راحت اندوری :بنائیں گے خاک کاسرمہ مگروہ خاک مزارہوگا

\"\"
٭پروفیسرشہاب عنایت ملک
\"\"

عالمی شہرت یافتہ اُردوشاعرراحت اندوری گذشتہ منگل کی شام اندورکے ایک مقامی ہسپتال میں دم توڑکر اپنے کروڑوں چاہنے والوں کو روتابلکتاچھوڑکرہم سے دورچلے گئے۔ یہ وہ دوری ہے جہاں سے کوئی مڑکرواپس نہیں آتاہے۔کروڑوں لوگوں کواپنی جارحانہ شاعری سے محظوظ کرنے والاموجودہ دورکاایک بلندقدکایہ شاعراپنی بردباری اورانقلاب پسندی کے لئے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دُنیاکے ان علاقوں میں جہاں اُردوکے قدرداں موجودہیں اپنے منفردلب ولہجے اورانداز ِ بیان سے ایک الگ پہچان بناچکاتھا۔ہندوستان سے زیادہ غیرملکی ممالک میں راحت اپنی بے باک شاعری اورانداز بیان سے کروڑوں دلوں پرراج کرتاتھا۔ اُردومشاعرہ کوایک نیاوقاربخشنے والایہ مردمجاہد جب اپنے خیالات ومشاہدات کو شاعری کاجامعہ پہناکرسامعین کے گوش گذارکرتاتھا توہرطرف سے واہ واہ کی آوازبلندہوکرمشاعرے کوچارچاندلگادیتی تھیں۔اُردودان طبقہ ہی نہیں بلکہ وہ لوگ جواُردوسے نابلدہیں ان میں اگرکسی شاعر نے اُردوکوبے حدمقبول بنایاتووہ راحت اندوری ہی تھے اوریہ ایساکام ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے ۔اُنہوں نے اُردوکومقبول کرنے کاکام سرانجام تودیاہی ساتھ ہی میں اُنہوں نے تعصب ،نفرت اورفرقہ پرستی کے خلاف جوآوازبلندکی وہ ہرایک کے بس کی بات نہیں ہے۔سماج میں بڑھتی ہوئی اس وباسے راحت بے حدپریشان تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے کئی اشعاران منفی عناصرکے خلاف صدائے احتجاج بلندکرتے نظرآتے ہیں ۔اپنے مادروطن ہندوستان سے وہ بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ انہیں اس بات کااحساس تھا کہ گذشتہ چندبرسوں سے ایک مخصوص ذہن رکھنے والے حکمران ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کونہ صرف بربریت اورظلم وتشددکانشانہ بنارہے ہیں بلکہ اُنہیں وطن پرست نہ ہونے کاالزام لگاکر انہیں ملک دشمن بھی قراردے رہے ہیں اسی لئے وہ چیخ چیخ کرکہتے ہیں۔
سبھی کاخون شامل ہے یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کاہندوستان تھوڑی ہے
جوآج صاحب ِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
بھوپال کے شہر اندور میں ایک غریب خاندان میں پیداہوئے راحت نے ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندورسے حاصل کرکے اسلامیہ کریمہ کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعداُردوادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرکے مقامی کالج میں معلمی کے پیشے کواختیارکیالیکن مشاعروں میں آمدکے بعداُنہوں نے اس پیشے کوترک کردیا ۔ ان کے والدرفعت اللہ قریشی اگرچہ کہ ایک غریب آدمی تھے لیکن ان کے گھرمیں اُردوکے رسائل وجرائد متواترآتے تھے جن کے مطالعہ کی وجہ سے راحت کواُردوزبان وادب سے لگائوپیداہوااوراس طرح بچپن میں ہی شعرکہنے شروع کردیئے۔ان کی اس صلاحیت کواُس وقت ایک نئی جلاملی جب اُنہوں نے اُردومشاعروں میں اشعارپڑھنے شروع کئے اوریوں وہ بہت جلد مشاعرہ کے ایک معتبرشاعربن کراُبھرے۔ اُردوشاعری کواُنہوں نے اوڑھنابچھونابنادیااس شوق کی وجہ سے گھرکی مختلف نعمتوں کوبھی چھوڑناپڑااوریوں اُن کے پرستاروں کاحلقہ وسیع سے وسیع ترہوتاگیا۔
تمہیں پتہ یہ چلے گھرکی راحتیں کیاہیں
ہماری طرح اگرچاردن سفرمیں رہو
راحت زندگی بھرسفرکرتے رہے ۔کبھی اپنے ملک کے مختلف حصوں میں توکبھی یورپ ،قطر،پاکستان ،ابودہبی،سعودی عربیہ اورکویت ۔اس ادبی سفرنے انہیں شہرت کی اُس بلندی تک پہنچایاجس کااندازہ ہمیں اُس وقت ہواجب وہ موت کی آغوش میں چلے گئے ۔اس کے بعدنہ صرف اُردوادب کے ادیبوں میں بلکہ دوسری زبانوں کے اُدبااورشعرامیں بھی ماتم کی ایک لہردوڑگئی۔سوشل میڈیاکے علاوہ ٹی وی،ریڈیو اورملک کے اخبارات میں یہ منحوس خبرجعلی حروف میں یاتونشرہوتی یاپھرشائع۔
