ریاست جموں وکشمیرمیں اُردوکونسل کاقیام خوش آئند اقدام

اُردووالوں کاخواب شرمندہ تعبیر

\"22228187_1562393697152849_4162642703953816341_n\"
٭پروفیسرشہاب عنایت ملک

صدرشعبہ اُردوجموں یونیورسٹی،جموں
0813594191

\"28377781_1699197996805751_19050358101174965_n\"

ریاست جموں وکشمیرمیں اُردوداں طبقے کااُردواکیڈمی یااُردوکونسل قائم کرنے کاخواب 23فروری 2018کواُس وقت پورا ہوا جب حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے پرنسپل سیکریٹری جناب اصغرسامون نے پہلی اُردوکونسل کاقیام عمل میں لاکریہ دن ہمیشہ کے لیے تاریخ میں محفوظ کردیا۔ اس تاریخ سازفیصلے کے لیے حکومت جموں وکشمیرخاص کروزیراعلیٰ محبوبہ مفتی ،وزیرخزانہ جناب حسیب درابو ،اعلیٰ تعلیم کے وزیر جناب الطاف بخاری اوراعلیٰ تعلیم کے پرنسپل سیکریٹری جناب اصغرسامون مبارکبادکے مستحق ہیں جنھوں نے یہ اہم کارنامہ انجام دے کر اُردووالوں کے دِلوں میں ایک مخصوص جگہ توپیداکرہی لی ساتھ میں ریاست کی تاریخ میں بھی اپنے نام کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ کرگئے ۔ تقریباً 32سال کی جدوجہدکے بعدآخراُردوکونسل کاقیام عمل میں لایا گیا۔اُردوطبقے کی یہ بہت بڑی کامیابی کہی جاسکتی ہے ۔ورنہ اُردوکے اس اُردو کش دورمیں کسے اس کی پرواہ ۔ یہ کونسل اُردووالوں نے ریاست میں آسانی سے حاصل نہیں کی۔ اس کے لیے باضابطہ ایک تحریک چلی ۔اُردواکیڈمی کی پہلی آوازجموں وکشمیراُردوفورم کے صدرجناب امین بنجارا نے اُس وقت بلند کی جب انہوں نے کینال روڈ کے گاندھی بھون میں اُس وقت کے وزیرصحت جناب راجندرسنگھ چب کے سامنے اُردواکیڈمی کامطالبہ زوروشورسے بلند کیا جب وزیرموسوف جموں وکشمیراُردوفورم کے ایک ادبی جلسے کی صدارت کررہے تھے۔اس کے بعدیہ آوازکچھ دیر کے لیے دھیمی پڑگئی۔ 3مارچ 1995ءکادن تاریخ میں اس لیے سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کیوں کہ اس دن اُردوزبان کی بقا کے لیے رسا جاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی کاقیام عمل میں لایاگیا۔ اس سوسائٹی کے ساتھ ریاست کے معتبرادیب،شاعر،صحافی اورسیاست دان جڑکر اُردوزبان کوریاست میں اس کوسرکاری حقوق دلانے کے لیے جدوجہدکرنے میں پیش پیش رہے ۔ان برگزیدہ شخصیات میں جناب ویدبھسین، جناب شیخ عبدالرحمان ، جناب محمدیوسف تاریگامی ، جناب اسیرکشتواڑی، پروفیسرظہورالدین،اسداللہ وانی، راقم الحروف کے علاوہ جناب بلراج پوری کے نام اس لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ اُردوتحریک میں ان برگزیدہ شخصیات نے بھرپور کردارادا کیا اوران کایہ کرداراُردوداں طبقہ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتاہے۔
1997کے اسمبلی کے اجلاس میں اُس وقت کے ایم ایل اے بھدروا ہ شیخ عبدالرحمان نے ایک زبردست ہلچل اُس وقت مچادی جب انہوں نے ایوان میں یہ کہہ کراُس وقت کے گورنرکی تقریرروک دی کہ ان کی تقریر اُردوزبان میں ہونی چاہیئے نہ کہ انگریزی زبان میں کیوں کہ اُردوریاست جموں وکشمیرکی سرکاری زبان ہے ۔اسی اسمبلی کے اجلاس میں جناب محمدیوسف تاریگامی نے اُردوزبان کوتحفظ دینے کی بھرپوروکالت کی نتیجہ یہ نکلاکہ حکومت نے اُردوکے فروغ کے لیے 28ممبران پر مشتمل ہاؤس کمیٹی تشکیل دینے پرمجبورہوگئی۔اس کمیٹی نے ملک کے مختلف اُردواداروں کادورہ کرکے اُردوکے فروغ کے لیے ایک بھرپور رپورٹ حکومت کوسونپی جس میں دیگرتجاویز کے ساتھ اُردواکیڈمی کے قیام کوناگزیرقراردیاگیا لیکن ہاؤس کمیٹی کی اس مربوط رپورٹ پرکبھی حکومت نے توجہ نہیں دی ۔یہ رپورٹ اب تک سیکرٹریٹ کی فائلوں میں سڑچکی ہوگی ۔ 1995 ءمیں رسا جاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی کے قیام کے بعد ہی جموں وکشمیراُردوفورم ایک دفعہ پھرسرگرم عمل ہوگئی۔ رسا جاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی کے ساتھ مل کر اس فورم نے لاتعدادادبی تقاریب کاانعقاد کرکے پوری ریاست میں ایک تہلکہ مچادیا۔اس دوران اُس وقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے دونوں تنظیموں کے ایک مشترکہ ادبی اجلاس میں ساغرصحرائی کی شعری کتاب ”جنگل کی فریاد“ کے رسمِ اجراءکے موقعہ پربحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔راقم اورامین بنجارا نے کڑے الفاظ میں حکومت کواُردوزبان کونظرانداز کرنے کے لیے تنقیدکانشانہ بناتے ہوئے ریاست میں اُردواکیڈمی کے قیام کامطالبہ بڑے زوروشورسے دہرایا۔ نتیجہ یہ نکلاکہ وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے اپنی تقریرمیں اُردواکیڈمی کے قیام کااعلان کردیا۔ اُردوداں طبقہ خوش تھا۔