مشاعرہ کے مہمان اعزازی محترم جناب ریاض الدین دیشمکھ صاحب
مشاعرہ کے صدر محترم وصی بختیاری عمری صاحب
ناظم مشاعرہ محترمہ فوزیہ رباب گوا
مشاعرہ کے سر پرست پروفیسر ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ
{حمدِ باری تعالیٰ}
اپنی ہستی تری چاہت میں مٹا لی مولا
لب ہیں خاموش مری آنکھ سوالی مولا
بھیجتی جاؤں درود اب میں شہہِ طیبہ پر
تجھ سے ملنے کی یہ تدبیر نکالی مولا
کون اک تیرے سوا میری بھرے گا جھولی
بوجھ عصیان ہے فقط ہاتھ ہیں خالی مولا
بادشاہا مری تقدیر مدینہ کردے
ان کی چاہت کی میں ادنیٰ سی،سوالی مولا
اب تو کہتا ہے مجھے سارا زمانہ تیرا
اپنی ہستی کی یہ پہنچان بنالی مولا
کاش کعبے سے میں اک روز لپٹ کر رو لوں
ہائےامید ہو پوری یہ نرالی مولا
بڑھ گیا نورِ نظر صرف اسی کے باعث
خاکِ طیبہ جو نگاہوں میں سجالی مولا
یہ کوئی عام سا در کب ہے کہ خالی لوٹوں
کبریا در کی ترے،میں ہوں سوالی مولا
ہے ہماری یہ رباب اب وہ کبھی خود کہہ دیں
وہ جو کہتی ہے تمہاری میں سوالی مولا
شاعرہ….فوزیہ رباب
{نعت رسولﷺ }
رہی عمر بھی جو انیس جاں وہ بس آرزوئے نبیﷺ
کبھی اشک بن کے رواں ہوئی کبھی درد بن کے دبی رہی
شہِ دیں کے فکر و نگاہ سے مٹے نسل و رنگ کے تفریقے
نہ رہا تفاخُرِ منصبی نہ رعونتِ نسبی رہی
تھی ہزار تیرگیِ فتن نہ بھٹک سکا مرا فکر و فن
مری کائناتِ خیال پر نظرِ شہِ عربی ﷺ
وہ صفا کا مہر منیر ہے طلب اس کی نورِ ضمیر ہے
یہی روزگارِ فقیر ہے یہی التجائے شبی رہی
شاعر….حفیظ تائب
ادب کی زمیں کا یہ کھلتا چمن ہے
رباب ِ سخن تو رباب ِ سخن ہے
یہاں میر دیکھے یہاں پہ کبیرا
یہاں شاعری کا بہت ہے ذخیرہ
بہت علم و فن کے ہیں اس میں دِوانے
جنہیں علم و فن سے نوازا خدا نے
فروغِ ادب ہی تو اس کا مشن ہے
رباب ِ سخن تو رباب ِ سخن ہے
یہاں کی فضا ہے جہاں سے نرالی
یہاں روز ہوتی ہے ہولی دوالی
یہاں عید کا ہے سماں لمحہ لمحہ
ہمیں ہے خوشی کا گماں لمحہ لمحہ
یہ سب کا ہے گاؤں شہر ہے وطن ہے
رباب ِ سخن تو رباب ِ سخن ہے
جہاں بھر کے شاعر یہاں پر ہیں یکجا
کرشمہ دکھاتے ہیں اپنے ہنر کا
یہاں حمد ہے نعت ہے اور بھجن ہے
رباب ِ سخن تو رباب ِ سخن ہے
اعظم خاں اعظم رچھا( بریلی ) یوپی
ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﺒﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺳﺤﺮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺷﺎﺧﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﻘﺮﺭ ﻭﻗﺖ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻮﺍﺯﺵ ﮐﺎ
ﺍﺳﮯ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﭘﮑﺎﺭﻭ ﺍﺳﮑﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﻟﮓ ﮨﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﻭﺭﻧﮧ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﻨﮯ ﭘﺮ
ﺳﮕﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﻔﺮﺕ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺍﺧﻼﻕِ ﭘﯿﻤﺒﺮ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻭﺕ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺳﯿﺎﺳﺖ ﮐﻮ ﺳﻨﻮﺍﺭﻭ ﺳﺮﺣﺪﯾﮟ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺳﯿﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﺳﮯﺑﻐﺎﻭﺕ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻏﺰﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺪﻥ ﺟﮭﻠﺴﺎ ﮐﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﻮﺳﻢ
ﺍﺳﯽ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﯽ ﺭﻧﮕﺖ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺟﻮﮨﺮ ﮐﺎﻧﭙﻮﺭﯼ
بھائی، بہنیں ہوں، بچے کہ شوہر
سب کے غم کو خوشی کر رہی ہیں
جتنے رشتے ہیں سب پر نچھاور
لڑکیاں زندگی کر رہی ہیں
دونوں ماں باپ کی زندگی ہیں
اور ماں باپ کی زندگی میں
بیٹے پھیلا رہے ہیں اندھیرے
بیٹیاں روشنی کر رہی ہیں
شبینہ ادیب.
ہزاروں مشکلوں کے بعد آسانی نکلتی ہے
مگر اس خیمہ گل سے بھی ویرانی نکلتی ہے
سنور جاتی تو ہے اک اجنبی مسکان ہونٹوں پر
مگر لوح جبیں سے کب پریشانی نکلتی ہے
بہت جھنکار سے مانوس ہوتا جارہا تھا دل
مگر اب پاؤں سے پازیب زندانی نکلتی ہے
پھر اس کے بعد تو احساس کے پر بھی شکستہ ہیں
تو چلتے ہیں جہاں تک راہ امکانی نکلتی ہے
ہماری فصل کٹ جاتی ہے بیج آنے سے پہلے ہی
مگر اس کھیت سے تو گرد بھی دھانی نکلتی ہے
فقیرانہ یہاں تک آچکے ہیں اب لوٹ جاتے ہیں
کچھ آگے موڑ پر دیوار سلطانی نکلتی ہے
سلامت آئینہ ہے اور میں حیرت سرا اسلم
مری آنکھوں سے آئینے کی حیرانی نکلتی ہے
اسلم بدر، جمشید پور
سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ھو جانا !
