٭پروفیسر عارفہ بشریٰ
صدر شعبۂ اُردو
کشمیریونیورسٹی،کشمیر
٭محمد یونس ڈار
شعبۂ اردوکشمیریونیورسٹی،کشمیر
تاریخی تناظر ((Paradigm اس کا شاہدہے کہ بیشترفنکار حالتِ جبر کی پیدائش ہوتے ہیں جو زندگی سے حاصل شُدہ مواد کو تخلیقی وجود کی بھٹی میں تپاک تپاک کر اپنی فکر کا دائرہ ذات کے حصّار سے نکال کر اپنے گردِوپیش کے لیے بھی دراز کر دیتے ہیں۔زندگی کے آنگن میں آنے والے نئے موسموں کا نہ صرف استقبال کرتے ہیں بلکہ ان موسموں کے بدل جانے کا اِدراک بھی رکھتے ہیں یہ عمل نہ صرف شاعری میںبلکہ فنونِ لطیفہ کے تمام شعبہ جات میں ظہور پذیرہوتا ہے ہر فنکار کو اپنے مقدس جھوٹ یعنی فن کی تشہیر کے لیے پیرائیہ اظہار کی ضرورت پڑتی ہے شاعر کی طرح جوتڑپ کو نالۂ جانگداز بنا کرصفحۂ قرطاس پر پیش کرتا ہے شاید اسی لیے کہا گیا ہے کہـ ’’شاعری عادت ہی نہیں مجبوری بھی ہیــ‘‘۔
ہر ایک شاعر کا اپنا ایک منفردڈِکشن ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ مخصوص شعری زبان میں تشبیہاتی و استعاراتی انداز کے سہارے منفرد شعری تجربات کو بیان کرتا ہے ہر چند کہ شاعری تنہا نشینی کی پیداوارہوتی ہے لیکن یہ انفرادی کاوِش تخلیقی اظہار کا رُوپ دھارنے کے بعد اجتماعی شعور کا ایک لامُنتہاہی حصہ بن جاتی ہے۔ اور تو اور شعری تجربہ اور شعری صنف کا آپس میں کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہوتا ہے یہاں سے ایک شاعر پر مُنحصر ہوتا ہے کہ وہ کس نوعیت کی تکنیک اور ہئیت کو بروئے کار لاکر اپنی افُتادِطبع کی موثر معنوں میں تشہیر کر سکے تاکہ حقیقت مسّلم ہوسکے۔
رُباعی اردو کی ایک پائیدار صنفِ سُخن ہے جو اپنے ہیتی ڈھانچہ اور موضوعاتی انفراد کی وجہ سے ہی اپنا ارتقائی سفر طے کرتی رہی۔ابتداء ہی سے اس صنفِ شعر کی عمارت کو شعراء نے زیادہ بلند بال ہونے کے مواقع فراہم نہ کر کے حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ اُردو میں رُباعی کی جو بے قاعدہ روایت ملتی ہے وہ بھی دراصل فارسی الفاظ و خیالات کی تقلید کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے حالانکہ اُردو رُباعی کا آغاز دکنی دور سے ہی ملتا ہے۔ لیکن دبستانِ دکن اور لکھنو کی تقریباً تمام رُباعیات معاملہ بندی کی مظہر ہیں۔ غالبؔ،ذوقؔ،مومنؔ،انیسؔ اور دبیرؔکے ہُنر مند ہاتھوں میں آکر ہی اُردو میں اس صنف ِ شعر کو تقویت ملی۔ بیسویں صدی اُردو رُباعی کے لیے نیک فال ثابت ہوئی۔اس صدی میں رُباعی کوچندمنفرداوربڑے نام نصیب ہوئے جنہوںنے اس صنف کو حیات و کائنات کے گوناگوں مسائل سے روشناس کیا۔ان میں امجدؔ، جوشؔ،فانیؔ،فراقؔ،سیمابؔ،مخدومؔ،رواںؔ،یگانہؔ وغیرہ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ مزید اکیسویں صدی میںرُباعی کے جو روُحِ رواں شعراء ہیں انہوںنے اس صنف کا کینواس کافی وسیع کیا اور اس میں ہر طرح کے موضوعات شامل کر لیے۔ موجود صدی کے شعراء میں حافظ کرناٹکی ؔ، اکرم نقاش ،متین جامی ،ظفر کمالی ،طہور منصوری نگاہؔ،عادل حیات ،عارف حسن خان ،کندن لال کندن ـ، اصغر ویلوری وغیرہ شامل ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر میں اُردو کی دیگر اصنافِ سُخن کی طرح صنفِ رُباعی بھی بہت دیر بعد متعارف ہوئی ۔ ریاست میں اردو زبان انیسویں صدی کے نصف آخر میں فارسی زبان کے بعد ڈوگرہ راجاؤں کے دور حکومت میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل کرتی ہے۔عبد القادر سروری کے مطابق:
’’ یہ گُل زمین اُردو کے پودے کو بڑی راس آئی اور اس نے یہاں کی
مٹی کی طرح یہاں کے زرخیز ذہنوں میں نمو پاکر تخلیق وتحریر کا ایک گھنا جنگل اُگا دیا۔‘‘
(عبدالقادر سروری۔کشمیر میں اُردو۔ کلچرل اکادمی سرینگر۱۹۸۲۔جلدسوم۔ص۔۸)
فارسی شاعری میں مروّجہ موضوعات جیسے ہستی و نیستی،روحانیت، عشق و رندی، پندو نصائح اور جمالیات بھی یہاں کی شاعری میں در آتے ہیں اس وجہ سے شاعروں کے اظہار ِ فن سے ایک تخیلاتی دُنیا قائم ہوئی اور حقیقت کی دُنیا سے دُور ہوتے چلے گئے۔ان تمام موضوعات کو اپنی شاعری کا سنگار بنانے کے لیے جہاں تک فارسی شاعری کی روایت ِ شاعری ذمہ دار ہے وہیں یہا ں کے نا مساعد حالات بھی شریکِ کار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے ابتدائی دور کے رُباعی گو شعراء کے ہاں اکثر ان ہی موضوعات کی بھرماردیکھنے کو ملتی ہے۔
ریاست کے علامہ ّ اقبال ؔکہلانے والے شاعر شہہ زورؔ کاشمیری،جنہوں نے سعید مسعودی کے کہنے پر سیماب اکبر آبادی سے مشورہ سُخن کیا تھا، نے غزل اور نظم کے علاوہ صنفِ رُباعی میں بھی طبع آزمائی کر کے اپنے قادر الکلام شاعر ہونے کا بین ثبوت فراہم کیا ہیـــــــــ۔ بقول محمدیوسف خاں عادل ، شہہ زور کاشمیری ’’ــ مختصر خیال کو مربوط انداز میں بڑے احسن طریقے سے پیش کرتے ہیں ‘‘کہ فنِ رُباعی کا ایجاز و اختصار مجرو ح یا متاثر نہیں ہوپاتا ۔یاد رہے رُباعیوں میں روایتی موضوعات کے نالے ہی نَے کے پابند کرتے ہیں۔علامہ اقبالؔ کی تقلید میں اسلامی کلچر کی بازیافت کے دلدادّہ نظر آتے ہیں نہ صرف موضوعات کی سطح پر بلکہ لفظیات کی سطح پر بھی اپنے قارئین کو روایتی فارسی اور عربی الفاظ وتراکیب جیسے شیاطین، تقویٰ ،موجود ولاموجود،تہدید عقل،مشہود ،نفس،خرد وغیرہ سے مانوس کرتے ہیں۔
نمونہ کلام:۔
(۱) مذہب سے نہ فطرت کے آیئن سے پوچھ
ہے بات عبث یہ نہ شیاطین سے پوچھ
بدامنی دُنیا کا باعث اے دوست
اپنے ہی خرد ساز قوانین سے پوچھ۔
(۲) بے سُود ہے تہدید عقل و دانش
او ر ر اہ نما کی یہ جہدو کوشش
ٹھوکر ہی سکھاتی ہے سنبھل کر چلنا
تقویٰ ہے حقیقت میں شعورِ لغزش
