خواتین ہند کی مزاح نگاری(آزادی کے بعد )

\"\"
٭صالحہ صدیقی
ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی۔
Email-salehasiddiquin@gmail.com

ہسنا ہنسانا انسانی نفسیات اور اس کی فطرت میں شامل عمل ہے۔ جس کا جنس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔عورت بھی ا س سے مستثنیٰ نہیں۔ مزاحیہ ادب ( شاعری اور نثر) کی تخلیق بھی مرد یا عورت کسی ایک جنس سے مختص نہیں،جہاں تک بات اس صنف سخن کی ہے تو اردو ادب میں طنز و مزاح کو عموما یکساں معنوں میں ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے ،حالانکہ طنز و مزاح میں فرق ہے ۔دونوں کی اپنی حدیں ہیں ،لیکن اس کے باوجود اکثر ایک دوسرے کے متوازی بھی چل رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ایسے مل جاتی ہیں کہ ان کو الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے ،طنز سے مراد طعنہ ،ٹھٹھہ ،تمسخر یا رمز کے ساتھ بات کرنا ہے ،جب کہ مزاح سے خواش طبعی ،مذاق یا ظرافت مراد لیا جاتا ہے ۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ایسی تحریریں جو ہنسنے پر مجبور کرے لیکن ا س تحریر میں تنقید کو مزاح کا جامہ پہنا دیا جائے تو اسے طنز و مزاح کہتے ہیں ۔یہ اردو کی ایک مقبول صنف لطیفہ ہے ۔۔جس میں ہنسی مذاق کے پیرائے میں سماج و معاشرے کی حقیقتوں کو فاش کیا جاتا ہے ۔
اردوکی اس اہم صنف میں خواتین نے بھی طبع آزمائی کی ہیں ۔ اردو ادب میں طنز و مزاح کی تاریخ کا جائزہ لینے پر معلوم ہو تا ہے کہ یوں توبیسویں صدی سے قبل خواتین کی اس قسم کی تحریریں نظر نہیں آتیںالبتہ بیسویں صدی میں جب خواتین میں لکھنے پڑھنے کا عمل بڑھا ، ان میں لکھنے کا رحجان فروغ پانے لگا تو انہوں نے مزاحیہ ادب کی طرف بھی توجہ کی۔جس کے سبب آزادی کے بعد اس عمل میں اضافہ ہوا اور کئی خواتین نے مزاح نگاری کو بھی اپنایااور اس میں طبع آزمائی کی ۔خواتین کی مزاحیہ تحریریں شاعری کے علاوہ نثر میں کئی اصناف میں جزوی یا کلی طورپر مزاح پیش کرکے لکھا گیا ہیں۔ جن میں مزاحیہ مضامین، انشائیے، مزاحیہ افسانے، ڈرامے، ناول، کالم، ادب الاطفال، سفر نامہ، رپورتاژ، خطوط، خاکے ، وغیرہ سبھی کچھ شامل ہیں۔ ان تحاریر کو یاتو پورے یا کچھ مزاحیہ عناصر استعمال کرکے پیش کیا گیا ہے۔ کچھ خواتین نے تو خالص مزاحیہ ادب کو ہی اپنایا ہے۔ جیسے شفیقہ فرحت اور کچھ نے دیگر تحریروں کے ساتھ اس صنف کو اپنایا جب کہ کچھ نے اپنی تحریروں میں مزاح کوداخل کیا ۔ان میں سے چند اہم خواتین کی طنز و مزاح نگاری کی خدمات کا جائزہ یہاں پیش کیا جاتا ہیں ۔
آصف جہاں۔مشہور مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی بھانجی تھی۔ وہ بھی اس میدان میں سیاحت کا شوق رکھتی تھی۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر جو مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کا ایک مجموعہ گل خنداں حیدرآباد سے شائع ہوچکا ہے۔ اس کے مضامین کے موضوعات گھریلو واقعات ہیں۔ جس کے اظہار کے لئے افسانہ کی تکنیک استعمال نہ کرتے ہوئے مضمون نویسی کا رنگ دیا گیا ہے۔ اسے مزاح کی دنیا میں خواتین کے ابتدائی نمونے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ معیار کے لحاظ سے یہ بلند پایہ تصنیف نہیں کہی جاسکتی ۔ لیکن طنز و مزاحیہ ادب میں خواتین کی کاوشوں کے ابتدائی نقوش ہونے کے باعث اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
انیس قدوائی۔ مشہور سیاسی رہنما رفیع احمد قدوائی کی بھاوج اور شفیع احمد قدوائی کی بیوی تھی۔ اگر چہ اپنی سماجی فلاحی سرگرمیوں کے باعث انہیں لکھنے فرصت نہیں ملتی تھی لیکن اس کے باوجود بھی وہ کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی تھی۔ وہ ہلکے پھلکے خاکے، مضامین ، مزاحیہ انداز میں لکھتی تھی۔ ان کے خاکوں کا مجموعہ اور مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے جس میں ان کی مزاحیہ تحریریںکیا مولانا آزاد کبھی بچے تھے ،حسن مسرت ہے یا غم، غالب گپ شپ ،رسوائیاں، آدھ گھنٹے ،بزم ادب میں شوہروں کی قسمیں،یہ مرد شامل ہیں۔
انیس ؔ قدوائی کو طنزو مزاح اور انشائیہ سے دلچسپی اپنے والد ولایت علی بمبوق سے ورثہ میں ملی تھی۔ جو اردو کے مشہور مزاح نگار و انشائیہ نگار ادیب تھے۔ انیس قدوائی نے اپنے انشائیے نہایت شگفتہ پر لطف زبان میں لطیف انداز میں طنزو مزاح کی چاشنی میں ڈوبو کر لکھے ہیں۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے فرار کا انہیں یہی راستہ نظر آتا ہے کہ کسی پر ہنسو،اپنے آپ پر ہنسو اور دلی سکون حاصل کرو ۔ کیا مولا نا آزاد بچے تھے۔ میں انہوں نے اپنے خیالات کی اڑان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا اس میں ان کا مزاح عروج پر ہے۔ حسن مسرت یا غم یہ مضمون بھی وسعت تخیل کی مثال ہے۔ مصنفہ کے ذہن میں جو خیالات آئے جس جس طرح سے انہوں نے دوسروں کو دیکھا یا خود محسوس کیااور خوش و غم کے جو تصورات ان کے ذہن میں ابھرے اس کا پر لطف بیان اس انشائیہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی طرح غالبؔ غپ شپ بھی ان کے تخیل کی عمدہ مثال ہے۔ غالب کی ذات کو مرکز بنا کر انہوں نے عجیب و غریب انبساط افزا خیالات پیش کئے۔ غالبؔ کے اشعار کا انطباق دور حاضر کے واقعات پر ایک باغ و بہار کیفیت پیدا کرتا ہے۔ رسوائیاں میں رسوائیوں کی مختلف اقسام اور ان سے نبرد آزمائیوں کا بیان دیکھنے کو ملتا ہے۔
آدھ گھنٹے بزم ادب میں۔ بیانیہ انشائیہ ہے۔ کیا پیش آسکتا ہے اس کا مرکزی خیال ہے۔ بزم ادبیات کو بو العجبیاں اس کا موضوع ہیں۔ شوہروں کی قسمیں اس میں انیس قدوائی نے شوہروں کی ایسی ایسی قسمیں گنوائیں اور ان سے ایسی ایسی صفات ملحق کردیں کہ شاید شیطان بھی انہیں پیش نہ کرسکے۔ یہ مرد بھی اس قسم کا انشائیہ ہے۔ سال صدی کیوں نہیں۔ یہ انشائیہ آج کل دہلی کے خواتین نمبر میں شائع ہوا تھا یہ بھی اک پر لطف تحریر ہے۔ اس طرح انیس قدوائی نے بہت کم لکھا لیکن جو بھی طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کیا اس سے سماج کی حقیقتوں کا آئینہ پیش کر دیا ۔