کیا غضب کام ھے راضی بہ رضا ھو جانا !
بند آنکھو ! وہ چلے آئیں تو وا ھو جانا !
اور یُوں پُھوٹ کے رونا کہ فنا ھو جانا !
عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا
جب بھی تُم چاھو جُدا ھونا، جُدا ھو جانا
تیری جانب ھے بتدریج ترقّی میری !
میرے ھونے کی ھے معراج ترا ھو جانا
تیرے آنے کی بشارت کے سوا کچھ بھی نہیں
باغ میں سوکھے درختوں کا ھرا ھو جانا
اک نشانی ھے کسی شہر کی بربادی کی
ناروا بات کا یک لخت روا ھو جانا
تنگ آجاؤں محبت سے تو گاھے گاھے
اچھا لگتا ھے مجھے تیرا خفا ھو جانا
سی دیے جائیں مرے ھونٹ تو اے جانِ غزل !
ایسا کرنا مری آنکھوں سے ادا ھو جانا
بے نیازی بھی وھی اور تعلق بھی وھی
تمہیں آتا ھے محبت میں خُدا ھو جانا !
اژدھا بن کے رگ و پَے کو جکڑ لیتا ھے
اتنا آسان نہیں غم سے رھا ھو جانا !
اچھے اچھوں پہ بُرے دن ھیں لہٰذا فارس
اچھے ھونے سے تو اچھا ھے بُرا ھو جانا
رحمان فارس پاکستان
اگر جو ایک نقطے سے خدا اپنا جدا ہوتا
تو آدم خاک میں ملتا زمانے سے فنا ہوتا
خطا انسان کی فطرت، تو بخشش اسکی رحمت ہے
وگرنہ قہر و آفت سے کہاں کوئی بچا ہوتا
ستارے ضوفشاں لیکن، ، گریزاں دل کی چلمن سے
مری تاریک دنیا میں کوئی روشن دیا ہوتا
محبت کے سفینے کی تو بربادی یقینی تھی
لگا ہوتا یہ ساحل سے، یا موجوں میں گھرا ہوتا
جو حسب آرزو دل کو اگر ملتی کوئی منزل
مسافت میں بھلا کیونکر دل ناداں رہا ہوتا
بھریں گے زخم یہ کیسے.. سکونت سے گریزاں دل
کبھی گرداب میں ہوتا کبھی صحرا دھرا ہوتا
سلگتی ہی رہی \”افشاں\” سدا دل کے دھوئیں میں تو
کبھی تو حال دل اپنا کسی سے کہ دیا ہوتا
نائلہ اختر \”افشاں\”
کبھی سر پے ھمارے بھی گھنا جنگل تہا بالوں کا
پھرا کر ھات چندیا پر مگر اب آہ بھرتے ھیں
کیا تہا وصل کا وعدہ فقط آواز کو سنکر
مگر دیکھی ھے جب سے شکل تب سے وہ مکرتے ھیں
یہ طے ھے تمہیں ھم بنائیں گے اپنا
نہ بزدل ھیں ھم اور نہ ھیں ایسے ویسے
مگر سو رقیبوں کو دیکہا تو سوچا
اکیلا چنا بھاڑ پھوڑے گا کیسے
مجہے اداس دیکھ کر رفیق نے مِرے کہا
نہ ھوگا اب تو کچھ میاں جو لاکھ چیختے رھو
پَٹایا تم نے جسکو تھا رقیب اسکو لے اُڑا
نکل گیا ھے سانپ اب لکیر پیٹتے رھو
میرے اظہارِ مدّعا پر وہ
ہنس کے بولے یہ فارسی کیا ھے
میں نے فورًا کہا قریب آؤ
ھات کنگن کو آرسی کیا ھے
ساجد شاہجہانپوری
تم تو کرتے ہو ہر اک بات دکھا کر آنکھیں
ہم سے اک بار کرو بات ملا کر آنکھیں
ہم تو حسرت لئے بیٹھے ہیں تمہیں دیکھنے کی
اک تم ہو کہ نہ دیکھو ہو اٹھا کر آنکھیں
دل میں اٹھتے ہوئے طوفان کو کل روکا ھے
ہم نے کاغذ سے تیری جان مٹا کر آنکھیں
ہم اس امید پہ بس ان کو تکے جاتے ہیں
دیکھ لیں ایک نظر کاش اٹھا کر آنکھیں
ان کی آنکھوں کی سی مستی تو کہیں ملتی نہیں
ہم نے دیکھی ہیں زمانے سے ملا کر آنکھیں
بعد مدت کے جو سامنا پھر ان سے ہوا
اجنبی بن کے وہ گزرے ہیں جھکا کر آنکھیں
ہم کو مخدوم بھلا کس طرح آئے گا قرار
وہ جھکا لیتے ہیں دیوانہ بنا کر آنکھیں!!!
