ادب و ثقافت پر منشی نول کشور کے احسانات غیر معمولی: اختر الواسع
لکھنؤ۔خواجہ معین الدین چشتی اُردو، عربی۔فارسی یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو ، فارسی اور ہندی کے زیر اہتمام ’’علوم مشرقیہ کے فروغ میں منشی نول کشور کی خدمات ‘‘ موضوع پر دوروزہ بین الاقوامی سیمیناریونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر خان مسعود احمد کی صدارت میں شروع ہوا۔ جس کی نظامت ڈاکٹر فخر عالم نے کی اور آغاز ڈاکٹر عطاء الرحمان اعظمی نے تلاوت قرآن پاک سے کیا۔ سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں کناڈا، ایران، ترکی کے علاوہ ملک کی مختلف ریاستوں کے ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی۔
پروفیسر اخترالواسع نے منشی نول کشور کی خدمات کو بے مثل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ادب وثقافت پر منشی نول کشور کے بے پناہ احسانات ہیں۔انھوں نے کہا کہ ملک کے سیاسی زوال کے دور میں جو تہذیبی اور ثقافتی اُلٹ پھیر ہورہی تھی اُس دور میں جن دو عظیم شخصیات نے تہذیب وثقافت کے تحفظ کا اہم کارنامہ انجام دیا ان میں پہلا نام سرسید احمد خاں کا ہے اور دوسرا نام یقینی طور پر منشی نول کشور کا ہے۔ سرسید نے ماضی کی بازیافت اپنی تصنیفات کے ذریعہ کی جبکہ منشی نول کشور نے علمی، ادبی اور مذہبی سرمایہ کی طباعت کے ذریعہ اس کارہائے نمایاں کو انجام دیا۔ انھوں نے کہا کہ اپنے حال کو بہتر بنانے اور مستقبل کو روشن کرنے کے لیے منشی نول کشور نے جو خدمات انجام دیں اس کو کسی بھی طرح تجارت نہیں کہا جاسکتا۔ کم لوگ ہیں جن پر شیخ و برہمن سب کا ایمان ہے اور منشی نول کشور اس میں پیش پیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دربار میں انھیں امراء اور روساء کے برابر جگہ دی گئی۔ مسٹر اختر الواسع نے کہا کہ اگر منشی نول کشور نے یہ کارنامہ انجام نہ دیا ہوتا تو آج مشرق ومغرب دیوالیہ پن کا شکار ہوتے۔ منشی نول کشور نے صرف اردو ہی نہیں بلکہ فارسی، عربی اور دیگر زبانوں کی کتابیں طبع کیں، قرآن مجید، اس کے تراجم اور تفسیر کی اشاعت منشی نول کشور کا وہ کارنامہ ہے جس نے انھیں زندہ وجاوید بنا دیا۔ منشی نول کشور نے ہندو مذہب کی کتابیں بھی اپنے مطبع سے شائع کیں۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ منشی جی ایک سورج کی مانند تھے اور ان کے گرد علما، ادبا کی ایک انجمن تھی۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی (کناڈا) نے اپنے کلیدی خطبے میں کہا کہ منشی نول کشور کی شخصیت ایسی تھی کہ ان کے پاس نہ دولت تھی نہ مال وزر اس کے باوجود انھوںنے قوم کو نوازا، مخطوطات یکجا کیے، پرانی کتابیں جمع کیںاور انھیں زیورِ طبع سے آراستہ کیا جس کے لیے قوم ان کی ممنون ہے۔ انھوں نے کہا کہ منشی نول کشور کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب شہنشاہ ایران ہندوستان آئے تو انھوں نے منشی نول کشور سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ منشی جی نے صحافت سے اپنی حقیقی زندگی کا آغاز کیا اور آگرہ ولاہور ہوتے ہوئے لکھنؤ آئے اور ۱۸۵۸ء میں ’اودھ اخبار‘ کی اشاعت شروع کی جس سے کئی مجموعے تیار کیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غالب، سرسید اور گارسی (فرانس) سب منشی نول کشور کے معترف و مداح تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہنر مند ہی دوسرے ہنر مند کا اعتراف کرتا ہے۔ وہ شاعر بھی تھے، مصنف بھی تھے لیکن ان پر بہت کم کام ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ منشی نول کشور ہندو مسلم اتحاد کے حامی و قومی یکجہتی کے پیام بر تھے۔ آج ان کے نام پر ملک میں نہ کوئی یونیورسٹی ہے نہ کوئی ادارہ جب کہ اگر وہ کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو اگر کوئی شہر ان سے منسوب نہ ہوتا تو یونیورسٹی ضرور ہوتی۔ ہمیں دوسرے ملکوں سے سیکھنا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ جو قوم اپنے رہبروں کی قدر نہیں کرتی۔ وہ زندہ رہنے کا حق نہیں رکھتی۔
پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ منشی نول کشور کی ذات علمی و ثقافتی تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے۔نول کشور پریس کی خدمات کبھی فراموش نہیںکی جاسکتیں۔ فارسی کے تعلیمی اداروں نے منشی نول کشور کی تصانیف سامنے رکھ کر اپنا نصاب تیار کیا۔ اس سے ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ تمام فارسی دنیا منشی نول کشور کی مرہون منت ہے اور بیشتر فارسی داں افراد اقرار کرتے ہیں کہ ان کے بزرگ اور وہ خود نول کشور کی مطبوعات سے فیضیاب ہوئے ہیں۔پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے کہا کہ منشی نول کشور نے بے دست وپائی میں اپنا سفر شروع کیا اور بے بہا خدمات انجام دیں۔ وہ صرف ایک ذات تک محدود نہیں تھے بلکہ ان کی ذات ایک تحریک تھی۔ ان کے پاس ایک جماعت تھی اور جب ہم منشی نول کشور کی بات کریں گے تو اس جماعت کا ذکر بھی کرنا ہوگا۔ وہ ہندوستانی مشترکہ تہذیب کے علمبردار تھے اور ہماری مشترکہ تہذیب کو طباعت کے ذریعہ صدیوں تک کے لیے محفوظ کردیا۔ پروفیسر خلیل ٹوکر نے منشی نول کشور کو سپر مین قرار دیتے ہوئے کہ انھوں نے عربی فارسی و دیگر زبانوں کی کتابیں بغیر تفریق طبع کیں اور انگریزوں کی سازشوں کے سامنے سد باب بنے۔ وہ ہندوستان کے لیے باعثِ فخر ہیں اگر وہ ترکی میں پیدا ہوتے تو ان کے نام پر یونیورسٹیاں اور ادارے قائم ہوتے۔ ایران سے آئیں وفا یزداں منیش نے ’’ایران میں منشی نول کشورپر کی گئیں تحقیقات کا تجزیاتی جائزہ‘‘ موضوع پر اپنا پرمغز مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ منشی نول کشور کی کوششوں سے فارسی کا سرمایہ ہمارے پاس ہے ان کا نام ادب و ثقافت میں ہمیشہ ایک ستارے کی مانند چمکتا رہے گا۔ ایران کے لوگ خود کو منشی نول کشور کا احسان مند سمجھتے ہیں ۔ جب ایران کے لوگوں کو منشی نول کشور کی خدمات کا علم ہوا تب سے آج تک وہاں ان کی اہمیت برقرارہے۔
خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی۔فارسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر خان مسعود احمد نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ جب وہ لکھنؤ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تب حضرت گنج میں منشی نول کشور کا کتبہ دیکھ کر یہ سمجھتے تھے کہ منشی نول کشور کوئی بڑے آدمی رہے ہوں گے لیکن دہلی میں جب کچھ لوگوں کے ساتھ گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ ادب وثقافت ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ انھوں نے انیسویں صدی میںجو راگ الاپا تھا اس کی شگفتگی آج تک محسوس کی جارہی ہے۔ اس موقع پر عالمی یوم کتاب کو منشی نول کشور کے نام سے منسوب کرنے کی پر زور وکالت کی گئی۔ صدر شعبۂ اُرد وپروفیسر سید شفیق اشرفی نے افتتاحی سیشن کے اختتام پر حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ سیمینار کے دوسرے سیشن میں ڈاکٹر طارق سعید، ڈاکٹر عباس رضا نیر، پروفیسر شافع قدوائی نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ صدارت ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے کی۔