انیس سلطانہ۔ اس فہرست میں ایک اہم نام انیس سلطانہ کا ہے جن کا تعلق بھوپال سے ہے یہ وہاں کی معروف ادیبہ ہیں۔ طنز و مزاح سے ان کی فطری دلچسپی تھی۔ انھوںنے اس موضوع پر ایک مقالہ بھی لکھا ۔ ( حیدرآباد میں طنزو مزاح کی نشوونما) جو شائع ہوچکا ہے۔ ان کی مزاحیہ تحریریں رسالہ شگوفہ وغیرہ میں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتی رہتی تھی۔ ان کی تحریریں زیادہ تر انشائیہ کی شکل میں ملتی ہے۔ (۱)’’ہر فن مولا‘‘(شگوفہ سالنامہ جنوری ۱۹۸۸ء؁ ص ۷۳۰)انیس سطانہ کا پر لطف انشائیہ ہے۔ اس میں ان لوگوں پر طنز ہے جو ہوتے تو کچھ بھی نہیں۔ لیکن دعویٰ ہر فن مولا ہونے کا کرتے ہیں،ہر معاملہ میں ٹانگ اڑاتے ہیں۔ یہ دراصل ایک ایسی خاتون کا بیان ہے جو اس صفت کی موصوف تھیں۔ ان کی لن ترانیاں سن سن کر مصنفہ کا دماغ بگڑ سا جاتا ہے اور اس سے جو ماحول بنتا ہے کیا کیا حالات پیدا ہوتے ہیں اسی کا بیان ہیں ۔ ایسی عورتیں معاشرہ میں اکثر و بیشترنظر آجاتی ہیں۔ جو ڈنگے مارنے میں مہارت رکھتی ہیں ،ان کا ایک اور طنز و مزاح(۲) ’’اے کاش‘‘ کے عنوان سے ہے جوکتاب نما دہلی۔ اکتوبر ۱۹۸۸ء؁ ص ۷۵ میں شائع ہوا۔اس میں غالبؔ کے اس مصرعے ہزاروں خواہیشیں ایسی کو مرکزی خیال بنایا گیا ہے۔ انسان لا محدود تمنائوں آرزئوں خواہشوں کا مرکز ہے اور انسان ہمیشہ یہی سوچتا رہتا ہے ،خواہش کرتا رہتا ہے کہ اے کاش ایسا ہو۔ اس کی خواہشیں لامحدود ہے ،نہ ختم ہونے والی ہے اور ساری زندگی ایک کے بعد دیگر خواہشات میں الجھا رہتا ہے ،یہ انسانی حقیقت کے اسی پہلو کی نمائندگی کرتا ہے ۔(۳)’’اردو رزمیہ کی تلاش‘‘ ( شگوفہ سالنامہ ۱۹۹۰ء؁ ص ۸۹) یہ افسانوی انداز کا انشائیہ ہے۔ اس میں ان شاعروں پر طنز کیا گیا ہے جو ادبی دنیا میں ہنگامے کھڑے کرتے رہتے ہیں۔اس انشائیہ کے مطابق رزمیہ شاعری کو دنیا کی بہترین شاعری کہا گیا ہے۔اس انشائیہ میں مرزا خواجہ بیگ خاں دل میں ٹھان لیتا ہے کہ باپ دادا رہے ہوں گے اصل ترکستانی، وہ خود تو ہندستانی ہیں اور اردو ان کی مادری زبان ہے۔ فارسی گو کہ پدری زبان تھی۔ لیکن زبانوں کو پدری ہونے پر کبھی فخر نہ ہوسکا۔ اس لئے اردو شاعری کو دنیا کی بہترین شاعری کے مقابلے پر لاکر کھڑا کر دنیا ان کا فرض ہے۔ اس عبارت سے فکاہیہ کا آغاز ہوتا ہے اور پھر مختلف و اقعات کو پیش کیا گیا ہے۔ رزمیہ تخلیق کرنے کے لئے اردو کے مشہور مراثی اور رزمیہ کتابوں جیسے بلّی نامہ وغیرہ کی فراہمی اور مختلف شاعروں کی سرگرمیاں اور ادبی نوک جھونک ، اشعار ، ان کی تحریک مختلف واقعات و حالات اس میں بیان ہوتے ہیں۔ اس طرح پورا انشائیہ ایک خاص ماحول کے ارد گرد گھومتا ہے اور بڑی خوبصورتی سے شاعروں پر طنز کیا گیا ہیں ۔ان کا ایک اور طنز مزاح (۴)خموشی آرزو دارم۔(شگوفہ، اگست ۱۹۹۱ء؁ ص ۳۹) میں مہنگائی، سیاست، مختلف مشکلات زندگی ، الیکشن بازی، ریڈیو پر عجیب قسم کے پروگرام، وغیرہ کئی امورو مسائل کو پیش کیا گیا ہیں ۔یہ بھی اہم انشائیہ ہے جو سماج کی حقیقتوں کو مزاحیہ انداز میں منظر عام پر لاتا ہیں ۔(۵)چھ دہائیوں کے بعد ( شگوفہ ،ستمبر ۲۰۰۳ء؁ ص ۲۳) اس میں آزادی کے بعد مختلف حالات کی تبدیلیوں کا بیان مثلامہنگائی ، آلودگی ، ٹی وی پروگرام، ان میں اشتہارات ،معاشرتی تبدیلیاں وغیرہ پرپر طنز کیا گیا ہیں۔ یہ بھی سماج کی حقیقتوں کا پردہ فاش کرتا ہوا دلچسپ طنز و مزاح ہے ،جس کا زبان و بیان انتہائی دلچسپ اور پر لطف ہے ۔(۶)یہ تماشا نہ ہوا۔ ( شگوفہ ، جنوری ۲۰۰۴ء؁ ص ۵۹) دوسروں کے گھروں میں وقت بے وقت بال بچوں کے ساتھ جاکر ہڑبونگ مچانے والے لوگوں پر طنز ہے۔ کیسے کیسے حالات پیش آتے ہیںاور لوگوں کی زندگی میں خلل ڈالا جاتا ہے۔ اس کا پر لطف بیان ، واقعات کی شکل میں ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے گو ہر گھر کی کہانی ہے روز مرہ کی زندگی کے اس واقعہ کو مصنفہ نے بڑے ہی مزاحیہ انداز میں لکھا ہے ،اس کا مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنفہ کس قدر باریک بینی سے چھوٹے چھوٹے واقعات پر گہری نظر رکھتی ہیں ان کا انداز وبیان قابل دید ہیں ۔(۷)جو خط لکھوں تو۔ ( شگوفہ ، ستمبر ۲۰۰۴ء؁ ص ۲۵) ایک صفحہ پر خط نویسی پر انشائیہ ہے۔ یکے ازیار ان مہربان( بیگم شاہ جہاں) ۔( شگوفہ ،دسمبر ۲۰۰۴ء؁ ص ۴۳) ایک خاکہ ہے۔ اس میں بھوپال کی حکمراں نواب شاہ جہاں بیگم کا تذکرہ ہے۔ یہ بھی انتہائی اہم طنز و مزاح ہے ،ان تمام تصنیفات میں مصنفہ کی باریک بینی ،مشاہدہ ،انداز بیان ،زبان ،لفظوں کا انتخاب و ترتیب اور طنز و مزاح پر ان کی گرفت کا قائل ہونا پڑتا ہیں ۔
ثریا صولت حسین۔ان کا قلمی نام ثریا صولت حسین اور اصل نام ثریا بانو ہے۔ بنیادی طور پر افسانہ نویس و شاعرہ ہے۔ لیکن انہوں نے کچھ مزاحیہ خاکے اور انشائیے بھی لکھے ہیں۔ ان کے مجموعہء افسانہ مدوجز ر میں کچھ مزاحیہ تحریریں شامل ہیں۔ مدو جزر ( مصنفہ ،ناگپور۔۱۹۸۶ء؁) کے بعد ان کا ایک اور افسانوی مجموعہ شیشہ و سنگ شائع ہوا۔ جس میں ان کی پرانی نئی تحریریں یکجا ہیں۔ اسمیں بھی ان کی مزاحیہ تحریریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ( مصنفہ، بمبئی ۲۰۱۰ء؁ ) نیند پری، ایک انشائیہ ہے۔ جس میں ثریا نے نیند اور اس سے وابستہ تصورات وحالات وغیرہ کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ مختلف افراد کی نیند ، بچوں کی بڑوں کی نیند،ذمہ داروں کی نیند، مجبور انسانوں کی نیند ، قوموں کی نیند کے بارے میں خیالات پیش کئے ہیں۔ اس میں نیند کو بنیاد بنا کر سماجی ممسائل کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔اسی طرح ’’رنگ بہار ‘‘میں بہار موضوع ہے۔ بہار سے وابستہ تصورات و خیالات ، واقعات وغیرہ کو انشائیہ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔اسی طرح ’’ یورآئر‘‘ ان ایک خاکہ ہے۔ جس میں ثریا نے اپنے شریک حیات جسٹس قاضی صولت حسین کا خاکہ پر لطف انداز میں پیش کیا ہے۔ ان تمام تصانیف سے ان کی طنز مزاح نگاری کا قائل ہونا پڑتا ہے ،ان کا انداز بیان پر اثر اور شگفتہ ہے ۔
