٭ڈاکٹر محمد امان اللہ
لیکچرر،گورنمنٹ جبلی انٹر کالج، گورکھپور، اتر پردیش
ناول کا اولین اور بنیادی مقصد اپنے زمانے کے سماجی اور سیاسی حالات اور مختلف مسائل کی پیش کش ہے۔ اردو کے پہلے ناول نگار نذیر احمد سے لے کر دورِ جدید تک کے کئی ناول نگاروں نے اردو ناول میں حقیقت نگاری کے موضوعات، مواد اور اسلوب کی سطح پر کئی اہم تجربے کئے۔ ناول کی تاریخ شاہد ہے کہ بدلتے وقت اور حالات کے مناسبت سے کئی تکنیک اور مختلف انداز بیان کے تجربے کئے گئے۔
برصغیر کی تقسیم اور ہندوستان کی آزادی نے شاعروں اور ادیبوں کو نیا موضوع اور نیا مواد فراہم کیا۔ کوئی بھی ادیب یا شاعر کسی بڑے واقعے سے ضرور متاثر ہوتا ہے اور اس واقعے یا حادثے کا عکس اس کی تحریر میں ہمیں صاف طور پر نظر آتا ہے چاہے وہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ہو، کسانوں اور غریبوں کے مسائل ہوں۔ شام اودھ کی رنگینیاں ہوں، فسادات کا اثر یا ہجرت کا کرب ہو۔
1960 کے بعد کے بیشتر ناول کے موضوعات زوال آمادہ جاگیردارانہ انگریزی سامراجیت، سماجی مسائل اور ملک میں طبقاتی کشمکش کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان ناولوں میں ہندوستانی طرز معاشرت کی عکاسی کے ساتھ ساتھ جاگیردارانہ نظام کے خلاف بلند کی گئی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ جوگندرپال ایک ایسے ناول نگار ہیں جنہوں نے برصغیر کو تقسیم ہوتے ہوئے بڑے قریب سے دیکھا تھا اور کہیں نہ کہیں اس کرب کا شکار بھی ہوئے تھے۔ ان کے شعور کا یہ کرب ان کے افسانوں و ناولوں کے ساتھ ساتھ ان کے تحریر کئے گئے سفرناموں میں بھی نظر آتا ہے۔ برصغیر کی تقسیم اور ہجرت جیسے موضوعات نے ناول نگاری کے کینوس کو نہایت وسیع کردیا۔
جوگندرپال کا ادبی سفر تقریباً پچاس سالوں پر محیط ہے۔ اس سفر میں انہوں نے افسانے، افسانچے، ناول اور ناولٹ لکھے۔ ان کا پہلا ناول ایک بوند لہو کی1963 میں شائع ہوا۔ ان کا دوسرا ناول ’نادید‘ 1983 میں شائع ہوا۔ ان کا تیسرا ناول’ خواب رو‘ 1991 میں شائع ہوا۔ چوتھا ناول’ پارپرے‘ 2004 میں منظر عام پر آیا۔
موجودہ دور میں اردو دنیا کے لئے جوگندرپال کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔ پال اردو کے حساس فنکار اور سنجیدہ تخلیق کارتھے۔ موصوف اپنی فکر و نظر سے ہی اردو ادب میں پہچانے جاتے رہے ہیں۔ اردو ناول نگاری کی دنیا میں جوگندرپال کا اپنا ایک مخصوص اور منفرد اسلوب بیان ہے جوان کی شخصیت کی آئینہ داری کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے ہم عصر ناول نگاروں کی روایتی روش سے ہٹ کر اردو ناول کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ پال نے جہاں مشرقی تہذیب و کلچر کی روح کو توانائی عطا کی وہیں دوسری طرف مغربی ادب سے صحت مند استفادے کے عمل کو بھی پروان چڑھایا۔
’’نادید‘‘ میں جوگندرپال نے اندھے پن کو موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے اندھوں کی مدد سے ہم آنکھ والوں کی منافقت اور موقع پرستی کو بڑی خوبصورتی سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
