ذوقِ تحقیق تجھے کیسے ہنرآتے ہیں!
٭نایاب حسن
پولیس ہمارے (برصغیرکے) معاشرے میں عموماً یاتوخوف ودہشت کی علامت سمجھی جاتی ہے یانفرت وکراہیت کی، عام طورپرذہنوں سے یہ حقیقت بھی اوجھل رہتی ہے کہ یہ بھی ہمارے ہی جیسے انسانوں کی ایک جماعت ہے، جس کے افرادہمارے ہی جیسے جسم جثہ، اعضاوجوارح اور دل ودماغ رکھنے والے انسان ہوتے ہیں، یہ بھی سوچتے ہیں اور کبھی کبھی ’’اچھا ‘‘سوچتے ہیں، حالات کے مثبت یامنفی اثرات ان پربھی پڑتے ہیں اور’’بسااوقات ‘‘یہ ان اثرات کا خوب صورت منثورومنظوم لفظوں میںاظہاربھی کرسکتے ہیں، ان میں سے کئی تو ’’سرکار وں‘‘کی جانب سے مفوضہ قانونی،دفاعی وحفاظتی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ذہن ودماغ کی صحت بخش ورزش کے بھی عادی ہوتے ہیں، الغرض یہ پولیس، جوہمارے معاشرے کااٹوٹ حصہ ہونے کے باوجود غیرمحسوس طورپر ہم سے کچھ مختلف دِکھتی ہے، حقیقت میں ایسی ہوتی نہیں ہے۔
اس طبقے میں انسانی معاشرے کے دیگرطبقات کی مانندبعض خوش فکرشاعر بھی ہوتے ہیں، کچھ ادیب وانشاپردازبھی، کئی محقق وسکالرز بھی ہوتے ہیں، بہت سے علم دوست ودانش ور بھی، البتہ یہ ہمیں سرسری نگاہ میں نہیں دکھائی دیتے، اس کے لیے توحقانی دیدہ وری کی ضرورت ہے، جوادب وفکروفن کی اُن جہات تک بھی پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جہاں ہمہ شماجیسے کوتاہ بیں نہیں پہنچ سکتے ، جی ہاں! سرِ دست ہمارے پیش نظر عصرِ حاضر کے ممتازفاضل، ادیب وناقداورصاحبِ اسلوب نثرنگار حقانی القاسمی کی ادارت میں شائع ہونے والے یک موضوعی مجلہ ’’اندازِ بیاں‘‘کادوسراشمارہ ہے،لگ بھگ پونے پانچ سوصفحات کوحاوی یہ شمارہ پولیس کے تخلیقی چہروں کی شناخت وبازیافت پرمشتمل ہے،یہ میگزین حقانی القاسمی کے بے مثال جذبۂ تحقیق، خلاقانہ دقتِ نظری،مطالعہ ومشاہدہ کی بے کرانی اور نظروفکرکی بے مثال تہہ رسی وہمہ جہتی کاشاہکارہے، اردوادب وتخلیق وتنقیدکے باب میں انھوں نے اب تک متعدد نئی راہیں نکالیں اورکئی نئی منزلوں کے نشان تلاش کیے ہیں، پولیس کے تخلیقی وجودکی شناخت وتحقیق کوبھی ان کی اسی ممتاز فنکارانہ ومحققانہ خصوصیت کاتسلسل سمجھناچاہیے۔