عظمان مخدوم
وہ آنکھوں میں اتر کر دیکھتا ہے
سمندر ہے سمندر دیکھتا ہے
سجے رنگوں سے منظر دیکھتا ہے
مجھے جب وہ برابر دیکھتا ہے
سر ۔ محفل ہے اس دیکھنا یوں
نہیں بھی دیکھتا ‘ پر دیکھتا ہے
کمی ہوتی ہے کوئی گھر کے اندر
وگرنہ کون باہر دیکھتا ہے
جو راس آ جائے شدت موسموں کی
تو پھر کوئی کہاں گھر دیکھتا ہے
ترے دست ۔ کشادہ کا ہنر ہے
تجھے اب تک گداگر دیکھتا ہے
یہاں رک جاتی ہیں نظریں بدن پر
کوئی کب دل کے اندر دیکھتا ہے
دیا بھی لو بڑھا دیتا ہے اپنی
ہوا کے جب یہ تیور دیکھتا ہے
مرا صییاد پنجرے میں فقط اب
مرے ٹوٹے ہوے پر دیکھتا ہے
شازیہ نورین جرمنی
محبت کی زباں سمجھا گیا ہے
وہ رستہ امن کا دکھلا گیا ہے
بدل ڈالو نظام \”سامراجی \”
وطن کو خون میں نہلا گیا ہے
وہی محکوم ہیں،دنیا میں لوگو!
جو بزدل تھے انھیں کچلا گیا ہے
کہاں ڈھونڈوں نگاہ مرد مومن
جو میری روح کو تڑپا گیا ہے
ملا دو خاک کے ذرے میں خوشبو
کہے صحرا کوئی مہکا گیا ہے
نہ توڑو دل کسی کابےرخی سے
تری خاطر وہ سب ٹھکرا گیاہے
نہ پوچھو تشنگی کی کیفیت کو
گلابی ہونٹ سے چھلکا گیا ہے
مقام فیض انصر سے نہ پوجھو
مجھے ہر حال میں پرکھا گیا ہے=
کاوش فکر: انصر نیپالی .
پھر طبیعت بجھی بجھی ہے کیا
زندگی سے بے رخی ہے کیا
اتنی ہلچل ہے جو کناروں پہ
تہہ میں دریا کے تشنگی ہے کیا
میرے اندر مرا ہے کل کوئ
یہ خبر آپ نے سنی ہے کیا
موت چھو کر گزر گئ مجھ کو
ماں مصلے پہ رو رہی ہے کیا
آج گلشن میں کیوں اداسی ہے
گل سے ناراض پھر کلی ہے کیا
چھوڑ کر تخت جو بھٹکتے ہو
نفس سے شرط سی لگی ہے کیا
روز و شب مستقبل عذاب قدیر
نام اس کا ہی زندگی ہے کیا
عبدالقدیر توپچی
خوشی کا ذائقہ حاصل نہ ہوتا
تمھارا غم اگر شامل نہ ہوتا
نہ ہوتی گر فروزاں شمعِ ماضی
شعورِ حال و مستقبل نہ ہوتا
انھیں کب ہوتا احساسِ ندامت
جو رسوا میں سرِمحفل نہ ہوتا
نہ ہم ہوتے تو یہ جلوہ تمھارا
مذاقِ دید کے قابل نہ ہوتا
جو ہوتا عاقبت اندیش عرشی
عمل سے اس قدر غافل نہ ہوتا
عرشی بستوی
چبھتی ہے لمحہ لمحہ مجھے تیر کی طرح
اب زندگی ہے موت کی تصویر کی طرح
دل میں بسی ہے جب سے کسی گل بدن کی یاد
ہے صحن دل بھی گلشن کشمیر کی طرح
الجھا ہوا ہوں میں بھی مسایل کی بھیڑ میں
اے دوست تیری زلف گرہ گیر کی طرح
وہ دن بہت قریب ہے جب عظمت حیات
پھیلے گی کائنات میں تنویر کی طرح
رہنے دو نقش چاہے مٹا دو خیال سے
ہم ہیں تمہارے ہاتھ کی تحریر کی طرح
آغوش گلستاں میں رہو پھول بن کے تم
میدان جنگ میں رہو شمشیر کی طرح
میری بھی ہوتی خوب پزیرائ بزم میں
مشتاق میں جو کہتا غزل میر کی طرح
مشتاق دربھنگوی
دل نے کھایا جو وار شیشے کا
چیخ اٹھا یہ جار شیشے کا
مَیں نے پتھر کے گھر میں دیکھا ہے
سارا نقش و نگار شیشے کا
راہ کے سنگ بھی ہیں نوکیلے
اور ہے راہوار شیشے کا
ساتھ چلتے تو کس طرح چلتے؟
لوگ پتھر کے پیار شیشے کا
تم نے دل میں مجھے اتارا ہے
کیا مگر اعتبار شیشے کا
بانہیں میرے گلے میں ڈالو ناں!
اچھا لگتا ہے ہار شیشے کا
ایک پتھر تباہ کر دے گا
ہائے! یہ کاروبار شیشے کا
ساری بستی نظر میں ہے مظہر
میرا گھر ہے کہ غار شیشے کا؟
شعیب مظہرپاکستان
میری آنکھوں میں کھوتے رہے رات بھر!
خواب وہ بھی پروتے رہے رات بھر!
وہ وفاوں کے قصےسناتا رہا !
اشک پلكے بھگوتے رہے رات بھر!
ایک دوجے کے پہلو میں ہم یوں رہے!
دردو غم سارے سوتے رہے رات بھر!
غیر کے ساتھ وہ بھی بھری بزم میں!
تیر دل پہ چبھوتے رہے رات بھر!
وہ جدائی میں کروٹ بدلتے رہے!
ہم بھی تكيا بھگوتے رہے رات بھر!