جوگندرپال کے ناول ’’خواب رو‘‘ میں دو نسلوں کی تہذیب و تمدن کی باہمی آمیزش کو فلسفیانہ طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ’’خواب رو‘‘ میں لکھنؤ سے آئے ہوئے مہاجروں کے ذہنی رویوں ،جذبوں، ثقافتی قدروں تہذیبی المیوں کو ایک مضبوط بیانیہ میں نہایت ہی فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مہاجروں کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کی فکر و نظر، معاشرتی رویوں اور اقتصادی و تمدنی صورتحال کی بہترین اور دلچسپ عکاسی کی گئی ہے۔طبقاتی آویزش، لسانی امتیازات، سرمایہ داری و غریبی اور غلط فہمی ، یہ تمام پہلو اس ناول کے کرداروں کی ذات سے عیاں ہیں۔ اس ناول کا عنوان ’’خواب رو‘‘ بجائے خود اس بات کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے کہ اصل چیز خواب اور اس کی روانی ہے۔
’’پارپرے‘‘ کے ناول نویس نے بحر ہند میںواقع جزیرہ انڈمان نکوبار کے سیلولر جیل کو موضوع فکر بنایا ہے۔ نیز مصنف نے یہاں ’’پارپرے‘‘ کے تناظر میں موجودہ دور کے ہندوستان کی سماجی و معاشرتی، سیاسی، تہذیبی و تمدنی، فرقہ پرستی، قومی یک جہتی اور عصری حسیت جیسے متعدد مسائل حیات کو زیربحث لایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناول ’’پارپرے‘‘ کو فکر و آگہی کا منظر نامہ کہاجائے تو شاید بے جانہ ہوگا۔ ناول ’’پارپرے‘‘ کی کہانی کا تانا بانہ لالوبابا اور گوراں چاچی کی زندگی کے سیاق و سباق میں تیار کیا گیا ہے۔
’’پارپرے‘‘ کا پلاٹ بالکل مربوط اور گٹھا ہوا تو نہیں ہے بلکہ پلاٹ قدرے ڈھیلا اور سادہ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ واقعات کی پیش کش منطقی ربط و تسلسل سے عبارت ہے۔ ناول کے آغاز سے ہی ہمیں لالوبابا نظر آتا ہے اور کہانی کا تانا بانہ اسی کے ارد گرد گھومتا ہے۔ مگر کتاب نمبر2 کے چھٹے، ساتویں اور آٹھویں حصے میں لالو غائب رہا ہے۔ مصنف نے ناول کے پلاٹ میں دوسرے (Freedom Fighters) کے نام بھی شامل کرلئے ہوتے تو ناول کا کینوس اور وسیع ہوجاتا۔ تاہم فنی ارتباط اور منطقی ہم آہنگی اور واقعات کی ترتیب و تنظیم میں ہنرمندی کی موجودگی سے اس ناول کے پلاٹ کو کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ جوگندرپال کی کردار نگاری کا ایک بڑا کمال یہ بھی ہے کہ ان کے کردار جمود و تعطل اور یکسانیت کا بھی شکار نہیں ہوئے بلکہ وہ سب اپنی انفرادی شخصیت رکھتے ہیں۔ اور انکی نشو و نما فطری انداز میں ہوتی ہے۔یہی خصوصیات ’’پارپرے‘‘ کے کرداروں میں بھی نظر آتی ہے۔
جوگندرپال مکالمے کے اسرار رموز سے واقف ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے مکالمے فطری مختصر اور چست ہوتے ہیں۔ وہ موقع محل اور صورت حال کے مطابق مکالمے، تشکیل دیتے ہیں۔ ان کی مکالمہ نگاری کا ایک کمال یہ ہے کہ وہ جابجا ادھورے جملے سے کام لیتے ہیں اور بھرپور تاثر بھی ابھرتا ہے۔ انہوں نے سماجی سیاسی، جذباتی اور ذہنی پس منظر کو چست اور برجستہ مکالموںکے توسط سے پیش کردیا ہے۔ ان مکالموں کے تعلق سے ناول نگاری کی بہتر فن کاری کا اظہار ہوتا ہے۔
