خداکی بستی۔ حقیقت پسندی کی عمدہ مثال

٭ڈاکٹر الطاف حسین
اسسٹنٹ پروفیسر،
شعبہ اردو ،سینٹرل یونیورسیٹی سرینگر ،کشمیر۔
شوکت صدیقی کا ناول’’خدا کی بستی‘‘ ایک حقیقت پسندانہ ناول ہے جس میں پاکستان کے قیام کے بعد ، مملکت خدا داد کے زوال آمادہ کامعاشرے کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ شوکت صدیقی نے یہ ناول اس وقت لکھا جب پاکستان کو وجود میں آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا لیکن اس قلیل عرصے میں ہی پاکستان ، سیاسی و سماجی ، معاشی اور اخلاقی اعتبار سے بحران کا شکار ہو چکا تھا۔ اس صورت حال نے ادیبوں اور دانشوروں کو کرب میں مبتلاکر رکھا تھا۔ چنانچہ اسی پس منظر میں ایک افلاس زدہ خاندان کے حوالے سے شوکت صدیقی نے’’ خدا کی بستی ‘‘کی تخلیق کی اور معاشرے میں پھیلی گھٹن ، بے سمتی ، تشکیک ، افلاس ، استحصال اور لاقانونیت کو اپنے ناول میں پیش کر کے قوم کو بیدار اور ہوشیار کرنے کی کوشش کی۔
دراصل اس وقت فسادات کے موضوع کو خاصا اعتبار حاصل تھا لیکن عام قاری کے ذہن کی آنکھ اس وقت جن باتوں کو دیکھ رہی تھی اس کا احاطہ شوکت صدیقی نے بڑی مہارت کے ساتھ کیا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ معاشرہ کو سیاسی ، سماجی و معاشی انصاف مہیا کیا جائے اور انسان کو اس کی جائز ضروریات سے محروم نہ کیا جائے ورنہ عدم انصاف اور استحصال کا ماحول جرائم پیشہ افرا د کو جنم دے گا ۔ شوکت صدیقی نے اس معروضی حقیقت کو جان لیا تھا اسی لیے ان کے اس ناول کے کردار خیر و شر کے کیمپوں میں کھڑے نظر آتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ سماج کو ظالم اور مظلوم کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
آغاز میں ناول کا اہم کردار نوشہ نظر آتا ہے جو ایک مفلس گھرانے کا فرد ہے وہ اپنے ایک بھائی اور بہن کے ساتھ اپنی ماں کی نگرانی میں تاریک ماحول کا ایسا متحرک فرد نظر آتا ہے جو محنت کر کے بھی اپنے ماحول کو نہیں تبدیل کر سکتا ۔ ایک اچھی زندگی اس کا خواب ہے جو سراب چابت ہوتا ہے اسی کی طرح کے دوسرے کردار راجہ شامی بھی اسی ماحول کا حصہ ہیں ۔ آخر ایک دن تنگ آکر نوشہ اپنے ساتھی کے ساتھ گھر سے بھاگ نکلتا ہے یوں بعد کی کہانی کا بڑا حصہ اس کی ماں اور بہن سلطانہ سے متعلق بن جاتا ہے ۔ اب کباڑیہ نیاز اس ماحول کو اور بھی مکدر کر دیتا ہے ۔ پہلے وہ نوشہ کی ماں سے شادی کرتا ہے اور انشورنس کی رقم ہتھیا نے کی خاطر ڈاکٹر موٹو سے اسے ایسے انجکشن لگواتا ہے جو اسے بالا آخر موت سے ہمکنار کر دیتے ہیں بعد میں نیاز کا نشانہ سوتیلی بیٹی سلطانہ بنتی ہے جس سے ایک بچہ بھی ہو جاتا ہے ۔اس تاریکی میں سلمان جیسا سیدھا سادھا مگر غیر متحرک یا یہ کہ نسبتاً کم فعال کردار تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے جگنوکی طرح چمکتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے اس کی مفلسی اگر اس کے آڑے نہ آئی ہوتی تو وہ سلطانہ کو حاصل کر سکتا تھا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں سلطانہ مظلومیت کا سمبل بن کر اُبھرتی ہے ۔