’’اندازِ بیاں‘‘کے اس تازہ شمارے میں محکمۂ پولیس میں موجود اُن گہرہاے آبدار کی جستجو کے نتائج پیش کیے گئے ہیں، جوروزوشب قانون وعدالت کے تحفظ کی ’’سرکاری‘‘ذمے داریاں نبھانے کے ساتھ ادب وشعر اورتحقیق وتخلیق کے گیسوکوسنوارنے کا’’غیرسرکاری‘‘فریضہ بھی انجام دیتے رہے ہیں،ان میں کئی وہ ہیں،جواپنے شعبۂ عمل کے ساتھ ادبی دنیامیں بھی مشہورومعروف ہیں، جبکہ بہت سے ایسے چہرے ہیں، جواِس دنیاکے عام باسیوں کے لیے کچھ نامانوس لگتے ہیں، اس مجلے کامطالعہ قدم قدم پرادبی وعلمی اکتشاف وانکشاف کے نئے جہان سے آگاہی بخشتاہے اور قاری پرحیرت ومسرت کے ملے جلے جذبات طاری ہوجاتے ہیں ، حقانی القاسمی کاذوقِ ادبی حسن وجمال کے ہزاررنگوں سے منورہے،سواس مجلے کی ظاہری ترتیب کاری میں بھی جاذبیت اورکشش کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں ،’’دریچے میں چراغ ‘‘سجاکر ’’آغازِ جستجو‘‘ کیاگیاہے اوریہ آغازبھی ایساخوب صورت، جامع اوروسعت پذیرہے کہ اس پر ’’کمال واختتام ‘‘کاگمان ہوتاہے، حقانی القاسمی نے مجلے کے اس پہلے مقالے میں شعروسخن، تحقیق وجستجو، افسانہ نگاری، سوانح نویسی، صحافت، ترجمہ نگاری اورفنونِ لطیفہ سے پولیس برادری کی طویل وسلسلہ واروابستگی کونہایت دلچسپ وعلم ریزاندازمیں پیش کرنے کے ساتھ ادبی اعزازات سے سرفرازکیے گئے پولیس والوں اوراس برادری کے مخصوص ادبی خانوادوں تک کی تفصیل سے آگاہ کیاہے، پولیس شعراکی کھوج کادائرہ ہندوستان کے کئی صوبوں اورکئی اضلاع حتی کہ سرحدکے اُس پارتک کومحیط ہے، حقانی القاسمی کایہ امتیازہے کہ وہ قاری کومحض خوب صورت لفظوں، دلکش تعبیرات اور سروربخش جملوں سے ہی سرشارنہیں کرتے؛ بلکہ ان کے قلم سے نکلنے والی سطروں میں معلومات کی کہکشاں بھی آبادہوتی ہے، سوان کایہ’’آغازِ جستجو ‘‘اپنی علمیت اوربے مثال تحقیق کانمونہ ہونے کی وجہ سے متعلقہ موضوع پر آیندہ نہ جانے کتنے ہی’’آغازوں ‘‘ کی اساس بن سکتاہے۔
بعدکی ترتیب کاری’’بابِ شجاع خاور‘‘سے شروع ہوتی ہے، جس میں سابق آئی پی ایس افسر اورسادہ وپرکار لہجے کے شاعر شجاع خاور کے تخلیقی وشعری امتیازات کاجائزہ لیاگیاہے، معروف ناقد گوپی چندنارنگ ’’ہیں اہلِ خردکس روشِ خاص پہ نازاں‘‘کے زیرِ عنوان شجاع کی شعری کائنات کے ان خصائص کی نشان دہی کرتے ہیں، جوانھیں دیگرمعاصرین سے ممتازکرتے ہیں، مضمون کے اختتام پرانھوں نے شجاع خاورکاایک ہلکاپھلکا، مگرنہایت معنی خیزشعردرج کیاہے،آپ بھی پڑھیے اورلطف لیجیے:
جدھردیکھیے اک قلم کارہے
نہیں ہے توقاری نہیں ہے میاں!
قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے شجاع خاور کی عشقیہ شاعری کاتجزیہ کرتے ہوئے بہت سارے شعری نمونے بھی پیش کیے ہیں، آخری نمونہ:
ہم قیامت کے انتظارمیں ہیں
آپ کاانتظارتھوڑی ہے!
