دارالمصنفین شبلی اکیڈمی میں ’’سرسید کی عصری معنویت‘‘ پر دوروزہ سیمیناراختتام پذیر

سرسید ماضی کا حوالہ ہیں اورمستقبل کی امید :پروفیسر سعود عالم قاسمی

\"IMG-20171101-WA0089\"

اعظم گڑھ (اسٹاف رپورٹر)سرسید ماضی کا حوالہ بھی ہیں اور صبح امید بھی ۔ان کو معلوم تھا کہ نئے زمانے کی روشنی کو بغیر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا ۔شبلی نے سرسید کو منظوم خراج عقیدت جس نظم میں پیش کیا تھا اس کانام ہی ’’صبح امید ‘‘ہے ۔آج کا سمینار کا یہی جواز ہے اوراس کی عصری معنویت بھی ۔ان خیالات کااظہار نامور اسکالر پروفیسر سعود عالم قاسمی (علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی )نے سمینار کے اختتامی اجلاس میں کیا ۔اختتامی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر راہی فداہی نے فرمائی اور نظامت کا فریضہ ڈاکٹر علاء الدین خاں نے ۔پروفیسر سعود عالم قاسمی نے مزید کہا کہ سرسید اور ان کے زمانے کے لوگوں نے مل کر اپنے عہد کے چیلنج کو قبول کیا اور یونی ورسٹی کی شکل میں ایک شجر سایہ دار ہمارے لیے فراہم کیا ۔ہمیں بھی اپنے زمانے کے چیلنج کو اسی طرح قبول کرنا ہوگا اور مستقبل کے لیے کوئی اہم نشان راہ متعین کرنا ہوگا ۔پروفیسر صغیر افراہیم نے اسے ایک کام یاب سمینار قرار دیا اورکہا کہ اس میںپیش کیے جانے والے مقالات کی علمی وادبی شان قابل رشک ہے ۔انھوں نے کہا کہ ادارہ تہذیب الاخلاق (علی گڑھ )علامہ شبلی کو ان کے شایان شان خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خصوصی اور یادگار شمارہ شائع کرنے کے لیے پرعزم ہے ۔ڈاکٹر صفدر امام قادری نے اس موقع پر اظہار خیا ل کرتے ہوئے کہا کہ اس سمینار نے نئے موضوعات کی طرف ذہن موڑنے کام کیا ہے اورمطالعہ سرسید کے نئے موضوعات کی گنجائش پیدا کی ہے اور یہی چیز اس سمینار کی کامیابی کی دلیل ہے ۔اختتامی اجلاس میں صدارتی خطاب میں ڈاکٹر راہی فدائی (بنگلور)نے کہا کہ اس سرزمین پر آکر طمانیت اور سکون کی جو فضا ملتی ہے غالباً یہی وہ امتیاز ہے جس کے سبب اس ادارہ نے اپنی علمی اور ادبی روایت کی جو ایک صدی گزاری ہے اس کا ہر گوشہ روشن و منور ہے ۔انھوں نے اس موقع پر شمال اور جنوب کے علمی و ادبی اشتراک عمل پر زور دیا اور کہا کہ اس سے دونوں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچے گا ۔اس موقع پر شبلی اکیڈمی کے ڈ ائرکٹر پروفیسر اشتیاق احمدظلی نے کلمات تشکر کے دوران کہا کہ سرسید کو گئے ہوئے ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے مگر ابھی تک ان کاخواب ادھورا ہے ۔انھوں نے کہا کہ سرسید ہمارے ماضی،حال اور مستقبل کا حصہ ہیں ۔پروفیسر ظلی نے مدرسۃ العلوم کو امید کی ایک کرن قرار دیا اور کہا کہ سرسیدکا زمانہ اس سے بھی زیادہ خراب تھا مگر انھوں نے قوم کو دوبارہ جینے اوروقار کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیا ۔اس سمینار کے دوران مقالوں کے چار اجلاس منعقد ہوئے ۔پروفیسر صغیر افراہیم ،ڈاکٹر شمس بدایونی،پروفیسر سعود عالم قاسمی نے مختلف اجلاس کی صدارت فرمائی اور جناب اشہد جمال ،ڈاکٹر جمشید ندوی اور ڈاکٹر خان احمد فاروق نے نظامت کا فریضہ انجام دیا ۔ دوروزہ اجلاس میں پروفیسر ظفر احمد صدیقی،ڈاکٹر شمس بدایونی ،پروفیسر ابو سفیان اصلاحی ،جناب اشہدجمال ندوی ،ڈاکٹرصفد امام قادری ،مولانا کلیم صفات اصلاحی،ڈاکٹر محمد ثاقب ندوی ،ڈاکٹر شباب الدین ،جناب افضال عثمانی،پروفیسر قمر الہدی فریدی ،پروفیسر راحت ابرار،احسان اللہ فہد ، ڈاکٹرمظفر حسین سید،ڈاکٹر علاء الدین خاں،مولانا عمیر الصدیق ندوی ،افضال عثمانی ،مولانا فضل الرحمن اصلاحی ،ڈاکٹر ثاقب ندوی پروفیسر مظہر مہدی،پروفیسر محمد سجاد ،ڈاکٹر عبداللہ امتیاز وغیرہ نے مقالے پڑھے ۔

Leave a Comment