ذکیہ مشہدی کے نمائندہ افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ

\"\"
احمد رشید

گلی رہٹ والا کنواں،سرائے رحمن، علی گڑھ
\"\"

ذکیہ مشہدی اپنے ڈھب کی الگ فنکار ہیں جن کی قلم میں روانی بھی ہے اور موضوعات کی تازگی بھی۔وہ جن موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں اُس کا پورا پورا حق ادا کرتی ہیں۔ان کے تاہنوز چھہ افسانوی مجموعے اشاعت سے ہمکنار ہوچکے ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱۔ پرائے چہرے ۱۹۸۴ء
۲۔ تاریک راہوں کے مسافر ۱۹۹۳ء
۳۔ صدائے بازگشت ۲۰۰۳ء
۴۔ نقش ناتمام ۲۰۰۸ء
۵۔ یہ جہانِ رنگ وبو ۲۰۱۳ء
۶۔ آنکھن دیکھی ۲۰۱۷ء
مندجہ بالا مجموعوں میں شامل افسانوں کی تعداد مجموعی طور پر اکیاسی[۸۱] بنتی ہے ۔ان میں دو ناولٹ ’قصہ جانکی رمن پانڈے‘اور’پارسا بی بی کا بگھار‘بھی شامل ہے۔آخر الذکر ناولٹ الگ سے کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ذکیہ مشہدی کا قد ہمعصر افسانے میں بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔انھوں نے مختلف موضوعات پر کئی اہم کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے تمام افسانوں کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے لیکن پھر بھی یہاں چند نمائندہ افسانوں کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔

ہرہرگنگے
مابعد جدید ادبی رحجان میں مقامیت اور ارضیت کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔تہذیبی وثقافتی اقدار بھی ایک اہم عنصر کے طور پر ان کے نظریہ میں شامل ہے۔اگر صنف افسانہ کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ سماجی اور معاشرتی نظام کے علاوہ تہذیب وتمدن کی مختلف جہتیں بھی اس کا ضروری اجزا رہے ہیں۔ مابعد جدید تھیوری کے حامیوں نے سنجیدگی اور کلی توجہ کے ساتھ تخلیقی ادب خصوصی طور سے فن افسانہ اسے شامل کرنے کی شعوری سعی کی ہے۔ذکیہ مشہدی نے اپنے افسانوں میں نہ صرف مقامیت اور ارضیت پرزور صرف کیابلکہ تہذیبی وسماجی پس منظر کو بہ طور ترجیحات اپنی افسانوی کائنات میں داخل کیا۔ان کے ہر افسانے میں تقریباً یہ فکری رویہ نظر آتا ہے۔افسانہ’’ہرہرگنگے‘‘میںبھی یہ کاوش دکھائی دیتی ہے۔فنی طور پر یہ افسانہ عمدہ تخلیق اس لیے ہے کہ ذکیہ مشہدی نے مقامی اور تہذیبی اقدار مذکورہ افسانے میں ابھارنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
ذکیہ مشہدی کے تمام ترافسانوں میں ہندوستان بولتا ہوا نظرآتا ہے ۔خصوصی طور سے دیہی تو ہمات، شادی وبیاہ کے معاملات اور تہذیب وثقافت کا عکس ان کے افسانوںمیں نظر آتا ہے۔ان کے مرغوب موضوعات میں عورتوں کے مسائل اور ان کی روز مرہ کی زندگی کے معاملات،خانگی زندگی کی اشباء اور ضرور تیں جیسے آٹا، روٹی، چپاتی،چولھا چوکہ،دال بھات،نمک مرچ اور دیگر اجناس کا ذکر ان کے افسانوں میں ملے گا۔
ذکیہ مشہدی کے یہاں نہ تو موضوعات کا تنو ع اور نہ ہی نت نئے تکنیکی تجربات ملیںگے۔سیدھی سادھی بیانیہ کہانیاں،جن میں نہ پیچیدگی ہے اور نہ ہی کوئی الجھائو ،حقیقت کے قریب چلتی پھرتی، دوڑتی زندگی دکھائی دیتی ہے۔ان کے افسانوں کا بنیادی اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے فرسودہ موضوعات کو چھوا اور اس کو اپنے مخصوص ٹریٹمنٹ سے نیا بنادیا۔صحیح بات یہ ہے کہ بڑا افسانہ بنانے میں موضوعات کے ساتھ برتے گئے رویہ کو زیادہ دخل ہے اور اسے تخلیقی وفنی بلندی عطاکر نے میں ان کا زبان وبیان بہت کار آمد ثابت ہوا۔ابتداہی سے افسانہ قاری کو پکڑلیتا ہے اورخاتمہ تک اپنے آپ کو پڑھوالیتا ہے اور یہ خوبی کم ہی افسانہ نگاروں کے یہاں ملتی ہے ۔دوسری اہم بات مقامی زبان ،محاورات ،کہاوتیں اور ضرب الامثال جواپنے افسانوں میں استعمال کرتی ہیں وہ مقامیت اور ارضیت کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں جس کو پڑھنے کے بعد اجنبیت کا احساس مٹتا ہے۔
’’ہرہرگنگے‘‘کاموضوع بھی بھوک اور افلاس ہے۔غربت ہندوستان کا بہت سنگین مسئلہ ہے۔قدیم ہندوستان (خاص طور سے انگریزوں کے دور سے) اور آج آزادی ملنے کے بعد بھی جدید ہندوستان کا یہ مسئلہ منھ پھاڑے کھڑا ہے۔ہندوستان کے ترقی یافتہ ملک ہونے کی ہم دعویداری کرتے ہیں۔آج بھی عام انسان غریبی کی سطح کے نیچے اپنی زندگی گزاررہا ہے۔ہندوستان کے بیشتر افراد افلاس زدہ ،بدحال زندگی جی رہے ہیں۔بھوک وافلاس ان کا مقدر بنی ہوئی ہے ۔آج بھی نادار انسانوں کے بچے کو ڑا کرکٹ سے کھانے کی اشیا وتلاش کر کے جینے کے لیے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ان کے پاس پہننے کے لیے کپڑے اور نہ ہی رہنے کے لیے مکان ہیں ۔میلے کچیلے کپڑوں سے اپنا تن ڈھانکتے ہیں۔ سخت جاڑے میں ٹھٹھر تے بچے ننگے دھڑ نگے گلی کو چوں کے کوڑا کرکٹ سے بین بین کر کھانے کی اجناس پر اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔آج ہم چاند پر کمند ڈالنے کی بات کرتے ہیں اور اس میں مکان بنانے کی خواب دیکھتے ہیں۔سوشلزم کے نام پر پورا معاشرہ دوحصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ہمارے سماج کا ایک بہت ہی مختصر طبقہ عیش وعشرت کی زندگی گزاررہا ہے اور انسانوں کا ایک بڑا طبقہ بھوک، غریبی اور مہلک بیماریوں کا شکار ہے۔ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں خاص طور سے آدی باسی اور قبائلی لوگوںکو وقت پر کھانا میسرنہیں، ان کے لیے بیماریوں کا معقول علاج نہیں،رہنے کے لیے مکانات نہیں۔ آج بھی بڑے بڑے شہروں میں فٹ پاتھ پر اپنی زندگی گزارتے ہیں اور دیہاتوں میں جنگلات میں اپنی زندگی بسر کر تے ہیں:
