رونا ۔ کرونا کا نہیں!

\"\"
٭ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز‘ ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی حیدرآباد۔

گاندھی ہاسپٹل… ساتویں منزل… کمرہ نمبر13

رات دس بج چکے ہیں۔ کئی ایکر رقبہ پر یہ ہاسپٹل کامپلکس پر ایک ہولناک سناٹا طاری ہے۔ سر سے پیر تک سیفٹی کٹ kit میں خود کو چھپائے ڈاکٹرس‘ پیرامیڈیکل اسٹاف کی وجہ سے زندگی کے پرچھائیاں نظر آتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہاسپٹلس میں ایک مریضوں کے روبہ صحت ہونے میں نرسیس کی دلآویز مسکان کسی مجرب دوا کے طور پر کام کرتی تھی… آج انہیں دیکھ کر فرشتہ اجل کا تصور ابھرنے لگتا ہے۔
کمرہ نمبر13 میں میرا بیٹا سید خالد شہباز اس کے ساتھ دوسرا میں ہوں۔ ہم دونوں نے اپنے طور پر کوویڈ ٹسٹ کروایا تھا‘ دونوں کو پازیٹیو نکلا… اور ڈاکٹر مشتاق علی اور ان کے فرزند ڈاکٹر مکرم علی اور ڈاکٹر مدثر علی کے زیر علاج رہے… اللہ تعالیٰ ڈاکٹر مشتاق کے ہاتھ میں شفاء اور ان کے الفاظ میں مریضوں کو حوصلہ بخشا ہے۔ احتیاطی اقدام کے طور پر کسی ہاسپٹل میں ”بیڈ“ کے بندوست کرنے کا مشورہ دیاگیا تھا۔ شہر کے کارپوریٹ ہاسپٹلس عوام کے خوف کا استحصال کررہے ہیں۔ کئی کئی لاکھ کے بلس… اور علاج… اکثر ہاسپٹلس سے میتیں ہی گھر واپس ہوتی ہیں۔ ایک کا تجربہ خالہ زائد بھائی نوید کے ساتھ ہوچکا ہے۔
ویسے ہم کسی کارپوریٹ ہاسپٹل کے بل کی ادائیگی کی سکت بھی نہیں رکھتے اور قائل بھی نہیں ہیں۔ ہم نے گاندھی ہاسپٹل میں شریک ہونے کا ارادہ کیا۔ زندگی ہے تو کسی بھی ہاسپٹل میں بچ جائے گی۔ یہ نہ ہوتا اسٹار کاپوریٹ ہاسپٹل بھی آپ کی بے بسی کا بل وصول کرلیتا ہے۔
گاندھی ہاسپٹل نہ بھی آتے تو فرق نہیں پڑتا، مگر ہم باپ بیٹے کے لئے یہ ضروری تھا کہ گھر کے ماحول سے باہر نکلیں۔ چھ دن میں خاندان کے تین افراد کی موت کے ساتھ کرونا پازیٹیو نے صدمہ اور مسائل میں اضافہ کردیا تھا۔ تیرہ دن گھر میں رہ کر علاج کے دوران جو وحشت، ہیبت ایک عجیب سی ہول طاری تھی اس سے چھٹکارا ضروری تھا۔ دن تو گزر جاتا… رات کاٹے نہ کٹتی… مرحومین‘ ان کے لواحقین کی آوازوں کی باز گشت سنائی دیتی۔ آج گاندھی ہاسپٹل میں شریک ہوئے ہیں تو پہلی بار ہیبت اور وحشت کے حصار سے باہر نکلے۔ جناب محمود علی وزیر داخلہ کی شخصی دلچسپی‘ جواں سال ڈاکٹر خضر حسین جنیدی کی انسانیت نوازی کی بدولت باپ بیٹے کے لئے علیحدہ کمرہ دیا گیا۔ جس سے ایک دوسرے کو سہارا بھی ہے اور ہمت بھی۔ گھر میں بھی ہم ایک ہی ہال میں تھے مگر جانے کیوں ماحول سہما سہما سا تھا۔ اس کی وجہ شہباز والدہ کی پریشانی جس کا ریزلٹ اللہ کے فضل سے نیگیٹیو تھا۔ مگر شوہر اور بیٹے کے پازیٹیو رزلٹ‘ خاندان میں آئے دن پیش آنے والے سانحات سے انہیں نفسیاتی مریض بنا دیا تھا۔ اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں یہ وبا انہیں متاثر نہ کردے۔ اس کے علاوہ بیٹا اپنے باپ کے لئے اور باپ‘ بیٹے کے لئے پریشان۔ رات بھر سوچتا رہتا… یااللہ… شہباز میرے فرماں بردار بیٹے ہے‘ اس نے میرے خاطر کئی قربانیاں دیں۔ انجینئرنگ کی تکمیل کے بعد امریکن یونیورسٹی میں داخلہ کی کوشش میں تھے مگر میں نے زبردستی سعودی عرب بھیجوا دیا۔
اس کے سعودی عرب جانے کے بعد امریکن یونیورسٹی میں داخلہ کا لیٹرملا تھا۔ اس کا افسوس ان کی والدہ کو ہمیشہ رہا اور مجھے بھی۔ مگر یہ کہہ کر خود کو اور شہباز کو تسلی دیتا رہا کہ رزق جہاں ہے وہ وہاں چلاجاتا ہے۔ اپنے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ سب کچھ کاتب تقدیر کے ہاتھ میں ہے۔
وہ سعودی عرب میں تین سال رہ کر واپس ہوئے تو میرے ساتھ ہوگئے… شاندار نوکری‘ بہترین تنخواہ کی قربانی دے کر باپ کیساتھ اس لئے ہوئے کہ سعودی سے وہ صرف پیسہ بھیج سکتے تھے‘ یہاں ساتھ رہ کر سہارا بن سکتے ہیں۔ اور پھر شہباز میڈیا پلس اور گواہ کی ترقی کا ذریعہ بنے۔ آپ سب نے سراہا‘ دعاؤں سے نوازا… اردو اور انگریزی کے نیوزبلیٹن نے ساری دنیا میں ان کی پہچان پیدا کی۔ اور اس کی محنت صلاحیت کاکریڈٹ مجھے ملتا گیا۔
اب وہ میرے ساتھ کرونا سے متاثر ہوا تو میں سوچنے  لگا یااللہ! کیا ہم سے کوئی گناہ ہوگیا‘ کیا ہم نے کوئی بڑابول کہہ دیا؟ کسی کی دل شکنی کی‘ یا کسی کی نظر لگ گئی… یا… پھر خود اپنے آپ کو تسلی دیتا کہ جو بھی ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہوتاہے۔ مصیبتیں انسان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ مصیبت میں ہم اللہ کو پکارتے ہیں۔
غم کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو پھر جیسے کے ویسے ہوجاتے ہیں۔ پندرہ دن کے دوران مجھے احساس ہوا کہ باپ کی اپنی اولاد کے لئے تڑپ کیا ہوتی ہے۔ ماں تو واقعی 9ماہ اپنی کوکھ میں پروان چڑھاکر جنم دیتی ہے مگر اس اولاد کے مستقبل سنوارنے کے ئلے باپ کیا کچھ نہیں کرتا۔ اس کا اعتراف بہت کم ہوا ہے۔ شہباز اپنے معصوم بچوں کے لئے فکرمند…. اور میں بیٹے اور پوترے پوتریوں کے لئے….