راحت نے اُردوکوکئی شعری مجموعے دیئے ہیں۔ان مجموعوں میں’’دھوپ دھوپ‘‘ ،’’میرے بعد‘‘،’’پانچواں درویش‘‘ ،’’رُت بدل گئی ‘‘،’’ناراض ‘‘اور’’موجود‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان مجموعوں میں شامل غزلیات کامطالعہ کرنے کے بعدمعلوم ہوتاہے کہ ایک طرف جہاں وہ ایک باغی اورجارحانہ شاعربن کراُبھرتے ہیں تودوسری طرف ان کی شاعری میں تخلیقیت اورکلاسیکیت کاایک بہترین امتزاج بھی اُبھرکرسامنے آتاہے۔اسی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسرمشتاق احمدرقمطراز ہیں۔
’’راحت اندوری کی شاعری کے اندرنہ صرف کلاسیکی اُردوغزل کی تہذیب زندہ ہے بلکہ تخلیقیت کی ایک نئی دُنیابھی آباد ہے ۔اُنہوں نے غزل کونہ صرف موضوعاتی اعتبارسے کائناتی بلکہ شب غم اورغم زیست کاآئینہ بھی بنایاہے‘‘۔
پروفیسرمشتاق کامندرجہ بالااقتباس نہ صرف صدفی صد درست ہے بلکہ یہ بھی ایک صداقت ہے کہ راحت کوشاعری کے فن پربھی مکمل دسترس حاصل تھی یہی نہیں شعری لوازمات کومتاثرکن طریقے سے برتنے کاہنرکوئی راحت سے سیکھے۔
خموشی اوڑھ کے سوتی ہیں مسجدیں ساری
کسی کی موت کااعلان بھی نہیں ہوتا
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دوکنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
میں اگردشمنوں میں بس گیاہوں
یہاں ہمدردہیں دوچارمیرے
ہم سے پہلے بھی مسافرکئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھرتوہٹاجاتے
راحت اندوری کواس بات کاعلم تھاکہ زندہ رہنے کے لئے انسان کوطرح طرح کے حربے استعمال کرنے پڑتے ہیں اورپھرآج کے دورکے ادبی مافیامیں اپنی شناخت منوانے کے لئے یہ طریقے اوربھی ناگزیربن جاتے ہیں۔
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
رہناہے توترکیبیں بہت ساری رکھو
کروناجیسی وبائی بیماری کے اثرات سے وہ بخوبی واقف تھے ۔اُنہوں نے اپنی آخری غزل اسی وباپرتحریرکی۔ انہیں اس با ت کاعلم تھاکہ وبائی بیماری میں اگرکوئی انسان جاں بحق ہوجاتاہے تواُسے شہادت کادرجہ ملتاہے۔شایداسی لئے اُنہوں نے کہا۔
وبانے کاش ہمیں بھی بلالیاہوتا
توہم پرموت کااحسان بھی نہیں ہوتا
راحت اس وبا کاشکارہوگئے کسی کااحسان لئے بغیرجسمانی طورپراگرچہ کہ راحت اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن شاعری کی صورت میں وہ اپنے پرستاروں کے لئے جواثاثہ چھوڑ گئے ہیں وہ غالب کی طرح انہیں رہتی دُنیاتک زندہ رکھے گی۔ اُردومشاعروں کوعزت بخشنے والے اس انوکھے شاعرکی ہمارے نقادوں نے وہ قدرنہیں کی جس کے وہ مستحق ہیں۔ان کی شاعری کی مختلف پرتوں کوکھولنے کی ضرورت ہے انہیں اُن کی بے باکی اورباغیانہ سوچ کی وجہ سے مختلف سرکاروں نے بھی انہیں نظراندازکردیا۔اُن کی عزت افزائی اُن کے جیتے جی نہ کرتے ہوئے مختلف سرکاروں نے یہ ثابت کردیاکہ وہ تنقیدکوبرداشت کرنے کی قوت نہیں رکھتے ہیں۔حالانکہ راحت اگرچاہتے توسرکارکے اعلیٰ عہدہ داروں کی مدح میں قصیدے تحریرکرکے بڑے بڑے انعامات حاصل کرسکتے تھے لیکن اُن کے اندرچھپے ہوتے باغی شاعرنے انہیں ایساکرنے نہیں دیا۔ سماج میں پھیلی ہوئی بُرائیوں ،سیاست دانوں کی گھنائونی سیاست ،فرقہ پرستی ،مظلومیت اوراستحصال پر اپنی شاعری کے ذریعے اپنے فائدے کونظراندازکرتے ہوئے اُنہوں نے طنزکے جوتیرپھینکے ہیں وہ ان کے انقلابی شاعرہونے کاثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔اعزازات وانعامات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اُردوشاعری میں اُنہوں نے جوتجربے کئے ہیں ان کامحاسبہ کرنے کی اشدضرورت ہے تاکہ جدیداُردوشاعری میں اُن کے مقام ومرتبہ کومتعین کیاجاسکے ۔ناقدین نے اگرچہ کہ اُن کی زندگی میں اُن کے فن کی پرواہ نہیں کی لیکن اُن کی موت کے بعد ہمارایہ فرض ہے کہ ہم ان کی شاعری کے نہ صرف موضوعات سے بحث کریں بلکہ فنی باریکیوں کوبھی اُجاگرکرنے کاکام سرانجام دیں۔ میں رساؔجاودانی کے اس شعرسے راحت اندوری کودِل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرکے اپنی بات ختم کردیتاہوں ؎
قدرنہ پہچانی دوستوں نے رساؔ کی کچھ اُس کی زندگی میں
بنائیں گے خاک کاسرمہ مگروہ خاک ِ مزارہوگا

Leave a Comment