جدہ ،۱۲ ؍ اور ۱۳ ؍مئی کی شامیں جدہ میں اردو کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا عزم لئے نمودار ہوئیں ۔ شاندار تایخی مشاعرہ اور خلیج کے اردو ادب پر سمینار نے اردو کے چاہنے والوں کی آنکھیں کھول دیں۔ پابندی سے مشاعرے کرنے والوں اور سننے والوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ گلف میں مقیم عشاقان اردو اسقدر مضبوط عزم وارادے کے مالک اور بے حد خوبصورت اور جاندار ادب تخلیق کرنے والے بھی ہوسکتے ہیں۔
’’گلف اردو کونسل ‘‘ خلیجی ملکوں میں اردو کے چاہنے والے شاعروں اور نثرنگاروں پر مشتمل نئی تنظیم ہے جسے ۲۰۱۵ کے اواخر میں خلیج کے افق پر روشن ستاروں نے اردو کی پرخلوص خدمات انجام دینے اور اپنے تہذیبی ورثے کو نئی نسل تک منتقل کرنے ونیز علاقائی اور دیگر زبانوں کے ادب کو اردو سے روشناس کروانے جیسے اہم منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا عزم لے کر قائم کیا ہے۔ گلف اردو کونسل کے زیر اہتمام حسب مشورہ جدہ میں پہلا دو روزہ پروگرام طے پایا جس کی عملی صورت گری کیلئے گلف اردو کونسل کے سعودی عرب میں مقیم نمائندوں نے ایک مقامی مجلس مشاورت ترتیب دی جس نے پورے اخلاص اور ہنرمندی سے ووروزہ پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ؛ اردو ادب کے آسمان پر روشن درخشاں ستاروں نے گلف اردو کونسل کے پروگرام کا اسطرح خیر مقدم کیا جیسے کوئی پرندہ اپنے نوخیز بچوں کو آتا دیکھ کر اپنے پر کھول دیتا ہے۔ انہی قدردانوں میں ایک نمایاں شخصیت پروفیسر پیرزادہ قاسم کی ہے جو پاکستان کی پہلی اردو یونیورسٹی کے مدیرجامعہ رہے پھر کراچی یونیورسٹی اور موجودہ دور میں ضیاالدین یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوے گویا موصوف متواتر چودا برس سے جامعات کے وائس چانسلر ہیں ، سائنسی علوم کے پروفیسر پیرزادہ قاسم صدیقی کا درس وتدریس تجربہ او ر اردو غزل انکی محبوبہ رہی ہے ، سو گلف اردو کونسل کے قیام کو ایسی عظیم شخصیت نے فال نیک گردانا اور ہمارے مشاعرے کی صدارت قبول فرمائی،سمینار شعروادب سے متعلق ہونے کے باوجود بہت سنجیدہ موضوع رہا ہے جس کے لئے نثرنگارونقادان شعروہنر کی ضرورت تھی سو اسکی خبر پروفیسر ارتضی کریم کو دی گئی اس شہسوار فکر وہنر نے ہماری دعوت کو شرف قبولیت بخشا کہ ’’ خلیج میں اردو ادب ‘‘ سمینار کاعنوان تھاجوانکے لئے خصوصی دلچسپی کا مظہر رہاہے وہ اردو کی نئی بستیوں میں خلیجی ممالک میں اردو کے خدمتگزاروں کے منظرنامے پر ایک عرصے سے نظررکھے ہوے تھے۔پروفیسر ارتضی کریم صنف ِ داستان گوئی کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں میں خاصہ اہم مقام رکھتے ہیں تنقیدی جائزوں میں قرۃ العین حیدر ،انتظار حسین اور جوگندرپال کی مجموعی ادبی خدمات کااحتساب کرنے والا یہ مرد قلندر اب گلف اردو کونسل کے مقالہ نگاروں کا احتساب کرنے ،ا ہل اردو کو انکی کوتاہیوں کا احساس دلانے اوراردو زبان و ادب کی خوبصورتی اور اہمیت کے موتی تقسیم کرنے کا عزم لے کر جدہ کی سرزمین پر پہنچ چکا تھا۔