شر سے متعلق دوسرے چند کردار شاہ جی ، پوکر حضرت جعفری اور خاں صاحب ہیں ۔ شاہ جی بچوں کو اغوا کرا کے اپنے یہاں لاکر ان کو سماج دشمن عناصر کا روپ دے کر روپیہ اینٹھتے ہیں ہمارے یہاں آج بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو اس طرح ہزاروں گھرانوں کو اُجاڑتے ہیں اس طرح جرم کا یہ بھیانک روپ ایک گھناؤنے انسٹی ٹیوشن یا ادارے کے حیثیت سے سامنے آتا ہے جو اس قدر مضبوط ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اورسیاسی ارباب واقتدار اسکے سامنے معذ ور نظر آتے ہیں ۔ شوکت صدیقی کے ناول میں جرائم کی دُنیا انڈرولڈ Under Worldکے جاہل اور ظالم کردار ہی شر کے ساتھیوں کی حیثیت سے ہمارے سامنے نہیں آتے بلکہ یہاں وہ سفید پوش لوگ بھی ہیں جن کی معاشرہ میں بڑی عزت ہے جو سماجی کاموں کی آڑ میں دولت سمیٹتے ہیں ان میں خان صاحب سب سے نمایاں ہیں ۔ ایسے لوگوں کی زندگی کا مقصد دوسروں کا استحصال کرکے اپنی تجوریاں بھرنا ہوتا ہے یہ کردار ہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن عام دنیا میں یہ لوگ بے نقاب اور رُسوا نہیں ہوتے بلکہ خوب ترقی کرتے نظر آتے ہے اور چونکہ منافقت اور ریا کاری ان کے معروف ہتھیار ہوتے ہیں ایسے لوگوں کا خاتمہ ممکن بھی نظر نہیں آتا اسی لیے کرداروں کی عکاسی سے ناول نگار انسانوں اور اداروں کے ضمیر جھنجھوڑ نا چاہتا ہے ۔ شوکت صدیقی نے بھی ایسا ہی کیا ہے ان کے اس ناول کو پڑھ کر بے اختیار انگریزی ناول نگار چارلس ڈکنس(Charles Dickens)یاد آجاتا ہے جو معاشرہ کے ظالم ، جابر ، منافق اور ریا کار کرداروں کی عکاسی میں یدطولیٰ رکھتا ہے اس نے بچوں پر ہونے والے ظلم کے حوالے سے سب کو بے نقاب کیا اور یہ اس کے ناولوں ہی کا اعجاز تھا کہ انگلینڈ کی پارلیمنٹ نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قونین بنائے ۔ عام طور ادب میں لکھے جانے والے ناخوشگوار حقائق کا فوری اثر نہیں ہوتا ۔ خصوصی طور پر وہاں پر کہ جہاں حکومتی ادارے بے حس لوگوں کے ہاتھوں میں ہوں لیکن پھر بھی ادیب کے لکھے ہوئے الفاظ احتجاج کی عمارت کو تعمیر کرتے جاتے ہیں ۔ اور اصلاح احوال ہو ہی جاتی ہے ۔ فرانسیسی انقلاب کے پیچھے ادیبوں کا احتجاج کار فرما نظر آتا تھا یا وہ ممالک جنہوں نے آزادی حاصل کی اس میں ادیب کے قلم نے بھی ہتھیار کا رُول انجام دیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا ادب فن کے دائرہ میں نہیں آتا ۔ یہ ادیب کاکام ہے کہ وہ فن کے جمالیاتی تقاضوں کوبروئے کار لاتے ہوئے بھی معاشرہ میں تبدیلی کاسامان پیدا کر دے ۔ شوکت صدیقی نے جہاں استحصالی کردار دکھائے ہیں وہاں فلک پیما تنظیم کے حوالے سے انسانوں کے لیے قربانی دینے والے کرداروں کو بھی پیش کیا ہے جیسے سلمان ، صفدر بشیر ۔ علی احمدغیرہ ۔انہی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر زیدی اور پروفیسر صاحب بھی ہیں جو مایوسی کا شکار نہیں ہیں یہ سب انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں ۔ ان میں علی احمد کے کردار کی عظمت سلطانہ سے شادی کر کے اس کے بچے کو اپنا لینے سے ہی ظاہر ہوتی ہے ۔ کچھ لوگ فلک پیما یا اسکائی لارک تنظیم کی عکاسی کو تبلیغی جذبہ ے تعبیرکرتے ہیں اور اس پر تنقید کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر پروفیسر عبدالسلام نے لکھا ہے :

