والد سے مل رہا ہوں۔ ان کا گھر تو کافی بڑا ہے لیکن وہ ایک چھوٹے سے کمرے تک ہی محدود تھے۔ کمرے میں کتابوں کا انبار تھا۔ ان میں اُردو، انگریزی، ہندی اور پنجابی زبان کی کتابیں تھیں۔ ساتھ میں چھوٹا سا دالان تھا اور کھانے پینے کی تمام اشیا و چائے کے سامان رکھے تھے۔ انھوں نے خود ہی چائے بنائی اور بسکٹ، پھل و نمک پاروں کے ساتھ چائے پیش کی۔ میں نے کافی منع کیا کہ جناب ان تکلّفات کی ضرورت نہیں لیکن انھوں نے خود ہی سارے انتظامات کیے۔ مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں پوچھ بیٹھا کہ جناب آپ اس عمر میں خود کیوں چائے بنارہے ہیں۔ ان کا جواب آج بھی مجھے یاد ہے، برخوردار یہ بھی زندگی کے تجربے ہیں، انسان کو سبھی طرح کے کام کرنے آنے چاہئیں۔ ان کے اس جواب کے بعد مجھے کچھ اور پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔‘‘
(اُردو دُنیا، جنوری 2013ء)
’آجکل‘ شمارہ اگست 2016ء میں ’آجکل- 75برسوں کا سفر‘ کے عنوان سے عبدالحئی کا جو مقالہ شائع ہوا ہے اس سے اُردو کی مجلاتی صحافت سے ان کے لگاؤ اور تحقیقی صلاحیت کا اندازہ آسانی سے ہوجاتا ہے۔ یہی بات ان کی اب تک شائع ہونے والی دو کتابوں میں پائی جاتی ہے۔ ان کی پہلی تحقیقی کتاب ’اُردو صحافت اور سرسیّد احمد خاں‘ تھی۔ یہ ایم فل کا مقالہ ہے جو مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ 2008ء میں شائع ہوا۔ سرسیّد کے حوالے سے اس کتاب کی تحقیقی اور دستاویزی اہمیت یہ ہے کہ اس کا پاکستانی ایڈیشن ’فکشن ہاؤس لاہور‘ جیسے بڑے اشاعتی ادارے نے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ معروف ناقد و محقق پروفیسر شہزاد انجم نے اُردو کی کتابی انجمن میں جواں سال عبدالحئی کا خیرمقدم کرتے ہوئے تقریظ میں لکھا:
’’اُردو صحافت اور سرسیّد احمد خاں‘ جواں سال ادیب، برادرِ عزیز عبدالحئی کی پہلی تحقیقی و تنقیدی کاوش ہے۔ اس کتاب میں اُردو صحافت کی تاریخ و تنقید، سرسیّد احمد خاں کی صحافتی خدمات اور سرسیّد کے اہم رسالے ’تہذیب الاخلاق‘ پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ لفظ ’صحافت‘ عربی لفظ ’صحیفہ‘ سے مستعار ہے، جس کے لغوی معنی ’مطبوعہ صفحہ‘ ہیں۔ اس لیے تمام مطبوعہ اخبارات اور رسائل صحیفہ قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ سرسیّد نے اپنی پوری زندگی مسلمانوں کی فلاح و بہبود میں بسر کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ان کا ایک ایسا تاریخی اور شاندار کارنامہ ہے جسے ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سرسیّد کا علمی کارنامہ بھی وسیع ہے۔ انھوں نے مسلم قوم کی اصلاح اور ان کے خیالات میں بہتری لانے کی غرض سے رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ جاری کیا۔ اس رسالے میں سرسیّد نے مختلف سماجی، اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر مضامین لکھے۔ مسلمانوں میں بیداری لانے کی غرض سے انھوں نے بے حد بیباکانہ انداز میں ان موضوعات پر بھی مضامین لکھے جو خاصے بحث انگیز ثابت ہوئے۔ توہم، تعصب، اندھی تقلید، کورانہ پیروی کی انھوں نے نفی کی لیکن انھوں نے جب مغربی تعلیم کی پیروی کی تو ان کی سخت مخالفت ہوئی مگر سرسیّد دوراندیش، دوررس اور وسیع النظر انسان تھے۔ انھوں نے کبھی بھی کسی مخالفت کی ذرا بھی پروا نہیں کی۔ وہ ہمیشہ مستقبل کے بارے میںفکر مندرہتے تھے۔ عبدالحئی نے سرسیّد کی صحافت اور ان کی فکرپر زیر نظر کتاب میں بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ امید ہے سرسیّد کی صحافت کے حوالے سے یہ کتاب ایک اہم کتاب ثابت ہوگی۔ برادرم عبدالحئی کا علمی ذوق بیحد بالیدہ ہے۔ صحافت سے ان کی فطری وابستگی ہے۔ وہ عملی طور پر صحافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ صحافت کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں لیکن سرسیّد اور آج کے عہد میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ سرسیّد کے عہد میں اخلاقی قدروں، معاشرے کی اصلاح، اعلیٰ تعلیم پر جس قدر زور دیا جاتا تھا آج کا سماجی رویہ بالکل بدل چکا ہے۔ پرنٹ میڈیا سے کہیں زیادہ الیکٹرانک میڈیا اور بالخصوص مختلف ٹی وی چینلوں نے صحافت کے نام پر جو کھیل جاری کررکھا ہے وہ حدرجہ افسوسناک ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں عبدالحئی ان نکات پر بھی توجہ دیں گے۔‘‘
