حسن کا ظمی کا رنگ تغزل

\"\"
٭ڈاکٹر زیبا محمود
ایسو سی ایٹ پروفیسر،شعبہ اردو
گنپت سہائے پی جی کالج،سلطانپور یو پی۔
Email:dr.zebamahmood@gmail.com
\"\"
اردو کی تمام شعری اصناف کا تعلق مختلف ذہنی کیفیات اور انسانی رویوں سے ہے اورجمالیاتی کیفیت کا بہترین اظہارغزل ہے۔اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
کوئی دل کشا صدا ہوعجمی ہو یا کہ تازی
غزل کی زبان میں جس دل کشا صدا کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے وہ غزل کا جمالیاتی پہلو ہی ہے جسے الفاظ کے انتخاب کے حسین ترین پیکر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔در اصل الفاظ کا انتخاب ہی فضا آفرینی پیدا کرتا ہے اور جمالیاتی اظہار کے لئے فضا آفرینی نا گزیر ہے۔عصر حاضر میں غزل کی آفاقیت اور جمالیاتی ہمہ گیری سے شائد ہی کسی کو انکار ہو۔غزل زندگی کاوہ آئینہ ہے جس میں ہماری تہذیب و ثقافت کی عکس ریزی ہوتی ہے۔اردو شاعری میں غزل بقول ناوک حمزہ پوری ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔خلیل الرحمان اعظمی نے غزل کے حوالے سے اپنے گراں قدر مضمون ’’جدید غزل‘‘ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:
’’معیاری غزل کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ اپنے زمانے کی روح سے ہم آہنگ ہونے کے سبب ایک نوع کی تازگی رکھتی ہو۔اپنے زمانے کے حصار میں محصور نہ ہو ۔کلا سیکی غزل سے اس کی وابستگی کسی نہ کسی حد تک ضروری ہے۔اس کا باطن اس دائمی اور آفاقی روح سے ہم آہنگ ہو جو شاعری کو دیر پا اور مستقل حیثیت کا حامل بناتاہے تو نئی غزل کی حیثیت سے بھی وہ معتبر سمجھی جائے گی ‘‘غزل کی ریزہ خیالی خود میں ہزار شیوگی کے عناصر رکھتی ہے اور لفظوں کے دام، منظروں کے خو ش رنگ پرندوں کو قید کرنا اس کا ایک حصہ ہے ۔ریزہ خیالی ایک مستقل کام ہے اس کو گرفت میں لینا ہی شاعر کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بہر حال غزل تمام اصنا ف میں بالا تر ہے لیکن اس عمیق و بسیط سمندر میں کچھ شناوروں نے اتر کر اپنی فتح کے پرچم لہرائے ہیں ان میں حسن کاظمی کو بھی ممتازحیثیت حاصل ہے۔
حسن کا ظمی کی غزلوں کا کینو س سوز و ساز و دردو داغ و جستجو و آرزو کا حسین مرکب ہے ۔ ان کی غزل کا یہ اعجاز ہے کہ ان کے شعری افکار میں وسعت قلب کا مظاہرہ ہوتا ہے۔انھوں نے دیدہ وری کے ساتھ وادیٔ خیال میں ہر طرح کے گل بوٹے کھلائے ہیں۔آپ صاحب دل ہیں اور قدم قدم پر احساسات و جذبات کی حرمت ضائع ہونے نہیں دیتے۔ خندہ پیشانی کے ساتھ واقعات و حادثات کے پل صراط سے کامیابی کے ساتھ گذرتے ہیں۔ ان کی غزل میں الفاظ کا رقص شرر ہی نہیں بلکہ خیال کے گداز سے لبریز ایک پر لطف کیفیت بھی ہے جس کا اثر دیر پا ہے۔بقول مجاور حسین رضوی:۔
’’کہا جاتا ہے کہ اگر کسی نے ایک شعر بھی ایسا کہہ دیا جس سے جذبات پاکیزہ ہوئے ،قلب و نظر کو آگہی ملی تو وہ کامیاب غزل گو ہے‘‘