’’لیکن اس مرتبہ شکار کے ساتھ جیپ میں کچھ زندہ جانور بھی تھے۔ایک لڑکا کوئی دس ایک برس کا تھا۔تین لڑکیاں ۔ایک اٹنگی دھوتی میں ملبوس مرد۔ایک حاملہ عورت۔سب جی بھرکر کالے، آدھے ننگے، مریل سیاہ چہروں پر زرد آنکھیںسپیددانت ۔یہ کوڑاکرکٹ ورماجی کہاں سے اٹھالا ئے۔‘‘(۳۰)
مصنفہ نے ایک غریب خاندان کا حلیہ بیان کیا ہے جوان کی غریبی کی نشاندہی کرتا ہے اور ایک کڑوی سچائی کے طور پر قاری نظارہ کرتا ہے۔ورماجی شکار کرنے جاتے ہیں اور ان کی غریبی پرترس کھاکر گھرلے آتے ہیں ۔یہاںمصنفہ کا بھرپور طنز بھی دیکھیں کہ انسان جو زندہ جانوروں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اٹنگی دھوتی،آدھے ننگے، مریل سیاہ چہروں پر زرد آنکھیں، سپید دانت وغیرہ غریبی اور بد حالی کی ایسی تصویر ہے جسے دیکھ کر آنکھیں ڈبڈ باجاتی ہیں۔ اس پر ذکیہ مشہدی کابھر پور نشتر سے بھرا یہ جملہ کہ یہ کوڑا کرکٹ ورماجی کہاں سے اٹھا کر لائے۔ یہ مسٹر ورما کی سوچ کے ذریعہ ظاہر کیا ہے۔جب مسٹر ورما نے لکھی سے اس کے احوال دریافت کئے تو وہ جواب دیتی ہے:
’’پورا پر یوار کام کرتا تھا تو دوجون کا چاول۔روپنی ختم ہونے پر ایک جون کھاکر سوتے تھے۔کبھی کبھی تووہ بھی نہیں۔صرف لڑکن کو کھلادیتے تھے۔ہری ہر کوٹری کے یہاں سے اتنا ہی مل پاتا تھا۔‘‘(۳۱)
غریبی اور بھوک اپنی جگہ تحریر کردہ اقتباس میں ایک جملہ خصوصی طور سے قابل غور ہے ’’کہ کبھی کبھی تو وہ بھی نہیں۔صرف لڑکن کو کھلادیتے تھے۔یاد رہے مذکورہ غریب خاندان میں ایک دس سالہ لڑکا اور تین لڑکیاں ہیں۔مالدار ہویاغریب طبقہ ہمارے سماجی نظام میں لڑکیوںکو برابری کا درجہ نہیں دیا جاتا ۔لڑکا اور لڑکیوں میں تفریق کرنے کی بری روایت آج بھی قائم ہے کیونکہ لڑکیوں کو پرایا دھن سمجھنے کی سوچ نے ان کو ان کے حقوق سے محروم کردیا ہے کیونکہ پرایا دھن کی قدروقیمت کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟لڑکوں کی پرورش اور ان کے کھانے پینے پہننے اور صحت کا اس لیے بھی خیال رکھاجاتا ہے کہ وہ آگے چل کر کمائو وت بنیںگے اور خاندان کا بوجھ اٹھائیںگے۔بھلے ہی یہ امید پوری نہ ہو، آج بھی ہمارے معاشرہ میںلڑکیوں کو برابری کا حق حاصل نہیں ہے ۔
لکھی کا جواب سن کر مسنر ورما سوچتی ہیں تو ان کو یاد آیا کہ ان کی بڑی بہو کے ساتھ دوچار لڑکے اور لڑکیاں کو لہاپوری چپل پہنے، کاندھے پر جھولے لٹکائے آتے تھے تو ان کی باتیں ان کو اول جلول معلوم ہو ئیں۔ ان کی بہونے بتایا کہ چوھٹا ناگ پور کے کسی آدی باسی قبیلے میں کھانے کے نام پر گھاس اور پتے مل رہے تھے اور جس کی نسل گندے جوہڑوں کا گاڑھا گدلاپانی پی پی کر طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوکر ختم ہوتی جارہی ہے۔نہ جانے کتنے غریب گھرانے صرف ایک بھونی ہوئی مرچ اور نمک کے ساتھ بھات کھاکر گزارہ کرلیتے ہیں۔یہ ہے آج کے ہندوستان کی بدنماتصویر جس کو فنکارہ نے کرداروں کی زبانی مختلف علاقوں کے سماج کی غریبی اور مفلسی کا منظرنہیں آرہا ہے ۔
افسانہ ’’ہرہرگنگے‘‘میں انتہادرجہ کی غریبی اور بھوک کو موضوع بناکر ایک مخصوص بدحال طبقہ کی نمائندگی کی ہے۔ اس طرح پرچم چند کی روایت کی توسیع بھی ہوتی ہے۔بھوک کے موضوع پر پریم چند کی شاہ کارتخلیق’’کفن‘‘اردو افسانوی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہی نہیں بلکہ اس کا شمار عالمی افسانوں کی فہرست میں اس کا شمار ہوتا ہے۔’’بھوک‘‘کے موضوع کو لے کر رتن سنگھ کی ایک بہت ہی مشہور کہانی’’ہزاروں سال لمبی رات‘‘بھی ہے جو موضوعی سطح پر ہی نہیں بلکہ تکنیکی اعتبار سے بہت اہم افسانہ ہے۔افسانہ’’ہرہرگنگے‘‘ اپنی نوعیت کی بنیاد پر بہت عمدہ افسانہ ہے۔مصنفہ نے موضوع کے ساتھ جو ٹریٹمنٹ اختیار کیا ہے وہ یقینا قابل تحسین ہے۔موجودہ ہندوستان کے حالات کو مصنفہ نے کرداروں کی زبانی اس طرح بیان کیا ہے کہ زندگی کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے فلم کی طرح گھومتی ہے۔
’’آنٹی آپ بزرگ ہیں۔آپ کے گھر میں بیٹھ کر آپ کو کیا کہیں۔ اس پوش کالونی کے دو محلے میں بیٹھ کر آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ ہمارے ملک میں کتنے لوگ بغیر کھائے سوتے ہیں اور کتنوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہوتا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘(۳۲)
