حیدرعلی آتش ،ؔامام بخش ناسخؔ :دبستان دہلی دبستان لکھنؤ کا تضاد

\"\"
ڈاکٹر راشدہ قاضی
شعبہ اردو،غازی یونیورسٹی،ڈیرہ غازی خان۔

ABSTRACT

IN THE POETRY THERE ARE TWO TYPES OF SCHOOL OF THOUGHTS. DABISTANE LUCKNOW AND DABISTANE DEHLI. HAIDER ALI AATISH WAS VERY IMPORTANT REPRESENTATIVEOF DABISTANE LUCKNOW. HE IS ONE OF THE GAINTS OF URDU LITERATURE AND LEGENDS OF URDU POETRY. IMAM BAKHSH NASIKH WAS ALSO ANOTHER REPRESENTATIVE OF DABISTANE LUCKNOW, AATISH AND NASIKH WERE CONTEMPORARY POETS WHOSE RIVALRY DISCIPLES. THE ERA OF AATISH AND NASIKH WAS A GOLDEN ERA OF URDU POETRY. ATISH IS MOSTLY KNOWN FOR HIS AMAZING AND DIFFERENT STYLE OF POETRY. BOTH OF THESE POETS AREMUCH IN COMMON. BOTH ARE CONTEMPORARY, BUT HAVE MANY DIFFERENCE I.E. STYLE OF POETRY. THIS ARTICLE IS COMPASSION OF POETRY OF THESE TWO POETS AND SAME SORT OF STUDY OF THE SLEET VERSES. HAIDER ALI AATISH THE FOUNDER OF DEHLI SCHOOL OF POETRY RE-COTED IN THIS BIOGRAPHGICAL ANTHOLOGY WHICH IS A CONTEMPORARY SOURCE AND HAS RECORDED VERSES OF THIS DEWAN.

ادب اوررندگی کا تعلق چولی دامن کا سا ہے یعنی ادب تنقید ِحیات ہے اور فن کار ماحول سے جو حاصل کرتا ہے اُسے فن کے قالب میں ڈھالتا ہے بیرونی دُنیامیں آنے والے انقلابات ادب پر گہرا اثر ڈالتے رہے ہیں۔ کسی دبستان کے وجود میں آنے کا سبب بھی سیاسی، سماجی، معاشرتی حالات اور گذشتہ ادبی روایات ہوتی ہیں گویا یہ سب عناصر مل جُل کر ادب کی راہوںکو متعین کرتے ہیں اس لئے کسی بھی شاعرکا ادبی مقام متعین کرنے سے پہلے اُن کے حالاتِ زندگی، شاعری اور ہم عصر شعراء سے اُن کا میل اور اُن سے وابستہ وبستان سے اُنکے تعلق کا جائزہ لینا ضروری ہے اس لئے اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ دلی کے دبستان اور لکھنٔوکے دبستان کی خوبیاں اور خامیاں اُن کے شعراء کیلئے اثر انداز ہوتی ہیں اور یہ دبستان کیا ہے؟
اُردو میں شاعری کے دو مکتبہ ِ فکر ہیںدہلی اور لکھنٔو۔ دونوں ہی موضوعات زبان اوربیان اور اسلوب شاعری کے تحت شاعری کرنے والے شعراء لئے جاتے ہیں جب دبستان دہلی کا نام آتاہے تو اِس سے مرادوہ شاعرلئے جاتے ہیں جو دہلی میں پیدا ہوئے دہلی کی زبان (مخصوص محاورات اور روزمرہ کے ساتھ) میں شاعری کی اورساتھ ہی شاعر کی شاعری میںمیں شہر کی مخصوص روایات کا خیال بھی رکھا۔ اس طرح دبستان لکھنٔوسے مراد (لکھنٔوی شاعروں کے مخصوص اسالیب اور افتادِ طبع کے حامل شعراء لئے جاتے ہیں یعنی مختصراً یہ واضح رہے کہ دونوں دبستانوں کے طرز ادا، زبان ، مزاج، لب و لہجے، جذبات اور اظہار کے سانچوں میں واضح اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ دبستان دہلی میں عشق، آزاد خیالی و بے تعصّبی، داخلیت، حُزن ویاس، تصوف، تہذیب ومتانت، رمزو کنایہ، جذبے کا خلوص وصداقت، عشق کی خوشی اور سرمستی، اظہار کی سادگی اور صاف گوئی پائے جاتے ہیں جبکہ لکھنٔوی دبستان میں بے جوڑ فارسیت، قافیہ پیمائی، رعایت لفظی، تشبیہات کا استعمال، عامیانہ خیالات، نازک خیالی، زبان دانی، مرصع و مقفیٰ الفاظ و زبان، خارجیت اور ادب میں نسوانت کا انداز پائے جاتے ہیں۔