ہما بجنوری دہلی
رات پلیٹ میں دُکھ رکھا تھا
صبح کے کپ میں بیزاری تھی
شام چائے کے ساتھ پڑا تھا
دِل کی صورت والا اک برفی کا ٹکڑا
آج میرے کمرے میں پھر سے ہجر کی ٹیبل پر
دل کا پیالہ یوں اشکوں سے بھرا ہوا تھا
اندر سے کچھ ٹوٹ گیا تھا
اور اک جگ یادوں سے بھرا میری جانب دیکھ رہا تھا
ایک گلاس تھکن کا خالی
جیسے در سے کوئی سوالی
بِن پائے ہی لوٹ گیا تھا
نیند کے تکیے پر سر رکھا
میرے سرہانے کتاب تمہاری
میرا جیون دم سادھے چُپ چاپ پڑا تھا
میں نے جوں ہی ہاتھ بڑھایا
لفظوں سے اک چہرہ اُبھرا
خواب کی چادر مجھے تھما کر مجھ سے بولا
رات بہت ہی بیت چکی ہے
اب سوجاؤ
الماس شبی یو ایس اے
اُس کا چہرہ ہے مرے فاقہ ذدہ ہاتھوں میں
جیسے سکّہ کوئی کشکول نُما ہاتھوں میں
میرے دشمن پہ مرا خوف بہت طاری تھا
ٹوٹ تلوار گئی , تیر چُبھا ہاتھوں میں
اُس نے جب چھوڑا کبوتر کو مرے آنگن میں
میں نے دستار کا پر کھول دیا ہاتھوں میں
میں مُصلّے کو پلٹ دوں تو خزانے بانٹوں
اک رواں موجِ سخاوت ہے سدا ہاتھوں میں
اُس کی تاثیر خُدا جانے کہاں رکھ چھوڑی
وہ جو دَم توڑ گئی ایک دُعا ہاتھوں میں
میری تقدیر تو مالک کے سبب روشن ہے
کوئی یاقوت نہ مَرجان جَچا ہاتھوں میں
اُس نے مُبہم سے اشاروں میں کہانی کہہ دی
چُپ کا چہرہ تھا جو آواز بنا ہاتھوں میں
اُس کو پایا تُو ملے جیسے خزانے انجم
اُس کو کھویا تو مرے کچھ نہ بچا ہاتھوں میں
آصف انجم، پاکستان
کسی سے ہم بھی چلو پیار کرکے دیکھتے ہیں
شمار تارے چلویار کرکے دیکھتے ہیں
سناھے چاند سے زیادہ وہ خوبصورت ھے
توآج اس کا بھی دیدار کرکے دیکھتے ہیں
سناھے غمزدہ لوگوںسے اس کو رغبت ھے
تو خود کو عشق کا بیمار کرکے دیکھتے ہیں
محترم ناہید ثمر عثمانی
کسی کے روٹھ جانے کا ملال دیر تک رہا
مرے خیال وفکر پر زوال دیر تک رہا
کوئی تو خوف دل میں ھے یہ بات بھی تو کم نہیں
ہر اک گناہ پے اسے ملال دیر تک رہا
قدم قدم پہ زندگی نے رنج وغم دئیے جسے
وہ شخص میری یاد سے نہال دیر تک رہا
نظر کبھی مری پڑی جو چود ھویں کے چاند پر
رخ جمال یارکا خیال دیر تک رہا
ثمر زمیں پہ آگرے چلیں کچھ ایسی آندھیاں
ان آفتوں پہ با غباں نڈھال دیر تک رہا
ناھید ثمر دیو بندی
اپنے احساس کو سزا دوں کیا
بیوفا پھر تجھے صدا دوں کیا
اک تعلق ہے آشنائ کا
اب اِسے بھی. بتا مِٹا دوں کیا
خواب زخمی ہیں کس قدر میرے
ہمنشیں اک غزل سُنا دوں کیا
تجھ سے شکوے شکایتیں ہیں بہت
سارے شکوےگِلے. مٹا دوں کیا
فطرتاً تونے بیوفائ کی
انتقاماً تجھے بُھلادوں کیا
انور حُسین مضطر دیوبند
ترا حسن کوئی طلسم ہے، تو قبول دل کا پیام کر
جسے چاہے اپنا عزیز رکھ، جسے چاہے اپنا غلام کر
مرے دل کشا ،مرے دل نشیں ،مرے ہمنوا ،مرے ہم نشیں۔
مرے دل میں پل کو ٹھہر کبھی ،کسی شام اس میں قیام کر
کبھی نیند کی تو کتاب میں ،کسی روز آ مرے خواب میں
مری خامشی سے کلام کر، کوئی گفتگو مرے نام کر
بڑی پاک ہے مری عاشقی ، نہ ہوس کی ہے اسے تشنگی
نہ شرابِ حسن پلا مجھے، مرے نام دید کا جام کر
یہ لباسِ ہجر اتار کر ،تو لباسِ وصل پہن کبھی
نہ خسوف ہو ،نہ اماس ہو ،وہ وصالِ ماہِ تمام کر
محمد کلیم شادابؔ آکوٹ
خیالوں میں خوابوں میں آکرگئے ہیں
مجھے آج پھر وہ رُلا کر گئے ہیں
اُنہیں کیا اُنہیں تو مزہ آرہا تھا
ستا کر رُلا کر جلا کر گئے ہیں
شفا یاب بیمار ہونے لگا ہے
ذراساوہ کیا مسکراکر گئے ہیں
مزاقاً اُنہیں بے وفا کہہ دیا تو
بھری بزم سے تلملاکر گئے ہیں
وہ آئے تو تھے مجھکو نیچا دکھانے
مگر جب گئے منہ چھپاکر گئے ہیں
نوازش ہے یا کوئی سازش ہے اشہر
مجھے بام پر وہ بٹھاکر گئے ہیں
انظاراشہر منگرول پیر وی
کبھی دردِ محبت کی دوا مانگوں تو میں کافر
وفا کے بدلے میں تجھ سے وفا مانگوں تو میں کافر
یہ تجھ کو سوچتے رہنا، مری بے لوث چاہت ہے
محبت کا کبھی تجھ سے صلہ مانگوں تو میں کافر
مجھے یادیں تری ہر لمحہ تڑپاتی تو ہیں لیکن
تجھے گر بھول جانے کی دعا مانگوں تو میں کافر
یہ شعلہ بے رخی کا پھونکنے کو ہے مری ہستی
قسم ہے، تیرے دامن کی ہوا مانگوں تو میں کافر
وہی جُہل و تکبر کے صنم خانے ہیں دنیا میں
میں اس بت خانے سے کوئی خدا مانگوں تو میں کافر
مجھے راس آگیا ہے گوشہء تنہائی کچھ ایسا
کہ بوئے گل ےا دامانِ صبا مانگوں تو میں کافر
تیری تاریکیاں رکھتی ہیں اشکوں کا بھرم اکثر
شبِ ہجراں! قسم تیری، دیا مانگوں تو میں کافر
مجھے جرمِ محبت میں سبھی غم ہیں سر آنکھوں پر
اگر بھولے سے تخفیف ِسزا مانگوں تو میں کافر
یہ مرضِ عاشقی ہی گر ہے میرا امتحاں تو پھر
مجھے مرنا گوارا ہے، شفا مانگوں تو میں کافر
اگر سر زد کوئی بھولے سے نےکی ہو گئی مجھ سے
قبول اس کو کرے مولا، جزا مانگوں تو میں کافر
گدائی خاکِ طےبہ کی مجھے سلطانی لگتی ہے
خدا شاہد، پر و بالِ ہما مانگوں تو میں کافر
نگاہ ِ بے نیازی بھی صدف مجھ کو غنیمت ہے
میں اس سے روٹھ جانے کی ادا مانگوں تو میں کافر
صدف مرزاکوپن ہیگن ڈنمارک
اس دور انحطاط کا اک جائزہ ہوں میں….