معاشی اعتبار سے ہندوستان کا ہر شہری دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ایک اعلیٰ طبقہ جو پوش کالونی میں رہنا پسند کرتا ہے۔ وہ نچلے طبقہ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مکانات اور جھکی جھونپڑیوں کے درمیان اپنی اعلیٰ قسم کی رہائش گاہیں بنانا پسند نہیں کرتا۔غریبوں سے ایک فاصلہ بنائے رکھتا ہے۔نچلے طبقہ کے غرباء سماجی طور پر اپنے آپ ہی یاسوچی سمجھی سازشوں کے تحت علٰیحدہ کر دیئے جاتے ہیں ان کی کلچر ل لائف کے مطابق دوکانیں،میلے ٹھیلے اور روز مرہ زندگی کی ضرورتوں کو پورا کر نے کے لیے الگ بازار’پھڑ‘ اور کھوکے بن جایا کرتے ہیں۔پوش کا لونیوں میں رہنے والے افراد کو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ مفلس اور نادار اپنی زندگی کس طرح جیتے ہیں۔
خدمت خلق دنیا کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ اس امر سے دنیا کے تمام مذاہب متفق ہیں۔مذکورہ افسانہ ’’ہرہرگنگے‘‘کااہم کردار مسٹرورما جن سیوا کو اپنا دھرم سمجھتے ہیں۔ورماجی شکار کے بہت شوقین ہیں۔ انسانوں سے ہمدردی ، غریبوں کی مدد کرنے کا جذبہ بھی شدت کے ساتھ موجودہے۔بھوکوں کو کھانا کھلانا، ننگوں کو کپڑے پہنانا ان کی عادت میں شامل ہے۔ان کی اہلیہ مسٹرورما ان سے بالکل مختلف ہونے کے باوجود لکھی کے خاندان کی بدحالی دیکھ کر ان کی سوچ بھی بدل گئی۔ان کے مزاج میں بھی ہمدردی کا جذبہ بیدار ہوگیا۔وہ یہ جان کر حیرت زدہ ہوجاتی ہیں کہ لکھی کے خاندان کے لوگ کبھی ایک وقت کھاکر اور کبھی دونوں وقت کے فاقے سے سوجاتے ہیں۔سارے بچوں کے جسم پر کپڑوں کے نام پر صرف لنگوٹی سے زیادہ نہیں۔ عورت نے بھی پرانی پتلی دھوتی سے سینہ چھپارکھا ہے اور بڑی مایوسی سے سوچتی ہیں ۔یہ دنیا ہے یہاں ہر طرح کے لوگ ہیں کوئی کس کس کے دکھ میں دکھی ہو اور کس کس کی ضرورتیں پوری کرے۔رام دئی جس کو ورماجی پہلے ہی اٹھالائے تھے۔ وہ مسٹرورما کی خدمت گزاری میں لگی رہتی ہے:
’’اگر چہ جب سے وہ ورماجی کے یہاں آئی تھی اس کو اور اس کے بچوں کو بھوکا نہیں سونا پڑا تھا اور بھات کے ساتھ آلو کا بھرتا یا کدو کی بھاجی بھی مل جایا کرتی تھی۔‘‘(۳۳)
بیان کردہ واقعات افسانہ کے موضوع تک رسائی کا سبب ہیں۔دراصل افسانہ’’ہرہرگنگے‘‘کی کہانی اس کے وسط میں بیان ہوئی ہے۔رام دئی جورام دھنی کی’’ مائے‘‘ کہلوانا نہ صرف پسند کرتی ہے بلکہ خوش ہوتی تھی۔اگر چہ اس کو پہلی اولاد ایک لڑکی تھی اور رام دھنی بعد میں پیدا ہوا تھا۔رام دھنی نے رام دئی کالی پیلی،سوکھی سڑی چار لڑکیاں پیدا کیں۔رام دھنی کو لڑکا ہونے کا اعزاز حاصل ہونے کی وجہ سے لڑکیوں پر فوقیت حاصل تھی۔ماںباپ کے مسائل سے بے نیاز رام دھنی گائوں کے جوہڑمیں بھینسوں کے ساتھ تیرا کرتا تھا اور ناک پکڑ کر ڈبکی لگانے میں استاد تھا۔مستر ورما کے پڑوسی کے چپراسی کے بیٹے ہوئے بہو سے دوستی ہوگئی تھی۔اکثربہو کے ساتھ رام دھنی گنگا میں ڈبکی لگاتا تھا اور بانس گھاٹ پر چلنے والے مردوں کے رشتے دار پانی میں جو پیسے پھینکتے وہ نکال کرلاتا تھا اور خوانچے والوں سے چاٹ،ملائی اور مختلف نعمتیں کھاتا فصل کا تازہ گڑاور ہرن کے گوشت کے کباب جو اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا انہیں پیٹ بھر کھاکر مست رہتا ۔رام دھنی کو اپنی مائے سے بڑی محبت تھی کیونکہ بیٹیاں اس کے ساتھ مل کر محنت کرتیں رام دھنی گلی ڈنڈا کھیلتا پھرتا ۔کیساہی براوقت ہوتا مگروہ اس کے لیے کھانے کو کچھ نہ کچھ بچائے رکھتی دو وقت کا اکٹھا فاقہ اس نے رام دھنی پر کبھی نہیںگزرنے دیا۔رام دھنی گنگا سے جوپیسے نکالتا وہ سب چاٹ میں نہیں اڑاتا بلکہ کچھ پیسے بچا کر ماں کو ضروردیتا۔ماں نے ان پیسوں سے بساطی سے اپنے لیے چوٹی میں ڈالنے کا موباف خریدار اور لڑکیوں کے لیے پلاسٹک کی چوڑیاں،وہ اب ادھ ننگی نہیں رہتی تھی۔پٹنہ میں گنگا کے کنارے سے ایک ٹورسٹ بس گزری،کچھ لوگوں نے گنگا میا کی جے کے نعرے لگائے اور کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر کچھ سکے پانی میں پھینکے رام دھنی نے ڈبکی لگائی اور پتھر کی تہہ میں بیٹھ گیا۔
افسانہ کا سب سے ہولناک اور المناک منظر افسانہ کے خاتمہ پرابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے جو پریم چند کے کفن کی یاد دلاتا ہے ۔شہر سے کوئی چار کیلومیٹر آگے گنگا کے کنارے بنے ہوئے چند جونپڑوں میں سے ایک میں کاروڈوم باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ رام دھنی کی لاش رہتی ہوئی آرہی ہے۔ تازہ لاش کو دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑا۔شہر میں رہنے والے انسان ہڈیوں کا کاروبار کرنے والے کچھ لوگوں سے اس کار بط ضبط تھا سوچنے لگا ۔اس صاف سھترے تازہ جسم کے تین چار سومل جائیں گے۔کارونے رام دھنی کو کھینچ کر لاش پر گھاس پھوس ڈال کر اسے ڈھک دیا۔جیسے تیسے کاروڈوم سے لوگوں نے ڈیڑھ سوروپئے میںلاش چھڑائی:
’’رام دھنی نے تو اس کی کوکھ روشن کی تھی۔کہاںگیاوہ اس کو کھ میں عظیم گنگاکی مٹیالی تہوں کی کیچڑ انڈیل کر۔لاش دیکھ کر اس کی اس کی چھاتی سے ہوک نکلی اور ایسا بھیانک رونا جود روبام کو رلاجاتا ہے لیکن شاید اس کا کچھ نہیں بگاڑ تا جو انگلی کی جنبش سے اپنی ہی گڑھی ہوئی عورتوں کو حرف غلط کی طرح مٹادیتا ہے۔‘‘(۳۴)