منظر نگاری میں بھی ان کا جواب نہیں۔ جس طرح فن ڈراما میں مناظر پیش کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح انہوںنے پہلی بار تصویروں کے ساتھ اپنے ناول میں منظر پیش کرنے کا ایک نیا تجربہ کیا۔ ایسی تصویروں سے جو صورتحال پیش کی، وہ حقائق سے بہت قریب ہیں اور قاری کو زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ انہوں نے منظر نگاری کے توسط سے ناول ’’پارپرے‘‘ کو پراثر بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ منظر نگاری میں انہوں نے اپنے تخلیقی جوہر کو بروئے کار لاکر ماحول کی تصویریں اتارنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کے پراثر طرز تحریر سے ’’پارپرے‘‘ کے مناظر جیتی جاگتی تصویر بن گئے ہیں۔ انہوں نے پورٹ بلیئر کے فطری مناظر کا بیان بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔ منظر نگاری کے نئے تجربے سے پا ل کے اس فن پارے کو کامیاب ناول قرار دیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک زبان کا تعلق ہے۔ ان کے یہاں تکلف اور تصنع کا عنصر نہیں ملتا۔ بلکہ انہوں نے ہلکی پھلکی تہہ دار زبان استعمال کی ہے۔’’پارپرے‘‘ میں انہوں نے موضوع اور کردار کی نوعیت کے لحاظ سے پنجابی، ہندی اور اردو کے علاوہ عام فہم اور روز مرہ کی زبان کا استعمال کیا ہے۔ اس ناول میں انہوں نے فلیش بیک اور خود کلامی (Sololiqui) کی تکنیک کا استعمال ہنرمندی سے کیا ہے۔ پال نے اس ناول میں خود کلامی اور بیانیہ تکنیک کے ذریعہ کرداروں کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت اس طرح سے بیان کی ہے کہ موجودہ دور کی خوفناک اور بدصورت تصاویر ہماری نظروں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں۔ جس طرح کی پیکر تراشی سے یہاں ناول نگار نے کام لیا ہے ان کی زبان میں کہیں پیچیدگی یا ژولیدگی کا احساس نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی ہر موڑ پر صورت حال کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا اسلوب اختیار کیا ہے۔ جوگندرپال کو زبان کے استعمال پر دسترس حاصل ہے۔ زبان میںتہد اری جس قدر موصوف کے فن پر نظر آتی ہے ایسی خوبی بہت کم ادیبوں کے یہاں ملتی ہے۔
بلاشبہ فکر و فن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کی تخلیقی کاوشوں کو اعلیٰ معیار کی حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔ خود شناسی اور حقیقت کی تلاش ، جوگندرپال کے تخلیقی عمل کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ جوگندرپال کے تقریباً سبھی اہم ناول جہاں اپنی مخصوص سماجی تہذیبی پس منظر کے نمائندہ ہیں وہیں وسیع تر انسانی امکانات کو بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔
جوگندرپال نے اپنے اس زندہ رہنے والے ناول میں ایک ایسی صورت حال کو بند آنکھوں سے دیکھ لیاہے جو یہاں کے لوگوںکو کھلی آنکھوں سے بھی نظر نہیں آئی تھی۔ ایک اعلیٰ تخلیق کار کا یہی کمال ہے کہ وہ حقیقت کے کنویں میں جھانکنے پر قادر ہوتا ہے۔ ایک دنیا کے غروب اور دوسری دنیا کے طلوع ہونے کا عین درمیان’’ہونے اور نہ ہونے‘‘ کا جو عالم ایک عام شخص کی گرفت میں آنے سے گریزاں ہوتا ہے۔ جوگندرپال نے فاصلے پر ہونے کے باوجود اسے اتنے قریب سے دیکھ لیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک گتھی ہوئی کہانی ہے جس کی بنت کاری میں جوگندر پال نے اپنی ہنرمندی کا بھرپور احساس دلایا۔