’’شوکت صدیقی حقیقت نگاری کے ساتھ اپنے ماحول کی تشکیل
نہیں کرسکے ہیں وہ تبلیغی جذبے کا شکار ہو گئے ہیں ۔‘‘(۱)
جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ وہ حقیقت نگاری کے ساتھ اپنے ماحول کی تشکیل نہیںکرسکے ہیں تو اس پہلوکو تو سب نے تسلیم کیا کہ ترقی پسندوں میں ناول کے حوالے سے شوکت صدیقی نے حقیقت نگاری کے فن میں بڑا نام کمایا ہے ۔ ہم کرشن چندر پر رومانی حقیقت نگاری کا الزام لگا کر انہیں بڑے ناول نگاروں کی صف سے خارج کر سکتے ہیںتاہم شوکت صدیقی نے جن کا مشاہدہ اور تجربہ بڑا مستحکم اور گہرا رہا ہے پختہ حقیقت نگار ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ ایسا ناول نگار جو پلاٹ کی بنیاد پر ناول تصنیف کر رہا ہواور جس نے جزئیات نگاری میں کمال دکھایا ہو اس پر یہ الزام جچتا نہیں پھر یہ کہنا کہ وہ تبلیغی جذبہ کا شکار ہو گئے ہیں اسکائی لارک تنظیم کی غرض وغایت کے عدم ادراک کا شاخسانہ ہے۔ شوکت صدیقی کے یہاں یہ تنظیم ایسے افراد کے کرداروں کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوئی ہے جو شر کے مقابلے پر خیر کے طرف دار ہیں ۔ ہمیں ایسے تمام سرمایہ دارانہ ممالک میں ایسی فلاحی تنظمیں ملیں گی جو نبی نوع انسان کی خدمت کو اپنا شعار بنائے ہیں ۔ اور ایسے زندہ کردار بھی نظر آجاتے ہیں جو نوبل پرائز اور دیگر عالمی انعامات اپنی انسانیت نوازی کی بنا پر حاصل کرتے ہیں ۔ ویسے بھی اس تنظیم سے کہیں یہ تاثر نہیں اُبھرتا کہ شوکت صدیقی نے ناول کو اس قسم کی تنظیم کی تبلیغ کے لیے استعمال کیا ہے ۔ ناول میں کسی نظریہ کا بھی پرچار نہیں ملتا ۔ اسی طرح ڈاکٹر احسن فاروقی بھی اس ناول کو ہدف تنقید بناتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’خدا کی بستی تو اشتراکی طرزِ ناول نگاری کی بھی سطحی پیروی
ہے ‘‘؛ (۲)
ڈاکٹر حسن فاروقی نے خدا کی بستی کے لیے اسی مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ شوکت صدیقی نے گندگی کے پیچھے صفائی کا پر تو نہیں دکھایا ورنہ وہ فلسفی ناول نگار کے دائرہ میں آجاتے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ ضروری تو نہیں کہ ناول نگار فلسفی بننے کی کوشش ضرورکرے اس نے اپنے مخصوص وژن سے ماحول کی عکاسی کر دی اب اگر اس سے کوئی فلسفہ اُبھرتا ہے تو ٹھیکہے اور اگر نہ اُبھرے تب بھی کوئی ایسی بات نہیں کہ ناول نگار سطحی بن گیا۔ شوکت صدیقی نے ’’خدا کی بستی ‘‘ میں مطالعیت Readabilityکا جو حسن برقرار رکھا ہے اور جس طرح فلسفی نہ ہوتے ہوئے بھی ثابت کیا ہے کہ جرم کے ڈانڈے افلاس و استحصال سے جاکر ملتے ہیں جس کے نتیجہ میں معاشرہ ٹوٹتا ہے اور یہ کہ معاشرہ میں سماجی بہبود کی تنظیمیںایک کرپٹ نظام کا آئینہ فراہم کرتی ہیں۔ وہ بذات خود ان کی کامیاب ناول نگار ی پردال ہے اور جہاں تک ڈاکٹر صاحب نے اسے اشتراکی ناول نگاری کے مقابلے پر رکھا ہے تو ناول میں اتفاق سے کہیں بھی وہ اشتراکی پروپگینڈہ نہیں ملتا جو اشتراکی ناول کا خاصہ ہے ۔ اگر اس ناول میں اشتراکی پروپگینڈہ ہوتا تو اسے نقاد اور قاری دونوں کی طرف سے مسترد کر دیا جاتا اور دوبار پاکستان ٹیلی ویژن پر اس کی ڈرامائی تشکیل بھی پیش نہ کی جاتی ۔
’’خدا کی بستی ‘‘ پڑھتے ہوئے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ مصنف نے تاریکی یا اندھیرے کو بہت اہمیت دی ہے ۔ چوں کہ اس میں جرائم کی دُنیا پیش کی گئی ہے اور استحصالی نظام پرشد ید وار کیا گیا ہے اس لیے شاید انہوں نے ماحول کی معنویت آشکار کرنے کے لیے خاصے مناظر اندھیرے کے تعلق سے پیش کئے ہیں ۔ اندھیرا خود استحصال اور کرپٹ سسٹم کی علامت ہے ۔ یہ ظلم اور جبر کا بھی احساس دلاتا ہے اس تعلق سے شکسپئیر کا المیہ ڈرامہ میکبتھ Macbethیاد آ جاتا ہے جس کا پورا منظر نامہ تاریکی میں ترتیب پاتا ہ ے بلکہ اندھیرابذات خود ایک خفیہ کردار کی حیثیت سے احسان ناشناس میکبتھ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ سائے کی طرح پیچھے لگارہتا ہے اور آخر میں انھیں ناگ کی طرح ڈس لیتا ہے چونکہ شوکت صدیقی قنوطی فن کار نہیں ہیں اور رجائیت ان کی تحریر کا مضبوط حصہ ہے اس لیے ان کے فن میںاندھیرے کی علامت اسکائی لارک تنظیم کی روشنی کے استعارے کے ساتھ مل کررمزیت کا تاثر پیش کرتی ہے ۔ اس اعتبار سے اگر اُن کے پیش کئے گئے اچھے کردار سامنے سے ہٹا لئے جائیں تو ناول کا ڈھانچہ فلک بوس ہو کر رہ جائے گا۔ واضح رہے کہ شوکت صدیقی کے یہاں علامتیں اور استعارے کردار کی ٹھوس شکل میں سامنے آتے ہیں اور ان میں اوپر کی ٹھونس نظر نہیں آتی اس بارے میں ایک انٹرویو میں وہ خود کہتے ہیں:

’’جہاں تک علامت نگاری کا تعلق ہے وہ تو ادب کا بنیادی حصہ
ہے ۔ اس سے گریز اختیار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس لیے کہ افسانے کا
کردار بذات ِ خود ایک علامت ہوتا ہے ‘‘۔ (۳)
گوکہ یہاں انہوں نے کردار کوعلامتی افسانے کے حوالے سے کہا ہے لیکن یہ ہی حقیقت ان کے ناول پر بھی صادق آتی ہے ۔ ناول میں تو کہانی ، سماج اور ماحول کا وسیع پس منظر ہوتا ہے اس لیے اس کا کردار تو واقعی علامت بن کر اُبھرتا ہے ۔ اس سلسلے میں ہوری ۔ دھنیا ، گوتم ،نیلمبر ۔ چمپا ، کمال ابوالمنصور اور ایسے کئی کرداروں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جن سے ان ناولوں کی پہچان بن گئی ہے ۔ ایسے ہی کرداروں میں نوشہ ۔راجہ ، نیاز ۔ ڈاکٹر موٹو اور سلطانہ شامل ہیں ۔ اس اعتبار سے شروع سے اب تک جو ادبی ناول لکھے گئے ہیں اور جنہیں اعتبار بھی حاصل ہے وہ کردار کی پیشکش کے حوالہ سے علامتی کہلائے جا سکتے ہیں گو کہ اس پر کچھ نقاد اعتراض کر سکتے ہیں کہ چونکہ ناول کا پیٹرن (Pattern)روایتی ہے اور چوں کہ کردار تو ناول میں ہوتا ہی ہے اس لیے اسے علامتی کیوں کہا جائے ؟ ان کے نزدیک وہ علامتی ناول کا رُوپ اس وقت دھارے گا جب اس میں خود کلامی ہو ۔ اس میں تجریدیت ہو ، اساطیر کے حوالے ہوں ۔ استعاراتی فضا ہو اور پورا ماحول علامتی رنگ میں رنگا ہوا ہو ۔ اب اس قسم کے ناول بھی ۱۹۸۰؁ء کے اطراف سے سامنے آرہے ہیں جن میں یہ سب خاصیتیں موجود ہیں۔ اس کے لیے’’ دیوار کے پیچھے‘‘۔’’ میں اور وہ جنم کنڈلی ‘‘، ’’خوشیوں کا باغ ‘‘ ،’’ جنم رُوپ‘‘ وغیرہ کی مثالیں دی جا سکتی ہیں یہ اور چند دوسرے ناول جدیدیت کے تحت لکھے گئے ہیں تاہم شوکت صدیقی کا یہ کہنا کہ کردار بذات ِ خود ایک علامت کا رُوپ دھار لیتا ہے ۔ عمومی طور پر دُرست ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ماجرہ سے بھر پور روایتی ناول کی راہیں بھر پور علامتی ناول سے جو کہ جدیدیت کی پیداوار ہوتا ہے جُدا بھی ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ روایت میں شگاف ڈالنے کی غرض سے جدید ناول نگار ہئیت کے تجربے شروع کر دیتا ہے ۔ علامتیں تخلیق کر کے اس میں سمو دیتا ہے اور یوں جدید ناول روایتی ناول سے علیحدہ اپنی شناخت بنانے لگتا ہے تاہم اس کا یہ مطلب یہ نہ لیا جائے کہ غیر جدید ناول کی کوئی اہمیت نہیں اس کی اپنی ایک الگ حیثیت اور اہمیت ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر مطالعیت Readability اور تاثر کے لحاظ سے روایتی ناول کا اپنا ایک مقام ہے ٹالسٹائے ۔ ماہم ۔ لارنس ، گالزوردی ، فلابئیر ، ہمینگوے ، ہاڑدی ، جارج ایلیٹ ، ہاتھورن ، پرانٹے ، سسٹرس وغیرہ اور ادھ برصغیر میں رسوا ؔ ۔ پریم چند ، عصمت چغتائی ، عزیز احمد ،ممتاز مفتی ، ڈاکٹر احسن فاروقی ، علی عباس حسینی ، قرۃالعین حیدر ، عبداللہ حسین ، شوکت صدیقی وغیرہ جدید فن کاروں سے ہٹ کر اپنی زبردست حیثیت رکھتے ہیں ۔
اس ناول میں ایک خصوصیت فطری مکالمہ نگاری بھی ہے ہر کردار اپنے ماحول کے تناظر میں مکالمہ بولتا ہے ۔ یا دہے کہ مکالمہ محض متاثر نہیں کرتا ۔ بلکہ پڑھنے والے کے ذہن میں ایک موثر منظر روشن کر دیتا ہے ۔ یہ خاصیت خدا کی بستی میں ہر جگہ ملتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری جزئیات نگاری اور چھوٹے چھوٹے پیراگرافوں کے ذریعہ کہانی کو سرعت دینے کا عمل بھی قابل ِ تعریف ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے چھوٹے کینویس پر طویل مناظر یکے بعد دیگرے چلے آرہے ہوں اسی لیے ان کے یہاں اس ناول میں سریع الحرکت پلاٹ کا تاثر اُبھرتا ہے ۔ جوکہ مصنف کی فنی ذہانت کی دلیل ہے ۔ اکثر ناولوں کی کہانی میں ٹھس پن ۔ واقعات کے منجمد ہو جانے اور نئی نئی صورت احوال کے نہ جنم لینے سے پیدا ہو جاتا ہے ۔ خدا کی بستی ، اس نقص سے پاک ہے البتہ اس میں ایک دو جنسی مناظر پراعتراض کی گنجائش موجود ہے جو اگر نہ بھی دئیے جاتے تو کہانی میں فرق نہیں پڑتا ۔ لیکن مجموعی طور پر زبان وبیان ، پلاٹ ، تکنیک ، مواد اور ماجرائیت کو دیکھتے ہوئے یہ ناول ہمارے ادب کے چند اہم ناولوں میں سے ایک ہے ۔

Leave a Comment