دورِ جدید کے ممتاز شاعر عبد الاحد ساز کی رحلت

\"\"

ممبئی،23 مارچ(یواین آ ئی)دورِ جدید کے ممتاز شاعر عبد الاحد سازجو طویل مدت سے ذیابیطس جیسے مرض سے نبرد آزما تھے۔گزشتہ شب رِحلت کر گئے ۔مرحوم رات دیر گئے ان کے جسد خاکی کوان کی شمال مغربی ممبئی کے جوگیشوری علاقہ کی رہائش گاہ سے منگل واڑی جنوبی ممبئی کے کچھی میمن قبرستان لایا گیا اور نصف شب کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ان کے پسماندگان میں بیوہ فریدہ اور تین بیٹیاں سعدیہ، نائلہ اور ثنا ہیں۔ ایک بیٹی شاہ رخ کی فلم کچھ کچھ ہوتا ہے میں چائلڈ آرٹسٹ تھی ۔

مرحوم ممبئی میں 1980 کی دہائی میں ابھرنے والے اور پوری دنیا میں اپنی شناخت بنانے والے 70سالہ عبد الاحدساز کے دو شعری مجموعے 1.خموشی بول اٹھی ۔2.سرگوشیاں زمانوں کی’ شائع ہوچکے ہیں۔ جبکہ تیسرا مجموعہ در کھلے پچھلے پہر بھی بتایا جاتا ہے۔ جو خواص میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ ان پر ممبئی یونیورسٹی سے ایم فل بھی کیا گیا تھا۔ یہ مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ عبد الاحدساز شوگر کے شدید مریض تھے اور گزشتہ ایک برس سے اس مرض نے انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا جو بالآخر جان لیوا ثابت ہوا۔ ان کے جسدِ خاکی کو اتوار اور پیر کی درمیانی شب میں چرنی روڈ میں واقع منگل واڑی میں میمنوں کے ایک نجی قبرستان میں سپردِ لحد کیا گیا۔

\”جنتا کرفیو” کے سبب ان کے اکثر دوست اور مداح ہاتھ مل کر رہ گئے کہ وہ دو مٹھی مِٹّی بھی دینے نہیں پہنچ سکے۔معروف شاعر اور صحافی ندیم صدیقی کے مطابق عبدالاحد ساز اپنے شعری محاسن اور انسان دوستی کے سبب تادیر یاد رکھے جائیں گے ۔ساز کے یہ دو شعرذہن کے دریچے پر روشن ہیں:

دور سے شہرِ فکر سہانا لگتا ہے

 داخل ہوتے ہی ہرجانہ لگتا ہے

سانس کی ہر آمد لَوٹانی پڑتی ہے

جینا بھی محصول چُکانا لگتا ہے

اس موقع پر شاعر عرفان جعفری نے کہاکہ یہ ایک افسوس بھری خبرہے کہ عبدالاحد ساز کا انتقال ہو گیا۔خموشی بول اٹھی اور سرگوشیاں زمانے کی ۔انتہائی خموشی سے فطرت سے، سرگوشیاں کرتا ہوا رخصت ہوا۔دو شعری مجموعے دئے اردو ادب کو۔

بس ایک ملال شاید زندگی بھر رہ جائے کہ مٹی بھی نہ دے پائے، کوئی راستہ نہیں ہے کہ گھر سے نکل سکیں۔ایک دکھ تو اپنے کے بچھڑنے کا، دوسرا دکھ اس سے بھی بڑا کہ نہ نماز جنازے میں شامل ہوئے نا ہی مٹی دے سکے۔شاعر اور ادیب وجے ورون نے کہاکہ ایک اچھے شاعر ہونے کے علاوہ بہت ہی نیک انسان تھے۔ اُستادِ مُحترم جناب کالی داس گُپتا رِضا کی رحلت کے بعد بِلا شُبہ وُہ مُمبئ کی ناک تھے۔ پرماتما اُن کی آتما کو شانتی دے۔صحافی اور شاعر ارتضیٰ نشاط نے کہاکہ صورت حال بھی کتنی بھیانک اور اداس ہے۔دل دھک سے رہ گیا ہے. اللہ اپنے جوار رحمت مین جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرماے۔ جبکہ جاوید انصاری نے کہاکہ مرحوم نہایت مخلص و ملنسار شخص تھے۔ شاعر نقاد اور مذہبی علوم بالخصوص تصوف کے ثناور تھے۔ ہندوستان کے پہلے اردو صحافی تھے جنہوں نے پروین شاکر سے مفصل گفتگو کی تھی۔ غالباً اخبار عالم نامی ہفت روزہ میں دو قسطوں میں یہ دلچسپ گفتگو شائع ہوئی۔ گوا، ممبئی اور ناسک میں ملاقاتیں رہیں۔ ہر ماہ ناسک آیا کرتے تھے۔ آدم ملا اور نند کشور بھتڑا کے مہمان ہوتے۔ اکثر ملاقاتیں رہیں۔ اللہ پاک مغفرت فرمائے۔
ممبئی اردو نیوز کے مدیر شکیل رشید نے کہاکہ مرحوم عبدالاحد ساز ایک اچھے انسان بھی تھے جبکہ بڑی نرمی سے اپنے مخصوص انداز میں شعر کہتے تھے کہ وہ دل کو چھو لیتے تھے۔ان کے طالب علمی کے زمانے کے دوست پروفیسر سید اقبال نے کہاکہ دل دھک سے رہ گیا کیونکہ وہ بچپن ،لڑکپن سے اب تک دوست رہا ہو اور اس کی موت کی خبر صدمہ سے دوچار کر ہی دے گی۔صحافی جاوید جمال الدین نے کہاکہ مرحوم ساز صاحب ہر محفل میں جب بھی ملتے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ۔ان کا انداز بڑا پیارا تھا اور دل کو چھو لیتا تھا۔اتنا مخلص اور شاعر ہونا عجیب لگتا ہے۔چندسال سے یہ محسوس ہوتا تھاکہ کسی گہرے صدمہ سے دوچار ہیں.

Leave a Comment