ہندوستان میں ایسے بے شمارشہر ہیںجو اردو شعر و ادب کے گہوارہ کے طورپر یاد کئے جاتے ہیں لکھنؤ بھی ماضی تا حال اردوشعر و ادب کی آبیاری میں اردو کے دوسرے گہواروں سے کم نہیں رہا ہے۔یہ وہ شہر ہے جہاں ایک سے بڑھ کر ایک شعرا و ادیب نیزادب نواز پیداہوئے ۔یہ شہراپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر ایک آفاق گیر شہرت رکھتا ہے۔لکھنؤ کے قدیم و جدید شعرا کی فہرست میں چند نام جو ذہن کے دریچوں پر دستک دیتے ہیں ان میں ایک نام حسن کاظمی کا بھی ہے جو فکری اور فنی مہارت کے بل بوتے پر عوام وخواص میں ہر دل عزیز ہیں ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق انھوں نے اس صحرا نوردی میں تین دہائیوں سے بھی زیادہ وقت صرف کیا ہے اور تا حال شعری فن پارے پیش کرنے کا سلسلہ اسی انہماک کے ساتھ جاری و ساری ہے۔حسن کا ظمی نہ تو کسی کے تتبع میں اور نہ اردو شاعری کے ارتقائی عمل کے کسی مخصوص مرحلے کی پیداوار ہیں ان کا اپنا لہجہ ہے اور اپنا اسلوب:
غالب سے فکر لیجئے اقبال سے خیال
لہجے میں آب و تاب مگرلکھنوی رہے
چھائی ہوئی ہے ذہن پہ شام اودھ کی یاد
راس آئے کیسے دلی کی آب و ہوا مجھے
حسن کاظمی کی شاعرانہ شخصیت اور شاعرانہ فکر دونوں کی خوب دھوم ہے۔حسن کا ظمی کی شاعری فکری عمل کے زیر اثر حالات و حادثات واقعات و سانحات کی مکمل تصویر کشی پیش کرتی ہے۔در اصل ان کی شاعری روایت کے دھاروں میں پیوست جدت کی خوش رنگ لہروں سے لبریز ہے۔ یعنی روایت نئے پیرہن کے ساتھ جلوہ پاشی کرتی نظر آتی ہے۔غزل کی آبرو کو اس طرح الفاط کا جامہ پہناتے ہیں:
ذرا الفاظ میں شائستگی سی
ادب آثار ہے لہجہ غزل کا
برتنا اس کا آساں بھی نہیں ہے
بہت خوددار ہے لہجہ غزل کا
پڑھا جب میر صاحب کو تو سمجھا
حسنؔ تلوار ہے لہجہ غزل کا
حسن کاظمی کے شعری فن پارے طرفگیٔ خیالات سے مزین ہیں۔وہ فن میں رمزیت،معنویت،جمالیاتی اقدار ،ابدی و آفاقی حقیقتوں کو برتنے کے لئے زندگی کی کشمکش اور تضادات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔اور جو کچھ ان کے مشاہدے میں آتا ہے اسے ہی وہ اپنے شعری پیکر میں اتار دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے شعر معنی خیز،خیال انگیز اور صداقت آمیز ہوتے ہیں:َ
ہم نہ شاعر نہ فنکار ہیں ،ہاں مگر بات اتنی سی ہے
جو بھی محسوس کرتے ہیں ہم ،ڈھال دیتے ہیں نغمات میں
حسن کاظمی کے اشعار میں حیرت انگیز جلووں کی فراوانی ہے الفاظ نرم سلیس اور سادہ ہیں لیکن ان کی تہہ میں شدت احساس جوش اور درد کی تمازت چھپی ہوئی ہے۔الفاظ ایک قوت ہیں جو تہذیبی اور انسانی رشتوں میں ربط و ضبط پیدا کرنے کا موثر رول اداکرتے ہیں اور یہی نہیں الفاظ ذاتی اور شخصی احساسات سے بھی منسلک ہوتے ہیں ۔جدید فضا میںطلسمی و رسمی اور مہمل قسم کے الفاظ سے انھوں نے گریز کیا ہے۔انھیں نازک اور نرم الفاظ کے استعمال میں مہارت حاصل ہے جو ان کے شاعرانہ مزاج ،احساس کی ندرت اور نرم روی کا پتہ دیتے ہیں :
میں کیا بتاؤں ہم نفسو تم سے حال دل
میری وفانے کر دیا بے دست و پا مجھے
جانے مرے گناہ میں کیسی ہے سادگی
زاہد سمجھ رہا ہے ابھی پارسا مجھے
