٭رافیعہ سرفراز
خورشیدؔ ربانی معروف شاعر،صحافی ،تدوین کار اور کالم نگار ہیں۔ان کی اب تک نصف درجن سے زائدکتب شائع ہو چکی ہیں جن میں’’ رختِ خواب‘‘ ،’’کفِ ملال‘‘، ’’پھول کھلا ہے کھڑکی میں‘‘(عکسِ خوشبو ایوارڈ یافتہ 2016ء)،’’خیالِ تازہ‘‘،’’آدھی ملاقات‘‘(مکاتیب احمد ندیم ؔ قاسمی بنام محمد فاضل)،’’منتخب کلام سراج الدین ظفر‘‘ؔ ،’’ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘(قائداعظمؒ کو خراج عقیدت پرمشتمل شاعری کا انتخاب.1906تا 2006 ء)،’’ حسرت ؔ موہانی،شخصیت و فن ‘‘اور’’ نئی صدی نئی نعت‘‘( اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کی نعت کا انتخاب) شامل ہیں۔انہوں نے مختلف ادبی اداروں کے لیے کئی کتب ایڈٹ کی ہیں .علاوہ ازیں نوائے وقت اسلام آبادمیں ان کا ہفتہ وار ادبی کالم ’’خوابشار ‘‘کے نام سے شائع ہوتا ہے ۔ان کا تیسرا شعری مجموعہ’’پھول کھلا ہے کھڑکی میں‘‘ میرے سامنے ہے۔میں اس کے مطالعہ سے یہ اندازہ کیا ہے کہ ان کے ہاں خزاں سے متعلق تشبہات,استعارات اور علامتیں زیادہ پائی جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ انھوں نے پیاس,دریا، دیوار اور چراغ کو نئے معانی میں استعمال کیا ہے۔مجھے یہ شاعری اس قدر پسند آئی کہ کس کس شعر کی تعریف کروں کس کس مصرع پر داد دوں لفظ لفظ خوش نواہے اور حرف حرف دل ربا ہے۔
ان دیکھی مجبوری میں
پھول کھلا ہے کھڑکی میں
یہاں اگر سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کے مسائل نظر آئیں گے۔لیکن پھول کا کھڑکی میں کھلنا جہاں ایک ان دیکھی مجبوری کی طرف اشارہ ہے ہے وہیں ایک امید بھی ہے اس پھول کی خوشبو کی۔
اب کتاب جیسے جیسے پڑھتی گئی تجسس اسی رفتار سے بڑھتا گیا اور سب سوالوں کے جوابات ملنا شروع ہو گئے پڑھنے میں دلچسپی اور بڑھتی گئی
کس سے ملنے جاتا ہے
دریا بیٹھ کے کشتی میں
عکس فلک پر روشن ہے
چاند ہے بہتے پانی میں
غزل میں ردیف اور قافیہ کی پابندی اس کے حسن اود دل کشی کا راز ہے اور خورشید صاحب نے اس راز کو پا لیا ہے۔یہی وجہ ہے کے ان کے اشعار میں موسقیت پائی جاتی ہے۔امجد اسلام امجد ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔’’ان کے امیجز،استعارے اور کنائے اپنے اندر ایک خاص شگفتگی لیے ہوئے ہیں۔انہیں قافیہ کی اہمیت اور اس کی موسیقیت کا گہرا اور بھر پور شعور ہے جس سے ان کی فطری صلاحیت اور فنی ریاضت دونوں نمایاں ہیں۔‘‘
(کتاب:پھول کھلا کھڑکی میں ص:11)
پیشِ نظر مجموعہ میں اگرچہ زیادہ تعداد غزلوں کی ہے مگردو نظمیں چار نعتیں(جن میں ایک نعت سرائیکی کی ہے جبکہ باقی اردو کے) اور ایک سلام بھی شامل ہے۔یہ خوبصورت کتاب 112 صفحوں پہ مشتمل ہے جو اپنے اندر جہانِ معنی لیے ہوئے ہے۔
اس مجموعے کی ابتدا نعت سے ہوئی ہے ۔ان نعتوں میں خورشید صاحب نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا ذکر کیا ہے کہ حرا و احد کو بلندی اس لیے ملی کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مَس کیا۔
بخت یارو ہوا احد نے
آپ ؐکا لمس پا لیا ہے
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے کہ پتھر بولنے لگے اورپیڑ چلنے لگے تھے.