ہجرت کے موضوع پر لکھی گئی اکثر اردوکہانیاں اور ناول بند گلی کا سامنظر پیش کرتے ہیں جس میں ہر شے رکی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر جوگندرپال کہانی کی طرفوں کو کھلا رکھنا جانتے ہیں۔خواب رو کے دیوانے مولوی صاحب کی جنت جب حقیقت سے ٹکراکر پاش پاش ہوتی ہے تو وہ اس جنت کو بڑے پیار سے اٹھاکر اپنے خوابوں کی دھرتی پر سجالتیے ہیں۔ گویا وہ ر کتے نہیں ہیں بلکہ ہمہ وقت بننے اور بگڑنے کے عالم میں رہتے ہیں۔ کہانی کی بنت کاری اس ہنرمندی سے کی گئی ہے کہ اس میں جابجاGapsاور Rupturesنمودار ہوگئے ہیں، بے شمار امکانات ابھر آئے ہیں اور سمتیں وجود میں آگئی ہیں۔ اب اس صورت حال میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو یہ اردو کا ایک انوکھا ناول ہے جس نے تبدیل کو اپنا موضوع بنایا ہے نہ کہ ایک ٹھہری ہوئی صورت حال کو۔ دیوانے مولوی صاحب لکھنؤ سے اکھڑے تو انہوں نے کراچی کو لکھنؤ بنالیا۔ کراچی کا یہ لکھنؤ پاش پاش ہوا تو انہوںنے اسے اپنے خوابوں میں بسالیا اور ایک نئے سفر کی تیاری کرنے لگے مگر وہ اپنے ہی خواب کے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند نہیںہوئے وہ اس سفر میں سلیم اور ثریا کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں جو درحقیقت مستقبل کے چراغ ہیں۔ امکان اس بات کا ہے کہ وہ انہیں تاریک راہوں میں زیادہ وقت تک بھٹکنے نہیں دیں گے بلکہ خواب کی جنت سے نکال کر ہمہ وقت تبدیل ہوتی اس دنیا میں واپس لے آئیں گے جس کے اپنے خواب ہیں۔ اس ناول کا عنوان خواب رو بجائے خود اس بات کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے کہ اصل چیز خواب اور اس کی روانی ہے۔ خواب نہ ہوتو تعبیر کس کی ہوگی۔ بلیوپرنٹ ذہن کے افق پر نمودار ہوگا تو لفظوں، رنگوں، صورتوں اور عمارتوں میں ڈھلے گا۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو خواب رو کے دیوانے مولوی صاحب خواب کے سیل رواں کی سطح پر بہنے والا ایک کردار ہیں نہ کہ ’’بندگلی‘‘ کے کیچڑوں میں رکی ہوئی کاغذکی ایک نائو!
مجموعی طور پر جوگندرپال کا اسلوب سادگی سے عبارت ہے۔ سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ پرکاری بھی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ ان کی تحریر عمدہ ہے اور قاری اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔میرے اپنے خیال سے جوگندرپال نے اس ناول میں ہندوستان اور یہاں کے عوام کی سچی منظر کشی کی ہے۔ ہمیں پڑھتے ہوئے ایسا احساس ہوتا ہے جیسے ہم بھی انڈمان کی سیلولر جیل کا حصہ ہیں اور ہمارے درمیان بھی بابالالو اور گوراں چاچی موجود ہیں۔ بلاشبہ جوگندرپال کا یہ ناول اردو ادب میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