سدھرا کے مقام پراُردواکیڈمی کاایک سائن بورڈ بھی نصب کیاگیالیکن افسوس کہ فاروق صاحب کے دوسرے اعلانات کی طرح اُردواکیڈمی کا یہ اعلان بھی اعلان تک ہی محدود رہا۔ اس دوران جموں وکشمیراُردوفورم نے اپنی سرگرمیاں بالکل کم کردیں۔امین بنجارا نے صدارت اسیرکشتواڑی کوسونپی۔اسیرکئی ادبی تنظیموں سے وابستہ ہونے کے علاوہ سرکارکے ایک اعلیٰ عہدے پربھی فائزتھے اس لیے وہ اس تنظیم کواُس طرح فعال نہیں بناسکے جس طرح امین بنجارا نے بنایاتھا۔اُردواکیڈمی کی جنگ اب تنہارساجاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی نے لڑنی شروع کی۔مشکل کے اس وقت میں اگرکسی نے سوسائٹی کاساتھ دیا اور اس مطالبہ کوحکومت کے کانوں تک پہنچایاتووہ معروف صحافی اورریاست میں اُردوکے بڑے خیرخواہ ویدبھسین تھے جنھوں نے لاتعداداداریے لکھ کرحکومت کوسرکاری زبان کااحساس دلایا لیکن حکومت کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی ۔وادی میں جب حالات تھوڑے بہت سدھرے تو جموں کشمیراُردواکیڈمی کاقیام وادی کے چندادیبوں نے مل کرعمل میں لایا۔اس ادبی تنظیم نے وادی سے اُردوکی عظمت رفتہ کوبحال کرنے کے لیے کئی اہم کارنامے بھی انجام دیئے ۔معروف افسانہ نگار نورشاہ اس کے صدربھی ہیں ۔ اسی دوران جموں سے روزنامہ اُڑان کااجراءکیاگیا۔ اس اخبارمیں اُردوکے فروغ اور اُردواکیڈمی سے متعلق راقم کے لاتعدادمضامین شائع ہوئے جنھیں اگریکجاکرکے ایک کتابی صورت میں شائع کیاجائے تو ایک ہزارصفحات کی ایک مستندکتاب شائع ہوسکتی ہے۔اس اخبارکے منیجنگ ایڈیٹر جناب تنویر خطیب نے اُردواکیڈمی کے حوالے سے جوکام کیاوہ بھی قابل ستائش ہے۔ادھرحکومتی سطح پراُس وقت کے وزیراعلیٰ جناب غلام نبی آزادنے ریاست میں اُردوکے فروغ کے لیے ایک اورکمیٹی بھی تشکیل دی۔اس کمیٹی کی رپورٹ کاحشربھی وہی ہوا جوہاؤس کمیٹی کی رپورٹ کاہوا۔ آزادصاحب جب دہلی واپس چلے گئے توحکومت کی باگ ڈور ایک دفعہ پھرنیشنل کانفرنس کے ہاتھوں میں آئی۔اسی دوران پی ڈی پی کے ایم ایل اے اورمیرے دوست جناب ذوالفقارچودھری بھی اُردوسے متعلق متحرک ہوئے۔ اُنہوں نے متعدددفعہ اُردووالوں کی آوازکوایوان میں اُبھارکر حکومت کے کانوں تک پہنچائی۔ اس کے علاوہ جناب دویندرسنگھ رانا ، جناب نریش کمار، جناب ظفراقبال اورجناب فردوس ٹاک بھی ایوان میں سرکاری زبان کے تحفظ کی بات وقتاً فوقتاً کرتے رہے۔جناب عبدالغنی ملک جومیرے گہرے دوست بھی ہیں تعلیم کے اعلیٰ وزیربھی تھے ،جب شعبہ اُردومیں ایک پروگرام کی صدارت کے لیے تشریف فرماتھے۔یوم اُردوکے سلسلے میں منعقدہ اس پروگرام کے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے اُردواکیڈمی کے مطالبے کے سلسلے میں کافی جذباتی ہوا ،میںنے پروفیسرگیان چندجین سیمی نارہال کادروازہ بندکرتے ہوئے ملک صاحب سے اُردواکیڈمی کے قیام کااعلان ایک دفعہ پھر کروادیا۔ ملک صاحب نے محمدیوسف ٹینگ کی صدارت میں دانشوروں اورادیبوں کی ایک اعلیٰ کمیٹی تشکیل دی۔ میں نے اورلیاقت جعفری نے ملک کی مختلف اُردواکیڈمیوں کے دستورجمع کرکے عبدالغی ملک کوسونپے۔اس کمیٹی نے بھی ریاست میں اُردواکیڈمی کے قیام کے لیے پرزورسفارش کی ۔یوں لگ رہاتھا کہ اُردواکیڈمی اب قائم ہوہی جائے گی لیکن چنداُردوادیب جن کاتعلق وادی سے تھا اس کی مخالفت بھی کررہے تھے ۔چنانچہ اس دفعہ بھی اُردووالوں کایہ خواب ،خواب ہی رہا۔ رساجاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی کے اہلکاران نے حوصلہ نہیں ہارا اب اس کے ساتھ انجمن فروغ اُردو،انجمن بقائے اُردو اورجموں کشمیراُردواکیڈمی کے اراکین بھی کاندھے سے کاندھاملاکراُردواکیڈمی کے مطالبے کودہراتے گئے ۔ یہاں انجمن بقائے اُردوکے سرپرست اعلیٰ جناب فاروق شاہ بخاری کاذکرکرنا اس لیے ضروری ہے کہ انہوں نے ا
س تنظیم کے ذریعے اُردوکی بقا کے لیے بعض خاطرخواہ کام سرانجام دیئے۔جب ٹینگ کمیٹی کی رپورٹ کے ساتھ حکومت نے ایک اوربھدامذاق کیاتوانجمن بقائے اُردواوراُردوکے خیرخواہ اراکین اسمبلی نے ایک دفعہ پھراحتجاج بلندکیا۔ حکومت نے ایک دفعہ پھرچیف سیکریٹری جناب اقبال کھانڈے کی صدارت میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی۔ چندمہینوں کے بعداس کمیٹی نے اُردوکے فروغ کے لیے ایک مفصل رپورٹ پیش کی جس میں اُردواکیڈمی کے بجائے مرکزی سطح کی طرح اُردوکونسل کاقیام سرفہرست تھا ۔اُردووالے اس رپورٹ سے بھی اس لیے مایوس ہوئے تھے کیوں کہ گذشتہ رپورٹوں کاحشران کے سامنے پہلے سے ہی تھالیکن اچانک اس سال وزیرخزانہ جناب حسیب درابو نے اُردوکونسل کے قیام کے لیے دوکروڑروپے منظورکرکے سب کوحیرت زدہ کردیااوراب جناب الطاف بخاری اورجناب اصغرسامون نے اُردووالوں کے خواب کوشرمندہ تعبیرکرکے یہ ثابت کردیاہے کہ اگرانسان کی نیت صاف ہوتوکچھ بھی ہوسکتاہے۔