اب ان دونوں مکتبہ فکر کی روشنی میں ہمیں حیدر علی آتش جنہیں لکھنٔو کا نمائندہ شاعر تسلیم کیا جاتا ہے اُن ہی کے ہم عصر شاعر ناسخؔ کی شاعری کی روشنی میں دلائل سے واضح کرنا ہے کہ شاعری کے لحاظ سے حیدر علی آتش ؔکس دبستان سے تعلق رکھنے والے ہیں کیونکہ اُردو شاعری میں عرصہ دراز سے یہ بحث چلی آرہی ہے کہ دبستانِ لکھنٔو کا نمائندہ شاعرکون ہے کیونکہ دونوں شعرا ء ہم عصر ہیںاور شاعری کے لحاظ سے آتش اؔگر فن کے عروج پر نظر آتے ہیں توناسخ ؔزبان دانی کے اساتذہ میں شمارہوتے ہیں بہرحال آتش یاؔ ناسخؔ بحثیں طویل ہوتی چلی جاتی ہیں دونوں طرف کے پرستاروں نے اپنے اپنے نقطہ نظرسے ایک دوسرے کی برتری ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے لیکن نتیجہ لا حاصل اس لحاظ سے اگر دلائل کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ نہ نکلنے کی وجہ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ محاکمہ کے لئے شاعری کے اصاف سے کم اور شخصیات سے دل چسپی زیادہ رہی اور شایداِسی جنونِ شخصیت پرستی نے کوئی صحیح اور معیاری فیصلہ نہ ہونے دیا۔
آتش ؔ اُردو ادب کے اُن چند شعراء میں سے ہیں جن پر بہت کچھ لکھا گیالیکن شایدکثرت توجہ کے باعث بہت کم لوگوں نے اُن کی شاعری میں اُن کی انفرادیت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اُن کا نام تو عموماً دبستان لکھنٔو کے نمائندہ شعراء میں لیا جاتا ہے بلکہ یہی نہیں دبستان لکھنٔو صرف اِن دو شعراء کے گرد ہی گھومتا دکھائی دیتا ہے ایک حیدر علی آتش اور دوسرا امام بخش ناسخ اور اِن دونوں کی معاصرانہ چشمک تو محتاج تعارف نہیں۔ لہٰذا محقق اور نقاد عام طور پر آتش کو اِس دبستان کی خصوصیات کے مطابق پرکھتے ہیں۔ لیکن آتش انِ معنوں میں قطعی لکھنٔوی شاعر نہیں کیونکہ آتش کی غزل میں وہ نمایاں خصوصیات پائی جاتی ہیں جو انہیںلکھنٔوی طرز ادا سے کوسوں دور کھڑا کرکے وہ مقام عطا کرتی ہیں جو دبستان دہلی سے جا ملتا ہے مگر اُن خوبصورتیوں اور رعنائیوں کے ساتھ جودہلی دبستان میں نہیں ملتی گویا آتش کی شاعری اپنے رنگ میں سب سے الگ اور انوکھی لے رکھتی ہے۔
کھینچ دیتا ہے شبہ شعر کا خاکہ خیال
فکر رنگین کام اُس پر کرتی ہے پرواز کا
