مہجری ادب کے حوالے سے سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت : پروفیسر خواجہ اکرام
نئی دہلی(اسٹاف رپورٹر) جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز میں دوحہ قطر سے تشریف لائے معروف شاعر افتخار راغب کو استقبالیہ دیا گیا اور ان کے چوتھے شعری مجموعہ ’’ یعنی تو ‘‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ پیشے سے انجینئیر افتخار راغب گزشتہ بیس برسوں سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں۔ جن لوگوں کے دم سے غیر ملکوں میں اردو شعر و ادب کی فضا سازگار ہے ان میں افتخار راغب کا نام بہت اہم ہے۔ افتخار راغب کے چوتھے شعری مجموعہ ’’ یعنی تو ‘‘ کا اجرا پروفیسر انور پاشا، پروفیسر خواجہ اکرام ، پروفیسر سید عین الحسن ، ڈاکٹر توحید خان ، ڈاکٹر زرینہ زریں ، ڈاکٹر اظہار ندیم اور ڈاکٹر شفیع ایوب کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر شفیع ایوب نے افتخار راغب کا مختصر تعارف پیش کیا اور چوتھے شعری مجموعہ کی اشاعت پر صاحب کتاب افتخار راغب اور کتاب کے ناشر ڈاکٹر اظہار ندیم کو مبارکباد پیش کی۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو کے سابق ڈائریکٹر اور شعبے کے استاد پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے افتخار راغب کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے مہجری ادب کو لیکر سنجیدہ غور و فکر کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا کہ یورپ کے ملکوں اور امریکا و کناڈا میںاردو والوں کی ایک ایسی بستی ہے جو پچاسوں برس پہلے ہجرت کر کے وہاں آباد ہو گئے اور انھیں ملکوں کی شہریت حاصل کر لی۔ انھوں نے جو ادب تخلیق کیا اسے ہم مہجری ادب کہتے ہیں ۔ لیکن کیا خلیجی ممالک میںملازمت کے سلسلے میں رہنے والے لوگ جو ادب تخلیق کر رہے ہیں وہ بھی مہجری ادب ہے ؟ پروفیسر خواجہ اکرام نے اپنی تقریر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ خلیجی ممالک میں تخلیق کردہ شعر و ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے مقامی مناظر اور مقامی مسائل نظر نہیں آتے۔
ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے سابق چئیرپرسن اور ممتاز ناقد پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ ’’ یعنی تو ‘‘ سے پہلے افتخار راغب کے تین شعری مجموعے شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہو چکے ہیں۔ ’’لفظوں میں احساس ‘ ’ خیال چہرہ ‘ اور ’غزل درخت ‘ کے بعد اب ’یعنی تو ‘ کے ساتھ افتخار راغب ایک بار پھر ہمارے درمیان ہیں۔ پروفیسر انور پاشا نے افتخار راغب کی شاعری میں سادگی اور مٹّی کی خوشبو کے حوالے سے گفتگو کی۔ انھوں نے اس بات کے لئے افتخار راغب کو مبارکباد پیش کی کہ وہ دیار غیر میں خاک وطن کی خوشبو پھیلا رہے ہیں۔ پروفیسر پاشا نے راغب کی شاعرانہ خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے انھیں اردو زبان و ادب کا خاموش خادم قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہماری حب الوطنی پر سوال اٹھانے والوں کو افتخار راغب جیسے شاعروں کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جو دور پردیش میں اپنے وطن کو یاد کرتے ہیں اور وطن کی مٹی کی خوشبو سے اپنی شاعری کو معطر کرتے ہیں۔
’’یعنی تو ‘‘ کی رسم اجرا اور افتخار راغب کی شاعری پر اظہار خیال کے بعد فارسی زبان و ادب کے استاد اور عالمی شہرت یافتہ دانشور پروفیسر سید عین الحسن عرف حسن بنارسی کی صدارت میں ایک شعری نشست کا انعقاد ہوا۔ جس میں لکھمنیا سے تشریف لائے مہمان شاعر طارق متین اور کولکاتہ سے تشریف لائیں ڈاکٹر زرینہ زریں کے علاوہ رئیس فراہی، رضی شہاب ، محمد عامر ندوی، تالیف حیدر، ڈاکٹر ہادی سرمدی، ڈاکٹر خالد مبشر ، ڈاکٹر شفیع ایوب ، افتخار راغب ، پروفیسر انور پاشا اور پروفیسر حسن بنارسی نے اپنے خوبصورت کلام سے نوازا۔ ڈاکٹر محمد توحید خان نے اظہار تشکر کیا۔ بڑی تعداد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی یونیورسٹی، ذاکر حسین کالج اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرس اس ادبی جلسے میں موجود رہے۔