موصوف کے کلام میں درد کی شدت اور بیان کی گھلاوٹ اس قدر زیادہ پائی جاتی ہے کہ اس نے گفتگو کا پیرایہ اختیار کر لیا ہے وہ گفتگو کی نزاکتوں ذہنی اور وجدانی رشتوں سے واقف ہیں یہی سبب ہے کہ انھوں نے گفتگو کوفن سمجھااور اسے برتنے کی فنکارانہ کوشش بھی کی :
یہ جو لفظ و نغمہ کا کھیل ہے،یہ عجیب ڈھنگ کا میل ہے
مجھے درد ہے کسی اور کا ،مری شاعری کہیں اور ہے
وہ ملا نہ مجھ کو کہیں حسنؔ،ہے تلاش جس کی چمن چمن
کوئی آستاں ہے مرا نشاں،مری بندگی کہیںاور ہے
ان کے اشعار کا مطالعہ اس امر کا غماز ہے کہ جن اسباب وحالات اور معاشرتی ماحول کے اندر رہ کر انھوں نے اپنی شخصیت کی تعمیر کی ہے وہ رنگارنگ اورپر تنوع ہے۔انھیں اس بات کا احساس ہے کہ بیانیہ لب و لہجہ کے لئے جذبہ ٔو خیال کا فی اہمیت رکھتے ہیں؛
شہرتیں،عظمتیں،چاہتیں،ذلتیں اور رسوائیاں
لمحہ لمحہ مری زندگی رنگ کتنے بدلتی رہی
زندگی ہے حباب سے نازک
اس قدر زندگی سے پیار نہ کر
آئینہ احساس میں پیکر نہیں ہوتا
ہر منظردل کا پس منظرنہیں ہوتا
بقول پروفیسرشہر یار’’حسن کاظمی کی غزلوں میں ان کی تخلیقی صلاحتیں اپنی حقیقی شکل میں نمو د پذیر ہوئی ہیں۔ان کی غزلوں میں وہ برجستگی اور صفائی ہے جیسے دریا کا شفاف پانی یکساں رفتار کے ساتھ لہریں لے رہا ہو۔لکھنؤ کا لہجہ اور مزاج میں انکساری یہی وہ صفات ہیں جو شعر میں موسیقی کا سا آہنگ پیداکرتی ہیں‘‘
(خوبصو رت ہیں آنکھیں تری از حسن کاظمی)
حسن کا ظمی کی شاعری میں جو معنوی خوبیاںپائی جاتی ہیں ان میں صداقت اور اصلیت کا حسن زیادہ واضح دکھائی دیتا ہے انھوں نے جو خیال نظم کرنے کی کوشش کی ہے اس میں یہی کوشش کار فرما رہی ہے کہ ہر شعر کی شعریت قائم رہے اور خیال دور از کار نہ معلوم ہوں۔زندگی کا فلسفہ ہو یا غم کی کہانی ہو خوشی کی داستان ہو یا حال کا مرثیہ ۔ہر جگہ یہی خیال پیش نظر رکھا۔اس لئے ان کی شاعری میں رفعت خیال اور باریکی خیال جیسی معنوی خوبیاںموجود ہیں:
اس کی ضد میری خودداریاں دونوں اپنی جگہ کم نہ تھے
پھر بھی چاہت کے جذبات کی دھوپ میں برف گلتی رہی
بھیگی بھیگی سی تنہائیاں جب مہکتی ہیں برسات میں
رقص کرتا ہے یہ دل مرا تیری یادوں کی بارات میں
حسن ؔکاظمی نے لفظی و معنوی حسن پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ ہی آہنگ پر بھی نظر رکھی ہے جو خیال اور الفاظ سے مربوط ہیں۔لوازمات شعری فکری کائنات کو ابھار رہی ہے اور فطری بہاؤ نے غزل کے ہر شعر کو منفرد معنی و مفہوم سے ہم آہنگ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شعر میں موسیقی اور نغمگی کا عنصر نمایاں ہے۔موزوں اور مترنم بحروںکے استعمال نے موسیقیت اور نغمگی میں دلآویزی اور اثر آفرینی پیدا ہوئی ہے :
ان کی زندگی سنور گئی
تیرے در پہ جو مچل گئے
لغزشیں تھیں دل نشیں مگر
؎شکر ہے کہ ہم سنبھل گئے
نہ آہیں روک پائے ہم نہ آنسو
ندامت پر ندامت ہو رہی ہے
حسن کاظمی شاعری کے خوشگوار اور پر اثر لذت سے معموراس راستے پر گامزن ہیں جہاں حسن کی آمیزش ذہنی الجھنوں کو سکون،دائمی کشمکش سے نجات حاصل ہو جاتی ہے۔اور جذبات و احساسات کی بھر پور ترجمانی بھی۔اور یہی وجہ ہے کہ انکی عوام میں مقبولیت کابہت بڑا ذریعہ بنی۔