بہت سے نقاد اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ آتش ؔ کی شاعری لکھنٔوی شاعری کی ہی روح لطیف ہے اور انہوں نے لکھنٔو کے عام مضامین کو مہذب لہجے میں پیش کیا ہے لیکن اگر اِسی بات کو لکھنویت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو کیا یہ کہنا مناسب نہ ہوگا کہ آتش ؔکی شاعری میں لکھنٔوی روح نہیں بلکہ انہوں نے عام لکھنٔوی روح کی روش سے بچ کر ابتدال کی بجائے شریفانہ ، تہذیب یافتہ اور سُلجھا ہو الب و لہجہ اختیار کیا ہے جو کہیں سے بھی لکھنٔوی دبستان سے میل نہیں کھاتا بلکہ اِ س کے تانے بانے سیدھے سادے طریقے سے دہلی کے دبستان سے جا ملتے ہیں اور اِ س کے ساتھ ہی آتش کے منفرد انداز نے اِس سیدھے سادے لب و لہجہ اور انداز کو احساس چبھن دے کر نئے رنگ میں ڈھالا ہے۔ عام طور پر آتش کی شاعری کی بنیادی خصوصیات یہ بتائی جاتی ہیں کہ آتش سرور اور نشاط کے شاعر ہیں اور لکھنٔو کے جس ماحول میں اُن کی شاعری کو پھلنے پھولنے کا موقع مِلا یہ اُس کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ جبکہ دلی کی تباہ حالی کے باعث حُزینہ شاعری پیدا ہوئی اِس ظمن میں اگر ہم آتش کی عشقیہ شاعری کا ذکر کریں تو آتش ؔکی عشقیہ شاعری ایسے دور میں پیدا ہوئی کہ جو پورا معاشرہ رندی اور ہوسنا کا شکار تھا۔ محبت و عشق ایک لطیف، خوبصورت اور حَسین جذبے کی بجائے حیوانی جذبات و خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ تھا یہاں شاعری سفلی اور عامیانہ جذبات کی آئینہ دار بن کر رہ گئی تھی جسے پڑھ کر مسرت، لطف و سکون کی بجائے ، گھبراہٹ، کوفت ، بے چینی اور بے سکونی محسوس ہوتی تھی لیکن آتش ؔ کی شاعری کی ایسے ماحول میں بھی ایک الگ فضا میں سانس لیتی ہے جس میں ہوسنا کی نہیں جذبہ ہے، لطف ہے، جنسیت نہیں نشاطِ محبت و سرور ہے ، جنسی ہوس کی بجائے دیوانگی اور پُر خلوص جذبات و محبت ہے۔ آتش ؔ نے اپنی شاعری کے آئینے میں جس محبوب کو اُتارا ہے وہ خوبصورت ہے، خوبرو ہے، ایسا پری وش ہے جو اپنی تمام جلوہ سامانیوں سمیت ملتا ہے کہ محبوب بازاری نہیں بلکہ عفت و حیاکا پیکر ہے نشاط، سرمستی، لطافت، دلنوازی اور بانکپن کے زیوروں سے آراستہ ہے یہ محبوب اور عشقیہ واردات ایک روگ مسلسل نہیں بلکہ کیفیت لطف ہے یہ بیماری ہوس نہیں بلکہ گدگداتی صحتمندی ہے جس میں مسکراہٹیں اور کھل کھلاہٹیں ہیں۔
نازک دلوں کو شرط ہے آتش ؔخیال یار
شیشہ جو دے خدا تو پری کو اُتارئیے
تجھ سا حَسین ہو یار تو کیونکر نہ اُس کے پھر
ناز بجا و غمزہ و بے جا اُٹھائیے
عشق کی کیفیت کا لطف ذرا اس شعر میں ملاحظہ ہو
کسی کا ہو رہے آتشؔ کسی کو کر رکھے
دو روزہ عمر کو انسان نہ رائیگاں کاٹے
آتش ؔکے عشق کے معاملات میں عاشق ایسے کردار کی شکل میں آتا ہے جو زلف و رخسار کا اسیرہوتے ہوئے بھی پاکیزگی کا دامن تھامے ہوئے ہے۔
دست قدرت نے بنایا تجھے اے محبوب
ایسا ڈھلا ہوا سانچے میں بدن کس کا ہے
آتش ؔ کو حُسن کی تصویر کاری میں کمال حاصل تھا وہ حُسن و جذبات کو شاعری میں یوں پروتے تھے گویا شاعرانہ مصوری کر رہے ہوں۔
آل احمد سرور آتش ؔ کی شاعری کو احتساسی (Sensuous) کہتے اور اس کی حُسن کی مصوری اور عشق کی کیفیات کی نقاشی کہتے ہیں۔ ٭۱
’’آتش کے یہاں حُسن کی مصوری میں احساس سے رنگ آتا ہے اور یہی احساس وارداتِ عشق کو کیف و سرمستی کی دُنیا بنا دیتا ہے ۔ میرؔکے ہاں عشق ایک آذار ہے آتش ؔکے ہاں یہ ایک شراب ہے۔۔۔۔آتش ؔاُردو کے پہلے عاشق سرشار ہیں‘‘ ٭۱