مصنفہ نے رام دھنی کی مائے کی ذہنی کیفیت کا بہت ہی درد آمیز انداز میں اظہار کیا ہے۔رام دئی کو یاد آیا کہ غریبی کے عالم میں کیسے کیسے رام دھنی کی پرورش کر کے جوان کیا۔خود بھوکی رہی اور اسے پیٹ بھر کھلایا۔پورا خاندان غم میں ڈوبا ہوا تھا اس منظر نامہ کو ذکیہ مشہدی پیش کرتی ہیں:
’’ایک غریب آدی باسی ماں اپنے اکلوتے بیٹے کانام لے لے کر چھاتی پیٹ پیٹ کر زمین پر لوٹ رہی تھی۔چار کم عمر لڑکیاں سہمی سہمی کھڑی تھیں،جیسے ان کی سمجھ میں نہ آرہا ہوکہ کیا ہوگیا ہے۔ایک سیدھا سادہ معصوم چہرے والد مرد انگوچھے سے مستقل آنکھیں پونچھ رہا تھا کوئی تسلی دینے والا نہیں کوئی اپنا نہیں۔‘‘(۳۵)
مسنر ورمانے گھنٹوں پر ہاتھ رکھ اٹھتے ہوئے کہا جوہونا تھا سو ہوچکا اب دارہ سنسکار کا انتظام کرو۔ لوگوں نے چندہ کیاکل ملا کر سات سور روپئے کا چندہ ہوا۔یہ سات سوروپئے ایک ساتھ دیکھ کر ان کے ذہن میں سات سو جنگجوئوں کی طرح چمکنے لگے۔وہ سوچتے ہیں’’رام دھنی تو چلاگیا۔کلیجے میں جو آگ لگی ہے وہ کبھی نہیں بجھ سکے گی۔ اس کی معرفت جو روپیہ ملا ہے اسے لکڑیوں میں پھونک دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟‘‘اقدار کو جلاکر راکھ کردیتی ہے ۔جب تک بیٹا زندہ تھا تو سونے کا تھا اب مٹی ہے بات حقیقت پرمبنی ہے یہ زندگی کی کڑوی سچائی غریب شربت سمجھ کر پی رہا ہے اور دولت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور دل درد سے خالی ہے:
’’ہرہرگنگے‘‘ لکھی نے زیر لب دہرایا، بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیر کر اس کا منھ چوما، سرجھکا کر گنگا کو پرنام کیا اور دھیرے سے لاش پانی کے سپرد کردی۔‘‘(۳۶)
افسانہ کا عنوان بھی ملٹی ڈائمنشنل(Multi Dimensssinal) ہے۔ گنگا علامت ہے سرسبز شادابی کی جو پاپیوں کے پاپ دھوتی ہے لیکن یہاں رام دھنی کی موت کا سبب بن گئی۔
٭٭٭٭٭٭
بھیڑیے
ذکیہ مشہدی کا ’’بھیڑیے ‘‘ تخلیقی اور فنّی نقطۂ نظر سے قابل تحسین افسانہ ہے۔ تخلیقی سطح پر زبان و بیان اور تشبیہ و استعارات کے استعمال سے ان کے اسلوبیٔ طرز کا پتہ چلتا ہے۔ اس کا انداز ہ افسانہ کے ابتدائیہ کلمات سے لگایاجاسکتا ہے :
’’گودام سے بھینسوں کی سانی کے لیے سرسوںکی کھلی نکالتے وقت انجورانی نے کھڑ کی کے دونوں پٹ کھول دیئے تھے اور امرائی میںکھڑے بور سے لدے آم کے درخت کسی تصویر کی طرح قدیم میں جڑاُٹھے تھے۔دور کہیں کھیت مزدوروں کے چیتی گانے کی آواز آرہی تھی۔ ایسی صاف، دلکش اور واضح جیسے وہ سرخ پھول جنہیں انجورانی نے اپنے شوہر کی چچا زاد بہن کے جہیز میں دی جانے والی سفید چادر پرکاڑھ کر کل ہی مکمل کیا تھا۔‘‘ (۳۷)
تحریر کردہ اقتباس سے مصنفہ کی زبان و بیان کے علاوہ بہار کے دیہات، امرائی کی دیہی زندگی کا منظر نامہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہے۔ دیہات کی دلکش منظر نگاری کے بیانیہ میں بور سے لدے آم کے درخت کسی تصویر کی طرح فریم میں جڑے ہونا ، دور کہیں کھیت مزدوروں کے چیتی گانے کی صاف، دلکش اور واضح آواز کو سفید چادر پرکاڑھے ہوئے سرخ پھولوں سے تشبیہ دینا ذکیہ مشہدی کی خوبصورت اور دلکش زبان کا اظہار یہ ہے ۔ ہندوستان کے دیہاتوںمیں فصل پکنے پر خوشیوں کے گیت گائے جانے کا عام رواج ہے۔ ان دیہی گیتوں کا ایک سماجی اور مقامی پس منظر ہے ۔عام طور پر کسان اپنے بچوں کی شادیوں اور مختلف تقریبات منانے کے لیے فصل کے پک جانے کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور پک جانے پر جھوم جھوم کر اپنی خوشی کااظہار کرتے ہیں اور ان کی مزدوری اور محنتانہ کی وصولیابی بھی فصل کٹنے کے بعد ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح تشبیہات کی اور بھی مثالیں ہیں:
’’کر ملّی کا جملہ پورا ہونے سے پہلے چاچی کی کرخت آواز کھلے آنگن میں یوںپھیلی چلی آئی جیسے تالاب میںپھینکے گئے پتھر سے اٹھتے پھیلتے پانی کے دائرے‘‘
’’ کر ملّی تیر کی طرح اور انجو کسی روبوٹ کی طرح ‘‘
’’ نند کشور کی آواز غصے کی شدت سے کالے ناگ کی پھنکار جیسی ہو گئی تھی۔ آواز توآواز اُس کا تو چہرہ بھی کالے ناگ کے پھن جیسا ہی لگنے لگا تھا‘‘۔ (۳۸)
مذکورہ تمام مثالیں ان کی تخلیقی ہنر مندی کا ثبوت ہیں۔ اس عجلت پسندی کے زمانہ اور حصول شہرت کی رفتار میں افسانہ تخلیقیت سے محروم ہوگیا۔ زبان و بیان اور اسلوب پر تو جہ کم ہوگئی ہے۔ جدید یت کے دور میں زبان و بیان میں یکسانیت آگئی تھی اور افسانہ کہانی پن سے دور ہو گیا تھا۔اب اس نے کہانی کو تو پالیا لیکن افسانے کے دیگر لوازمات اور ضروری تقاضے پورا کرنے میں ناکام ہے۔ معدورے چندافسانہ نگار ہیں جو افسانے کے فنی اورتخلیقی ضرورتوں کاخیال رکھتے ہیں۔ ان ہی معدورے چند تخلیق کاروں میں ذکیہ سلطان کانام لیاجاتا ہے۔ مذکورہ افسانہ بھی مصنفہ کے فنّی اور تخلیقی شعور کی نمائندگی کرتاہے ۔