الغرض جدہ کے خوشبخت سامعین اور محبان اردو کا قافلہ جو ق درجوق ۱۲ مئی کی شام مشاعرہ گاپر جمع ہونے لگا ۔مشاعرے کی نظامت کونسل کے اہم رکن اور شہر ریاض کے نمائندے جناب میر فراست علی خسرو نے کی اور مہمان خصوصی کی کرسی پر امریکہ سے تشریف لانے والے طنز ومزاح کے فی زمانہ دلاور فگار جو خود طنزومزاح کے اہم ستون دلاور فگار کے تلامذہ میں بھی ہیں اور انداز تکلم میں بھی انکی شناخت رکھتے ہیں، برادرم خالد عرفان براجمان ہوے ۔ خلیجی ریاستوں سے شریک ہونے والوں میں قطر سے ندیم ماہر اور کویت سے سید صداقت علی ترمذی نے جھنڈے گاڑدئیے اور ابہا سے تشریف لائے طبی موضوع جراحت کے ماہر نے اردو غزل کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ مشاعرہ اپنی بلندیوں کو چھونے لگا۔سلسلہ کلام تو کلام ربانی سے شروع ہوا جسے قاری حافظ نور محمد نے اپنی بے حد خوبصورت آواز میں پیش کیا اور نعت رسولﷺ کی سعادت جدہ کے مشہور نعت خواں محمد نواز جنجوعہ کے حصے میں آئی مشاعرے سے قبل گلف اردو کونسل نے ایک اہم رسم بہت خوبصورتی سے ادا کی ، وہ یہ تھی کہ سعودی عرب میں جن سرپرستان شعر ادب نے نخل اردو کی آبیاری کی جن شعرا نے اپنے حصے کی شمع جلائی اور اب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ان کے نام یادگار ایوارڈ مشاعرے میں شریک شعرا کو پیش کئے۔ ان ایوارڈوںمیں پہلاایوارڈ، جدہ کے باباے اردو مصطفی علی قدوائی ایوارڈ صدر مشاعرہ پیرزادہ قاسم کو جناب احمد الدین اویسی کے ہاتھوں پیش کیا گیا۔مزاحیہ شاعر خالد عرفان کو جدہ کے مشہور مزاحیہ شاعر اور ان وقتوں کے ناظم مشاعرہ ناظرقدوائی والد ایوارڈ دیا گیا۔دمام کے سہیل ثاقب کو دمام کی ہی ادبی شخصیت اور استاد شاعر ذکا صدیقی ایوارڈ سے نوازا گیا۔میرفراست علی خسروکو ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی ایوارڈ اور ناصربرنی کو اعتماد صدیقی ایوارڈ عطا کیا گیا۔سیدصداقت ترمذی کوبیکس نواز شارق ایوارڈ دیا گیا، الطاف شہریارکوظفر مہدی ایوارڈ سے نوازا گیا،فیصل طفیل کو پروفیسر نوراحمد شیخ ایوارڈ دیا گیا، علیم خان فلکی کو شریف اسلم ایوارڈ پیش کیا گیا،ڈاکٹر اشفاق ناصرکو عطااللہ فاروقی ایوارڈ، ندیم ماہرکوعرفان صدیقی ایوارڈ، احمد فاروقی کوگلف اردو کونسل ایوارڈ دیا گیا،اطہر عباسی کومصلح الدین سعدی ایوارڈ، نعیم بازید پوری کو احمد جمال صادق ایوارڈ عطا کیا گیا ۔
مشاعرے کا آغاز جدہ کے کاٹدار انداز سخن رکھنے والے جواں سال شاعر الطاف شہریار کے کلام سے ہوا جنہیں شہر دکن کے معروف شاعر تاج مہجور کے فرزند ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔مشاعرے اور سمینار میں شرکت کیلئے قطر سے دو اہم مہمان بھی تشریف لائے جن میں قطر کی بیشترانجمنوں کے سرپرست اور بزم صدف کے سرپرست اعلیٰ صبیح بخاری مہمان اعزازی کے طورپر پروگرام میں شریک رہے ۔فیصل طفیل جدہ کی ادبی محافل میں نئے لب ولہجے کے جواں سال شاعر سمجھے جاتے ہیںجنہیں لفظیات کو برتنے کا سلیقہ خوب آتا ہے اور اشعار میں خوبصورت بندشوں کے اظہار نے انہیں منفرد لہجہ عطا کیا ہے۔ ناصر برنی اگرچہ جدہ میں ایک عرصہ قیام پذیر رہے پھر حالیہ دنوں میں ذریعہ معاش کے منتقل ہونے کے سبب ینبع میں رہ رہے ہیں، خوبصورت فکرانگیز شاعری کے حامل فن عروض پر گرفت رکھنے والوںمیں ایک اہم مقام رکھتے ہیں انہیں بہت دلچسپی سے سنا جاتا ہے، خاکسار مہتاب قدر کو جدہ کی سماعتوں نے ہمیشہ ہی سراہا ہے سو یہ سلسلہ تو چلا، یہ الگ بات ہے کہ اس دفعہ ہمارا ہدف اپنی شاعری پرداد و تحسین نہیں بلکہ پورے مشاعرے کی مجموعی کامیابی تھا سو پسند کرنے والوں نے پورے مشاعرے کو جن الفاظ میں صراہا وہ یہ تھے کہ لگ بھگ پچاس سال بعد ایک ایسا مشاعرہ سنا اورمنعقد کیا گیا جس میں شعرا اور سامعین دونوں کی منتخب تعدادشریک رہی اور رات ۳ بجے کے قریب یہ محفل شعروسخن نے آخری سانسیں لیں۔قطرکے مہمان شاعر کا ذکر کرچکا ہوں کہ ندیم ماہر خوبصورت لب ولہجہ اور مضامین کے تنوع کی مہارت رکھتے ہیں جنہیں بہت خوبصورت سماعتوں نے داد و تحسین سے نوازا۔جناب احمد فاروقی سعودی شاعر اور جدہ کی قدیم ادبی شخصیات میں مرحوم عطاللہ فاروقی کے صاحبزادے نے اپنے خوبصورت روایتی ترنم سے مشاعرہ گاہ میں سماں باندھ دیااور داد کے موتی چنتے رہے۔سہیل ثاقب خلیجی شعرا میں ایک نمایاں نام ہے جو گلف اردو کونسل کے اہم رکن اور دمام کے نمائندے بھی ہیں اپنی خوبصورت شاعری اور مخصوص فکر کے باعث خلیجی ریاستوں سے باہر بھی اکثر مشاعروں میں بلاے جاتے ہیں موصوف نے مشاعرے کے وقار کو بلند کیا۔عالمی اردو مرکز کے صدر اور ہماری کونسل میں جدہ کی مشاورتی کمیٹی کے اہم ترین شاعر و ادیب اطہر عباسی اپنی مثبت فکر کے باعث بہت دلچسپی اور دھیان سے سنے جاتے ہیں موصوف چار دہائیوںسے امارت اور جدہ میں اور اس سے قبل دبئی میں مقیم رہے انکی شاعری اور ادبی خدمات کا سلسلہ دونوں ہی اپنا ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔نعیم بازید پوری جدہ کی محافل میں دل کی طرح دھڑکنے والا شاعر اور قادرالکلامی جس کی شناخت بن گئی مشاعرے میں ہمیشہ کی طرح بہت شوق وذوق سے سنا گیا۔خالد عرفان نے اپنی مزاحیہ شاعری میں سیاسی اور گھریلو موضوعات پر بہت ماہرانہ فنکاری سے اپنا کلام پیش کیا جنہیںتقریبا گھنٹہ بھر پوری دلچسپی سے سنا گیا۔ناظم مشاعرہ نے صدر محفل کو دعوت سخن دینے سے پہلے تمام شرکائے محفل کو تعظیما کھڑے ہوکر پیرزادہ قاسم کا استقبال کرنے کی خواہش کی اور پوار ہال پروفیسر پیرزادہ کے لئے کھڑاہوگیا۔ دلوںمیں بسنے والے پیرزادے قاسم نے بھی دل سے ان جذبات کی قدر کی اوراپنے تازہ کلام کے بعد فرمائیشی غزلیں بھی تادیر سناتے رہے ۔ یہ مشاعرہ اس لئے بھی تاریخی تھا کہ پیرزادہ کو دل بھر کر سنا گیا اور شاعر نے بھی دل کھول کر اپنا کلام پیش کیا۔ یہ تھی روداد پہلے دن کے پروگرام کی، جسے مقامی مشاورتی کمیٹی کے ا ہم کارکن جناب عبدالرزاق کے کلمات تشکر نے اختتام کی منزلوں تک پہنچایا ۔
نمونہ کلام:
پیرزادہ قاسم،
اب حرف تمنا کو سماعت نہ ملے گی
بیچوگے اگرخواب تو قیمت نہ ملے گی
لمحوں کے تعاقب میں گزرجائیں گی صدیاں
ہاں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی
اے آئینہ صفت وقت ترا حسن ہیں ہم لوگ