محمدریحان نے ’’غزل میں گفتگوکاشاعر: شجاع خاور ‘‘میں شجاع خاور کی شاعری کی ایک ممتازصفت کی طرف متوجہ کیاہے اوروہ صفت ہے سادہ بیانی، بے تکلفی اوربے ساختہ پن، نمونے کے طورپرانھوں نے بھی کئی اشعارنقل کیے ہیں، ایک شعر:
کچھ نہیں بولاتواندرسے مرجائے گاشجاع
اوراگربولا،توباہرسے ماراجائے گا
ترتیب کادوسراپڑاؤ’’بابِ پیغام آفاقی‘‘ہے، یہ صاحب بھی سابق آئی پی ایس افسرہونے کے ساتھ بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل تھے،انھوں نے کئی ناول، افسانے تحریرکیے، جن میں سے بعض کوتوبین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی اورمختلف عالمی زبانوں میں ان کے ترجمے کیے گئے،اس باب کے تین مضامین ’’مکان : طاقت سے نجات کاشعور‘‘ (نسیم سید) ’’مکان: چندسماجی وسیاسی سروکار‘‘(محبوب حسن)اور ’’پیغام آفاقی کاناول مکان‘‘(عزہ معین) میں مختلف حوالوں سے ان کے مشہورناول’’مکان ‘‘کاتجزیہ کیا گیاہے،سلمان عبدالصمد نے ’’آفاقی کااولین تخلیقی راگ راگنی ‘‘ میں پیغام آفاقی کے پہلے مطبوعہ ناول کاتجزیہ کرتے ہوئے ان کی تخلیقی حسیات، سٹائل اور بیان وتعبیرکی خوبیوں پرروشنی ڈالی ہے، ’’پلیتہ‘‘پیغام آفاقی کاایک مشہور ناول ہے،اس پراس باب میں حقانی القاسمی کاایک خوب صورت تنقیدی مضمون ’’پلیتہ:نئے عہدکی ریطوریقا‘‘کے عنوان سے شامل ہے۔
تیسرے باب میں ظہیرانور، بدنام نظراورڈاکٹرمعصوم شرقی نے عین رشیدکی شعری کائنات وتخلیقی تموجات کوموضوعِ گفتگوبنایاہے، ’’بابِ خلیل مامون ‘‘میں محمودہاشمی اورڈاکٹرآفاق عالم صدیقی ہمیں خلیل مامون کے شعری امتیازات سے آگاہی بخشتے ہیں، اس کے بعد’’گل ومہتاب ‘‘کے عنوان سے ایک باب ہے،جس میں فیاض عالم وجیہہ بڑے دلچسپ اسلوب میں نئے عہدکی ادبی،تخلیقی، تصنیفی روایات اوررویوں پرتبصرہ کرتے ہوئے ہندی کے قلم کاراوراردوکے مترجم انسپکٹر شیوسنگھ سینگر کابھرپورتعارف کرواتے ہیں،ضیافاروقی نے چودھرنبی احمد کی کتاب ’’تذکرۂ مؤرخین ‘‘ کاجائزہ پیش کرتے ہوئے ان کے حالاتِ زندگی اوردیگر تصنیفی سرگرمیوں پربھی روشنی ڈالی ہے،ڈاکٹرزیبازینت نے مولانااحترام الدین شاغل کی حیات اورادبی وتصنیفی خدمات کااختصارکے ساتھ احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے،سعیداختراعظمی نے بچوں کے ادب کے فروغ میں پڑوسی ملک سے تعلق رکھنے والے عدنان طارق کے کردار کواُجالاہے،ایک مختصرمضمون میں خلیق الزماں نصرت نے دھولیہ،مہاراشٹرسے تعلق رکھنے والے سابق پولیس افسر مختاراحسن انصاری کی شعری ونثری خدمات پرروشنی ڈالی ہے۔