یہاں میں یہ واضح کردوں کہ اُردواکیڈمی قائم کرنا مرحوم مفتی صاحب کابھی ایک خواب تھا ۔میرے بغیر جب تحریک بقائے اُردو کا ایک وفد ان سے ملاقی ہوا تو اس کاذکرانہوں نے جب مجھ سے کیا تو ان کے تمام مطالبات کی میں نے وکالت کی۔ اس کے بعدجب بھی میں اُن سے ملاوہ اُردواوراُردواکیڈمی سے متعلق بات چیت کرتے رہے اورآج ان کی بیٹی نے مفتی محمدسعید مرحوم کے ایک اہم خواب کوپوراکرکے ڈوگرہ حکمرانوں کی طرح اُردووالوں کے دِلوں میں اپنی جگہ کوہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیاہے۔ اُردوکوجومقام ڈوگرہ حکمرانوں نے دیاتھااسے آج تک سنہرے حروف میں لکھاجاتاہے اورمحبوبہ مفتی صاحب کے اس قدم کوبھی ہمیشہ تاریخ میں تحریرکیاجائے گا۔ اب اُردووالوں کا ایک اہم اوربڑامطالبہ پوراہوگیاہے۔اب اُردوکے ادیبوں ،شاعروں،دانشوروں اوراُردوسے محبت رکھنے والے صحافیوں کافرض بنتاہے کہ آپسی حسد اوربغض کوچھوڑکر اُردوکونسل کی ایک مستحکم بنیادرکھنے میں حکومت وقت کی ہرطرح سے مددکرکے دوسرے مطالبات کوبھی لاگوکرنے کی جدوجہدجاری رکھیں ۔ جن میں سب سے اہم مطالبہ اُردوکودسویں تک ضروری مضمون کے طورپرپڑھانے کامطالبہ بھی شامل ہے کیوں کہ
اُردوہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
\"28168480_1699198053472412_9033173433785612342_n\"
\"28276299_1699198123472405_5745546944391733588_n\"

Leave a Comment