اپنے محبوب کے حُسن و جمال کی مصوری میں آتش ؔنے خوب چابک دستی سے کام لیا لکھنٔو کی خارجی سراپا نگاری کی بجائے نازک جذبات کی مینا کاری کرتے ہوئے لطیف رنگوں کا استعمال کیا ہے گویا آتش ؔکی عاشقانہ شاعری محبوب کی تصاویر کا نگارخانہ بھی ہے جس میں جذبات کی سچی عکاسی ہے۔ آتش ؔکے حُسنِ خیال نے جو تصاویراس نگار خانہ کی زینت بنائی ہیں اُن میں اعلیٰ ذوق، نزاکت اور نفاست کے ساتھ مہذبانہ جذبات بھی ہیں مگرلکھنٔوی تصنّع اور بے جا تکلف ہرگز نہیں
چشم نامحرم کو برق حُسن دیتی ہے بن کد
دامن عصمت تیرا آلودگی سے پاک ہے
جب دیکھئے اور ہی عالم ہے تمہارا
ہربار عجب رنگ ہے ہربار عجب روپ
آتش ؔ مصحفیؔ کے شاگرد تھے انہی کے اثر سے آتش ؔ کے ہاں حُسن کا ایسا سرمایہ اور احساس رنگین ملتا ہے جو حُسن کے عکاس بھی ہیں اور مصور بھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مصحفیؔ لکھنٔو میں دبستان دلی کے نمائندہ شاعرخیال کیے جاتے ہیں یو ں بھی آتش کا ادبی سلسلہ دلی کے دبستان سے جا ملتا ہے کیونکہ آتش کے والد خواجہ علی بخش دہلی کے رہنے والے تھے۔ نواب شجاع الدولہ کے عہد میں دلی سے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی اور یہیں خواجہ حیدر علی آتش ؔ کی پیدائش ہوئی۔ ماحول اور خاندانی اثرات یقینا طبیعت اورفن پر اثر انداز ہوتے ہیںیہی وجہ ہے کہ فیض آباد کے ادبی گہوارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹروحید قریشی کہتے ہیں
’’ادبی لحاظ سے فیض آبادکی شعری تحریک کا بنیادی رشتہ دلی کے دبستان شعر سے جا ملتا ہے۔ دہلوی شعراء کی آمد، خاص کر سوداؔ کے فیض آباد آجانے سے دہلوی شعراء کی تازہ گوئی ہی کے زیر اثر فیض آباد اور اودھ کی شاعری پھلی پھولی‘‘ ٭۲
اب دوسری طرف آتش ؔکو جو ماحول میسر ہوا وہ لکھنوی معاشرے کا ماحول تھاکیونکہ آتش ؔکی جوانی لکھنٔو میں گزری لہٰذا اُن کی شاعری میں وہ عناصر موجود تو ہیں یعنی وہی عریانی، حُسن اور متعلقات حُسن کے بیان ، محبوب سے کھلم کھلا تعلق کی روداد، تخیل کی بلند پروازی ، الفاظ کی پینترہ بازی، نازک خیالی، لیکن اگر ہم اِن تمام اثرات کو آتش کے ماحول کا اثر خیال کریں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ اگر شاعری کے اِن عناصر سے آتش ؔایک لکھنوی شاعر خیال کیے جاتے ہیں تو اپنی شاعری کی روح یعنی داخلیت ، جذبے کی صداقت ، آتش کی غزلیات کی برجستگی اور بے ساختگی کا شاہکار ہیں اُن کا عشق، تصوف، سلاست ، تہذیب و متانت سے وہ دہلوی دبستان کے شاعر کیوں نہیں سمجھے جاتے انہی خصوصیات کے حامل چنداشعار ملاحظہ فرمائیں جو دبستان دہلی سے مخصوص ہیں
حسرت جلوہ دیدار لئے پھرتی ہے
پسِ روزن، پسِ دیوار لئے پھرتی ہے
نہ مڑ کر بھی بیدرد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے
پروفیسر وقار عظیم آتش ؔ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’آتش ؔ کے کلام کا خاصا بڑا حصہ لکھنوی دبستانِ شاعری کی خصوصیات کے بار گراں کے نیچے دبا ہوا ہے جو اس شاعری کے مزاج کے لوازم میں سے ہے لیکن اس کلام کا تقریباً اتنا ہی بڑا حصہ ایسا ہے جس پر آتش ؔکے مخصوس مزاج کی گہری چھاپ ہے‘
٭۳
اب اگریوں کہیے کہ دوسرے الفاظ میں وقار عظیم نے آتش ؔکو لکھنویت سے ممتاز کردیا اور شاید یہی آتش کا دہلوی دبستان سے تعلق کا ثبوت ہے ۔ کیونکہ اگر ایک بڑا حصہ لکھنویت کااثر رکھتا ہے تو اتنا ہی حصہ اُن کے مخصوص مزاج جو کہ دہلوی مزاج سے میل کھاتا ہے کا ثبوت بھی تو ہے اگر ایسا ہے تو آتش ؔکے کلام کے صرف اُس حصے کو دیکھنا جو لکھنوی ہے اور آتش ؔ کو صرف لکھنوی دبستان سے منسوب کرنا آتش کے کلام کے اُس حصے سے سراسر ناانصافی ہوگی جو دہلی دبستان کے مکمل عکاس ہیں اور آتش کے مخصوص مزاج کے بھی۔
کچھ اشعار دیکھیے
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اُٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
موت مانگوں تو رہے آرزوئے خواب میں
ڈوبنے جائوں تو دریا ملے پایاب مجھے
آج تک آہ کے کوڑوں سے بدن نیلا ہے
آسمان کو مجھے جہاں کرنے دو
اور اسی بات کی تصدیق آب حیات میں آزادؔ نے بھی یوں تحریر کردی کہ
’’ہاں طرز بیاں صاف ہے سیدھی بات کو پیچ نہیں دیتے‘‘ ٭۴
گویا آتش ؔکی شاعری میں طرز ادا کی گل کاری کی کمی ہے اور یہی طرز ادا لکھنویت کا خاصہ ہے لیکن خواجہ حیدر علی آتش ؔ سلاست کی اس خوبی میں مصوری اور تخلیق کو یوں پروتے ہیںکہ یہ اپنے عہد سے ممتاز اور برترہو جاتی ہے اُن کی شاعری اپنی وسعتوں سے محروم نہیں ہوتی بلکہ اُنہیں ایک افاقیت عطا کرتی ہے مثلاً
یہ شاعر ہیں الٰہی یا مصور پیشہ ہیں کوئی
نئے نقشے، نرالی صورتیں ایجاد کرتے ہیں
اب اگراُن کی شاعری میں تصوف کا رنگ دیکھا جائے تو وہ (آتش ؔ) دلی کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جہاں پیری، مریدی کا چلن تھا اگرچہ فیض آباداور لکھنٔو میں وہ اس مسلک سے دور ہی رہے لیکن صوفیاء کی روایت اُن کے خمیر کا حصہ تھی یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعر ی محض گل و رخسار نہیں بلکہ اِس میں اخلاقی تعلیم نمایاں نظر آتی ہے اور یہی آتش ؔ کی شاعری کو ہم عصر لکھنوی شعراء سے ممتاز اور منفرد کرتی ہے بعض نقاد تو آتش ؔکو اخلاقی شاعری کا بادشاہ بنا بیٹھے جو بالکل درست ہے مثلاً زندگی کے مختلف جذبات کا عکس یہ اشعار
خیال تن پرستی چھوڑ، فکررِ حق پرستی کر
نشاں رہتا نہیں ہے نام رہ جاتا ہے انساں کا
باغِ عالم میں رکھا ہے قدم اے آتش ؔ
خندہ زن گل کی طرح بیٹھ کے ہو خار کے پاس
وفا سرشت ہوں شیوہ ہے راستی میرا
نہ کی وہ بات جو دشمن کو ناگوار ہوئی