’’حسنِ گلِ مہتاب ‘‘میں ڈاکٹرابراراحمداجراوی نے پولیس کے تخلیقی خانوادوں سے روبروکراتے ہوئے اٹھارہویں صدی کے شاکرناجی، سراج الدین خاں آرزو،شرف الدین مضمون، مرزارفیع سودا، حتی کہ خداے سخن میر تقی میر، میرسوز، سعادت یارخاں رنگین اوربیخوددہلوی کے بارے میں مختلف تاریخی وتنقیدی حوالوں سے لکھاہے کہ خاندانی یاپیشہ ورانہ طورپران کاتعلق سپہ گری، شہسواری اور محکمۂ افواج سے رہاہے ، ان کے علاوہ انیسویں ،بیسویں اوراکیسویں صدی کے چندمشہورادبی، شعری وتخلیقی اشخاص مثلامہدی افادی، فانی بدایونی، نیازفتحپوری، مولاناارشدتھانوی،رشیداحمدصدیقی،حمیدنسیم، شوکت تھانوی، مجروح سلطانپوری، اخترحامدخاں، رشیدحسن خاں، کلام حیدری، تیغ الہ آبادی، بشیربدر، شہریار، فاروق ارگلی، پی پی سری واستورنداورڈاکٹرامام اعظم کے فکروفن کاتعارف کروایاگیاہے، ان میں سے کئی نام توادبی دنیامیں خاصے متعارف ہیں، مگرابرارصاحب کے اس مقالے سے ایک خاص بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان میں سے اکثریاتوخود پولیس محکمہ سے وابستہ رہے ہیں یاان کاخاندانی پس منظر اس سے جڑارہاہے ، شہنازرحمن نے اردوافسانے میں پولیس کے کردارکاجائزہ پیش کیاہے۔
’’شاخِ گلِ احمر‘‘میں برطانوی عہدکے اردوادیب وشاعر جارج پیش شور (ڈاکٹرراحت ابرار) ریاض خیرآبادی(فاروق ارگلی) محفوظ سنبھلی (ڈاکٹرکشورجہاں زیدی) اعجازوارثی(عزیزاللہ شیرانی) تسکین قریشی(خان محمدرضوان) منیرسیفی (عبدالمتین جامی،ڈاکٹرقسیم اختر) محمدعلی ساحل (ملک زادہ منظوراحمد) فیاض فاروقی (اسلم چشتی) صہیب فاروقی (ڈاکٹرخان محمدآصف) حمیدعکسی(سعیدرحمانی) مرغوب اثرفاطمی (ہمایوں اشرف) قیصرخالد(وسیم اقبال) اوراخترکاظمی (ڈاکٹرآفاق فاروقی)کے افکار،ادبی وشعری خدمات کاتجزیہ کیاگیاہے ۔
’’موجِ جوہر‘‘میں سابق آئی پی ایس افسر اورہندی کے معروف ادیب، ناول نگار ودانش وروبھوتی نارائن رائے پرثروت خاں کاایک تعارفی مضمون، جبکہ ان کے ناول’’گھر ‘‘پر شاہدخاں کاتنقیدی وتجزیاتی مضمون شامل ہے، پروفیسرفاروق بخشی نے وپل ترویدی کے شعری تحرکات پرگفتگوکی ہے، یاسمین رشیدی نے مہیش چندر نقش کی شعریات کاعمدہ تجزیہ کیاہے، عمران عظیم اورسعیداختراعظمی نے دنیش چندرپانڈے نظرکانپوری سابق آئی پی ایس افسر کی شعری تخلیق کے امتیازات پرروشنی ڈالی ہے، ابھے کماربے تاب پرارمان نجمی کا مضمون اور پرمودشرماو راجندرکلکل پرحیدرعلی کے تاثراتی نوٹس بھی قابلِ مطالعہ ہیں۔اخیرمیں ’’اندازِ بیاں‘‘کے پہلے شمارے پر مناظرعاشق ہرگانوی، رضوان اللہ، زین شمسی، ابراراجراوی اورفاروق اعظم قاسمی وغیرہ کی تاثراتی وتبصراتی تحریروں کوجگہ دی گئی ہے۔
بہرکیف حقانی القاسمی کے لاثانی ذوقِ تحقیق وجستجوکاشاہکاریہ مجلہ نہ صرف پولیس کے تخلیقی چہروں سے پردہ اٹھاتاہے؛ بلکہ ادب وشعر اورتخلیق وتحقیق کے باب میں اس طبقے کے قابلِ قدر کردار پربھرپورروشنی ڈالتاہے، ادب اورادبی،تنقیدی وتحقیقی خدمات کے ضمن میں حقانی القاسمی کی ذات بلاشبہ ’’مشعلِ راہ ‘‘بن چکی ہے اور محکمۂ پولیس کے ادبی وتخلیقی کارناموں کی تحقیق وجستجوکے حوالے سے ان کی یہ منفردپیش کش بھی ان شاء اللہ آیندہ اس موضوع پرکام کرنے والوں کے لیے ’’مشعل‘‘ کاکام کرے گی ۔
nh912823@gmail.com
95601888574
انداز بیاں کا تازہ شمارہ \”پولیس کا تخلیقی چہرہ\”دہلی کی معروف شاعرہ علینا عترت کو پیش کرتے ہوئے انداز بیاں کے مدیر حقانی القاسمی اور دیگر احباب۔