حرص و ہوس کی گود میں پلتی فنا ہوں میں….
معصوم اور بھوکے جراثیم کے لیے….
اونچے مریض اونچی دوا ڈھونڈتا ہوں میں….
ہیں میری آستین کے پالے ہوئے جناب….
تریاق ان کے زہر کا بھی جانتا ہوں میں….
کاغذ کے پھول سر پہ سجائے چلی حیات…..
اور اس حسیں سراب کے پیچھے پڑا ہوں میں….
پس منظر حیات دکھا دوں تجھے ذرا….
اے صاحب تمیز ترا آئنہ ہوں میں….
احساس کے عمیق سمندر میں ڈوب کر…
ناکامیوں کے خالی صدف ڈھونڈتا ہوں میں….
اعداد گن رہے ہو مرے سن و سال کے..؟
اور زندگی کو صفر کیے جا رہا ہوں میں….
طیب…. ہر اک سوال کا ہوتا نہیں جواب….
پھر کیوں ہر اک سوال کا حل چاہتا ہوں میں….
شیخ محمد یونس طیب ضلع کڈپہ آندھرا پردیش
گا رہی ہے گیت کویل آج کیوں جذبات میں
آ گیا کیا یاد اسکو پھر کوئی برسات میں
اس گھنے جنگل کی رونک دیکھئے تو آپ بھی
گھومتا ہے چاند اپنی چاندنی کے ساتھ میں
خط جدائی کا لکھا تھا اسلئے ایسا ہوا
آ گیے وہ ڈوڈے ڈوڈے ڈاکیے کے ساتھ میں
کھل جو بچپن میں کھلا آج تک وہ یاد ہے
تم تھیں گڑیا میں تھا گڈ ا اک ہنسی بارات میں
وہ کھلونے آج بھی محفوظ ہیں اپنی جگہ
لاے تھے میلے سے جاکر جو تمہارے ساتھ میں
وہ مرا دشمن نہیں تھا پھر اچانک کیا ہوا
قتل کی دھمکی وہ مجکو دے گیا جذبات میں
پھینک دی کا غز کی کشتی تیش میں بچچوں سب
تیرتے برتن میل جب آج کی برسات میں
کیا ہوا دیکھو تو راہی کیا ضرورت آ گئی
آج پھر اسنے بلایا ہے برے حالات میں
راشد راہی
تم کو دل سے نکال سکتا ہوں
میں بھی کر یہ کمال سکتا ہوں
یہ جو تم نے روش ہے اپنائی
میں بھی چل ایسی چال سکتا ہوں
یہ محبت ہے چیز کیا آخر؟
سارے ہی غم سنبھال سکتا ہوں
تیری قربت کی لاج ہے مجھ کو
ڈال میں بھی دھمال سکتا ہوں
تم نے دامن چھڑا لیا اپنا
ورنہ اب بھی سنبھال سکتا ہوں
میں نے چاہا نہ کھیلنا دل سے
ورنہ قدموں میں ڈال سکتا ہوں
بے وفائی سے کیا ملا تم کو؟
کر نذر یہ سوال سکتا ہوں
احمد بن نذر،سہارنپور بہار
غنچہ ءوصل سرِ شام کھلا دے آ کر
ہجر کی رُت میں کوئی مژدہ سنا دے آ کر
رقص جاری ہے لہو کا مری شَریانوں میں
بربطِ روح میں آواز ملا دے آ کر
لوگ مر جاتے ہیں بے چارہ گری کے ہوتے
دمِ عیسیٰ بھی نہیں اب کہ جِلا دے آ کر
ناؤ کاغذ کی لئے بیٹھا ہوں جانے کب سے
آ۔ادھر۔ سیل رواں ۔۔ اِس کو۔۔ بہا دے آ کر
اسی امید پہ سب اہلِ کرم بیٹھے ہیں
کوئی سائل کی طرح آئے،صدا دے آ کر
مسکراکر مری غزلوں کو پڑھا کرتا ہے
شعر اپنے بھی کبھی یار سنا دے آ کر
عبدالوہاب سخن جو رامپور فی الوقت سعودی عرب
آئینوں سے دھول مٹانے آتے ہیں
کچھ موسم تو آگ لگانے آتے ہیں
نیند تو گویا ان آنکھوں کی دشمن ہے
مجھ کو پھر بھی خواب سہانے آتے ہیں
ان آنکھوں میں رنگ تمھارے کھلتے ہیں
یہ موسم کب پھول کھلانے آتے ہیں
رونا ہنسنا ہنسنا رونا عادت ہے
ہم کو بھی کچھ درد چھپانے آتے ہین
شبنم شبنم خواب اترتے ہیں مجھ پر
سو سو سورج دھوپ اگانے آتے ہیں
جسم دکاں ہے ذہن بکاؤ شہروں میں
جنگل تو دو چار دوانے آتے ہین
سلیم محی الدین ،پربھنی
خوشبوئے سرسبد و نرگس روٹھ کر جاتے نہ پھر
اِس طرح گلشن میں ایّامِ خزاں آتے نہ پھر