اس لحاظ سے اگر ناسخؔ جو کہ آتش ؔہی کہ ہم عصر تھے اُن کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو ناسخؔکو اُردو شاعری میں بہ نسبت ایک شاعر کے اصلاح زباں کی تحریک کا امام اور زبان دان یا زبان شناس کہا گیا ہے۔ اب مزے کی بات یہ ہوتی ہے کہ لکھنوی دور میں اصلاحِ زبان کے لئے مروجہ الفاظ اور تراکیب سے مرصعّ نظر آتی ہے گویا انہوں نے اِ س نظریے کی بنیاد ڈالی کہ شاعری کے لئے ایک خاص ادبی زبان ہونا لازم ہے یعنی شاعری کے لئے جذبہ اہم نہیں بلکہ زبان اور الفاظ کا چنائو بنیادی حیثیت کا حامل ہے اب یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سیر عبداللہ نے کہا کہ
’’ناسخؔ گویا تمام عمر زبان کو سنوارتے رہے اور اپنی شاعری کو بگاڑتے رہے‘‘ ٭۵
آتش اؔور ناسخؔ کی شخصیات میں بھی بہت فرق پایا جاتا تھا۔ آتش وجدان، احساس جمال اور احساس طلسم حُسن کے تحت شاعری کرتے تھے لیکن ناسخؔ استادی اور زباندانی میں باکمال سمجھے جاتے اُن کے کلام میں وجد، ذوق اور داخلیت کی کمی ضرور تھی لیکن اظہار عا لمیت، ضائع لفظی اور پیچیدہ استعارات کا استعمال ضرور تھا جو کسی قسم کی حس لطافت و حُسن کونہیں چھیڑتے تھے بلکہ اُن کے اشعارجذبہ احساس اور جذبہ تخلیق حسن سے عاری محسوس ہوتے ، پڑھنے والا الفاظ کے پیچ و خم میں خود کو جکڑا ہوا محسوس کرتا۔ زبان شناسی کے وصف نے زبان دانی کے استاد کو دلوں کے تار چھیڑنے سے دور ہی رکھا اور وہ الفاظ کے گورکھ دھندے میں اُلجھے رہے جبکہ آتش اؔس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے زندگی کے تجربات کو شاعری میں بتانا اور احساس و جذبات کوجذبہ تخلیق سے منسلک کرکے بیان کرنا بھی انہیں آتا تھا اُن کا کلام سچے انسانی جذبات و احساسات کی صحیح تصویر ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ امام بخش ناسخؔکی اصلاح زبان کی تحریک کا فائدہ صحیح معنوں میں آتش ؔنے اُٹھایا تو بے جا نہیں کیونکہ آتش ؔکی شاعری ناسخؔ کی نسبت زیادہ تخلیقی عناصر اور شاعرانہ تغزل رکھتی ہے اگرچہ وہ شاعرانہ احساسات کی فنی تکمیل میں ناسخؔ کے مرہون منت سہی لیکن اُن کا کلام بھی اُن کے فن کی دلیل بن کر سامنے آتا ہے کہ آتش ؔنے لکھنوی شاعری کے رنگ کو آنکھیں بند کرکے نہیں ، ہوش، خرد، اعتدال اورسلاست کے ساتھ برتا ہے۔
بہت سے نقاد جیسے خلیل الرحمن اعظمی، کلیم الدین احمد، ڈاکٹر رام بابو سکسینہ اور ابو للیث صدیقی اِ ن سب نے آتش ؔ و ناسخ کے موازنے میں اور فنی مرتبے پر بحث کرتے ہوئے بارہا آتش ؔکو ہی سراہا ہے۔
ناسخؔ کی شاعری میں آنچ ، جذبہ اور شیرینی کی کمی ہے یہ وجہ ہے کہ شاعری کی حلاوت پر تشبیہات،استعارات، اور پُرشکوہ الفاظ غلبہ پا گئے زبان کی صحت و صفائی اور سلاست بہرحال موجود ہے مگر فکر اور فن ناپید ہے گو مواد کی خوبصورتی نہیں بلکہ الفاظ کا طلسم جگانے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے اُنکی شاعری زندگی کی بصیرت اور حقیقت سے بہت دور کھڑی نظر آتی ہے یہ صحیح ہے کہ ناسخؔ کی بدولت اُردو ادب اور شاعری نے اپنی پہچان حاصل کی اور فارسیت اور سنسکرت کی تراکیب کو مسترد کردیا مگر محض الفاظ کی جادوگری شاعری میں وہ سوز اور شگفتہ احساسات نہیں جگا سکی جو تنہائیوں کے رفیق بن کر
میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