مجھے وفا کے قرینے اگر نہیں آتے
تم آنکھ سے میرے دل میں اتر نہیں جاتے
ہر ایک بزم میں سیراب ہو رہا ہے مگر
تری نگاہوں کے ساغر ادھر نہیں اآتے
در اصل آپ کے شعری فطانت کی مزاج سے ہم آہنگی آپ کی جذباتی دنیا کی مصوری کو اور زیادہ پر کیف بناتی ہے اور اس مصوری نے جلوت و خلوت دونو ں میں ان کے مزاج کا ساتھ دیا ہے۔عشقیہ شاعری کے پردے میں عصر حاضر کے نا معلوم کتنے مخفی کروٹوں کے اشارے ملتے ہیں،مندرجہ ذیل اشعار کی مدد سے یہ بات آسانی سے دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہے کہ ان غزلوںمیں فکر انگیز خیالات اور جذباتی پہلو کا کتنا عمیق اور گہرا امتزاج ہے۔
ہم نشیں تجھ سے خاص نسبت ہے
میرے تقدیر کے ستارے کو
میری تقدیر میں تھی محرومی
کس نے روکا ہے جانے والے کو
منزل کا گماں کیسا منزل پہ قدم ہوگا
دیوانے محبت کی وہ راہ نکالیں گے
اس طرح نہ جانے کتنی خواہشوں آرزووں اور مسرتوںکی دبی چنگاریاں ان کے کلام میں جلوہ فگن ہیں۔ہر انسان اس خواب کو اپنے حقیقی ز ندگی کا ایک پر کیف لمحہ تسلیم کرتے ہوئے خود کو انہیں تصورات میں جذب کر لیتا ہے اس طرح محبت کے جذبات کی مصوری اور قلبی واردات کے اظہار میں آپ کو ید طولی حاصل ہے،ان کے یہاں حزن و یاس کے پہلو کے ساتھ ساتھ نشاط و امید کے دلکش دھاروںکا امتزاج ان کے نئے تعمیری ذہن کی نشان دہی کرتا ہے
جب فکر کے سانچے میں جذبات کو ڈھالیں گے
الفاظ سے ہم تیری تصویر بنا لیں گے
اس دور کی امیدیں بوسیدہ عمارت ہیں
گرتی ہوئی دیواریں ہم کیسے سنبھالیں گئے
جدیدیت کے علم بردار ندا فاضلی ان کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’ حسن کاظمی خوش گوار اور خوش فکر شاعر ہیں ان کی شاعری کو سنتے اور پڑھتے ہوئے غالب کا ہم عصر شاعر مومن خاں مومن کا شعر یاد آتا ہے
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
شعر اور اس کی ادائیگی دونوں میں کافی فرق ہے۔بہت کم شاعر ایسے ہوتے ہیں جو شاعری اور ادائیگی کے فاصلوں کو کم کر دیتے ہیں۔ان فاصلوں کو کم کرنے والے جو چند شعرا ہیں ان میں نوجوان شاعر حسن کاظمی کا نام بھی اہم ہے‘‘
(خوبصورت ہیں آنکھیں تری از حسن کاظمی)
شاعر اور ادیب کا ذہن جتنا زیادہ گہرا اور وسیع ہو گا اس میں عالم انسانی کے دکھ درد سے متاثر ہونے کا جذبہ جس شدت سے بے قرار ہو گا اتنا ہی زیادہ اس کی شعری دنیا بھی وسعت و گہرائی سے متاثر ہوتی جائے گی اور دائرہ فن وسعت و عظمت کی قبا میں بے شمار مظاہر میں جلوہ افروز ہو تا جائے گا ۔
عمل سے دور ہے کردار انساں
مگر بد نام قسمت ہو رہی ہے
ہے دیر برہمن کا مولوی حرم کا ہے
کوئی ہمیں بتائے کہاں آدمی رہے
ان کے بارے میں بھی حسن سوچو
جو ہیں محتاج دانے دانے کو
مندرجہ بالا اشعار اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ غزل محض زلف رخ جاناں تک کے موضوعات میں اسیر و پابند نہیں رہتی بلکہ شاعر کی فنی صلاحیت اور ذہنی وسعت اسے اپنے ذوق ر جحان کے مطابق موڑ سکتی ہے