جہاں بانو نقوی۔حیدرآباد۔ کا شمار عہد حاضر کی معتبر خواتین ادیبہ میں ہوتا ہے۔ ان کا اصل میدان تحقیق و تنقید ہے۔ لیکن انہوں نے کچھ مزاحیہ تحریریں بھی لکھی ہیں۔ ان کی مزاح نگاری کے انشائیوں میں نمایاں ہوئی ہے۔حالانکہ ان کے انشائیہ تحریروں میں مزاح سے زیادہ مضمون نگاری کا انداز ملتا ہے۔ ان کا ایک انشائیہ ’’یاد‘‘ ( مطبوعہ ایوان اردو حیدرآباد ، سالنامہ ۱۹۴۸ء؁) میں بطور مثال پیش کیا ہے۔ یہ ایک ادبی تحریر ہے۔ جس میں یاد سے متعلق یادوں اور تصورات کو شگفتہ پرلطف تحریر کے رشتے میں پرودیا گیا ہے۔ اسمیں تصورات خیالات، تخیل کی کی پرواز کے عناصر ہیں۔ ان کے انشائیے بھی خواتین طنز و مزاح کی تاریخ میں اہم اضافہ ہیں ۔
ڈاکڑ حبیب ضیاء۔ان کی مزاحیہ تحریریں مختلف جرائد خصوصاً رسالہ شگوفہ میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے مزاحیہ مضامین انشائیوں وغیرہ کے مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ ’’گویم مشکل ‘‘کافی مقبول ہوا تھا۔ یہ پندرہ مضامین پر مشتمل ہیں۔ اس میں گھریلو زندگی ، اور مختلف سماجی مسائل پر اظہار خیال ملتا ہے۔ حبیب ضیا خالص مزاح کی قائل نہیں۔ طنز کے نشتر بھی چلاتی ہیں ۔ ان کے اسلوب میں نسوانیت کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ ان کے کچھ مضامین بے ساختہ داد تحسین وصول کرلیتے ہیں۔جن میں (۱) آئی بلا کو ٹال تو۔ (شگوفہ سالنامہ جنوری ۱۹۷۹ء؁ ص ۴۵) اس انشائیہ میں انہوں نے مہمان کو موضوع بنایا ہے۔ بن بلائے یا بلائے مہمانوں سے کس طرح نپٹا جائے اس کی ترکیب حبیب ضیا نے بتائی ہیں۔ بیرونی ممالک سے آنے والے مہمان، سسرالی مہان، میکے کے مہمان، اور طرح طرح کے مہمانوں کا پر لطف انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ آخر میں وہ کہتی ہیں۔ \”اس کے علاوہ مہمان سے قرض مانگنا، اس کے بچوں سے پانی بھرانا ، شریک زندگی سے خواہ مخواہ جھگڑا مول لینا۔ یہی مہمان بھگانے کے طریقوں میں چند موثر طریقے ہیں\”۔ ( ص ۴۷)۔بن بلائے مہمانوں پر لکھا یہ دلچسپ انشائیہ انتہائی پرلطف ہے ۔(۲)ہوائی جہاز کا سفر ( شگوفہ ، سونیر ، نومبر ۱۹۸۹ء؁۔ ص ۵۱) جیسا کہ نام سے ہی واضح ہو جاتا ہے اس مزاحیہ مضمون میں حبیب ضیاء نے ہوائی جہاز کے سفر کو مرکز مزاح بنایا ہے۔ ایک عام مسافر کو ہوائی سفر میں کیا کیا حالات اور مصائب و بوالعجیبوں سے سابقہ پڑتا ہے اور وہ کس طرح گھبراتا اور عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔ اس کا پر لطف بیان اس انشائیہ میں کیا گیا ہے۔اسی طرح عمر ، استدلال اور انتقال( شگوفہ سونیر، نومبر ۱۹۹۹ء؁ ۔ص ۳۱) میں عمر موضوع ہے۔ اس میں خواتین کے اپنی عمر چھپانے کے رویے کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ خواتین کس کس طرح اپنی عمر کم بتاتی ہیں اس کا پر لطف بیان اس تحریر میں دیکھنے کو ملتاہے۔ (۳)شادی خانہ آبادی۔( شگوفہ اکتوبر ۲۰۰۰ء؁ ۔ ص ۹) بھی پر لطف انشائیہ ہے۔ اس کا موضوع شادی ہے۔ جو ایک عام سماجی عمل ہے۔ اس کے بیان میں مصنفہ نے جو جو رنگ آمیزیاں کی ہیں وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ لڑکے لڑکی کے لئے رشتے کی تلاش، مناسب جوڑا پسند کرنے کا عمل، شادی کی تیاریاں، مشکلات حالات سبھی کا دلچسپ بیان ملتاہے۔ شادی کی تقریب میں جوجو خرافات ہوتے ہیں۔ ہڑ دنگ مچتا ہے ا س کا بیان بھی پر لطف ہے۔ یہ انشائیہ شادی کی تیاریوں سے لے کر ودائی تک ہونے والی تمام کارکردگیوں ،مسائل اور پیش آنے والے تمام واقعات کا دلچسپ بیان اور مزاح کے پیرائے میں طنز بھی ہیں ۔اس میں مصنفہ کی قابلیت اور ہنر مندی کا قائل ہونا پڑتا ہے ۔(۴)حیدرآباد کی سڑکیں۔ ( شگوفہ سالنامہ ۲۰۰۴ء؁ص ۲۷) بھی ایک پر لطف مضمون ہے۔ اسمیں حیدرآباد کی سڑکیں نشانہ مزاح ہیں۔ ڈاکڑ حبیب ضیاء کے مضامین کا ایک مجموعہ انیس بیس اور ایک جو مثرگاں اٹھائیے بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس میں ان کے سترہ مضامین ہیں۔ جلسے، ادھ جل گگری چھلکنا جائے،
حیدرآباد تہذیب، جو مثرگاں اٹھائیے، بچہ باہر گیا ہے وغیرہ انشائیے بھی خوب ہیں۔ ان کے دیگر مضامین میں، بدیسی مال( شگوفہ ، سالنامہ ، جنوری ۱۹۸۲ء؁ ) اور جلسے ( شگوفہ ، اپریل ۱۹۸۳ء؁ ) بھی قابل ذکر ہیں۔ مصنفہ نے بہترین انشایئے قلم بند کیے ،جو طنز و مزاح کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔
رشید موسوی۔حیدرآباد کی پروفیسر رشید موسوی بھی مزاح نگار ادیبہ ہیں۔ ان کے ہلکے پھلکے مضامین و انشائیے شگوفہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کا ایک مجموعہ’’ کاغذی پیرہن ‘‘شائع ہوا ہے۔ جس میں ان کے مختلف موضوعات پر مزاحیہ تحریریں، مضامین ، انشائیے شامل ہیں۔ اس میں کل ۲۰ مضامین شامل ہیں۔
رشیدہ قاضی۔ بمبئی کی رہنے والی مزاح نگار ادیبہ ہے بمبئی کی ایک درس گاہ میں پرنسپل کے عہدے پر فائز رہ چکی ہیں۔ انہوں نے مزاح نگاری کا میدان پسند کیا ۔ پہلے وہ رشیدہ مُلّا کے نام سے لکھا کرتی تھی۔ شادی کے بعد انہوں نے اپنا نام رشیدہ قاضی ر کھ لیا۔ ان کی مزاحیہ تحریریں مختلف رسائل کی زینت بنیں پھر ان کے انشائیوں کا ایک مجموعہ پرواز، کوکن اردو رائٹر ز گلڈ کینیا، افریقہ نے شائع کیا۔ (۱۹۸۸ء؁) اسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ رشیدہ قاضی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بمبئی جیسے شہر کی ایک تعلیمی شخصیت ہیں۔ کھلے دل و دماغ کی مالک ہیں۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور ادب پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ (۱))’’پرواز ‘‘ رشیدہ قاضی کی یہ کتاب ۱۹۸۸ء؁ میں شائع ہوئی۔ اس میں ان کے انشائیوں میں حقیقت نگاری، عصری حیثیت ، سماجی شعور ، خیالات کی اڑان ، تبسم زیر لب، طنز کی نشتریت، زبان واسلوب کی دلکش خصوصیات موجود ہیں۔ اسمیں گائے، سرگذشت آٹو گراف بک کی، ثریا سے زمین پر ، سفر یاد آیا، سگ رہ بری بلا ہے۔ قصہ قاضی کا ، پیام تعزیت ، پلیٹ سے پیٹ تک، بارے بندر کا کچھ بیاں ہوجائے، کرشمہ سازیاں الیکشن کی، سورج نے زباں کھولی، کّوے ، افواہ گرم ہے۔ بجیا نے بلی پالی، مسز بھروچہ ( خاکہ) شامل ہیں۔ یوسف ناظم نے اس پر لطف دیباچہ لکھا ہے۔ رشیدہ کے انشائیوں میں جا بجا افسانویت کا عنصردیکھنے کو ملتا ہے۔ اظہار خیالات کرتے کرتے کوئی واقعہ بیان کرجاتی ہیں اور اپنے خیال کی وضاحت کرتی ہیں۔ کہیں کہیں پورا بیان ہی قصہ کی شکل میں پیش ہوتا ہے۔ (۲)’’گائے ‘‘میں انہوں نے اس بے زبان کو نشانہء طنز و مزاح بنا یا ہے۔ جس قدر خیالات و محاورات و باتیں اس جانور سے متعلق ہو سکتی ہیںاس انشائیہ میں ان کو بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح ’’سگِ رہ بلا ہے‘‘ میں کتوں کا اور ’’کوّے‘‘ میں کوّے کا اور’’ بارے بندر کاکچھ بیان‘‘ میں بندر کا ذکر ہے۔ قصہ قاضی کا میں قاضی مشق مزاح ہے۔ ان کے بیانات میں مشگافیاں پڑھتے ہی بنتی ہیں۔ ’’سورج نے زباں کھولی‘‘ ایک سائنسی انشائیہ ہے۔ افواہ گرم ہے۔ کرشمہ زباں الیکشن کی، سماجی بوالعجبیوں پر مبنی ہے۔ اس طرح یہ تمام انشائیے انتہائی دلچسپ ہے جس میں مصنفہ نے بڑی ہنر مندی سے ان موضوعات کو بیان کیا ہیں ۔
سرور جمال۔مشہور مزاح نگار احمد جمال کی اہلیہ ہے ،محترمہ سرور جمال خود بھی ایک مزاح نگار ہیں۔ احمد جمال پاشا کا شمار دور حاضر کے اچھے مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے ذکر کے بغیر اردو طنز و مزاح کا کوئی جائزہ مکمل نہیں کہا جاسکتا ۔ جمال ہم نشیں ڈرمن اثرکروکے مصداق ان کی محبت کے اثرات ا ن کی بیگم سرور جمال میں آنے ناگزیر تھے۔ ان کی عربیہ مضامیں رسائل میں شائع ہوتے رہے اور دو مجموعے مشق ستماور مفت کے مشورے شائع بھی ہوچکے ہیں۔ احمد جمال پاشا نے اپنی بیگم کو ترقی پسند ظرافت نگاری سے وابستہ بتایا ہے۔ حالانکہ کئی نقادوں کے نزدیک طنزو مزاح وہ صنف ادب ہے جسے کسی ازم سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا جیسے کہ ہنسی کو نہ کسی قوم ملک زبان ادب ازم سے وابستہ کیا جاسکتا ہے۔ بہر حال سرورؔ جمال کے دونوں مجموعے ان کی فکر و فن طنز و مزاح کے نمایندہ ہیں۔ مفت کے مشورے ، حرفوں کے بنے، مانگے کی مصیبت ، ہمارا شہر ترقی کی راہ پر، وقت کی مار، ایسا بھی تو ہوتا ہے ،ملاوٹ کی مصیبت اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان کے یہاں طنز کا عنصر کم دیکھنے کو ملتاہے۔ ان کا کینوس گھریلو زندگی اور گردوپیش کی دنیا تک محدود ہے لیکن انداز بیان کی شگفتگی اور روانی قاری کو غوروفکر پر نہ سہی مسکرانے پر ضرور مجبور کردیتی ہے۔ مثلامفت کے مشورے میں ڈاکڑ پوچھتا ہے کیا آپ کے یہاں گائے بھینس یا بکری بلی ہے۔ عورت بولی ڈاکڑ صاحب میں ایک بڑی عمارت کی پانچویں منزل کے ایسے چھوٹے سے کمرے میں رہتی ہوں جسے ڈربہ کہا جائے تو مناسب ہے وہ گائے ، بھینس تو کجامچھر مکھی تک پالنے کی گنجائش نہیں ۔اس طرح کے طنزیہ اسلوب میں مزاح کے لبادے میں سماجی حقیقتوں کی عکاسی ان کی تحریروں میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہیں ۔

سلمیٰ صدیقی۔ رشید احمد صدیقیؔ ہمارے مزاحیہ ادب کی بڑی اہم شخصیت گزری ہے ۔ ان کا اثر ان کی بیٹی سلمیٰ صدیقی میں آنا حیرت کی بات نہیں۔ سلمیٰ صدیقی نے بہت کم لکھا ہے جو لکھا غنیمت ہے۔ مزاحیہ تحریروں میں ان کی چند انشائیے ،خاکے اور ایک چھوٹا سا سوانحی خاکہ نما ناول، سکندر نام ان کی اس ادب میں یادگار تحریریں ہیں۔ ’’سلیقہ بھی ایک کلا ہے‘‘ (دور حیات بمبئی ۔آزادی نمبر ۱۹۶۴ء؁۔ص ۲۳) ان کی شگفتہ تحریر کی نمایندگی کرتا ہے۔ اس میں انہوں نے سلیقہ کو ایک کلا (فن) بھی بتایا اور ایک روگ بھی کہ جو انسان اسمیں مبتلا ہوجاتا ہے عمر بھر اس میں مبتلا رہتا ہے۔ فلمی ہیروئن سے انٹرویو میں انہوں نے انٹرویو لینے والوں کی بوالعجیباں بتائی ہیں۔ ان کا قرۃالعین کا خاکہ بھی مزاح لئے ہوئے ہے۔ سکندر نامہ ۔ اسٹار پبلی کیشنز دہلی سلمیٰ کی مزاح نگاری کا شاہکار ہے۔ یہ دراصل سلمیٰ صدیقی کے ایک گھریلو ملازم سکندر کے کردار پر مبنی ہے۔ وہ نہایت سادہ لوح ہے۔ کنوارا ہے۔ لوگ اسے شادی کے نام پر بے وقوف بناتے ہیں۔ اس کی حرکات سکنات گفتگو ، الفاظ تلفظ رویے خیالات سبھی عجیب و غریب ہیں۔ وہ مغل اعظم کو مرغِ اعظم کہتا ہے۔ اچھے خاصے ناموں کا خون کردیتا ہے۔ واقعات کو غلط کردیتا ہے اس کی سائیکل پطرس کے افسانے کی سائیکل کی طرح عجیب ہے وہ گائے کا شوقین ہے لیکن مصرعوں کو غلط سلط واقعات کر دیتا ہے۔ وہ کسی کو برا نہیں سمجھتا ۔ طوائفوں کو بھی نہیں۔ اس کی زبان تیکھی ہے۔ وہ اپنی سادہ لوحی سے پریشانیوں کا شکار بن جاتا ہے۔ لیکن وہ دنیا کے مشہور بدھوں کی طرح بڑی گہری باتیں بول جاتا ہے۔ سلمیٰ نے اس سوانحی خاکہ نما ناول میں طنز و مزاح کے ایسے رنگ بھرے ہیں کہ ہمارے ادب میںاس کی مثال مشکل سے ہی ملتی ہے۔ سلمیٰ کا ایک انشائیہ نور جہاں کا لوٹا بھی مزے دار تحریر ہے۔ اس طرح سلمیٰ نے بہت کم تصانیف سے ہی اپنی قلم کی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ان کی تصانیف یقینا خواتین طنز و مزاح میں اہم اضافہ ہے ۔
رضیہ صدیقی۔حیدر آبادسے تعلق رکھنے والی رضیہ صدیقی کا ایک انشائیہ’’ ہوئی مدت کہ غالبؔ مرگیا پر یاد آتا ہے‘‘ ( شگوفہ اکتوبر ۱۹۸۸ء؁ص ۱۹) ایک پر لطف انشائیہ ہے۔ اس میں غالب ؔ کے اشعار کو دور حاضر کے چند واقعات پر منطبق کرکے مزاح پیدا کیا ہے۔ مثلاًطالب علموں کی بے اطمینانی توڑ پھوڑ پر، الیکشن میں لیڈروں کی حرکات پر انہیں غالبؔ کا یہ شویاد آتا ۔ دہر میں نقش و فاوجہ تسلی نہ ہوا۔ ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہ نہ ہوا۔ جامعہ عثمانیہ کے آرٹس کالج کی سیٹرھیوں کے عین اوپر بلور پر عثمانیہ یونیورسٹی کا مونوگرام دیکھ کریادآتا ہے۔ دیکھے مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہوں۔ ایک لکچرار پی ایچ ڈی کے لئے بار بار گائڈ بدلتے ہیں تو یاد آتا ہے کہ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں وغیرہ کو بڑے پر کشش انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔
رئیسہ محمد۔رئیسہ محمد حیدرآباد کی رہنے والی ہیں ان کے مزاحیہ انشائیے شگوفہ میںشائع ہوتے رہتے ہیں۔میچنگ( شگوفہ دسمبر ۱۹۹۹ء؁ ص ۴۳) اس انشائیہ میں انہوں نے آج کل کے فیشن پرستوں میں میچنگ کے مرض کا ذکر کیا ہے۔ خواتین میں یہ کریز عام ہے۔وہ سرسے پیر تک ہر شے ایک ہی رنگ کی یا ڈیزائن کی یا ایک طرز کی چاہتی ہیں۔ سر کے بال ، چہرے کا میک اپ، لباس ، ساری ،اوڑھنی بلاوز شلوار ،سینڈل ، اور گلے ،کان، ہاتھ ، وغیرہ کے زیور موزے بھی میچنگ چاہتی ہیں۔ مصنفہ نے اس رویہ پر بڑے تیکھے انداز میں اظہار خیال کیا ہے اپنی باتوں کی وضاحت واقعات کے ذریعے کی ہے۔ یہ ہندستانی معاشرے میں خواتین کا بڑا عام رحجان ہے جسے مصنفہ نے بڑے دلچسپ انداز میں ر قم کیاہے۔
شباہت۔(شگوفہ مئی ۲۰۰۴ء؁ ص ۴۹) میں انہوں نے خواتین اور مردوں میں اس کریز کا ذکر کیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشہور شخصیت ، ایکڑ، ایکڑیس یا ریڑر وغیرہ سے مشابہت پیدا کریں۔ کوئی خود کو مدھوبالا، میناکماری، نوتن، ہیمامالنی ، نرگس، وغیرہ سمجھتی ہے تو نوجوان دلیپ کمار، اشوک کمار، راج کپور، شاہ رخ خان، سلمان خان کی مشابہت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ سلمان خان نے تیرے نام فلم میں جو بال رکھے تھے۔ اس کی نقل بے شمار نوجوانوں نے کی، لباس کا بھی حال ہے مصنفہ نے اس کریز کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔چار بیگن ہرے ہرے۔(شگوفہ اپریل ۔۲۰۱۰ء؁ ) بیگن پر انشائیہ ہے۔اس طرح رئیسہ محمد نے عام زندگی کی عام حرکات و سکنات جس کو دیکھتا تو ہر کوئی ہے اسے جیتا بھی ہے لیکن موضوع کم ہی بناتا ہے ۔مصنفہ کی یہ کاوش قابل تحسیں ہے ۔
ذکیہ انجم(دہلی)۔ذکیہ انجم نئی دہلی کی رہنے والی ہیں ان کا انشائیہ بہروپیا۔(شگوفہ،جولائی ۱۸۸۱ء؁ ص ۲۹) ایسے لوگوں پر طنز ہے جو کچھ ہیں۔ لیکن ظاہر کچھ اور کرتے ہیں۔ ان میں سادھو سنیاسی رہنا، شاعر سبھی شامل ہیں۔
سعدیہ غوری(ریاض) ان کا انشائیہ کاک ٹیل( شگوفہ نومبر ۱۹۹۲ء؁) مختلف ادیبوں کی مزاحیہ تحریروں ، کالموں خبروں لطائف وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اس میں عبدالمجید سالک کا کالم افکاروحوادث ظریف لکھنئو ی کے اشعار، احمد ندیم قاسمی کا کالم حرف و حکایت وغیرہ شامل ہیں۔
شفیقہ فرحت۔عہد حاضر کی عظیم مزاح نگار ادیبہ جنہوں نے عمر بھر طنز و مزاح کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ تمام عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزار دی اور اپنی طنز و مزاح نگاری سے اردو مزاحیہ ادب کو مالا مال کرکے دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ شفیقہ فرحت نے نہ صرف ہندو پاک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی بے پناہ شہرت حاصل کی ۔ یہ ناگپور میںپیدا ہوئیں۔ بھوپال میں عمر بسر کی اور اسی سرزمین میںپیو ند خاک ہوئیں۔ انہوں نے مضامین انشائیے، افسانے، ڈرامے سبھی کچھ لکھا لیکن جو لکھا مزاحیہ لکھا۔ ان کے مجموعے لو آج ہم بھی، بلا عنوان، گول مال، رانگ نمبر ، ٹیڑھا قلم شائع ہوچکے ہیں۔ ملک کے مقتدر رسائل میں ان کی تحریریں شائع ہوچکی ہیں۔ رسالہ شگوفہ میں ان کی بے شمار مزاحیہ تحریریں شائع ہوئی ہیں۔
لوآج ہم بھی ( مدھیہ پردیش اردو اکیڈیمی بھوپال۔۱۹۸۱ء؁)اس مجموعہ میں شفیقہ کی مزاحیہ تحریروں کا انتخاب شامل ہے اس میں درج ذیل ۱۶ مضامین شامل ہیں۔ جن میں مضامین انشائیے اور افسانہ نما تحریریں ہیں۔ میرے روم میٹ۔بچیں کہاں کہ، خط لکھیں گے، تماشائے اہل ادب، ہم بھی صاحب جائداد ہوگئے، آئے ہے بے کسی عشق پر رونا غالبؔ، اور لکھنا ناول کا ، عہد نامہ جدید، ذرا دھوم سے نکلے، میں نے چاہا تھا کہ اندوہ مکاں سے ،کرسی ، حضرت آلو، دعا دیتے ہیں رہزن کو، اور بنانا پروگرام کا ، اندیشہ ہائے دور دراز، مقدمہ۔میری روم میٹ افسانہ نما تحریر ہے۔ ہوسٹل کی زندگی کا بیان ہے۔’’ بچپن کہا ں کہ‘‘ کرکٹ کے کھیل کے کریز پر مبنی ہے، ’’خط لکھیں گے‘‘ خط پر انشائیہ ہے۔ ’’تماشائے اہل ادب‘‘ میں ادیبوںشاعروں کی بوالعجبیاں اور حرکات پرمبنی ہیں۔ ’’ہم بھی صاحب جائیداد ہوگئے‘‘ میں ایک متوسط خاندان کی مالی کی مشکلات کا ذکر ہے۔’’ آئے ہے بے کسی عشق پر رونا غالب‘‘ اؔ نشائیہ پُرمزاح ہے ’’اور لکھنا ناول کا‘‘ بھی مزاحیہ تحریر ہے۔ ناول نویسی کی مشکلات کا ذکر ہے۔ عہد نامہ جدید ایک پیروڈی ہے۔ جس میں دور حاضر کی خرابیاں موضوع ہیں۔ ذرا دھوم سے نکلے میں غالب کے سلسلے میں ہونے والی تقریبات ، مجالس ، ادب وغیرہ کا مضحکہ خیز بیان ہے۔اسی طرح ’’اندوہ مکاں ‘‘میں مکانوں کی قلت کا ذکر ہے۔ کرسی ایک انشائیہ ہے جس میں افسر شاہی اور سیاسی لیڈروں کے ہتھ کنڈے موضوع ہیں۔ ’’حضرت آلو‘‘بھی ایک انشائیہ ہے۔ دعا دیتے ہیں رہزن کو، اور بنا پروگرام کا، اندیشہ ، مقدمہ بھی پر لطف انشائیے ہیں۔ رانگ نمبر ( نئی آواز دہلی۱۹۸۸ء؁) درج ذیل مزاحیہ تحریروں پر مشتمل ہے۔ ہوئے ہم جولے کے رسوا، ہدایت نامہ جدید سیانے چوہے، ووٹ پکی سیاہی کا، ملاقات بڑے لوگوں کی، بداور بدنام، گول مال، ڈھنڈورا، اس شکار سے اس شکا ر تک ، بھولے بھلائیے وعدے، بستر گول، جیک اینڈجل۔ان تمام تحریرون میں شفیقہ کا مزاح جولانیاں لیتا نظر آتا ہے۔ وہ مختلف امورومسائل پر خیالات کی توسیع کرتی جاتی ہیںاوربات میں بات پیدا کرتی جاتی ہیں۔ کہیں بیانیہ مضمون کا انداز ہے تو کہیں خیالات کی اڑان انشائیہ کا اور کہیں افسانہ کا۔اس طرح انھوں نے اپنے انوکھے اسلوب اور انداز بیان اور مشاہدات سے طنز و مزاح میں اہم اضافہ کیا ۔
صادقہ ذکی۔ پروفیسر صادقہ ذکی نے بھی انشائیے ، مزاحیہ انداز میں لکھے ہیں۔ ن کا ایک انشائیہ عمر رفتہ (کتاب نما دہلی، نومبر ۱۹۸۸ء؁ ص ۷۳) مزاح نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مصنفہ نے عمر کو مرکز خیال بنا کر تخیلات کا تانا بانا بنا ہے۔ کاروان عمر دھیرے دھیرے اس طرح گزرجاتا ہے کی آہٹ بھی انسان کے کانوں تک نہیں پہنچتی اورنہ مسافرحیات کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی عمر کی کتنی منزلیں گزر گئی ہیںاور منزل گور کس قدرقریب ہے۔ اس انشائیہ میں مصنفہ ہلکے پھلکے انداز میں اظہار خیال کیا ہے لیکن انداز بیان پر لطف ہے۔