اُف ملن کی صبحِ نو وہ وصل کی رنگین شام
بادِ فرقت تم اگر جو چاہتے چلتے نہ پھر
دردِ دل کہنے کی ہوگی یہ سزا اتنی کٹھن
جان لیتے گر صلہ تو حالِ دل کہتے نہ پھر
تم نے رکّھا تھاتئیں میرے سدا دل میں گلہ
گر نہ رکھتے دل میں شکوہ چھوڑ یوں جاتے نہ پھر
بھائی کہتے ہیں ھمیں سب قیٓس اور فرٓہاد کا
تم نہ آتے زیست میں تو اس طرح بنتے نہ پھر
نا خدا ہم نے بنایا تھا سفینے کا تمہیں
گر نہ کرتے تم پہ تکیہ اشک میں بہتے نہ پھر
وعدہِ دیدارِ خوابِ شب پہ تھا ہم کو یقیں
گر جو ہوتا عھدِ بد کا کچھ گماں سوتے نہ پھر
کی خطا اک ہم نے بھی چاہا جو خود سے بھی فزوں
تم نہ بنتے روح تو جی کر بھی یوں مرتے نہ پھر
بڑھ گئے اوقات سے شاید بہت تم بھی نٓشاط
گر جو رہتے حد میں تم تو اسطرح روتے نہ پھر ۔۔۔۔۔
مستفيض الرحمن نشاط، ممبئی
جمال ناز سے، چہرے کومسکرانے دو
متاع فیض سے، حسن عمل سجانے دو
جہاں کودرس اخوت ہمیں پڑھاناہے
وفا،خلوص، محبت سے ،قد بڑھانے دو
مجھے طلب نہیں دنیامیں،جاہ حشمت کی
میں آدمی ہوں، ذراخاک میں ملانے دو
گنوادی ساری عمر میکدے میں پی پی کر
خداکے واسطے ، مسجد میں سر جھکانے دو
یہ رنگ ونور ،یہ خوشبو، یہ ریشمی آنچل
شب وصال ہے، تاروں کو جھلملانے دو
امیرشہر بڑا خود پرست ہے فیضی
خلوص و مہر کے قابل زرابنانے دو
محمد ہارون ، نیپال
خلوص و پیار کے موتی لٹا رہا ہے کوئی
حضور مان بھی جاؤ منا رہا ہے کوئی
شراب خانے سے مطلب نہ جام و مینا سے
میں پی رہا ہوں نظر سے پلا رہا ہے کوئی
چلو کہ تھوڑا بہت غم ہی بانٹ لیں اس کا
شبِ فراق میں آنسو بہا رہا ہے کوئی
افق پہ دور کہیں دور دیکھیے تو لگے
کہ آسماں کو زمیں سے ملا رہا ہے کوئی
یہ اس کا اپنا طریقہ ہے رہنمائی کا
اندھیری رات میں جگنو اڑا رہا ہے کوئی
مِرے لیے ہے بہت یادگار یہ لمحہ
فرازؔ میری غزل گنگنا رہا ہے کوئی
نعیمؔ فراز آکولہ
وہ لکھ کر خوب شرمایا ہمارا نام اردو میں
محبت کر رہی تھی چوری چوری کام اردو میں
تمھارے نام سے جانا ہمیں اتنی محبت ہے
تمھارے نام کے آگے کسی کا نام اردو میں
کوئی تو بات ہے آخر یہ کیسی پردہ داری ہے
یہ تم نے لکھ کے کیوں کاٹا ہمارا نام اردو میں
زمیں سےعرش تک دیکھوسبھی اس کے دوانے ہیں
خلاؤں سے بھی آئے ہیں کبھی پیغام اردو میں
فراق و فیض کی صورت لہو ہم بھی پلائیں گے
غزل کے نام سے ہوگا ہمارا نام اردو میں
ہمارے ساتھ تو بیٹھو تمھیں اردو سکھا دیں گے
ہماری صبح گزرے ہے ہماری شام اردو میں
وہ جب بھی بات کرتا ہے زباں سے پھول جھڑتے ہیں
کوئی اس شوخ کو دے دو مرا پیغام اردو میں
محبت اس کے چہرے پہ عجب جلوے دکھاتی ہے
وہ چھپ کر جب بھی پڑھتا ہے ہمارا نام اردو میں
تمھارے خط کی خوشبو سے ہمارا گھر مہکتا ہے
کبھی تم نے بھی لکھا تھا ہمیں پیغام اردو میں
محمد انس فیضی،دہلی
کیجئے کارِ ثوابِ زندگی۰،
چار دن کا ہے شبابِ زندگی۰!
تم اُٹ دو اپنے چہرِ سے نقاب۰،
میں اُلٹ دوں گا نقابِ زندگی۰!
موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۰،
پی رہا ہوں میں شرابِ زندگی۰!
دل میں تیری دید کی حسرت لئے۰،
جھیلتا ہوں میں عتابِ زندگی۰!