اس افسانہ کا بنیادی کردارانجو رانی ہے جو امرائی کے چودھری خاندان میں بیاہی گئی ہے ۔ افسانہ ’’بھیڑیئے‘‘ میں اس کاکردار اس لیے اہم ہے کہ وہی کہانی کی راوی ہے اور خاندان کے تمام افراد میں مزاج ، اخلاق اور تہذیبی اعتبار سے مختلف ہے۔ انجورانی کی زبان میٹھی اور اس نے ملنسار طبیعت پائی تھی۔ وہ پورے خاندان میں واحد پڑھی لکھی نوجوان اور خوبصورت عورت ہے۔ وہ اعلیٰ ذات تھی اور کھاتے پیتے زمین جائیداد والے گھرانے کی بہو، اس گائوںمیں کرملّی حکومت کی آنگن واڑی اسکیم کی ٹیچر تھی جو آنگن میں گھوم گھوم کر تعلیم بالغان کی مہم کو جاری رکھنے کی کوشش کرتی۔ وہ بھی اس گائوں میں جہاں تعلیم کا کوئی رواج نہیں تھا۔ چودھری خاندان نہ صرف تعلیم سے بے بہرہ تھا بلکہ تعلیم کے فروغ میں روڑے اٹکاتے تھے اور عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق ہی نہیں تھا بلکہ سختی سے اس کی ممانعت تھی۔ کر ملّی اور انجورانی کے بیچ کوئی مماثلت نہیں تھی بس دونوں کے درمیان ایک انسانی اور اخلاقی رشتہ تھا۔
’’ بظاہر کچھ بھی تو مشترک نہیں تھا اس کے (انجورانی) اور کرملّی کے بیچ لیکن کرملّی کو معلوم تھا انجو اس جیسی ہی تھی۔ اکیلی اور خوف زدہ اور دل گرفتہ‘‘۔ (۳۹)
دراصل تعلیم بالغان کی اسکیم ، غریب، پچھڑے طبقے اور پس ماندہ اقلیتی گروہ میں تعلیم کو رائج کرنے اور اس کو فروغ دینے کا منصوبہ ہے۔ لیکن سماج کا اعلیٰ ذات طبقہ نیچ ذات اور معاشی اور سماجی اعتبار سے پس ماندہ سماج کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتا ہے کیوں کہ :
’’ کرملّی گھگھیا نے لگی۔ہم راج نیتی کیا جانیں بابو۔ ہم تو سیوا بھائو سے پڑھانے آتے ہیں ۔ ‘‘
’’اری اوپنڈتانی ۔ ہمارے کھیت محور توڑ رہی ہے۔ موسہر چمار پڑھیںگے تو کھیت مجوری کون کرے گا۔ تیرا باپ کہ ہم ؟ ویسے بھی نیچ، کمین سب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بارکرنے لگے ہیں۔ اوپر سے انہیں پڑھایا بھی جائے گا۔ ‘‘ (۴۰)
تعلیم کے سلسلے میں میں ایک غلط تصور عام ہو گیا ہے کہ حصولِ تعلیم کے بعد روپیہ کمانا ہے۔ (The End of the education is to earned money) اس جدید دور میں باقی تمام تعلیم کے اہم مقاصد پس پشت چلے گئے ہیں۔ اسی لیے چودھری خاندان نے تعلیم حاصل کرنے کی اس اسکیم کو بڑھاوا دینے میں کوئی تعاون نہیں دیا۔ شروع شروع میں کرملّی گائوں آئی تو گائوں کے سربرآوردہ لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کی غرض سے سب سے پہلے چودھری صاحب کی ڈیوڑھی پر گئی تھی۔ اس نے انجو سے کہا تھا کہ اگر وہ اس کے ساتھ بستی میں چل کر لوگوں کو سمجھائے تو لوگ سنٹرپر آنے لگیںگے۔ انجو نے دبی زبان سے گھونگھٹ کی اوٹ سے چاچا سے اجازت چاہی تو چودھری کا جواب تھا :
’’ عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے ۔ چاچا غرایا تھا۔ ہمارے یہاں کی بہو بیٹیاں چپل سنکاتی، مردوں سے دیدے لڑاتی کر ملّی کی طرح جہاں تہاں گھومتی نہیں پھرتیں‘‘۔
’’ اور میاں لوگوں کو بھی ؟ اور جنانیوں کو بھی ؟ یہ توحد ہے ۔ ‘‘
’’ برج کی عورت کی چھٹی لے جاکے ڈالتی ہے ۔ کس کے نام لکھتی ہے وہ، سوتو یہی جانے۔ اب گائوں کی کنواریوں کو بھی لکھنا سکھائے گی۔ پھر خود ہی لے جاکے ان کے یاروں کو چھٹیاں پہنچائے گی ۔ ‘‘ (۴۱)
عورتوں کو تعلیم نہ دلانے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ بگڑجائیںگی ،تعلیم حاصل کرکے لکھنا پڑھنا سیکھ جائیںگی ، عشق لڑائیںگی اور اپنے عاشقوں کو چھٹیاں لکھیں گی ۔دوسرے اگر تعلیم حاصل کرلیںگی تو انہیں عقل و شعور آجائے گا اور وہ اپنے حقوق و اختیارات کا مطالبہ کرنے لگیں گی۔ یہی سبب ہے کرملّی چودھری خاندان کو ایک نہ بھاتی تھی بلکہ اسے گالی گلوج سننے کے علاوہ مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی تھی :
’’ نند کشور نے ایک دن کرملّی کو مکھیا کے کھیتوں کی منڈیر پرپکڑا’’کیوں ری بڈھی ، گائوں چھوڑکے جاتی ہے یا زندہ جلوادوں تجھے۔۔۔۔۔۔ کرملّی تھرتھر کانپنے لگی، بابو لوگ ہمارا قصور تو بتائیں۔ دو اچھّر پڑھا دنیا تو پُن کاکام ہے ۔‘‘
ارے بدھی ۔ پن کمانا ہے تو رام کانام جپ ، زیادہ پُن کمانا چاہتی ہے تو چلی جاکر سیوا کے لیے اجودھیا۔ موہر چماروں کو ورغلاکے ہی پُن کمائے گی کیا ؟‘‘ (۴۲)
یہی سبب ہے کرملّی کو اپنا سینٹر چلانے میں بڑی دقّتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود موسہر ٹولے اور میاں ٹولے کے لڑکے بالے اور عورتیں سنٹر آنے کو تیار نہ ہوتے۔ بڑی منت سماجت اور کوششوں کے بعد جو دو چار بچے ہاتھ آتے وہ ہفتہ دس دن میںبھاگ جاتے ۔ پروجیکٹ افسر کو جورپورٹ جاتی اس میں نئی بھرتی کے مقابلے میں ’’ڈراپ آئوٹ ‘‘ کاکام کہیں زیادہ بھرا ہوا ہوتا۔ امرائی گائوں میں چودھری خاندان کی دبنگائی عروج پر تھی۔ باقی ذات برداری کے افراد بڑی مشکل گزاررہے تھے ۔خاص طور سے موسہر ٹولے میں رہنے والے ہندو، نیچ ذات کے لوگ اور میاں ٹولے کے مسلمان ان کی ظالمانہ حرکتوں کے شکار ہو تے۔ ان کی روداد اور بپتا سننے کے لیے حکومت بھی تیار نہیں ہوتی۔ دراصل جس کا ساشن اسی کا پرساشن ہوتا ہے ۔’’بھیڑیئے‘‘ کا بنیادی موضوع سیاسی اور سماجی ہے حکومت فسطائی طاقتوں کی تھی اور چودھری صاحب کی پشت پناہی دائیں بازو کی سیاسی جماعت کررہی تھی یہی وجہ ہے ۔ مندر، مسجد کا فرقہ واریت اور نچلی ذات کے مسائل عروج پر تھے۔ ہر فرد سہما سہما ڈرا ڈرا اور خوف زدہ تھا۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں چودھری ایک بے خوف اور نڈر کردار ہے ۔