کبھی آنکھیں تھک کر بند ہوجائیں تو جانے انجانے لوگوں کی پرچھائیاں متحرک ہوجاتیں… پندرہ دن میں یہ احساس ہوا کہ نفسا نفسی کسے کہتے ہیں۔ کرونا سے متاثرہ افراد کے ساتھ کس قدر بے رخی، کتنا بے رحمانہ سلوک، گویا مریض کسی کو چھولے تو وہ شئے فناء ہوجائے۔ نازک اور آزمائشی دور میں مجاہد محی الدین جیسے دوست‘ کامران جیسا بھانجہ اپنے قد سے بلند نظر آئے۔ آپ میں سے اکثر نے دعاؤں سے نوازا… ہماری صحت یابی کے لئے نفل نمازیں ادا کرکے اللہ سے دعائیں مانگیں…. اس کا شکریہ تو ادا کیا ہی نہیں جاسکتا۔ بس اللہ رب العزت اس کا اجر ضرور دے گا۔ اس آزمائشی دور میں جبکہ ذہن اور خیالات بھٹک رہے تھے ان لوگوں کے فون کا انتظار رہا… جن کے لئے ہم نے اپنے آپ کو اپنے کیریئر کو داؤ پر لگادیا…. شاید انہیں خوف تھا کہ فون کرنے سے بھی کہیں وائرس سے وہ متاثر نہ ہوجائیں۔
ابتداء ہی سے ایمان رہا ہے کہ زندگی موت بیماری شفاء سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے‘ مگر جب کرونا زدہ ہوئے تو یہ ایمان اور بھی راسخ ہوگیا۔ میرا مالک اس وباء کے ذریعہ ساری دنیا کو یہ احساس دلا رہا ہے کہ انسان کس قدر لاچار، محتاج ہے جنہیں اللہ رب العزت نے ہدایت سے نوازا وہ گناہوں سے توبہ کررہا ہے اور جسے گمراہ کردیا ہے وہ اس وباء کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کررہاہے۔
کارپوریٹ ہاسپٹلس تو مارڈرن سلاٹر ہاؤس بن چکے ہیں۔ مگر بعض ڈاکٹرس این جی اوز انسانیت کے چراغ روشن کئے ہوئے ہیں۔ آکسیجن سلنڈرس کی فراہمی وظائف سے لے کر کرونا کے علاج کے نسخوں، ویڈیوکلپس کو موبائلس کے ذریعہ عام کرتے ہوئے غیر معمولی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بعض حکماء نے جن میں پدم شری ڈاکٹر ایم اے وحید اور بعض ڈاکٹرس جن میں ڈاکٹر مشتاق علی، ڈاکٹر واصف اعظم، ڈاکٹر محمد رفیق، آصف بیگ، شہرہ آفاق ماہر نفسیات ڈاکٹرمحمد قطب الدین (انڈیانا، امریکہ)، ڈاکٹر تجمل حسین (شکاگو) اورڈاکٹر عمران اور ڈاکٹر عمیر قابل ذکر ہیں۔ ویڈیو کلپس کے ذریعہ رہنمائی کررہے ہیں۔
جماعت اسلامی خدمت فاؤنڈیشن، آر آر چیرٹیبل ٹرسٹ، آزاد فاؤنڈیشن (ابوایمل)، ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن، ایکسیس فاؤنڈیشن، خدمت فاؤنڈیشن اور الحمدللہ فاؤنڈیشن، سیوا ٹرسٹ، سہائتہ ٹرسٹ جیسے اداروں کی خدمات کوخراج تحسین ادا نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔
”کرونا‘ نے دنیا کو ایک صدی پیچھے ڈھکیل دیا۔ بڑی طاقتوں نے اپنا کھیل کھیل لیا۔ جسے تباہ کرنا تھا‘ کردیا… جتنی دولت بٹورنی تھی بٹورلی…ایک طرف لاشیں گررہی ہیں… اور لاشوں کے انبار پر یہ اپنی کامیابی کے پرچم لہرارہے ہیں۔
دوستو! قلم بھٹکنے لگا ہے۔ شاید گاندھی ہاسپٹل کے اس پُراسرار ماحول کا اثر ہے۔ 2003ء تک یہ مشیرآباد جیل ہوا کرتی تھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ آج کرونا مریضوں کی حالت قیدیوں جیسی ہے…. اور جیل جو ہاسپٹل میں تبدیل ہوگئی تھی اب دوبارہ جیل بن گئی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہاں جس دن آئے اُس دن سے نرسنگ، آؤٹ سورسنگ اسٹاف کی ہڑتال شروع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ہم چاہتے ہوئے بھی یہاں نہیں رہ سکتے اور ڈاکٹرس کے مشورہ پر گھر کو واپس ہورہے ہیں۔
ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ ہم باپ بیٹے الحمدللہ مکمل فٹ ہیں۔
پندرہ بیس دن زندگی کے بہت قیمتی دن… اتنے تلخ اور شیریں تجربات کبھی نہیں ہوئے۔ ایک طرح سے اِن ایام کے دوران ہماری ذہنی اور فکری تطہیر ہوئی ہے۔ اللہ رب العزت نے موقع دیا تو ان شاء اللہ ایک نئی توانائی، نئے عزائم کے ساتھ آپ کی خدمت کے لئے حاضر رہیں گے۔ ملک و ملت دین کے سچے سپاہی کی طرح…. ہم باپ بیٹے… ان شاء اللہ

Leave a Comment