حسن کاظمی نے دانستہ ابہام گوئی سے احتراز کیا ہے۔انھوں نے اپنی غزلوں کے لئے نازک الفاظ کا استعمال اس طرح کیا ہے کہ ان کی غزلوں میں گیت پن محسوس کیا جا سکتا ہے مثلاً خیال،لمس،رنگ ،لمحہ،جیسے الفاظ کا استعمال ان کے شاعرانہ مزاج احساس کی ندرت اور نرم روی کا پتہ دیتی ہے۔ان کی تراکیب پر کسی مصور کے بار کمال کا دھوکہ ہوتا ہے،حسین ترکیبوں ،استعاروں اور تشیہوں نے اسالیب بیان میں جدت پیدا کی ہے ۔بعض ترکیب نہایت خوبصورت اور جامع ہیں:
خوبصورت ہیں آنکھیں تری رات کو جاگنا چھوڑنا دے
خود بخود نیند آ جائے گی تو مجھے سوچنا چھوڑ دے
اسے کس کس کی مثال دوں وہ سبھی مثالوں سے ہے فزوں
نہ وہ پھول ہے نہ وہ رنگ ہے نہ وہ چاندنی کوئی اور ہے
تری کھڑکیوں سے لچک کے جو تجھے روز صبح چھوا کرے
وہ کسی نگاہ کی بیل ہے کہ وہ شاخ ہی کوئی اور ہے
الغرض حسن کاظمی کی شاعری میں معنوی خوبیاں موجزن ہیں ان میں صداقت اور اصلیت کا حسن زیادہ واضح طورپر دکھائی دیتا ہے انھوںنے کسی منظر یا حالت یا واقعہ کا بیان لفظ و معنی کے توسط سے پیش کیا ہے کہ سامع اسے زندہ حقیقت تسلیم کرنے میں مجبورہو جاتا ہے اور اس کے سامنے ایک تصویر کھینچ جاتی ہے۔ان کا یہ فن محاکات کے درجہ پر فائز دکھائی دیتا ہے۔ان کا فطرت کا گہرا مطالعہ اور گردوپیش کا وسیع مشاہدہ اور اس کا احترام انکا مطمح نظر ہے اور یہی نظریہ ان کی شاعری میں بھی جاری و ساری ہے۔حسن کاظمی کے کلام سے جو جمالیاتی نشاط حاصل ہوتا ہے غالباً اس کا واحد سبب ہے یہ ہے کہ جدید اردو غزل میں ان کا رنگ تغزل جداگانہ ہے،حسن کاظمی کے ایک بڑے غزل گو شاعر ہونے میں کسی کو کلام نہیں ان کے کم از کم دس اشعار تو ضرور زبان زد خاص و عام ہیں اور یہ کسی بھی شاعر کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔
حقانی القاسمی حسن کاظمی کی شعری کائنات پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں ’’احساس و اظہار میں تحیر اور ندرت سے ہی تخلیق کو ادبیت ملتی ہے۔حسن کاظمی کی شاعری ہی جزوی طور ہی سہی مگر ان کیفیا ت سے متصف ہے وہ ہمارے عہد کے ان خوش نصیب شعرا میں سے ہیں جن کے دو چار شعروںکو انکی زندگی میں ہی حیات جاودانی مل گئی،۔اس ادب کش عہد میں یہ بہت بڑا امتیاز ہے،ناقدری ہنر کے مجموعی رویہ کی وجہ سے حسن کاظمی کے مجموعہ تو مر سکتے ہیں مگر ان کا ایک شعر ہمیشہ زندہ رہے گا اور یہی ان کے معتبر تخلیقی وجود کی گواہی ہر دور میں دیتا رہے گا۔اس دور میں بھی جب گلوبلائزیشن کی وجہ سے شاعری کائنات کے بجائے گھر آنگن میں سمٹ کر رہ جائے گی۔حسن کاظمی کا وہ زندہ جاوید شعر یوں ہے۔
سب مرے چاہنے والے ہیں مرا کوئی نہیں
میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں
شائد اس طرح کے اور بھی شعر انھوں نے کہے ہوں گے لیکن زندہ رہنے کے لئے تو ایک شعر ہی کافی ہے‘‘
(خوب صورت ہیں آنکھیں تری از حسن کاظمی)