’اُردو صحافت اور سرسیّد احمد خاں‘ عبدالحئی کی اوّلین کاوش تھی مگر اس کو ملک گیر سطح پر سراہا گیا۔ مشہور ادبی رسالہ ’انتساب‘ میں ڈاکٹر غضنفر اقبال (گلبرگہ) نے اپنے پرمغز تبصرے میں لکھا:
’’عبدالحئی کا ایم فل کے لیے لکھا گیا مقالہ ’اُردو صحافت اور سرسیّد احمد خاں‘ کے زیر عنوان کتابی روپ اختیار کرچکا ہے۔اس مقالہ کو انھوں نے تین ابواب میں بانٹ دیا ہے۔ باب اوّل ’اُردو صحافت: تعریف و تاریخ‘ کے موضوع پر ہے۔ اس میں عبدالحئی نے صحافت کی تعریف اور تاریخ کو متعین کیا ہے۔ وہ یہ بات کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ ملک میں اُردو جاننے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو انگریزی، ہندی اور علاقائی اخبارات کا مطالعہ بڑے ہی اشتیاق سے کرتی ہے۔ ایسے قارئین کو چاہیے کہ وہ اُردو اخبارات کی طرف بھی نگاہ ڈالیں اور اس کو مطالعہ میں شامل کرلیں۔ جب ہی اُردو صحافت کا فروغ ممکن ہے۔ عبدالحئی لکھتے ہیںل اُردو صحافت کا مستقبل روشن ہے۔ اُردو زبان کی چاشنی اور شیرینی جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اُردو صحافت بھی اب انگریزی اور ہندی اخباروں کی طرح دنیا کی مختلف خبررساں ایجنسیوں سے خبریںلیتی ہے۔ (ص۵۶) ’سرسیّد احمد خاں کی صحافتی خدمات‘ کتاب کا باب دوم ہے۔ اس باب میں سرسیّد کی سوانح حیات مختصر ترین انداز میں پیش کی گئی ہے۔ یہ باب سرسیّد کی صحافت کا دورِ اوّل اور دور دوم، سائنٹفک سوسائٹی، اخبار سائنفک سوسائٹی، خبروں کا حصہ، اداریے اور مضامین جیسے ذیلی عنوانات سے عبارت ہے۔ ان عنوانات کے تحت سرسیّد احمد خاں اور صحافت کا بھرپور مطالعہ پیش ہے۔ اس باب میں ہماری نظر میں عبدالحئی کے مندرجہ ذیل لفظوں پر ٹھہر گئی: ایک کامیاب صحافی بننے کے لیے اس کا دولت مند ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ذہنی استعداد، سچی لگن اور حوصلہ مندی اسے ایک کامیاب صحافی بناتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ صحافت کا ایک مقصد ہو تبھی وہ اچھا، نڈر اور بے باک صحافی بن سکتا ہے۔ (ص۱۱۴) باب سوم ’وکی صحافت کا سنگ میل۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کے عنوان پر مبنی ہے۔ اس باب میں ’تہذیب الاخلاق‘ کے حوالے سے سرسیّد کی صحافت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ عبدالحئی نے یہ باب لکھنے کے لیے بڑی ہی تکالیف اُٹھائی ہوں گی۔ مصنف اس نتیجے پر پہنچتے ہیں: تہذیب الاخلاق اپنے مخالف اخبارات کے سامنے بھی عمدہ اور ثابت قدم صحافت کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ اس طرح سے ’تہذیب الاخلاق‘ کا ایک معیاری پرچہ کی فہرست میں سب سے پہلا مقام دیا جاسکتا ہے۔ (ص۱۷۸) اختتامیہ میں عبدالحئی نے کتاب کا حاصل بیان کیا ہے۔ ان کا احساس ہے کہ اُردو صحافت کو سرسیّد نے ایک نئی روشنی دی ہے اور ’تہذیب الاخلاق‘ کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ بالکل سچے اور جائز اصولوں اور مقصدی اور اصلاحی کام کو سامنے رکھ کر بھی صحافت پیشہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور مخالف ہواؤں کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ سرسیّد احمد خاں اُردو صحافت کا ایک اہم نام ہے جس کے بغیر اُردو صحافت کی تاریخ مکمل نہیں کی جاسکتی۔ عبدالحئی تیسرے ایسے شخص ہیں جنھوںنے اُردو صحافت ’تہذیب الاخلاق‘ اور سرسیّد احمد خاں کو مطالعہ خصوصی بنایا ہے۔ قبل ازیں پروفیسر اصغر عباس اور ڈاکٹر نفیس بانو کی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں، لیکن عبدالحئی کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں کتابیں انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور ’تہذیب الاخلاق‘ کا صرف تنقیدی مطالعہ پیش کرتی ہیں۔ ان کی کتاب میں اُردو صحافت اور سرسیّد احمد خاں کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے۔ برادرم عبدالحئی کی یہ کتاب ’سرسیّدیات‘ میں ایک اضافہ ہے۔‘‘ (انتساب، مارچ 2009ء)
عبدالحئی کی دوسری کتاب ’ادبی صحافت: آزادی کے بعد‘ گزشتہ سال 2015ء میں قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نے شائع کی ہے۔ یہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہی ہے جس میں ایک نوآموز لیکن باریک بیں محقق کے طور پر عبدالحئی کی پہچان بنی ہے۔ یہ آزادی کے بعد ہندوستان کی مجلہ جاتی صحافت کی مستند و معتبر دستاویز ہے۔ اس سے قبل اس موضوع پر ایسی مدلل کتاب منظرعام پر نہیں آئی۔ کتاب کے پیش لفظ میں کونسل کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کا یہ تعارف رسمی نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ ہے:
’’زیر نظر کتاب ادبی صحافت کا تعلق آزادی کے بعد ہندوستان میں صحافتی اقدارِ حیات سے ہے۔ شعبۂ صحافت کو یوں بھی جمہوری معاشرت کا رکن رابع کہا جاتا ہے۔ اس تناظر میں صحافت کی حیثیت عوامی نمائندہ اور اس کے اتالیق کی بنتی ہے جو بیک وقت جمہور کی ترجمان ہوتی ہے اور اس کی ذہنی و فکری رہنما بھی۔ رسائل و جرائد اخباری صحافت کی زائیدہ ہیں اور اخباری صحافت کی طرح بامعنی مہمات پر یہ کتاب اخباری صحافت کے برعکس آزادی کے بعد ہندوستان میں اُردو رسائل و جرائد کے صحافتی معیار، کردار اور نشوونما اور ان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بحث کرتی ہے۔ اس میں زبان، موضوعات، سماجی سروکار، ادبی سرگرمیوں، گٹ اَپ، مدتِ کار اور اشاعتی مسائل کے حوالے سے ہندوستان کے نمائندہ رسائل و جرائد کا مطالعہ کیا گیا ہے جن کے بین السطور میں اُردو زبان و ادب میں آنے والے افکار و نظریات، ادبی، سماجی رجحانات اور تحریکات کو بھی نشان زد کیا جاسکتاہے۔ اس سے ہمیں ہر عہد کے وسیع تر لسانی رویے، ذوق و شوق اور تقاضوں کا علم ہوتا ہے اور تقسیم ملک کے بعد زبان کی حیثیت سے اُردو کی جدوجہد سے متعلق سرگرمیوں سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔ رسائل و جرائد کے فنی محاکمے کے ضمن میں اُردو ادب، نیا دَور، ایوانِ اُردو اور ذہن جدید جیسے اُردو رسائل کی اداریہ نویسی اور ان کے ارتقائی مراحل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ یہ مطالعہ عہد حاضر کے اُردو جرائد کے اہم اور تاریخی اہمیت کے حامل ان خصوصی نمبروں کی دستاویزی معلومات اور ان کے محاسن و معائب کو کبھی سامنے لاتا ہے۔‘‘
خود صاحبِ کتاب عبدالحئی نے اپنی کاوش کی اہمیت اور معنویت کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے (کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حرف بحرف سچ لکھا ہے)
