٭ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
رحمت وارثی کا معمول تھاکہ وہ شام کو اپنے گھر اور گلی سے نکل کر بادامی چوک میں آجاتے اور وہاں سے اپنے تین گہرے دوستوں ندیم الحسن،برج موہن اور سندر سنگھ کے ساتھ دور تک ٹہلنے چلے جاتے۔ان کے تینوں دوست تب تک ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک رحمت وارثی ان کے پاس نہ پہنچتے۔یہ چاروں یار ہر روز شام کو ٹہلنے کے ایسے عادی ہوگئے تھے کہ اپنے اپنے اہم گھریلو کام کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گھر سے ٹہلنے چلے آتے۔ٹہلنے کے بعد یہ چاروں بادامی چوک پر آکر حلوائی کی دکان پر چائے کاایک ایک کپ پیتے اور اس کے بعد ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہوئے رخصت ہوجاتے۔ایک روزحسب معمول رحمت وارثی کے تینوں دوست بادامی چوک میں ان کا انتظار کررہے تھے کہ کچھ ہی وقت کے بعد وہ ان کے پاس پہنچ گئے۔دوستوں نے باری باری رحمت وارثی سے ہاتھ ملانا چاہا تو انھوں نے دور سے ہاتھ جوڑ لیے اور کہنے لگے
\”دوستو! اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کیجیے۔اب ہاتھ ملانے کا زمانہ نہیں رہا بلکہ اب دور سے ہاتھ جوڑ کر اپنی خطا کا اعتراف کرنے کا زمانہ آگیا ہے۔کیونکہ خدا کی نظر میں ہر شخص خطا کار ہے، کوئی کم کوئی زیادہ۔اس لیے آج کے بعد ٹہلنا چھوڑ دیجیے اور گوشہ تنہائی اختیار کیجیے کیونکہ دنیا میں کو رونا وائرس آگیا ہے!