حسن کاظمی اپنے تخلیقی مزاج اور ذہنی ترجیحات کے اعتبار سے نئے عزم و ہمت کے ساتھ ظفر یابی کا متلاشی ہونا باعث فخر سمجھتے ہیں،انھوں نے خالص مشرقی کلاسیکی روایت عشق کے سرمائے میں اپنے نجی احساسات کو اشعار کے قالب میں ضرور ڈھالا ہے جو انکے امتیازات میں شامل ہے۔انکے شعری کائنات کے بام و در پر نظر ڈالی جائے تو ان کا ہر شاعرانہ تجربہ اپنی تمام خیال آرائی کے ساتھ ہمہ جہت گیری کا اساسی ثبوت فراہم کرتا ہے۔تغزل کے رمز آشنا فطرت کو صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کے لئے غیر معمولی تحمل اور شائستگی کا انھوں نے مظاہرہ کیا ہے جو ان کی خلاقانہ بصیرت کے شواہد ہیں۔اور جس سے ان کے سرمایہ سخن وری میں غیر معمولی اضافے ہوئے ہیں۔حسن کاظمی کا رنگ تغزل سوز دروں،جمالیاتی تاب و تپش موسیقیت اور تخلیقیت کا پرتو ہے۔اور ان کی ہمہ گیر فطانت کی پر زور دلیل بھی۔میرے خیال میں تغزل کا یہ انداز فن کے استقامت کی ایسی دلیل ہے جس سے طرز حسن کاظمی کی شاعرانہ قوتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ہر شعر رعنائی خیال اور طرفگیٔ ادا کا اک نگینہ ہے۔ان کے اشعار کا آہنگ با وقار ہے اور اس آہنگ میں ایک لطیف نغمگی پیوست ہے اور تبسم زیر لب کی کیفیت ترنم بھی۔اپنے اسی انفرادی اور اچھوتے رنگ تغزل کی بناپر وہ ہمعصر شعرا سے الگ نظر آتے ہیں۔ ان کا شعری کردار فکری آہنگ اور اظہار بیان انھیں اکیسویںصدی کے شاعروں میں ممتاز مقام دلاتا ہے۔
بقول بلراج کومل’’حسن کاظمی کے طریقہ کار کا بلند آہنگی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ایک معصوم سی افسردگی،دلآویز انکساری اور انفرادی تشخص کی تلاش ان کے لب و لہجہ اور اسلوب کی شناخت بن گئے ہیں۔ہمارے دور کے اکثر شاعر جب کی غیر منتشر خبریات و تفصیلات کی میزان بنتے جا رہے ہیں حسن کاظمی کی شاعری کے حسن و انتخاب حشو وائد سے گریز نامیاتی کل پر اصرار اور حصول معیار وہ اوصاف ہیں جو فی الواقع دادو تحسین کے مستحق ہیں‘‘
(خوبصورت ہیں آنکھیں تری از حسن کاظمی)
یہاں حسن کاظمی کی شاعرانہ عظمت یا ان کی بلندی کے تمام پہلووں کا جائزہ لینا مقصود نہیںالبتہ ان کے تخلیقی مدارج کے اس مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ایک روایت پرست شاعر ہیں لیکن انکی روایت پرستی محض نقالی تک محدودنہیں بلکہ اس میں تاریخی شعور کی گہرائیوں کا پتہ چلتا ہے۔وہ قدیم ادب کے سارے سرمائے سے واقفیت رکھتے ہیں۔جہاں ایک طرف نئے پن کا احساس ہوتا ہے تو دوسری طرف ان کے فن پارے حالات کے نئے تقاضوں سے قاری کو محظوظ بھی کرتے ہیں اور مسحور بھی۔
الغرض مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ حسن کاظمی کی فکر شعر گوئی غم دوراں اور غم جاناں سے تپتی پگھلتی ڈھلتی اور بکھرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور غزل کے شعری پیکر میں اپنے احساسات و جذبات و افکار کو نت نئے سانچوںمیں سموتی ہے۔نئے شعری آفاق کو روشن کرنے والے حسن کاظمی نے اردو شعر وادب کی بساط پراپنی شناخت کو برقرار رکھا ہے یہ بھی وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری کی باز گشت عرصہ دراز تک سنی جاتی رہے گی۔

Leave a Comment