’’اُردو صحافت کی تاریخ کے تعلق سے کئی کتابیں نظر آتی ہیں، ان کتابوں میں ادبی صحافت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور رسائل و جرائد کا بھی ذکر ملتا ہے لیکن یہ کتابیں 1947ء تک کی صحافت کا مطالعہ پیش کرتی ہیں اور ان میں بھی رسائل کی صراحت کے تعلق سے کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کی گئی ہے۔ ان میں ایک اہم کتاب مولانا امداد صابری کی ’تاریخ صحافت اُردو‘ ہے جو پانچ جلدوں میں ہے۔ اس کے علاوہ ’ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں‘ 1865ء تک کی صحافت پر مبنی ہے۔ نادر علی خاں کی کتاب ’اُردو صحافت کی تاریخ‘ میں 1947ء سے پہلے تک کے اخبارات کا ذکر ملتا ہے۔ عبدالسلام خورشید کی کتاب ’صحافت پاکستان و ہند میں‘ بھی 1947ء سے پہلے تک کی ہی صحافت پر مختصر گفتگو کی گئی ہے۔ روشن آرا راؤ کی ’مجلاتی صحافت کے ادارتی مسائل‘ میں پاکستان میں مجلاتی صحافت کو درپیش مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ 1947ء کے بعد کی ادبی صحافت اور رسائل کی صحافت کے تعلق سے کوئی کتاب اب تک میری نظر سے نہیں گزری ہے۔ محمد شعیب رضا خاں کی کتاب ’آزادی کے بعد دہلی میں اُردو کے ادبی رسائل کا تنقیدی جائزہ‘ میں صرف دہلی سے جاری ہونے والے رسائل و جرائد کا ذکر موجود ہے۔‘‘ (پہلا لفظ،ص XIV-XV)
عبدالحئی کے اس دعوے کی تصدیق نامور صحافی سہیل انجم کے اس تبصرے سے بھی ہوتی ہے:
’’حالیہ چند برسوں میں اُردو صحافت کے موضوع پر متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں کئی صحافت کی تاریخ پر ہیں تو کئی صحافت کی تکنیک پر، کچھ ملے جلے موضوعات پر ہیں، کچھ ہم عصر صحافت کی صورتِ حال پر ہیں تو کچھ صحافیوں کی خدمات پر۔ بیشتر ایسے موضوعات پر ہیں جن میں پہلے سے کتابیں موجود ہیں لہٰذا ان کی تالیف میں کوئی دشواری نہ ہوئی ہوگی، جب کہ ان میں سے بعض کتابیں ایسے موضوعات پر لکھی گئی ہیں جن پر پہلے سے نہ تو کتابیں ہیں اور نہ ہی معاون مٹیریل، اس لیے ایسی کتابوں کو تصنیف کرنے میں مصنّفین کو خاصی دشواریوں سے گزرنا پڑا ہوگا۔ ان میں سے بعض کو اچھی اور بعض کو بہت اچھی کتابوں کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔ حال ہی میں ادبی صحافت کے موضوع پر ایک کتاب منظرعام پر آئی ہے جو دوسری کتابوں کا چربہ نہیں بلکہ خالص اوریجنل کتاب ہے۔ اس کا نام ’ادبی صحافت آزادی کے بعد‘ ہے۔ اگر ہم اس کتاب کو بہت اچھی کتابوں میں نہیں تو اچھی کتابوں کے زمرے میں ضرور رکھ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافت کے موضوع پر آنے والی کتابوں میں ایک منفرد شان رکھتی ہے۔ منفرد اس لیے کہ غالباً اس موضوع پر یہ پہلی کتاب ہے۔ ملکی سطح پر ادبی صحافت کی صورتِ حال پر اس سے قبل تحقیقی نظر نہیں ڈالی گئی ہے۔‘‘
(اُردو دنیا و دیگر جرائد)
نجی زندگی میں عبدالحئی اپنی عمر کے ان نوجوانوں سے مزاجاً یکسر مختلف ہیں جو اپنی حصولیابیوں کے غرور میں خود کو دوسروں سے الگ سمجھنے لگتے ہیں۔عبد الحیٔ انتہائی منکسر المزاج اور حلیم الطبع انسان ہیں۔ اپنے سینئرس کا بیحد احترام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھ سے عمر، تجربے اور فضیلت میں بڑے اصحاب اگر میری کسی غلطی پر ڈانٹ بھی دیں تو میں اس سختی کو اپنے سیکھنے کا وسیلہ بنا لیتا ہوں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ سبھی ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور صحافیوں سے سیکھتے رہتے ہیں۔ انکسار کا عالم یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کرلینے کے بعد بھی کبھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھا جب کہ آج کے علمی ادبی اشرافیہ کے لیے یہ لاحقہ طرۂ امتیاز سمجھا جاتا ہے اور اب جبکہ ادب و صحافت کے میدان میں پانچ سال گزرنے والے ہیں،عبدالحیٔ کہتے ہیں’’ہر دن کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں‘‘۔ یہ نیکی اور سعادت مندی کی علامت ہے اور اس کوچہ میں قدم رکھنے والی نوجوان نسل کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال بھی۔ ادب و صحافت کی شاہراہ پر ابھی تو انھیں بہت آگے جاناہے۔
\"13239260_10209581998611612_953982641708509472_n\"

پتہ:عبدالحئی
252، پیریار ہاسٹل
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی-110067
موبائل: 9899572095

Leave a Comment