دریچہ کھلا ہوا

\"22709924_1376090022518256_1687166803_n\"
  ٭رابعہ الرَبّاء

دریچہ کھلا ہوا

محترمہ صد یقہ انور

\"19239489_1391394370987821_331149990_n\"
یہ سا ون کا مہینہ تھا ۔ دو نو ں شہر و ں میں خو ب با رش ہو ر ہی تھی۔ ٹھنڈ ی ہو ا ئیںہر سورقصا ں تھیں ، با دل کر ج چمک رہے تھے۔ ۔وقت مسا فر و ں کی طر ح سب کچھ خا مشی سے د یکھ رہا تھا۔
میں نے مقر رہ وقت پہ فو ن کیا’’ وہ محبت بھر ے لہجے سے بو لیں ’’ مجھے لگتا ہے آ پ مجھ سے پچا س سا ل کی با تیں ا ْگلوا نا چا ہتی ہیں۔
یہ سنتے ہی ہم دو نو ں کھلکھلا کے ہنسنے لگے
انو ر مسعو د شو ہر و شا عر ؟اس جملے سے ان کے لہجے میں سنجیدگی آ گئی،’’ میر ے ہا ں دونو ں چیز یں ا للہ نے ا کھٹی ر کھی ہیں ،انو ر صا حب ا چھے شو ہر ، اچھے انسا ن اور اچھے شا عر ہیں ، ،
وہ ذ را ٹھہرگئیں ، پھر گو یا ہو ئیں،انو ر صاحب نے مجھے بھی وقت دیا اور شا عر ی کو بھی، البتہ بچو ں کے معا ملے میں عد م تو جہی کا شکا ر ہو جا تے تھے۔ شر وع میںہم دو نو ں کا م کر تے تھے۔’’میر ی طبعت خر ا ب ہو جا تی تو وہ میر ے لیے کھا نا بھی بنا تے تھے بعض دفعہ تو میں سو چتی تھی کا ش میں بیما ر ہی رہو ں اور وہ مجھے پکا پکا کر کھلا تے ر ہیں ۔،،
وہ یہ بتا تے ہو ئے حسین ما ضی کی ، رنگین یا د کی، سنہر ی تصو یر سو چتے ہو ئے کھلکھلا کر ہنس پڑ یں،جیسے اس کھا نے کی خو شبو انہیں آج بھی اور ابھی تک محسو س ہو تی ہو۔محبت اور خوشی ما دیت کی محتا ج نہی ہو تی۔زند گی کتنی حسین ہو تی ہے اور شو ہر کی محبت اس کو کس قدر رنگین بنا دیتی ہے۔اس وقت یہی قو س ِ قز ا ح میر ے سا منے مسکر ا رہی تھی۔
’وہ خو اتین فینز کے جھرمٹ میں رہے،آ ُ پ کے دل پہ کیا بیتتی تھی؟ اس سوال پہ انہو ں نے ہنس کر کہا ’’ ارے سوال اگر یہ ہو کہ ان کے دل پہ کیا بیتتی تھی تو میں کہو ں گی ،مجھے علم نہیں ، آج تک تو کبھی کسی خا تو ن کی وجہ سے ہما رے در میان لڑا ئی نہیں ہو ئی، آ ئند ہ ہو جا ئے تو کہہ نہیں سکتی۔،،
ان کے شر یر لہجے نے ہم دو نو ں کو ہنسنے پہ مجبو ر کر دیا۔
’’آ پ کو نہیں لگتا کہ یہ خطو ط ادھو ی محبت ، یا یک طر فہ محبت کی کہا نی ہیں؟ان کو دوطر فہ ہو نا چا ہئے تھا؟،،
ان کے لہجے میں اک ا نجا ن سی اداسی اتر آئی۔’’ میں بھی اس یک طر فی پہ پچھتا ر ہی ہو ں۔ہو ا یہ کہ میں اپنے پر ا نے کا غذات نکا ل رہی تھی، خطو ط بھی ان کی نذر ہو گئے،مگر مجھے امید ہے کہ کچھ خط مل جا ئیں گے تو ان کو ایک سا تھ شا ئع کر ائو ں گی۔ انشاء اللہ۔مجھے کو ئی حجا ب نہیں بلکہ جب میں نے اس خوا ہش کا اظہا ر انو ر صا حب سے کیا تو کہنے لگے’’صد یقہ کیا کر تی ہو ؟یہ کو ئی شا ئع کر نے کی چیز ہے؟،،میں نے انہیں کہا ’’آ پ سمجھ نہیں رہے ،میں جس زا ویے سے با ت کر رہی ہو ں ،، ۔ اصل میں یہ انو ر صا حب کے نثر ی نمو نے ہیں ،،