کب میں تیری یاد سے غافل رہا۰،
دیکھ لے میری کتابِ زندگی۰!
سوچئےاُس وقت کیا دینگے جواب۰،
جب وہ مانگے گا حسابِ زندگی۰!
ماند پڑتی جا رہی ہے اے \”خمار\”۰،
رفتہ رفتہ آب و تابِ زندگی۰۰!!
شان خمار دہلوی
مجھے قید کر یا تو چھوڑ دے کوئ فیصلہ کر جواب دے
میری خواہشوں کا تو دے پتا یوں نہ بے رخی کا عذاب دے
مرا دل ہی درد کا گھر بنے تو سکون اس کو کہاں ملے
یہ گماں کہ ریت میں آب ہو رہوں تشنہ میں وہ سراب دے
نہ وہ دن ہے نہ ہی وہ رات ہے نہ گےء رتوں سی وہ بات ہے
مرا لمحہ لمحہ اداس ہے کہا کب تھا ایسا عذاب دے
تیرے دید کی جو یہ آس ہے تیری چاہتوں کی یہ پیاس ہے
ترا حق ہے اس کو اجاڑ دے یا تو آکے اسکو دوآب دے
مجھے چھوڑ دے یا تو قید کر کر ستم اگر یا تو مہر کر
تیرے سامنے ہیں یہی راستے مجھے خار دے یا گلاب دے
کلثوم کشفی ، ممبرا تھانے
تری چاہت میں فانی ہو گیا ہوں
میں غم کی اک نشانی ہو گیا ہوں
بھلا بیٹھا ہے اب مجھ کو زمانہ
میں گزری اک کہانی ہو گیا ہوں
ہر اک منسوب کر دے جھوٹ مجھ سے
میں سب کو منہ زبانی ہو گیا ہوں
کروڑوں کی دعائیں دے رہا ہوں
فقیری میں میں دانی ہو گیا ہوں
اثر کرتا ہوں میں تیری دعا میں
تری آنکھوں کا پانی ہو گیا ہوں
یہ تیری صحبتوں کا ہیں اثر کہ
میں تیری ترجمانی ہو گیا ہوں
مری خاطر وہ اب جینے لگی ہے
میں اسکی زندگانی ہو گیا ہوں
ندیم احمد ندیم
اگر نہ ہوگاکبھی اپنا رابطہ , طے ہے
تو لگ رہا ہے محبت کا مرحلہ طے ہے
ہر ایک سانس پہ تاوان کس کو بھرنا جب
بشر کے ساتھ خدا کا معاھدہ طے ہے
کہاں پہ خاک اڑانی ہے ، بیٹھنا ہے کہاں
مسافرانِ محبت کا راستہ طے ہے
تمام عمر ترا ہجر مجھ کو سہنا ہے
کہ آسمان و زمیں کا یہ فاصلہ طے ہے
اندھیری رات سے کیسا گلہ زبیر کہ اب
دیے کے ساتھ ہوا کا معاملہ طے ہے
زبیر قیصر،پاکستان
بھری محفل میں مجھے دیکھ رہا ہے، حد ہے!
تونے مجھ کو بڑا بدنام کیا ہے، حد ہے!
آج پھر تونے سرِعام ہی پی لی جاناں!
اور پھر پی کے مرا نام لیا ہے، حد ہے!
مدتوں بعد میں لکھنے کو زرا بیٹھا تھا
میرے خامے نے ترا شعر لکھا ہے، حد ہے!
اڑتی اڑتی سی خبر آئی ترے آنے کی
خانہ دل میں عجب شور مچا ہے، حد ہے!
خون نے میرے ترے ہاتھوں کو زینت بخشی
لوگ کہتے ہیں کہ یہ رنگِ حنا ہے، حد ہے!
کوئی کہتا تھا کہ بلبل نے غزل خوانی کی
میں نے بلبل سے ترا نام سنا ہے، حد ہے!
برسوں پہلے وہ جہاں چھوڑ گیا تھا ناصر
تو ابھی تک اسی رستے پہ کھڑا ہے، حد ہے!
ڈاکٹر ناؔصر امروہوی، امروہہ، یو پی.
منزل نہیں تھی پھر بھی ٹھہرنا پڑا مجھے
جب جب بھی تیرے در سے گزرنا پڑا مجھے
مجھکو بھی زندگی سے بہت پیار تھا مگر
جب مرگئی ضمیر تو مرنا پڑا مجھے
ڈھل کر ترے خیال کے سانچے میں بار بار
شیشہ نہیں تھا پھر بھی سنورنا پڑا مجھے
مجھ سے نہ پوچھ یار مری بے بسی کا حال
وعدے سے اپنے آج مکرنا پڑا مجھے
شہرت کے آسمان سے سورج کو دیکھ کے
ہر بار اس زمین پہ اترنا پڑا مجھے
اک طفل ناتواں کو سمندر میں دیکھ کر
خود کو سپرد موج بھی کرنا پڑا مجھے
گزری تمام عمر بڑی سادگی کے ساتھ
لیکن قضاء کے بعد سنورنا پڑا مجھے
ابرق میں کیسے حاضری دونگا خدا کے پاس
اعمال اپنا دیکھ کے ڈرنا پڑا مجھے
ابرق ساجدی
منزل نہیں تھی پھر بھی ٹھہرنا پڑا مجھے
جب جب بھی تیرے در سے گزرنا پڑا مجھے
مجھکو بھی زندگی سے بہت پیار تھا مگر
جب مرگئی ضمیر تو مرنا پڑا مجھے
ڈھل کر ترے خیال کے سانچے میں بار بار
شیشہ نہیں تھا پھر بھی سنورنا پڑا مجھے
مجھ سے نہ پوچھ یار مری بے بسی کا حال
وعدے سے اپنے آج مکرنا پڑا مجھے
اک طفل ناتواں کو سمندر میں دیکھ کر
خود کو سپرد موج بھی کرنا پڑا مجھے
گمان برتری ہونے نہ پاےء
یہ بیماری کبھی ہونے نہ پاےء
یہ دنیا ہے یہاں کچھ بھی ہو لیکن
وہاں شرمندگی ہونے نہ پاےء
ہمارے بعد بٹوارہ ہو گھر کا
ہمارے جیتے ہونے نہ پاےء
محبت بس محبت تک سہی ہے
وبالِ زندگی ہونے نہ پائے
زمانے میں کہیں بھی خود کشی اب
برستے مفلسی ہونے نہ پاےء
شریفانہ رکھو کردار لیکن
شرافت بزدلی ہونے نہ پاےء
سکون و امن ہو رہبر جہاں میں
کہیں غارت گری ہونے نہ پاےء
معید رہبر لکھنوی
لکھنے کی غزل میری تو عادت بھی نہیں تھی.