صغریٰ مہدی۔مشہور مصنفہ ناول و افسانہ نویس ڈاکڑ صغریٰ مہدی بھی اپنی مختلف النوع تحریروں میں مزاح سے کام لیتی ہیں۔ انہوں نے اس کا زیادہ استعمال اپنے سفر ناموں میں کیا ہے۔ مشاہدات ابن بطوطی،، سیر کہ دنیا کی غافل، ذرا یہیں پڑوس سے اور دیگر مختصر سفر ناموں میں انہوں نے اس طنز ومزاح کا بھر پو ر استعمال کیا ہے۔ مشاہدات ابن بطوطی ، یہ عنوان ہی مضحکہ خیز ہے۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ کی تانیث ابن بطوطی کے عنوان سے کرکے انہوں نے اپنے سفر نامہ کی نوعیت صاف ظاہر کردی ہے۔ ان کے سفر ناموں کے مجموعہ سیر کر دنیا کی غافل میں، اور دوسری کتاب میخانوں کا پتہ میں انہوں نے جا بجا حالات کو ائف واقعات، ماحول، مناظر، کردار ، اعمال ، افعال ، گفتگو زبان و بیان سبھی میں مزاح کے عناصر داخل کرکے انہیں باغ و بہار بنادیا ہے۔ اردو میں مزاحیہ سفر نامہ نگاری کے بہترین نمونے تو کیپٹن شفیق الرحمٰن اور ابن انشاء نے پیش کئے ہیں۔ صغریٰ مہدی نے بھی اس طرح کی باتیں اپنے سفر ناموں میں داخل کرکے انہیں پر لطف بنایا ہے۔ ان کی مزاح نگاری کی تعریف یوسف ناظم جیسے مزاح نگار نے بھی کی ہے۔ صغریٰ مہدی کی خدمات سے اردو طنز ومزاح کا دامن بلا شبہہ وسیع ہوا۔
صالحہ عابد حسین۔ ایک سنجید ہ ادیبہ تھیں۔ لیکن ہر انسان کی طرح وہ بھی جس مزاح ، اظہار سے بے گانہ نہیں تھیں۔ انہوں نے بھی کہیں کہیں مزاح کا استعمال اپنی تحریروں میں کیا ہے۔ صالحہ عابد حسین نے ریڈیو پر نشر کرنے کے لئے جو ہلکے پھلکے انداز کے مضامین لکھے ان میں ان کی مزاح نگاری کی جھلکیاں نظر آجاتی ہیں۔ ان میںشماتت ہمسایہ ایک پر لطف تحریر ہے۔ جس میں ہمسایہ موضوع مزاح ہے۔
عصمت چغتائی۔مرزا عظیم بیگ چغتائی اردو کے مشہور مزاح نگار گزری ہیں۔ شوکت تھانوی کی طرح وہ بھی عمر بھر اس صنف سے وابستہ رہی ۔ ان کی ہر تحریر چاہے مضمون ہو، انشائیہ ہو، افسانہ ہو ،ڈرامہ ہو، مزاح کا رنگ نظر آتا ہیں۔حالانکہ عصمت نے مزاح نگاری کو اپنا اسلوب نہیں بنایا ، لیکن مزاح کے عناصر کو اپنی فکشن میں ضرورداخل کیا۔ لیکن ان کا زیادہ رحجان طنز کی طرف رہا۔ ان کی تحریروں میں طنز مزاح کے مقابلے میں زیادہ استعمال ہو رہے۔ ان کی طنز نگاری کا ادب میں جا بجا ذکر ہوا ہے۔ عصمت چغتائی کی مزاح نگاری کے بارے میں مشہور مزاح نگار خاتون ڈاکڑ شفیقہ فرحت نے لکھا ہے کہ \”افسانے ناول اور ڈراموں میں طنزو مزاح کو انتہائی موثر اور خوبصورت انداز میں جگہ دینے والی مصنفائوں میں پہلا اور اہم نام عصمت چغتائی کا ہے۔ ان کی دنیا بہت وسیع ہے۔ اترپردیش کا متوسط طبقہ، اور وہاں کا مسلم معاشرہ ، بمبئی کی کارہ باری اور فلمی دنیا، حیدرآباد کا دیمک زدہ جاگیردارانہ نظام ، کہیں گھٹن ہے کہیں خوف کہیں مریضانہ نفسیات، عصمت کی گہرائیوں تک اتر جانے والی نظر تھی۔ حالات اور کردار کو سمجھنے والی عقل اور سٹرتے ہوئے زخموں پر نشتر لگانے والی ہمت اور بے ناکی ۔ ان خصوصیات کی بنا پر ان کا افسانوی ادب طنز و مزاح کا بھی ایک اہم حصّہ بن جاتا ہے۔ ان کا شاہکار ناول ٹیڑھی لکیر، اس کی اچھی مثال ہے۔ ناولٹ ، معصومہ اور بزدل میں بھی یہ رنگ حاوی ہے۔ اور لاتعداد افسانوں میں بھی انہوں نے طنز کے تیر چلائے ہیں۔ چند اچھے مزاحیہ ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ اور خالص طنز یہ مضامین بھی۔ ڈراموں میں ہلچل اور دلہن کیسی ہے کو بہت شہرت ملی، اور مضامین میں ایک شوہر کی خاطر کو، عصمت چغتائی اپنی تحریر کو خود، بلی کے پنجے کے کھرونچوں سے تشبیہ دیا کرتی تھیں\”۔
( اردو ادب کو خواتین کی دین۔ اردو اکیڈیمی دہلی۔ ۱۹۹۴ء؁ ص ۲۶)
عطیہ خان۔ مراد آباد یوپی کے رہنے والے سید شاہد علی کی دختر ہیں۔ ۱۹۲۴ء؁ میں مراد آباد میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ لکھنئو یونیورسٹی سے ایم اے ایم ایڈ کیا۔ وہ افسانہ نویس بھی ہیں بعد میں وہ ترک وطن کرکے پاکستان اور لندن چلی گئیںوہیں مقیم ہے۔ ان کی مزاحیہ تحریریں رسالہ شگوفہ میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔’’ رونا‘‘(شگوفہ ۔نومبر ۲۰۰۲ء؁ ص ۹) ایک انشائیہ ہے۔ اس میں افسانوں کا ایک عام فعل رونا موضو ع ہے۔ مصنفہ نے اس میں رونا کا عمل، اس کے اثرات ، اس سے متعلق تصورت، محاورات وغیرہ کو مزاحیہ زبان و اسلوب میں پیش کیا ہے۔ پورا انشائیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ’’ چارپائی کا مرثیہ‘‘( شگوفہ ، مئی ۲۰۰۳ء؁) اس فکاہیہ کا موضوع چار پائی ہے۔ جو زندگی میں عام استعمال کی شئے ہے نیند، بیماری اور موت سب اس پر واقع ہوتے ہیں۔ غیر ممالک میں یہ شئے نایاب ہے۔ مصنفہ نے چار پائی اس سے متعلق باتیں، اس کا استعمال اس سے متعلق محاورات وغیرہ کو بڑے شگفتہ انداز میں پیش کیا ہے ۔ ان کا انداز بیان نرالا ہوتا ہے ۔
فاطمہ تاج۔حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی شاعرہ بھی ہیں اور نثر نگار بھی۔ ان کی مزاحیہ تحریریں رسالہ شگوفہ میں بکثرت شائع ہوئی ہیں۔ وہ مزاح کا فطری ملکہ رکھتی ہیں۔ ان کے موضوعات، واقعات، حالات، کوائف ماحول کردار، ان کی گفتگو وغیرہ اور زبان و اسلوب سبھی میں مزاح شامل ہوتا ہے۔ انہوں نے مضامین ، انشائیے اور افسانوی انداز کی تحریریں لکھی ہیں۔ خزانہ میری تلاش میں ہے۔ (شگوفہ ،اکتوبر ۱۹۹۱ء؁ ص ۳۹) افسانہ نما مضمون ہے۔ جس میں ایک خواب کا بیان ہے۔ مصنفہ خواب میں ایک جن کو دیکھتی ہیں۔ جوان پر عاشق ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ اپنے شوہر کو دیکھ کر جن کے خزانے کو اور اس کے عشق کو ٹھکرا دیتی ہیں۔ آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس تحریر میں مزاح کے عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ’’ہم اور ہمارے وہ‘‘( شگوفہ، نومبر۱۹۹۱ء؁ ص ۳۹) مختصر سا انشائیہ ہے۔ جس میں اپنے شوہر کو موضوع بنا کر انہوں نے عائلی زندگی میں پیش آنے والی کئی باتوں کا ذکر کیا ہے۔ شوہر کا سلوک، برتائو، عادات و اطوار کو پیش کیا ہے۔ افسوس کہ اس تحریر میں بھی مزاح کے عناصر کہیں نظر نہیں آتے ۔ یہ ایک بیانیہ ہے اور بس۔’’ہم اور ہمارے ڈاکڑ‘‘( شگوفہ ، جولائی ۱۹۹۲ء؁ ص ۳۰) اس تحریر میں ڈاکڑ موضوع مزاح ہے۔ اس میں ڈاکڑوں کا مریضوں کے ساتھ سلوک، ان کے مشورے، مریضوں کے علاج کی جانب سے بے پروائی، ان کی فیس طلب، وغیرہ کو اچھے مزاحیہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔مشاعرہ یا۔۔۔۔( شگوفہ ،اکتوبر ۱۹۹۷ء؁ ص ۳۹) مشاعروں کی بوالعجبیاں ، شعرا کی حالت، ان کے حلئے، ان کی تحرے، سامعین کی ہڑ بونگ، ہوٹنگ، وغیرہ کو مزاحیہ ، انداز مین پیش کیا گیا ہے۔’’ خوشی کی تلاش میں‘‘ ( شگوفہ، فروری ۲۰۰۴ء؁ ص ۲۵) افسانہ نما تحریر ہے۔ اس میں انسان کی خوشی کی تلاش میں مختلف اشیاء حاصل کرنے، عید کے موقعے پر خریداری ، دوکانداروں کی لوٹ وغیرہ کا پر لطف بیان ہے۔ ان کی زبان صاف ستھری اور انداز بیان پرکشش ہوتا ہے ،طنز کے پیرائے میں مزاحیہ انداز میں سماج کی نمائندگی کرتی ان کی تصانیف اردو ادب کا اہم سرمایہ ہے ۔
قرۃالعین حیدر۔مشہور ادیبہ ،ناول نگار اور افسانہ نویس قرۃ العین حیدر نے خالص مزاحیہ تحریریں تو یاد گار نہیں چھوڑیں البتہ ان کے ناولوں اور افسانوں میں مزاح کے عناصر جا بجا ملتے ہیں۔ انہوں نے واقعات ، کرداروں اور گفتگو میںان کا استعمال کیا ہے۔ ان کا مزاح بلند، ستھرا، نکھرا ہے۔ کار جہاں دراز میں کئی واقعات انہوں نے مزاحیہ انداز میں لکھے ہیں۔ مثلاً جلد اول میں فصل پنچم میں نمبرے پر حکیم الامت اور جھوائی ٹولے کا نسخہ میں انہوں نے علامہ اقبال کے لکھنئو آنے ، وہاں ایک دعوت میں مرغن کھانا کھایا، تو ان میں ان کی طبعیت خراب ہوگئی۔\” علی محمد خاں راجہ محمودآباد نے ان کی زبردست دعوت کی، وہاں خوب ڈٹ کر شاعر مشرق نے لکھنئو کا مرغن ماحضر تناول فرمایا، رات کے گیارہ بجے ہلٹن ہوٹل واپس آئے، اپنے پلنگ پر سورہے۔ رات کے ڈھائی بجے جو ان کے نالہ ہائے نیم بس کا وقت تھا۔ افلاک سے جواب آنے کے بجائے پیٹ میں اٹھا زور کا درد۔ شدت کی مروڑ ، سرہانے حکیم عبدالوالی کی دوا کا قدح رکھا ہوا تھا آپ اس کی چوگئی خوراک پی گئے\”۔ اس سے علامہ کی طبیعت کافی خراب ہوجاتی ہے۔ ان کا ڈاکڑی علاج ہوتا ہے۔ طبعیت سنبھل جاتی ہے۔ یہ بیان کافی مضحکہ خیز ہے۔ اس طرح چوروں کا کلب میں بھی مزاحیہ واقعہ بیان ہوا ہے۔ ان کے کئی افسانوں میں بھی مزاح کی چنگاریاں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔
بانو سرتاج۔ نے اردو طنزو مزاح میں دست آزمائی کر نہ صرف خواتین کی مزاح نگاری بلکہ مجموعی اردوطنزیہ و مزاحیہ ادب میں ایک منفرد و بلند مقام حاصل کیا۔ ان کی مزاحیہ تحریریں،مضامین، انشائیے، خاکے، افسا نے، ڈرامے، مقتدر رسائل خصوصاً شگوفہ وغیرہ میں برابر شائع ہوئے ۔ ان کے مزاحیہ تحریروں کے دو مجموعے شائع ہوئے جوکا فی پسند کئے گئے ۔ نقادانِ فن کی رائے ہے کہ قدرت نے بانو سرتاج کو مزاح کا فطری ملکہ عطا کیا تھا۔ وہ اپنے افسانوں ڈراموں تحقیقی و تنقیدی تحریروں وغیرہ میں جس طرح سنجیدہ نظر آتی ہیں۔ اس کے برعکس اپنی مزاحیہ تحریروں میں وہ زعفران زار کھلاتی نظر آتی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر وہ اور کچھ نہ لکھتی صرف مزاحیہ ادب ہی تخلیق کرتی تب بھی ان کا شمار اردو کی اہم ادبی شخصیتوں میں ہوتا ۔ بانو سرتاج جیسی مزاح نگار پر جتنا فخرکیا جائے کم ہے۔ ان کی مزاحیہ تصنیف(۱)تراممنون ہوں۔ (نرالی دنیا پبلی کیشنز دہلی، ۲۰۰۴ء؁) ڈاکڑ بانو سرتاج کے ان مزاحیہ مضامین و انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ جو رسالہ شگوفہ وغیرہ میں سن ۲۰۰۰ء؁ تک شائع ہوتے رہے۔ اس مجموعہ میں درج ذیل تحریریں شامل ہیں۔ کنوئیں کا مینڈک، مونچھیں، بڑے بے آبرو ہوکر، دیکھن میں چھوٹے لگیں، کتے، نسخہ بلڈ پریشر کا ، شکشک دن، چائے ، بارے مسافر کا کچھ بیان ہوجائے۔داستان ریفریشر کورس ، کھانا، پاگل پران ، لانا جوئے شہر کا ، دیواریں ہم بھی فسانہ لوکی بھی کہانی، تو کیا نام نہ ہوگا؟، اف یہ بورڈ، آئو پڑوسن جھگڑا کریں، نہ لکھے نہ پڑھے نام محمد فاضل، تندوری مردہ، بائی صاحب باتھ روم میں ہیں۔ تراممنوں ہوں، ہوّا سفید رنگ کا۔ ان میں کچھ تحریریں تو مزاحیہ مضمون کے زمرے میں آتی ہیںجب کہ کچھ انشائیوں کے زمرے میں اور کچھ افسانوی انداز میں لکھی گئی ہیںمثلاً کنوئیں کا مینڈک میں اپنے بیٹے، سہیلی وغیرہ کے واقعات ہیں۔ اپنے بیٹے کے ٹیچر بننے کی خواہش، سہیلی سے گفتگو ، پھر ایک فلم بچوں کے ساتھ دیکھنے کا واقعہ، اسکول کالجوں میں طلبہ کی ہڑتالیں، آج کل کے بچوں کی آزادخیالی اور والدین کو کنوئیں کا مینڈک بتانے کا واقعہ وغیرہ جیسے مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہیں ۔اسی طرح ’’مونچھیں‘‘ ان کاایک انشائیہ ہے جس میں وسعت خیال کے ساتھ مونچھوں پر بیانات ملتے ہیں۔ اس میں مونچھوں کی قسمیں ، انکے بارے میں محاورات شامل ہیں۔’’ بڑے بے آبرو ہو کر ‘‘ ان کا مزاحیہ افسانہ ہے۔ اسی طرح ’’دیکھین میںچھوٹے لگے ‘‘بھی افسانہ نما انشائیہ ہے۔ جس میں افسروں کے رویوں پر طنز کیا گیا ہے۔ ان کا ایک اور انشائیہ’’کتے ‘‘ ہے۔ جو پطرس کے مشہور انشائیے ’’ کتے‘‘ کی یاد دلا تا ہے۔ اس میں بانو سرتاج نے وہی انداز اختیار کیا ہے جو پطرس کے یہاں ملتا ہیں ۔اس انشائیے میں’’کتے ‘‘کی اقسام ، عادات وغیرہ کا عمدہ بیان دیکھنے کوملتا ہے۔بانو سرتاج کے یہ انشائیے طنز و مزاح کی تاریخ میں اہم اضافہ ہے ،ان انشائیوں کے مطالعہ سے ان کی گرفت قلم کا قائل ہونا پڑتا ہیں ۔
نجمہ شہریار۔ان کی مزاحیہ تحریریں نظر سے کم گزری ہیں۔ ان کا ایک انشائیہ میں اپنی مادری زبان میں کیوں لکھتی ہوں( شاعرہ بمبئی ،مارچ ۱۹۷۹ء؁ ص ۸۸) نظر سے گزرا ہے۔ یہ انہوں نے محترمہ افسر قریشی ( لکچرار ۔ عبداللہ گرلز کالج علی گڑھ ) کی ترغیب پر لکھا تھا۔ اس میں انہوں نے مادری زبان کو موضوع و مرکز خیالات بنایا اور شگفتہ زبان و اسلوب میں مادری زبان۔ اس کی اہمیت اس کی محبت ، اس کے تئیںاپنے فرائض کو بیان کیا ہے۔