اس کی سر پر فسطائی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ اسی لیے اسے نہ پولس کا ڈر تھا اور نہ ہی سماج کا اپنے مقصد کو پانے کے لیے ہر حد سے گزر جانا اس کا شیوہ تھا۔ گھر میں خاندان کے مرد آگئے تھے۔ مردوں میں چاچاچودھری اس کا بڑا بیٹا نند کشور اور چار گھنی ، چڑھی ہوئی مونچھوں والے چار لٹھیت ، گائوں میں الیکشن کا دور ہے، انجو رانی نے آٹے کی پرات سرکاتی ، ارہر کی لکڑیاں جوڑ کر آگ تیز کی اور مشین کی سی تیزی سے روٹیاں ڈالنی شروع کردیں۔ ’’ سنا کہ جبار ماراگیا نند کشور کے بابو ؟‘‘ چاچی نے دریافت کیا۔ یاد رہے جبار کھیتوں کا مزدور ہی نہیں بلکہ گھر کے کام کا ج میں ہاتھ بٹانے والافرد بھی تھا۔ وہ انجورانی کے گھریلو کام بھی کر تا تھا :
’’ ہم جبار کا برا نہیں چاہتے تھے ۔ سسرانہ جانے کہاں سے وہاں پہنچ گیا تھا ‘‘ چاچا نے بے پروائی سے نوالہ توڑتے ہوئے کہا ۔‘‘ برا تو ہم میاںٹولے کے کسی آدمی کا نہیں چاہ رہے تھے ۔لیکن ستیارتھی جی کے بل پر کچھ زیادہ ہی کودنے لگے تھے وہ لوگ۔ کھانے کو ہے نہیں چلے راج نیتی کرنے ۔۔۔ راج پاڑہ سے ستیارتھی جی جیتیں گے ہمارے جیتے جی ؟ میاں تو میاں آدی واسی ہریجن سب کو ورغلارکھا ہے ۔ وہ بھی ان کے ساتھ ہو گیا ہے۔ کہتا ہے مندر بننا ضروری نہیں ہے۔ ہم کو روٹی چاہئے پوچھو سالے روٹی کیا مر کے کھائو گے ؟‘‘ (۴۳)
دیہاتوں میں سیاست طاقت کے زور سے چلتی ہے ۔کہاوت ہے جس کی لاٹھی اسی کی بھینس لیکن فسطائی ذہنیت رکھنے والی جماعت کی سیاست مندر و مسجد کے اردگرد گھومتی ہے۔ مندر کی سیاست نے نہ صرف شہر وں کے ماحول کو گندہ کردیا ہے بلکہ دیہی علاقوں کا ماحول بھی زہر آلودکردیا ہے۔ آج مندر مدعا روٹی سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اس مسئلہ نے ملک میں ہندو اور مسلمان کے درمیان دراڑ پیدا کردی ہے۔ انجورانی کو جبار کے مرنے ہی کا غم نہیںبلکہ اسے انسانیت کے مرنے کا درد تھا وہ سوچتی ہے :
’’پانچ لوگ جو اور مارے گئے وہ بھی تو اپنے اپنے گھر والوں کے پیارے ہوںگے ۔ مرنا کون چاہتا ہے۔ لنگڑا ، لولا، بیمار، بوڑھا ، بھی نہیں چاہتا کہ اس کے سرپربم پھوٹے اور وہ مرجائے ۔ انجو کو محسوس ہوا آج وہ کھانا نہیں کھاسکے گی۔ اس کا کلیجہ مونہہ کو آرہا تھا۔ ‘‘ (۴۴)
لیکن چودھری اور اس کے بیٹے نند کشور کو اس حادثہ کو کوئی غم نہیں تھا ۔ان کی دبنگائی کا عالم یہ ہے کہ انہیں نہ قانون کی کوئی پرواہ نہ ہی پولس کا کوئی خوف تھا :
’’ پولس تو ابھی نہ آئی ہو گی ؟‘‘ ایک شخص نے پوچھا
’’ پولس سسری کل دو پہر تک بھی آجائے تو جلدی جانو ‘‘
’’ آنے دو سالوں کو ۔ہمارا کیا لے جائیںگے ۔ ‘‘ چاچا نے کھانا ختم کرتے ہوئے کہا ‘‘ ۔ (۴۵)
افسانہ کا بنیادی موضوع سیاست کی بگڑتی صورت حال ہے۔ خصوصی طور سے انتہا پسند جماعتوں کے ظلم و ستم اور ان کی دبنگائی اس کا مرکز ی خیال ہے۔ چودھری کی یہ دبنگائی صرف دیہات کے کمزور، دلت اور مسلمانوں ہی پر نہیں بلکہ گھریلو زندگی میں عورتیں بھی اس کی سخت گیری سے پریشان اور خوف زدہ دکھائی دیتی ہیں ۔خصوصی طور سے انجورانی ان کے ظلم و ستم اور دبائو کا زیادہ شکار ہے ۔پوری کہانی میں دبی ،کچلی، سہمی نظر آنے والی انجورانی برج کشور کی بیوی ہے جو چودھری کے مرحوم چھوٹے بھائی کا اکلوتا لڑکا ہے۔گونگا اور بہرا۔اس کی دوبہنیں تھیں جن کابیاہ کرادیا گیا اور برج کشور کو گو نگوں اور بہروں کے اسکول میں داخلہ دلوا کر بڑھایا گیا۔علاقے کے ایم ۔ایل ۔اے کی سفارش پر اسے سرکاری نوکری سے بھی لگوادیا تھا۔رہنے کو چھوٹا موٹا کو ارٹربھی ملاہوا تھا۔برج کشور کی ماں کارواں رواں جیٹھ کے احسانوں تلے دیا ہوا تھا۔ان کی مجال نہیں تھی کہ وہ جائیداد کے بٹوارکی بات کریں۔وہ تو اپنی ہر بات کا آغاز اس جملے سے کرتی تھی’’بھائی جی نہ ہوتے تو‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برج کشور کو نوکری ملنے کے بعد وہ ایسے بھی گھر سے الگ تھلگ اس کے ساتھ شہر جاکر رہنے لگی تھی۔جیٹھ اور ان کے لڑکے کے سیاست میں قدم رکھنے کے بعد گھر میں جو فضا بنی تھی وہ انہیں پسند نہیں تھی۔ویسے بھی ہندوسماج میں جیٹھ کی بہت ہی عزت اور وقعت ہوتی ہے ۔یہاں تک کہ جیٹھ کی اولادوں کو بھی وہی مان سمان دیاجاتا ہے جو جیٹھ کو حاصل ہوتا ہے۔
انجورانی کی شادی کا قصہ بھی عجیب وغریب ہے۔برج کشور کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی معذور لڑکی سے کرے گی اور اس نے اور اس کے بیٹے نے ایک گونگی بہری لڑکی کو پسند بھی کرلیاتھا۔ جب برج کشور کی ماں نے اس کا ذکر کیا تو چودھری بلیوں اچھلنے لگا:
’’جنانی کی عقل پائوں میں ہوتی ہے‘‘چاچا(چودھری) زور سے بولتا ہوا اٹھ گیا۔’’ارے ہم لائیں گے دنکے کی چوٹ۔ گائوں کی صحت مند، سگھڑ بہو۔ دوچار درجہ پڑھی بھی ہے۔بی ۔اے ۔ا یم۔ایک ہمیں کیاکام۔وہ بھی شہر کی لڑکی۔ہمارا لڑکا گونگا ہے تو ہم لڑکی بھی گونگی لائیں۔کون سے شاستر میں لکھا ہے؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے انجورانی کا گھرانہ کافی عرصے سے تاک رکھا تھا۔ان کی برادری میں اتنے غریب لوگ مشکل سے ملتے تھے۔اوپر سے لڑکی ماما کے گھر رہ کر پلی تھی۔ماں مرکچی تھی۔باپ دوسری شادی کرکے بیوی بچوں میں مگن تھا۔‘‘(۴۶)