آپ ؐ نے پیڑ کو بلایا
اور وہ چل کے آگیا ہے
حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ماضی و حال و مستقبل کا علم عطا فرمایا ہے۔ اس بات کو خورشدربانی صاحب نے کس خوبصورتی سے شعر میں ڈھالا ہے۔
ازل ابد کی کہانی حضورؐ جانتے ہیں
ہر ایک سرِ زمانی حضورؐ جانتے ہیں
خورشید ربانی کے ہاں امید کی شمع ہے کہ روشن رہتی ہے، حوصلوں کو پژمردہ نہیں ہونے دیتی، زندگی کے مثبت رویوں کا ادراک اور آ گہی انھیں آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کرتی نظر آتی ہیں۔خورشید صاحب نے اپنی غزلوں میں ہمیں زندگی کی حقیقت کے بارے میں بتایا ہے کہ محتاط اندازمیں زندگی گزارنی چاہیے، ذرا سی بے احتیاطی دشمنی کا سبب بن سکتی ہے۔
دوستو! احتیاط لازم ہے
دشمنی بے سبب نہیں ہوتی
جس طرح اندھیری رات میں دیئے کی روشنی کافی نظر آتی ہے، اس طرح زندگی گزارنے کے لیے خوابوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔خواب انسان میں امید پیدا کرتے ہیں۔
پھر وہ تعبیر ہو بھی سکتا ہے
خواب دیکھو اگر بصیرت سے
ہوائے تیرہ شب کو کیا خبر ہے
کہ مجھ پر کن چراغوں کی نظر ہے
یہاں دوسرے شعر میں خورشید صاحب نظر کو کس طرح خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔کسی کی نظرکے فیضان کا حامل ہونا اور کسی کی نظر میں میں ہونا،،واہ۔۔لطف آگیا۔
شب کو دن کیا خورشید
کیا چراغ تھا خورشید
خورشید نور کا منبع ہے ، جس نے ظلمت کو ختم کر دیا۔ مشرق و مغرب میں خورشید کا کام فقط ظلمت کو مٹانا ہے۔یہاں اس شعر میں لفظ’’ خورشید‘‘ دراصل ان لوگوں کی علامت ہے جو آج کے اس ظلمت کدے میں روشنی بہم پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔اس اندھیرے کو اپنی ذات کے خورشید سے روشن کر رہے ہیں۔
ظلمتیں چمک اٹھیں
وہ دیا ہے یا خورشید
خورشید ربانی صاحب کی غزل
\”میں ہوں ایک کہانی تک\”
\”دریا کی روانی تک\”
اس شعر میں دریا کو استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جس طرح روانی ہے تو دریا ہے ورنہ کچھ نہیں سوائے ریت کے جو کہ بے وقعت ہے مٹی ہے اس طرح شاعر بھی کہانی کے تذکرے میں زندہ ہے اس کا کوئی مقام ہے اس کے مطابق وہ اپنے محبوب یعنی دریا کی روانی تک زندہ ہے ۔ محبوب کا ساتھ ہے تو سب کچھ ہے اس کے بغیر کچھ بھی نہیں.۔۔یہ دریا ہے محبوب کی علامت ہے،وقت کا استعارہ ہے، اگر دیکھیں یہی دریا ایک امید کی کرن ہے ہمارے معاشرے میں جب تک یہ امید باقی رہے گی ہماری کہانی بھی چلتی رہی گی ورنہ ہماری کہانی بھی ختم۔دریا ہی سے تو ہماری زندگیاں جڑی ہوئی ہیں۔اب یہ شعر دیکھیئے
عکس شب کا پڑا جہاں خورشید
دیپ جلنے لگا وہی کوئی
شب سے مراد یہاں کیا ہے، ظلمت ہے اندھیرا ہے جو ہمارے معاشرے میں پھیلا ہوا ہے۔لیکن وہ کہتے ہیں جہاں شب کی ظلمت کا عکس پڑتا ہے وہیں سے امید کا دیپ روشن ہو جاتا ہے۔روشنی ہو جاتی ہے۔امید کی کرن دیپ کی صورت جل اٹھتی ہے۔یہی روشنی خورشید صاحب کی شاعری میں نظر آتی ہے۔وہ جتنے بھی مایوس اور غم زدہ کیوں نہ ہو جائیں وہ خورشید کی طرح روشن رہتے ہیں۔اس لئے شاید وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں:
صبح سے شام تلک پھرتا ہے بستی بستی
بانٹتا رہتا ہے خورشید اجالے کوئی
چند اور خوبصورت شعر بھی دیکھیے
دل و نگاہ میں کچھ اس طرح سما گئی ہے
تری نظر تو مجھے آئینہ بنا گئی ہے
ہوائے تازہ کا جھونکا ادھر سے کیا گزرا
گرے پڑے ہوئے پتوں میں جان آ گئی ہے
تُو نہیں ہے تو اب تری تصویر
دیکھتی ہے گھڑی گھڑی دیوار
اپنی قسمت پہ ناز کرتی ہے
تیری دیوار سے ملی دیوار
پوچھتے ہو کہ ان کہی کیا ہے
تم دیکھی نہیں کبھی دیوار
شاخ پہ میری نغمہ سنج کتنے طیور تھے مگر
آئی خزاں تو ایک اک صورتِ آشنا گئی
مجموعی طور پر مجھے خورشیدربانی کی شاعری امید کا استعارہ محسوس ہوتی ہے۔اگرچہ انھوں ہر طرح کے مضامین باندھے ہیں لیکن ان کے ہاں امید کی کرن زیادہ واضح اورزیادہ روشن ہے۔میں ان کو اس خوبصورت کتاب پر مبارک باد پیش کرتی ہوں۔