اردو کو محض روزگار کے حصول کا ذریعہ نہ بنائیں۔پروفیسر خلیل طوقارترکی
دہلی۔جواہر لال نہرویونیورسٹی کے کنونیشن سینٹر میں دو روزہ انڑنیشنل سیمینارکا افتتاح ہوا۔افتتاحی تقریب میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے عہد حاضر کے ممتازنقاد اور دانشورپروفیسر عتیق اللہ نے بیسویں صدی کے اہم ادبی رجحانات کا جائزہ لیا۔اس افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی پاکستان کے مشہور فکشن رائٹر محمد حمید شاہد اور استنبول یونیورسٹی ترکی کے صدر شعبہ اردو پروفیسر خلیل طوق آرتھے۔اس اجلاس کی صدارت ماہر لسانیات پروفیسر نصیر احمد خان نے کی جبکہ خیر مقدمی کلمات چیر پرسن ہندوستانی زبانوں کا مرکز پروفیسر انورپاشانے ادا کیے ۔افتتاحی تقریب میں کئی ملکوں کے اردو اسکالر اور استاذہ نے شرکت کی ۔ترکی میں اردو کے استاد ڈاکٹر کارداش ذکائی اور ایران کی اسکالر ڈاکٹر وفا یزدان منش کے علاوہ جموں یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو پروفیسر شہاب عنایت ملک اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹرراشد انور راشداور بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالر نے شرکت کی ۔
پروفیسر عتیق اللہ نے سیمینارکے موضوع کے انتخاب کے لیے پروفیسر انور پاشا کو مبارک بادپیش کی ۔موضوع کی اہمیت کے پیش نظر پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے خطبہ میں دوروزہ سیمینارکے سمت ورفتار کا تعین کردیا۔انہوں نے بیسویں صدی کے ادب کا جائزہ پیش کرتے ہوئے تمام اصناف سخن کے حوالے سے گفتگو کی ۔اقبال کی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقبال کے سامنے غالب سب سے بڑا نام تھالیکن اقبال نے اپنی علاحدہ شناخت قائم کی ۔ ہر بڑے شاعر کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی صنف کو اسٹبلش کرتا ہے ۔
محمد حمید شاہد نے پاکستان میں اردو افسانہ نگاری کے حوالے سے گفتگو کی جبکہ ترکی سے تشریف لائے پروفیسر خلیل طوقار نے بڑے جذباتی انداز میں اردو زبان کی ترویج وترقی کے حوالے سے تقریر کی۔انہوں نے کہا کہ ہم ترکوں کی مادری زبان بھی اردو ہے کیونکہ خود لفظ اردو ترکی کا لفظ ہے۔انہوں نے ہندوستان میں اردو کے شیدائیوں سے اپیل کی کہ وہ اردو کو محض روزگار کے حصول کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ اردو سے ایک جذباتی اور محبت کا رشتہ قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔دنیا میں وہی قومیں زندہ قومیں کہلاتی ہیں جو اپنی مادری زبان کی حفاظت کر سکیں ۔جو قومیںاپنی مادری زبان کی حفاظت نہ کر سکیں وہ فنا ہوجاتی ہیں۔پروفیسر انورپاشا نے دوروزہ سمینارکی غرض وغایت پرروشنی ڈالتے ہوئے موضوع کی اہمیت کے حوالے سے کئی اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا۔افتتاحی تقریب کے صدر پروفیسر نصیر احمدخان نے ادب کے بجائے زبان کی اہمیت اور اسلوبیاتی مطالعے پرزور دیا۔انہوں نے مغربی نظریات اور مغربی دانشوروں کی طرف دیکھنے کے بجائے مشرقی شعریات اور مشرقی میزان نقد کو رواج دینے کی وکالت کی ۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق ڈائرکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام نے فردا فردا تمام مہمان گرامی کا شکریہ اد اکیااور بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالر س کی شمولیت کو خوش آئند قرار دیا ۔افتتاحی تقریب کی نظامت ڈاکٹرشفیع ایوب نے بحسن وخوبی انجام دیا ۔
لنچ کے بعد پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر شہاب عنایت ملک ،ڈاکٹررضا حید ر،پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین،ڈاکٹرمحمد توحید خان اورڈاکٹرشمس اقبال نے کی۔اس پہلے سیشن میں کل چار مقالے پیش کئے گئے ۔پہلا مقالہ ایران سے تشریف لائیں ڈاکٹر وفا یزان منش نے پیش کیا ۔انہوں بیسویں صد ی کی شاعری کے حوالے سے فیض احمدفیض کی شاعری میں سیاسی شعور کی نشان دہی کی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تشریف لائے جدید لب و لہجہ کے شاعر ڈاکٹر راشد انور راشد نے رجحانات اور تحریک کے حوالے سے غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ۔دیال سنگھ کالج،دہلی یونیوسٹی کے استاد ڈاکٹرمحمد ساجد اور ڈاکٹر ابوظہیر ربانی نے بھی اپنے اپنے مقالے پیش کئے۔شرکائے اجلاس کو بحث مباحثہ کا بھرپور موقع ملا۔مجلس صدارت کے رکن ڈاکٹر محمد توحید خان،ڈاکٹر شمس اقبال اور ڈاکٹر رضاحیدر نے شرکائے اجلاس کے بحث مباحثے کو بامعنی بنانے میں اہم رول ادا کیا ۔پروفیسر خواجہ محمد اکرام نے تمام مقالہ نگاروں کو تہنیت پیش کی اور امید ظاہر کی کہ یہ تمام مقالے جب کتابی شکل میں شائع ہونگے تو ریسرچ اسکالرس اور اردو ادب کے عام قارئین کے لیے بیحد کارآمد ثابت ہونگے۔ اپنی بے باک اور منفرد رائے کے لیے مشہور ممتاز نقاد پروفیسر شہاب عنایت ملک نے اس اجلاس میں پڑھے گئے مقالات پر سیر حاصل گفتگو کی ۔انہوں نے اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ اتنے پھیلے ہوئے موضوع کو مقالہ نگاروں نے ایک ایک عنوان کے تحت سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔اس قدر اہم موضوع کے انتخاب کے لیے انہوں نے پروفیسر انور پاشا اور پروفیسر خواجہ محمد اکرام کا شکریہ ادا کیا۔اس سیشن میں راشٹریہ سہارا کے ایڈیٹر ڈاکٹر نثار بھی موجود تھے ۔واضح ہو کہ یہ سیمینار ۱۶ فروری کو اسی تزک واحتشام کے ساتھ شروع ہوگا۔