شوریدہ کا شمیری کا شمار بھی ریاست کے سرکردہ شعراء میں ہوتا ہے ۔ابتداء میں اثر ؔ صہبائی سے اپنے کلام کی اصلاح لیتے تھے۔ اور پھر اَن تھک محنت اور ریاضت نے انہیں کامل اُستاد بنادیا۔ غزل،نظم ،قطعہ کے علاوہ رُباعی گوئی میں بھی طبع آزمائی کی۔ان کے ہاں بھی رُباعی میں روایت پرستی یا کلاسکیت کی لہر نظر آرہی ہے ان کے شعری مجموعے ’’جوش و جنوں ‘‘اور ’’ جذّبِ دوروں ‘‘ میں قدم قدم پر روایتی الفاظ و تراکیب ملتے ہیں ۔فارسی رُباعیات کا اُردو رباعیات میں ترجمہ بھی کیا ہے بقول عبدل القادر سروری ،شوریدہ کاشمیری’’ انسانی شرافت، سچائی اور ہمدردی کی پامالی سے افسردہ خاطر ہوجاتے ہیں‘‘۔ تو ان کے ہاں طنزومزاح کی شوخیاں بھی نمو پاتی ہیں۔ حُسن و عشق، تصوّف، وطنیت،سیاست،انسان دوستی، فطرت نگاری وغیرہ ان کی رُباعیات کے خاص موضوع ہیں۔
نمونہ کلام:۔(۱) ہر ادنیٰ کو ہے اپنے اعلیٰ کی تلاش
ہر صورت کو ہے اپنے معنیٰ کی تلاش
ڈوبے ہوئے اپنے دل کے قلزّم میں ہیں
دل والوں کو ہے دُرِّ یکتا کی تلاش۔
(۲) دن دن بڑھتے ہیں دنیا کے دھندے
پڑتے ہیں گردنوں میں کیا کیا پھندے
تانے ہیں خدایانِ سیاست نے یہ حال
کیونکر نہ گرفتارِ بلا ہوں بندے
قاضی غلام محمد فطرت کے شاعر ہے اور وہ فطرت کی رنگارنگی سے ہی اپنے شعری کردار اخذ کرتا ہے۔گردوپیش کے حالات سے اثر قبول کر کے اور پھر طنز و مزاح سے کام لے کر سماجی مسائل پر سے پردہ اٹھانا ان کا منفرد انداز ہے۔ان کا مجموعہ کلام ’’ حرفِ شیرین‘‘ کے نام سے ۱۹۶۲ء میں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نے شائع کیا ہے۔
نمونہ کلام:۔
تعبیر طلب ازّل سے خوابِ حیات
ملتا ہی نہیں گو ہر نایابِ حیات
اے تلخ پسند زیست حق تو یہ ہے
سکیھے ہیں تجھی سے میں نے آدابِ حیات
۱۹۴۷ء کے بعد ریاست میں تبدیلیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔مطلق العنانیت کے خاتمے اور نئی حکومت کے قیام کے بعد تعمیر و ترقی کا ایک نیا دوَرشروع ہوتا ہے۔ سماجی، سیاسی، تہذیبی اور ادبی منظر نامے میں بھی نئے رنگ ابھُرنے لگتے ہیں۔ روایت پرستی اور تقلیدکے بجائے شعراء نے نئے افکار و خیالات اور نئے شعری تجربوں کے ذریعے بدلتے ہوئے عہد کی ترجمانی کی۔ نہ صرف غزل اور نظم میں بلکہ صنفِ رُباعی میں بھی شعراء نے اپنے ارِد گرد پھیلی زندگی کے منظر نامے کو سینۂ ٔ کاغذ پر رقم کرنا شروع کردیا ۔اب کی بار پیش کردہ موضوعات ، الفاظ، تراکیب اور استعارے اجنبی اور تخیلاتی سر زمینوں کے نہیں ہیںبلکہ اپنے گھروں کے صحنوں سے چنی ہوئی صداقتوں کا سّیال وجود آراستہ و پیراستہ ہوتا ہوا صفحۂ قرطاس کی زینت بن کر نظر آتا ہے اور صنفِ رُباعی کا
کینواس کسی حد تک وسیع ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی شعوری کوشش ہمیں حکیم منظور ؔ کے یہاں ملتی ہے۔
؎ بے آب کبھی ہو نہ یہ چشمہ شاہی
بے رنگ کبھی آنکھ نہ ہواس ڈل کی
ہو ہی نہ پہلگام کبھی بے سایا
مولا نہ ہو گلمرگ میں پھولوں کی کمی۔