بایک وقت ان کے لہجے میں محبت و دانش کی آمیز ش تھی ،سا نسو ں کے زیر و بم میں آج بھی اک ما ن تھا، جو محبت پا لینے کے بعد عو رت کے سر کا تا ج بن جا تا ہے۔ اور پھر بھلا عشق دستاویز بن جا ئے تو اس سا کو ئی نمو نہ کہاں مل سکتا ہے۔
میں نے اس طلسم ہو شرْ با کو توڑا۔’’ یہ بتا ئیے کہ ایک معر و ف شخص کی بیو ی میں قو ت ِ بر دا شت زیا دہ ہو تی ہے یا ایک عا م شخص کی بیو ی میں؟،،
’’ عا م بیگم کا تو مجھے اندازہ نہیں،،
ان کے لہجے کی شر ا رت نے ایک مر تبہ پھر بھیگی شا م میں قہقہے بکھیر دئیے اور ہنستے ہنستے کہنے لگیں
’’ آ پ میر ی با ت سمجھ گئیں ناں ،،
محبت ، محبو ب اور شو ہر ، آ پ وہ خو ش نصیب ہیں جس کے مقدر میں یہ سب کچھ اکھٹاآیا ؟
اس جملے کے سا تھ ہی ہو ا ئو ں میں بکھر ی مسکر ا ہٹو ں کی خو شبو مجھے محسو س ہو ئی،وہ کہنے لگی’’ اس سوا ل کو اگر میں اس طر ح بدل دوں کہ میں ان کی محبو بہ تھی۔کیو نکہ انو ر صا حب بھی کہتے ہیں کی اگر مجھے صد یقہ نا ملتی تو آ ج میں اس مقا م پہ نا ہو تا ، کہیں بکھر جا تا اور وا قعی یہ بکھر جا تے کیو نکہ ان کے جو حا لا ت تھے ، اور جو میں نے محسو س کیا کہ یا تو یہ شخص نیم پا گل ہوجا ئے گا ،یا سب کچھ چھو ڑ کے جنگل میں نکل جا ئے گا،،
اْس وقت جو دل دھڑکا ہو گا ، آ ج بھی اس کی کھنک سنا ئی دے رہی تھی۔وہ ذرا رکتے ہو ئے، بلکل یو ں جیسے دل کے صا ف لو گوں کو سا ری دنیا شفا ف دکھا ئی دیتی ہے، کہنے لگیں
’’ ایک مر تبہ میں نے ان سے فا رسی ادب کی کا پی ما نگی، کتنے ہو شیا ر ہیں نا ں انو ر صا حب ، جب میں نے کا پی کھو لی تو اس میں ایک شعر ہلکا سا رَب کیا ہو ا تھا
ان کی نظر کی سمت ہما ری نظر اْ ٹھی
اتنا سا اقتبا س تھا دْنیا بدل گی
وہ شعر پڑ ھتے ہی میں کھٹک گئی ، یو نیور سٹی میں وہ یو نین کے صدر تھے میں سو سا ئٹی کی وا ئس پر یذ ڈنٹ تھی۔ ان کے پا س شکا یت لے کر گئی ، میں سا دگی میں کہتی رہی ، وہ نجا نے کن نظر و ں سے دیکھتے ر ہے اور مجھے بعد میں پتا چلا کہ ’’ دنیا بد ل گئی،،
تب میں نے گر یز اختیا ر کر لیا ، بے نیا زی اختیا ر کے لی ان سے، میں انہیں اکھڑ پن میں جو ا ب دینے لگی،جو ں جو ں میں ایسا کر تی رہی ، شا ید ان کے دل میں اور زیا دہ محبت پر وان چڑھتی رہی۔ اور انہیں لگا کہیں مو قع ہا تھ سے نا نکل جا ئے ۔ انہو ں نے مجھے یو نیو ر سٹی لا ئبریر ی میں روکا اور بہت ہی شا ئستہ الفا ظ میں حا ل ِ دل کہہ دیا ۔ اور مجھے فخر ہے کہ میں نے اس کے جو اب میں اقبا ل کا یہ شعر پڑ ھا اور آ گئی
در طلب کو ش و مد ہ دامن ا مید زدست
دولت ہست کہ یا بی سر را ہے گا ہے
(اگر لگن ہے تو جستجو کر تے رہو ، امید کا دا من ہا تھ سے نا چھو ڑ و ، کبھی نا کبھی یہ دولت تمہیں مل ہی جا ئے گی)
انہی دنو ں کر ا چی کے ایک تا جر کا رشتہ بھی آیا ہو ا تھا، میں سو چنے لگی اگر وہا ں رشتہ ہو گیا تو زند گی تبا ہ ہو جا ئے گی۔ پھر میں نے حو صلہ کر کے اپنے بھا ئی شا ہد سے با ت کی ، وہ انو ر صا حب سے ملے ، دونو ں کی دوستی ہو گئی ۔یو ں معا ملہ طے ہو گیا ،،