سچ ہے کہ مجھے اِسکی ضرورت بھی نہیں تھی.
اُسکو تو کبھی مجھ سے محبّت بھی نہیں تھی.
لیکن مجھے تو کوئی شکایت بھی نہیں تھی.
رہتا ہے مِرے دل میں, یہ احسان ہے اُس کا
رکھنے کی مگر دل کو اِجازت بھی نہیں تھی.
معصوم سی نظروں کی عطا مجھ پہ ہے ورنہ.
ایسی تو مری شہر میں شہرت بھی نہیں تھی.
دستورِ وفا ہم کو نِبھانا پڑا عامر.
انجام سے لیکن کبھی غفلت بھی نہیں تھی.
عامر جگدیشپوری ،ضلع امیٹھی، یوپی.
شب غم کچھ اسے بسر ھو گیی ۔
۔زرا ۔مسکرائے ۔سحر۔ ھوگیی ۔۔
کوئی۔بات۔ ہونٹوں تک آئ نھیں ۔۔
زمانے۔ کو کیسے خبر ھوگی ۔۔
مریض محبت کو ھوش آگیا ۔
دعا۔ کس کی یہ کار گر ھوگی ۔
۔کبھی۔ مسکراتے رھے رات بھر ۔۔
کبھی۔ روتے روتے سحر هوگی ۔
۔وہ۔خاموشیاں ۔ توڑ کر چیخ اٹھا ۔
۔ضیاء تیرے غم کی خبر ھوگی
ضیاء شادانی
پھر اُٹھایا جاؤں گا مٹی میں مِل جانے کے بعد
گرچہ ہوں سہما ہوا بنیاد ہِل جانے کے بعد
آپ اب ہم سے ہماری خیریت مت پوچھیے
آدمی خود کا کہاں رہتا ہے دِل جانے کے بعد
سخت جانی کی بدولت اب بھی ہم ہیں تازہ دم
خشک ہو جاتے ہیں ورنہ پیڑ ہِل جانے کے بعد
خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے
گُل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھِل جانے کے بعد
فکر لاحق ہے ہمیشہ مثلِ تُخمِ ناتواں
حشر کیا ہو گا درونِ آب و گِل جانے کے بعد
اس طرح حیران ہیں سب دیکھ کر راغبؔ مجھے
جیسے کوئی آ گیا ہو مستقل جانے کے بعد
افتخار راغبؔ،دوحہ قطر
یہ شہر کیسے مروت کو چاٹ لیتا ہے
یہاں تو زخم ،اذیت کو چاٹ لیتا ہے
میں اپنے آپ کو بھی وقت دے نہیں پاتی
تمہارا غم ہی فراغت کو چاٹ لیتا ہے
چلو کہ یہ بھی مجھے آسرا تو ہے آخر
کہ ایک نام مصیبت کو چاٹ لیتا ہے
مرا رقیب مجھے معتبر سمجھتا ہے
مرا خلوص عداوت کو چاٹ لیتا ہے
یہ کب تلک بھلا غیرت سے بھوک کھیلے گی
غریبِ شہر بغاوت کو چاٹ لیتا ہے
وہ نیکی ہو کے بھی دریا میں ڈل نہیں سکتی
ریا کا کام عبادت کو چاٹ لیتا ہے
رباب میں بھی صدائیں اسے نہیں دیتی
خموش رہنا ضرورت کو چاٹ لیتا ہے
فوزیہ رباب
پہلے اپنے نور سے پیکر وہ ڈھالا نور کا
ہو گیا پھر خود ہی شیدا رب تعالیٰ نور کا
ان کی آمد سے منور ہو گئے دونوں جہاں
ظلمتیں سب چھٹ گئیں پھیلا اجالا نور کا
ان کی سیرت سے ملی ہے ہر زمانے کو ضیا
ان کے دم سے ہے جہاں میں بول بالا نور کا
ان کے حسنِ خُلق نے غیروں کو اپنا کر لیا
ہو گیا پھر معترف ہر پست و بالا نور کا
قاسمِ نعمت ہیں وہ اور باعثِ رحمت بھی ہیں
ان کے صدقے مل رہا ہے ہر نوالا نور کا
ان کے پائے ناز بس دھوتا رہوں میں عمر بھر
پی سکوں پھر وقت آخر وہ غسالہ نور کا
جلوۂ شہرِ حبیبِؐ کبریاء کی بات کیا
جس طرف دیکھو نظر آتا ہے ہالا نور کا
لائیں گے تشریف جب محشر میں وہ شاہِ اُممؐ
ان کے شانوں پہ رکھا ہوگا دوشالہ نور کا
قبر ہو یا حشر میں میزان کا ہو مرحلہ
مجھ کو شاہدؔ چاہئے بس اک حوالہ نور کا
محمد شاہدؔ الرحمٰن (اسلام آباد)پاکستان