نسیمہ تراب الحسن۔حیدرآباد کی رہنے والی ہیں۔ ان کی مزاحیہ تحریریں رسالہ شگوفہ میں شائع ہوئی ہیں۔ ہمارے پڑوسی( شگوفہ ،ستمبر ۱۹۸۹ء؁ ص ۳۱) اس انشائیہ میں نسیمہ نے پڑوسیوں کو نشانہء مزاح بنایا ہے۔ پڑوسی سے سماجی زندگی میں نہیں لیکن ہر پڑوسی پسندیدہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ پڑوسی سے محبت کی بزروگوں نے تلقین کی ہے۔ لیکن چانکیہ کی نیتی ہے کہ پڑوسی دشمن ہوتا ہے اور پڑوسی کا پڑوسی دوست، آج کل کی حکومتیں اس نیتی( پالیسی) پر عمل کرتی نظر آتی ہیں۔ نسیمہ نے پڑوسی ، ان کی اقسام، ان کی عادات و اطوار رویے وغیرہ کو پر لطف انداز میں بیان کیا ہے۔ قاضی کے گھر کے چوہے بھی سیانے( شگوفہ، اکتوبر ۲۰۰۴ء؁ ص ۱۳) چوہوں کی مصیبت پر پر لطف انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
نورالعین علی۔بنیادی طورپر ڈرامہ نویس ہیں۔ ان کے ڈراموں کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اپنے ڈراموں میں زیادہ تر سنجیدہ اور المیہ موضوعات کو پیش کیا ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ بہوکی تلاش ( کتاب کا ر رام پور) ان کی مزاحیہ تحریروں پر مشتمل ہے۔ ان کی ڈراموں میں انہوں نے واقعات حالات کوائف ماحول، کردار، ان کے اعمال افعال اور گفتگو کو شگفتہ انداز میں بیان کرکے مزاح پیدا کیا ہے۔ ان کی ڈرامہ نویسی کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔
ہاجرہ پروین( گلبرگہ)گلبرگہ کرناٹک کی رہنے والی ہیں۔ ان کے کچھ انشائیے شگوفہ میں شائع ہوئے ہیں۔ ’’ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں ‘‘( شگوفہ ، اگست ۲۰۰۲ء؁ ص ۳۳) ایک افسانوی انداز کی تحریر ہے جس میں ایک ماں کے اپنے بیٹے کو کالج میں ایڈمیشن دلانے کے سلسلے میں پیش آنے والی دقتوں پریشانیوں کا پر لطف بیان ہے۔ آج کل بازیچہ ء اطفال، کنڈر گارٹن، کانونٹ سے لے کر کالج لیول تک سوائے ڈونیشن کے طالب علموں کو داخلے نہیں ملتے ۔ مصنفہ نے قوم کا مستقبل روشن کرنے کا دعوے داروں، تعلیم کو عام کرنے والوں، قومی خدمت کرنے والوں ، تعلیمی ادارے چلانے والوں کی اچھی خبر لی ہے اور ان کے دعوئوں کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔
خورشید جہاں۔ بہار کی ادیبہ ہیں، مزاح نگاری ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ان کافکاہیہ ، ٹایم بانڈ پرموشن( رسالہ کتاب نما دہلی میں اپریل ۱۹۹۰ء؁ ص۷۶) شائع ہوا تھا ،جس میں انہوں نے نوکری اور پرموشن کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کو بیان کیا ہے۔ موصوفہ ہزاری باغ کے کالج میں لکچرار ہیں۔ ان کی مزاحیہ تحریریں بھی لطف اندوز ہونے کے ساتھ سماجی حقائق کی بھی عکاس ہیں ۔
خیرالنساء مہدی( بمبئی)۔مشہور شاعر و نقاد باقر مہدی کی اہلیہ ۔بمبئی میں استاد رہی ہیں۔ کبھی کبھی مزاح کے میدان میں چہل قدمی کر لیتی تھی۔ ان کے چند انشائیے کتاب نما، شاعر وغیرہ میں شائع ہوئے ان کاایک قابل ذکر انشائیہ باز یچہء اطفال ہے۔ جو کتاب نما جولائی۱۹۸۵ء؁ص ۴۳ میں شائع ہوا۔ یہ ان کی نمایندہ مزاحیہ تحریر کہہ سکتے ہے۔ اس میں ان کی تخیل کی پرواز ، شعورکی لو، یادیں قابل دید ہے ۔ انھوں نے اپنے مشاہدات کوروانی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ زندگی کو انہوں نے جس انداز سے دیکھا ان کے ذہن کے پردے پر جو جو تصورات ابھرے انہوں نے اس کی تو سیع کی ہے۔ خورشید جہاں کی تحریریں یقینا طنز و مزاح کے باب میں اہم اضافہ ہے ۔
حلیمہ فردوس۔ بنگلور کی ادیبہ ہیں۔ ان کی مزاحیہ تحریریں رسالہ شگوفہ وغیرہ میں مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں۔ وہ پچھلے پندرہ بیس برس سے لکھ رہی ہیں۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا ایک مجموعہ بعنوان ’’مشاء اللہ ‘‘شگوفہ پبلی کیشنز حیدرآباد سے شائع ہو چکا ہے۔ حلیمہ فردوس نے محض ہلکے پھلکے موضوعات پر ہی قلم نہیں اٹھایا بلکہ ایسے میدانوں کو بھی سر کیا ہے۔ جن میں فکری عناصر شامل ہیں۔ جو ایک بیدار ذہن اور گہرے مطالعے کی دین ہے۔ ان کی تصنیفات میں (۱)’’ رنگوں کے انتخاب نے ‘‘ ( شاعر بمبئی۔ اگست ۱۹۸۲ء؁) ایک پر لطف انشائیہ ہے جس میں رنگ تخیلات کا مرکز ہے۔ رنگ، رنگین مزاجی، رنگوں کا جادو، رنگوں کے محاورات، رنگوں کی کرامات سبھی پر فکاہیہ انداز میں اظہار خیال ہے۔ اس انشائیہ میں رنگ کو بنیاد بنا کر بے شمار رنگوں کی روشنی میں سماجی مسائل کو منظر عام پر لانے کی سعی کی گئی ہیں ۔(۲)آنکھیں ۔( شگوفہ ۔جنوری ۱۹۸۷ء؁) میں آنکھ مرکز خیال ہے۔ اس میں تخیلات و حقائق کو بڑے ہی پر اثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ آنکھوں کے کرشمے ، محاورات وغیرہ کا پر لطف بیان دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس میں بھی آنکھوں کو مرکزی خیال کی روشنی میں سماج و معاشرے کی حقیقتوں پر طنز و مزاح کی روشنی میں منظر عام پر لانے کی پر زور کوشش کی گئی ہے ۔(۳)ہم نے منائی سالگرہ ( شگوفہ سالنامہ ۔جنوری ۱۹۸۸ء؁) افسانہ نما انشائیہ ہے۔ جس میں سالگرہ منانے کا پر لطف بیان ہے۔ (۴)گائیڈ ( شگوفہ ۔نومبر ۱۹۸۹ء؁ ص ۵۵) میں گائیڈ کو مرکز خیال بنایا گیا ہے۔ گائیڈ کی مختلف قسمیں جیسے آثار قدیمہ کا گائیڈ ، یونیورسٹی گائیڈ وغیرہ پر پُر لطف تبصرے کئے گئے ہیں۔(۵) گل کاریاں کاتبوں کی۔( شگوفہ سالنامہ ۔ ۱۹۹۰ء؁ ص ۷۹) میں کاتب نشانہ مزاح ہیں۔ اس طرح حلیمہ فردوس نے نہ صرف اس صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے بلکہ بہترین اپنی بہترین تصانیف سے اردو طنز و مزاح کی تاریخ میں اہم اضافہ بھی کیا ۔ان کا انداز بیان پر اثر و لطف اندوز ہونے کے ساتھ طنز کا نشتر بھی چلتا دکھائی دیتا ہے ۔اس طرح خواتین نے نہ صرف اس صنف میں طبع آزمائی کی بلکہ انصاف بھی کیا۔

Leave a Comment