یو ں قدرت صدیقہ ، صدیقہ انو ر ہو گئیں۔زندگی کا سفر اپنے سا تھ کے سا تھ اپنا ہو گیا۔جہا ں محبت کی طا قت ، مشکلو ں کو جھیلنے کی قو ت خو د بخو د عطا کر تی ہے۔ان کی با تیں جا ری تھیں اور وقت میر ے سا منے تصو یر یں بْن رہا تھا۔
میں نے اس یا دوں کے طلسمی تا لا ب میں ایک کنکر کا اضا فہ کیا ’’ شا دی کے بعد جب اچانک آپ کو ان پہ پیار آ گیا ؟،،
’’ ایک دفعہ میں نے انو ر صا حب کے لیے بہت پیا ر سے قو ر مہ بنا یا ، مگر انو ر صا حب کو شو ر با پسند ہے ۔ کہنے لگے ’’یہ کیا تم نے گھا ڑا گھاڑا شو ربا بنا دیا ہے،، پا س ہی پا نی کا گلا س پڑ ا تھا ۔وہ میں نے ان کے پیا لے میں اْنڈیل دیا اور خود دوسرے کمر ے میں آ گئی ، کہ کہیں ان کو مجھ پہ غصہ آگیا تومجھ پر ہی نا پھینک دیں ، در وازے کی اوٹ سے دیکھتی رہی، وہ نو ا لے اس ڈبو کر کھا تے رہے ، بعد میں با قی کا شو ر با پی گئے۔ اس روز میں اپنی اس حر کت پر بہت نا دم ہو ئی کہ میں نے ان کو کیا سمجھی، اور وہ کیا ہیں،،
میر ا ذہین پھر محبت کے فلسفے پر جا الجھا ، مر د اگر عو رت کی کو تا ہی یا کسی نا پسند ید ہ با ت کو پسند کر لے تو عو رت پھلو ں والا درخت بن جا تی ہے۔
میں نے انہیں ایک مر تبہ پھر لمحے کی گر فت سے نکا ل دیا’’ کبھی انو ر صا حب نے آ پ سے چار شادیوں کی کہانی و حو روں کے قصے چھڑے ؟ ،،
’’با قا عد ہ تو خیر کبھی نہیں ہو ا، البتہ ایک مر تبہ اِ ن کو فلو ہو گیا، تو بھا پ لیتے تھے، شو گر کی وجہ سے ری ایکشن ہو گیا کہ ان کو دو دو نظر آ نے لگے، جس دوست کا بھی فو ن آتا تو مذاق میں کہتے ـ’ہمیں دو دو زو جہ نظر آ رہی ہیں، کچھ دیر تو میں نے ضبط کیا پھر کہا ’ انو ر صا حب مجھے چا ر چار نظر آ رہے ہیں ، اس کے بعد انہو ں کبھی مذاق میں بھی یہ با ت نہیں کی،،
وہ بو لتے بو لتے ٹھہر سی گئیں۔
مجھے گہر ی شام کی خو شبو محسو س ہوئی، شیشے سے با ہر دیکھا۔دو وقت آپس میں مل رہے تھے۔کمر ے کی کھڑ کی سے با ہر رکھے رات کی رانی کے پو دو ں کی خو شبو ہو ا کے سا تھ چاروں اور پھیل رہی تھی،بیڈ کے قر یب رکھے ٹیو ب روزیز بھی مسکر انے و گد گدانے لگے تھے
انہو ں نے یہ سکو ت خو د ہی تو ڑا ،ان کے لہجے میں اک انجا ن سی اداسی تھی
’’ جو ڑ ے تو بے شک آ سما نو ں پہ ہی بنتے ہیں ، اب تو یہ سب کچھ اللہ کی طر ف سے ہو گیا ۔ میں سو چتی ہو ں خدا نخو ا ستہ اگر یہ نا ہو تا تو
گز ر تو جا ئے کی تیر ے بغیر بھی لیکن
بڑ ی اداس بڑ ی سو گ وار گز رے گی
’’ ساتھ ہی اْ ن کے لہجے میں ایک توانا ئی آ گئی،،
ان کے حو ا لے سے مجھے ان کا یہ شعر بہت پسند ہے
میری خطا ہے را ت کی را نی سے کیا کہو ں
اس کو تو چا ہئے تھا در یچہ کھلا ہوا

نوٹ :۔ رابعہ الرَبّاء نے محترمہ انو ر مسعو د کا انٹرویو لیا۔اور اس کو انھوں نے کہانی میں ڈھال دیا۔ قارئین سہ ماہی عالمی اردو ادب کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

Leave a Comment