کل آئینے ترسیں گے تو صورت نہ ملے گی
میان ِکار دینا ہم سے دل ناشاد کیا کرتے
ہمیں ہو یاد کب آیا، اسے ہم یاد کیا کرتے
ہمیں جلدی بہت تھی عشق میں برباد ہونے کی
سو پیش و پس میں پڑ کر وقت بربادکیا کرتے
ندیم ماہر:
بس اتنی بات تھی کہتے تو ہم ترمیم کرلیتے
سفر کو بانٹ لیتے ہم تھکن تقسیم کر لیتے
اگرہم سے شکایت تو پھر اظہار کرنا تھا
معافی مانگ لیتے ہم خطا تسلیم کرلیتے
ناصر برنی:
اس سے کہنا کہ خدارا وہ لچک لو ٹادے
اس سے کہنامرے لہجے کی کھنک لوٹادے
اس سے کہنامرے آنگن میں ہیں ہر رنگ کے پھول
اس سے کہنے مرے پھولوں کی مہک لوٹادے
اس سے کہ محبت بڑی بے باک ہے آج
اس سے کہنا کہ وہ دیرینہ جھجک لوٹادے
سید صداقت ترمذی :
حوصلہ پست نہیں عزم جواں رکھنا ہے
ظلمت شب میں قلم شعلہ بیاں رکھناہے
عشق والے ہیں ہمیں راس منافع کیسے
منفعت تم ہی رکھو ہم کو زیاں رکھنا ہے
ہر کوئی کہتا پھرے دوست نہیں بھائی ہوں
آج بھی یاد مجھے اک وہ کنواں رکھنا ہے
سہیل ثاقب:
آسمانوں پہ نظر اب بھی جما رکھی ہے
ماں نے پریوں کی کہانی جو سنا رکھی ہے
دوستی رکھنی پڑے گی ہمیں طوفانوں سے
ہم نے بستی لب ساحل جو بسا رکھی ہے
لوگ کیوں دیکھتے ہیں مجھ کو عجب نظروں سے
کوئی تو بات ہے جو تو نے چھپا رکھی ہے
مہتاب قدر:
الٹ کے کاسہ اسے تاج کرکے دیکھتے ہیں
چلو فقیری میں اب راج کرکے دیکھتے ہیں
مہک خلوص کی جب یار میں نہیں ہوگی
تو انسیت در ودیوار میں نہیں ہوگی
ہمیں خریدنا چاہو تو دیر مت کرنا
یہ جنس کل کسی بازار میں نہیں ہوگی
خلیجی اردو ادب پر منعقدہ سمینار میں پروفیسر ارتضی کریم ڈائرکٹر قومی کونسل براے فروغ اردو زبان ہندوستان نے صدارت کی ، مہمان خصوصی پیرزادہ قاسم اور مہمان اعزازی قطر سے بطور خاص ان تقریبات کے لئے تشریف لانے والے سرپرست بزم صدف دوحہ قطر جناب صبیح بخاری رہے۔
اس اجلاس میں مقالے سے پہلے دوحہ قطر سے تشریف لانے وال شہاب الدین احمد ایڈیٹر صدف براے قطر کو علی الحق یادگار ایوارڈ سے نوازا گیا جن کے مقالہ کا عنوان خلیج ادب کا جائزہ عالمی تناظرمیںتھا، جبکہ خاتون مقالہ نگار سمیرہ عزیز کو مولانا فریدالوحیدی ایوارڈ پیش کیا گیاان کے مقالہ کا عنوان سعودی عرب کے اردو ادب میں خواتین کا کردار تھا، سراج وہاب کو ھشام حافظ ایوارڈ دیاگیا موصوف کے مقالہ کا موضوع جدہ سعودی عرب میں اردو صحافت رہا اورنعیم جاوید کو ڈاکٹراوصاف احمد ایوارڈ سے نوازا گیا جنکے مقالے کا عنوان سعودی عرب میں اردو ادب کا ارتقا اور مستقبل ، تھا۔
مہمان خصوصی جناب صبیح بخاری کو عبدالرحیم انصاری ایوارڈ اور صدر اجلاس پروفیسر ارتضی کریم کو مولانا حامد الانصاری غازی ایوارڈ پیش کیا گیا۔
جناب صبیح بخاری نے اپنے احساسات بیان کرتے ہوے فرمایا کہ میں نے اردو زبنا قطرآنے کے بعد اس وقت سیکھی جب مجھے اپنی ماں کو خط لکھنے کیلئے کوئی اور زبان کا سہارا نہ مل سکا پیرزادہ صاحب نے بھی اپنے احساسات کا اظہار فرمایا ، پروفیسر ارتضی کریم نے اپنی تقریر کے دوران اردو والوں کو کہا کہ وہ اردو کو نئی نسل میں منتقل نہیں کریں گے تو اردو ان سے پوچھے گی آئیندہ نسلوں کے سامنے وہ جواب دہ ہوں گے۔