کی تفسیر بن سکے۔
محض لفظی شان و شوکت،کسی کو سپردگی اور بے خودی پر آمادہ نہیں کر سکتی ۔ انہوں نے شعر کے ڈھانچے کو تو بے عیب کر دیا مگر شاعرانہ خوبی نہ رہی۔ اعظمی صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا معلوم ہوتا ہے کہ۔
ناسخؔ میں شاعری کی تخلیقی موجدتوں کا فقدان تھا ٭۶
اصل میں زبان کی اصلاح کرتے ہوئے ناسخ نے جس دور اندیشی ، دقت نظری کا ثبوت دیا اُسے دیکھ اُن کی شاعری سے نہایت اعلیٰ اور انفرادی شاعری کی توقعات منسوب کردی گئیں مگر وہ شاعری سے دلوں میں گھر نہ کرسکے اُن کے اشعار کا ربط محض خارجی محسوس ہوتاہے داخلی نہیں۔ وہ لکھنوی طرز ادا کے پروردہ ہیں اس لئے لکھنویت کے رنگ اُن کی شاعری کااہم حصہ ہیں مثلاً سراپا نگاری پر اُن کی خاص توجہ ہے محبت اور خلوص کے جذبات سے زیادہ محبوب کا لباس ، آرائش اور زیورات کی نمائش کا بیان زیادہ ملتا ہے۔
بن کے ہیرے کے بازو بند صاف اے رشکِ ماہ
سیم خالص سے زیادہ ہیں تیرے بازو سفید
نیزناسخؔ کے فن میں رعایت لفظی ، ثقیل الفاظ کا استعمال ، تشبیہ و کنات، تضع اور تکلف کے ساتھ گرجدار لہجے میں ملتا ہے۔
مل گیا عشق کا آزار قسمت سے مجھے
ہوں جو عیسیٰ بھی ارادہ ہو استلاج کا
آغاز خط میں اژدر فرعون سے جو زلف
افسونِ خط مار ہی افسانہ ہو گیا
اب اس لحاظ سے اگر آتش ؔ اور ناسخؔ کی شاعری کا موازنہ کیا جائے تو دونوں کے انداز اور شاعرانہ رنگ میں واضح تضاد ملتا ہے۔ ناسخؔ شاعری کے اُس منصب سے کوسوں دور ہیں جہاں آتش ؔنظر آتے ہیں ۔ ناسخ ؔ بلا شبہ اُردو شاعری کے استادوں میں سے ہیں لیکن آتش ؔکے مد مقابل نہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آتش کی شاعری میں دہلویت کے سارے عناصر موجود ہونے کے باوجود اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھا گیا کہ اُن کا خمیربھی دبستان دلی کا پروردہ ہے تو آتش کو ناسخ ہی کی طرح دبستان لکھنٔو کا نمائندہ کیوں کہا گیا کیا یہ دبستان دہلی کے ساتھ ناانصافی ہے یا آتش ؔ کی انفرادیت کی حق تلفی؟

حواشی اور حوالہ جات
٭۱)آل احمد سُرور، ادب اور نظریہ ،ص۸۰
٭۲)وحید قریشی، ڈاکٹر، تنقیدی مطالعے، کاروان پریس لاہور، اکتوبر۱۹۶۷ء،ص۶۹
٭۳)وقار عظیم، سید، ڈاکٹر، لکھنٔو کا دبستان شاعری اور آتش کی غزل صحیفہ لاہور، جولائی ۱۹۶۳
٭۴)آزاد، محمد حُسین، آب حیات، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ۲۰۰۹ء،ص ۳۱۸
٭۵)حیات خان، سیال، شمیم حیات، سیال ، ہمارے شاعر، نذر سنز، اُردو بازار، اکتوبر۱۹۸۸ء،ص ۴۶
٭۶)اعظمی، خلیل الرحمن، ڈاکٹر، مقدمل کلام آتش، علی گڑھ ایجوکیشنل بک ہائوس ۱۹۶۵ء،ص۱۲۰
International Links:
www.wikipedia.org/wiki/urdu-lit….
www.urdurisala.com
www.urdupoint.com
www.wikipedia.org/wiki/Khawaja Haider Ali Atish
www.wikipedia.org/wiki/Imam Bakhsh Nasikh

ناسخ، امام بخش، کلیاتِ ناسخ (جلد اول، جلد دوم) ترتیب و تحشیہ یونس جاوید، مجلس ترقی ادب، لاہور

Leave a Comment