غریبی ہندوستان کا مقدر بن چکی ہے۔آزادی کے ملنے کے بعد آج تک ہندوستان کو اس سے نجات نہیں ملی ہے۔غریب گھرانوں کے لیے لڑکیوں کی شادی وبیاہ کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اوپر سے جہیز کی لعنت نے اس مسئلہ کو اور بھی سنگین بنادیا ہے۔غریب لڑکیوں کے لیے ان کی پسندناپسند کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وہ بھی ایسے کھاتے پیتے بار سو خ گھرانے کی انجورانی بہوبنے جو بن ماں کی لڑکی ماما کے گھررہ کر پلی ہو۔چودھری نے تلک جہیز کچھ نہیں مانگا۔انجورانی کے گھر کے لوگ نہال ہوگئے ۔ایک بوجھ تھا جو سیج موج میں اتر گیا۔ ادھر چودھری گھرانہ کو انجورانی سے اچھے سے سنبھال لیا:
’’خدمت گزار اور نیک۔وہ ایسا پرزہ ثابت ہوئی۔جس کی کمی لمبی چوڑی گرہستی کی گاڑی میں بہت دن سے کھٹک رہی تھی۔چوبیس گھنٹے چلنے والے سیاسی چولھے سے لے کر چاچی کی ساری بیماریاں بھینسال کی بھینسوں سے لے کرہالی اور ہل بیل مزدوروں سے لے کر ٹھیٹ، سب اس نے سنبھال لیے تھے۔اس کا دن اٹھارہ گھنٹے کا ہوا کرتا تھا۔وہ کب سونے گئی اور کب سوکر اٹھی،یہ کسی کو پتہ ہی نہ چلتا۔‘‘(۴۷)
اس طرح چار برس گزر گئے۔گھونگھٹ کے اندر خاموش آگ میں انجورانی جلتی رہی۔اس کے یہاں کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی کہ اس کے بہانے جانے کے لیے کہتی۔گھر کی اصل مالکن بھی نند کشور کی بہوتھی۔جب چاہتی میکے جاتی جو چاہتی کرتی۔کئی بیٹے پیدا کئے تھے۔انجورانی کا شوہر نوکری کی مجبوری کی وجہ سے مہینہ دو مہینہ میں آتا تھا۔برج کشور تائی اور تائو کے خوف سے انجورانی کو اپنے ساتھ رکھ نہیں سکتا تھا۔کرملی ہی انجورانی کے خطوط لے کر جاتی تھی۔ بار بارخط میں اس کے آنے کا انتظار اور اپنی تنہائی اور مجبور یوں کا ذکر کرتی۔کرملی سے چودھری خاندان کو بغض تھا۔ نند کشور انجورانی پر بڑی نظر بھی رکھتا تھا۔ ایک دن وہ اس کے کمرے میں گھس آیا:
’’فکر کی کوئی بات نہیں۔ہم ہیں نا۔ اس نامرد کی پرواکیوں کر وتم؟آج تک ایک چوہیا کا بچہ بھی نہ پیدا کر اسکا۔ ایک ہماری والی ہے۔سال میں نو مہینے تو میکے بھاگی رہتی ہے اصل بہو تو تم ہو۔ساراگھر تمہارے حوالے ہے۔تمہاراحق کہیں نہیں جائے گا۔‘‘(۴۸)
الیکشن منصوبہ بنددھاندلیوں کے ساتھ ہوا۔ستیارتھی جی بری طرح ہارے اور چودھری کی پارٹی جیت گئی۔ اگلی مرتبہ چودھری خود الیکشن میں کھڑا ہوگا۔ اس کی اطلاع انجورانی کو ملی۔ اس نے اپنے شوہر برج کشور کو چھٹی لکھی کہ اب وہ یہاں ایک پل بھی اور نہیں رہے گی۔ وہ اس کی بیاہتا ہے اس لیے وہ آکر رخصت کر الے جائے ورنہ پنچایت بلائے گی۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ اس کے جیٹھ کی نیت میںکھوٹ معلوم ہوتا ہے۔کرملی نندکشور کی عقابی نظروں کی گرفت میں آگئی اور خط پکڑاگیا۔پھر کیا تھا گھرمیں طوفان آگیا ۔چودھری آنگن میں دہاڑنے لگا گھر سے نکالنے کی دھمکی دی۔چاپی نے بہو کو نہ نکالنے کی منت کی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ کون ملے گا جو سارا گھر سنبھال لے۔یہاں بھی چودھری کی مکاری اور دبنگائی کا نمونہ دیکھیں:
’’جنانی کی عقل پائوں میں۔ اے نکال کون رہا ہے۔بس ذرا مزاچکھا ناہے۔جائے گی کہاں؟ اس کابھکڑماما تو دوسرے دن ہی یہاں لاکر ڈالاجائیگا اور برج کی ماں کی بھی مجال نہیں کہ ہماری مرضی کے بغیر بہو کو لے جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کلچھنی کو بیاہ کر لائے ۔ہم اور یہ یہاں رہنا نہیں چاہتی۔دیوتا جیسے جیٹھ پرالزام لگاتی ہے۔گھر کی عزت پنچایت میں نیلام کرنے کو کہتی ہے۔جانکل جایہاں سے ابھی چلی جا۔بہو کا گزارا ہے اس گھر میں۔زنڈی پتر یا کانہیں۔‘‘(۴۹)
افسانہ کے مختلف پہلوئوں میں سے ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ مسلمانوں کی سیاست میں حصہ داری کو فسطائی طاقتیں ختم کرنا چاہتی ہیں۔انہیں سیاسی طور پر بے دم اور بے وقعت کرنے کا اپنا نظریہ ہے۔بابری مسجد گرائے جانے کے بعد جو مسلمانوں کی سیاسی صورت حال ہے وہ چودھری کی زبانی:
’’یہاں تم کو رہنے کا ادھیکار دیا ہم نے۔مسجد بنانے دی ہم نے۔ووٹ کا ادھیکار دیا ہم نے۔ زمین میں ہل چلانے دیا ہم نے ۔اب تم ووٹ دوگے ستیارتھی جی کو۔یاد رکھو ہم چاہیں گے گیہوں کی فصل کی طرح تمہیں درانتی سے کاٹ کر پھینک دیںگے۔مسجد کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ لے جائیںگے۔جب ہم سرکارکی ناک کے نیچے سے اکھاڑ لے گئے تو تم کس گنتی میںہو؟پورے میاں ٹولے کو سانپ سونگھ گیا۔ چھاتی ٹھونکتے چاچا کے گرگے پگڈنڈیوں پر دند مچاتے گزر گئے تھے۔‘‘(۵۰)
ہندوستان کے زیادہ ترگائوں میں لٹھ، بندوقوں اور طاقت کے بل بوتے پر سیاست چلتی ہے۔ خاص طور سے پردھانی کے الیکشن میں دوپھاڑ ہوجاتے ہیں اور اپنے اپنے Condidateکو جتانے کے لیے خون خرابے ہونا،گولی چلنا،بھالے برجھی چلنا عام بات ہے۔نمائندے اپنے ساتھ غنڈے، بد معاش اور پالتو ٹھیٹ رکھتے ہیں:
’’چاچا کبھی کسی سے نہیں ڈرا تھا ۔اس کے پاس طاقت تھی۔روپئے کی اور ٹھیتوں کی اور اونچی ذات کی اور بہت تیز چلنے والے جوڑتوڑلگانے والے غریب لوگوں سے بھرے اس گائوں میں جب چاہے آفت برپا کر سکتی تھی،کسی بھی دل کو دہشت سے بھرسکتی تھی، کسی بھی جسم کو پارہ پارہ کرسکتی تھی۔‘‘(۵۱)
اونچی ذات والے اس لیے نہیں ڈرتے کہ ان کے پاس ساشن بھی ہے اور برساشن بھی۔ عام طور پر غرباء اور نچلی ذات کے مظلوم، مقہوراور کمزور ہوتے ہیں۔سوچی سمجھی سازش کے تحت ان کو دولت اور تعلیم سے محروم رکھا گیا۔مذہب کی آڑلے کراُن کے ساتھ ظلم و ستم کیاگیا ہے اس کی تاریخ گواہ ہے۔ہندو فلسفہ کے مطابق سماج کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔برہما کے سرسے پیدا ہونے والی مخلوق برہمن کہلائی ۔تعلیم دینا، پوجاپاٹ کرنا، مذہبی رسومات اداکرنا، شاسن کو مشورے دینا ان کا کام ہے۔چھتری برہما کے بازوؤں سے پیدا ہوئے اس لیے چھتری کے پاس باہوبل کی طاقت ہوتی ہے۔ اس کا کام ملک کی حفاظت کرنا اور جنگ وجدال کرنا۔ انہوں نے بھی اپنے ظلم و ستم میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسے واقعات سے روزانہ اخبارات بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ویش پیٹ سے پیدا ہوئے ملک کی معیشت اور اقتصادیت ان کے ہاتھ میںہوتی ہے۔ان کا پیشہ تجارت اور بزنس ہے۔نتیجتاً زیادہ دولت اسی طبقہ کے ہاتھ میں گھوم رہی ہے۔غریب طبقہ خصوصی طور سے نچلی ذات کے لوگ اقلیتی گروہ دن بدن غریب سے غریب ترہوتے جارہے ہیں۔اس طرح ملک نہ صرف سماجی طور سے تقسیم ہوا ہے بلکہ معاشی سطح پر بھی پورا ملک دوحصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔
نچلی ذات کا طبقہ شودر کہلاتا ہے جس کے ذمہ گندے کام کرنا ہے صفائی ستھرائی میلاڈھونا، مردہ جانوروں کی کھال اتارنا اونچی ذات والوں کی خدمت گزاری کرنا۔ایسی سوچ کی وجہ سے چھوٹی ذات کے لوگ ان کے ظلم وستم کاشکاررہے۔ اگر کسی ہندومذہبی کتاب کے اشلوک غلطی سے بھی نیچی ذات کا آدمی سن لے تو ان کے کانوں میں سیسہ پگھلاکر ڈال دیا جاتا تھا۔ اعلیٰ ذات کے سامنے وہ بیٹھ نہیں سکتا۔ اگر بیٹھے گاتو زمین پربیٹھے گا۔پیروں میں جوتے نہیں پہن سکتا ہے۔ اگر اس کی پرچھائیں بھی کسی برہمن یا سادھو کے اوپر پڑجائے تو پنڈت اوپتر ناپاک ہوجاتا اور اس کو اسنان کرنے کی نوبت آجاتی۔ اگر کوئی غلطی کردے تو اس کے سرپر جوتے برسائے جاتے ۔ایسے ایسے مظالم جس سے انسانیت کی روح کانپ جائے۔ ہندوستان کی تاریخ ایسے روح فرساواقعات سے بھری پڑی ہے۔
افسانہ کا عنوان ’’بھیڑئیے‘‘علاقی سطح پراپنی معنویت کا حامل ہے۔ بھیڑیا ظلم، ناانصافی اور بربادی کی علامت ہے۔ امرائیوں کے بھوکے بھیڑیوں کے درمیان انجورانی اپنی معصومیت اور مظلومیت کے ساتھ برہنہ کھڑی ہے جس کی داد و فریاد سننے کے کوئی بھی نہیں ہے۔امرائی میں رہنے والے کمزور اور پس ماندہ انسان بھی خوف وہراس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ظلم کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو نہایت مایوسی کے عالم میں برداشت کررہے ہیں۔ان کے پاس نہ احساس نفس ہے اور نہ ہی خودداری ہے۔مقابلہ کرنے کی ہمت تو ہے ہی احتجاج کرنے کا مادہ بھی نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو ان بھیڑیوں کے ہاتھوں میں سونپ دیا ہے کہ جو چاہے کرو، ہم تمہارے لیے نرم چارہ ہیں۔جس طرح چاہے استعمال کریں۔بھیڑئیے کی علامت کے معنی خود مصنفہ وضاحت کرتی ہے:
’’بھیڑئیے جو طاقت ہیں۔طاقت جوروپیہ ہے ۔طاقت جوہتھیار ہے۔طاقت جو ریگستانوں کے کنوؤں میں تیل بن کربہتی ہے۔طاقت جو سیاسی بازی گروں کی ٹیڑھی عقل ہے طاقت جو پنچایت کے پنجوں کو خرید لینے کی صلاحیت ہے۔طاقت جو مرد کی جنسی برتری ہے۔طاقت خوقتل کو خودکشی اور نسل کشی کو فسا کہلوا نے کی قدرت ہے۔‘‘(۵۲)
اس مرد اساس کا ئنات میں مردوں کو بالا دستی حاصل ہے۔ اس لیے عورت کو مردوں سے نہ کوئی سوال کرنے کاحق ہے اور نہ ہی اس سے احتجاج کرنے کی بلکہ اس کی حیثیت ایک ٹنڈ منڈ پتے جھڑے خزاں رسیدہ درخت کی طرح ہوگئی ہے کیونکہ انجورانی کو معلوم ہے کہ کمزور وں کے لیے کال چکر سے باہر نکلنے کی تمام راہوں پر بھیڑ ئیے پہرہ دیتے رہتے ہیں۔اس لیے اس چکرویو سے نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔آخر کار مایوسی اور بے بسی کے عالم میں چاند کے حوالے سے وہ خالق کائنات کے دربار میں ہی سوال ڈالتی ہے کہ شاید وہاں اس کاکوئی جواب ملے:
’’انجورانی نظریں اٹھاکر چمکتے چاند کو دیکھا۔خاموشی کی زبان میں اس سے پوچھا۔ اے خدا کی قدر ت کے مظہر کیا تم نے خدا کو دیکھا ہے؟کیاخدا کہیں ہے؟ملے تو پوچھوں کہ جنہیں تم طاقت سے نوازتے ہو ان کا ضمیر کیوں چھین لیتے ہو؟ان کے دلوں سے درد کیوں ختم کردیتے ہو؟(۵۳)
ایسے الجھے سوالوں کا جواب وہاں بھی ندارد تھا اس کی اس بیوقوفی پرامرائی کا کوئی لگڑبگھا زور زور سے ہنس رہا تھااور وہ شرمندہ تھی عورت کی مجبوری اور محرومیت پر سوائے اس کے وہ کیا کرسکتی تھی کہ اپنا سرجھکائے اپنی کوٹھری میں واپس چلی جائے۔یہی افسانہ کا اختتام ہوتا ہے جو بہت ہی موثر اور مایوس کن ہے غریب ،کمزور انسانوں کی زندگی کی طرح۔
٭٭٭٭٭٭

Leave a Comment