حکیم منظور ؔ ریاست میں غزل کے نامور شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو کر دادِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔’’ چہار ضرب‘‘ کے عنوان سے ان کی رُباعیات کا مجموعہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ان رُباعیوں میں بھی ان کی غزلوں کی طرح کشمیرکی ثقا فت کا ساراجمال اور یہاں کے رہنے والوں کا وہ سارا کرب جھلکتا ہے جو صدیوں پر پھیلی غلامی کا نتیجہ ہے۔ کشمیر اسکے دُکھ،اس کے موسم،اس کی جھلیں،اس کے جھرنے،اس کے دریااور ان کا چھل بل،اس کے شہراوران میںپھیلاہُواکرب،اس کے باغ اوران میںبسی خوشبو،اس کی شاہراہیںاوران پربکھراخون بنیادی تخلیقی قدرکی حیثیت سے موجودہے۔ڈل،ولُر،نشاط باغ،چنار، پیڑ، سایہ ،برف،لہو،دھوپ،سورج، رات،زمین،پتھر ،پتے، دیوار جیسے الفاظ رمزیت وایمائیت اور مخصوص سلسلہ ٔ خیال کا ایک جہاںِمعنی اپنے اندرسمو ئے ہوئے ہیںجس سے وہ قاری کو اپنے اردگرد ماحول کی بُو باس محسوس کرواتا ہے۔حُسن اور سیاست کی بات کرتے ہوئے شاعر کی ہنسی اکثر جگہوں پر نوحہ بن جاتی ہے اور پھر یادوں کا لہو،تو قیر ِمحبت ،مست مئے ذات ،طعنۂ تنہائی، چپ زبان لہو،خوابوں کی بے خوابی اور مسلسل کرب جیسے حوالے تشنہ لب کاغذ کی سیرابی کرتے ہیں۔
نمونہ کلام:۔
(۱) بوسیدہ ہوئے ہیں یہ پُرانے موسم
اک الجھن جانے پہچانے موسم
معمول کے رنگوں کی اس تختی پر
مولا!لکھ دے تازہ سُہانے موسم
(۲) بے قیمت سوغات ہوئے ہیں رشتے
سرما کی برسات ہوئے ہے رشتے
اُترن کی توقیر مگر یہ بے مول
راتوں کی اکِ بات ہوئے ہیں رشتے
غزل میںدل کے زخموں کونرم اورملموسی انداز میں زبان دینے والا شاعر گوری نندن سنگھ بالی عابد مناوری کی رُباعیات بھی بے لباس حسرتیں لی ہوئی ہیں۔حُسن و عشق کے میدانِ کارزار میں شاعر محبوب کے اندازِ تغافل کی تیرکا شکارہوکرغموںکی پوشاک اوڑھ لیتا ہے لیکن اپنی آ بلہ ٔ پائی کے باوجود محبت کی رسیاں کھولنا باور نہیں کرتا ۔عشق کی جور میں دار پر چڑھنے اور آگ میں شوق سے زندہ جلنے کے لیے بھی رضا مند ہے۔دلیلوں سے نہیں بلکہ آہوں سے دوست کی آنکھوں کو تر دیکھنے کا تمنائی ہے۔
ہر چندکہ ان کی رُباعیات میں معاملہ بندی کا ہی اُبال زیادہ ہے لیکن لاشعوری طورپر جمالیاتی پیمانوں کے سنگ ہی باطنی حسن کے خزانے میں بہت سا حصہ غیر محسوس موجوں پر مشتمل بھی ظاہر ہوتا ہے جیسے زندگی کے مسائل کا اظہاراور ان کا حل،انسان کی عظمت،سچائی کی رفعت اور رندی و سرمستی شاعر میں ایک طرح کی اُمید اور ولولہ جگادیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کلاسکی رچاؤ اور چھوٹی بحرسے بھر پور شاعری میں صاف اور رواں زبان شاعر کے ڈکشن کو حُسنِ معنی کی نئی راہوں سے ہمکنار کرا تی ہے۔
نمونہ کلام:
(۱) اخلاص و وفا ، مہر ومُروت سے ملو
جس سے بھی ملو،حُسنِ عقیدت سے ملو
انسان کی عظمت ہے اسی میں عابد ؔ
دشمن بھی جو مل جائے محبت سے ملو۔
(۲) تم شوق سے دار پر چڑھا دو ہم کو
یا زندہ آگ میں جلا د و ہم کو
ہم لوگ خطا دارِ محبت ہیں،بجا
اس جرم کی جو چاہو سزا دو ہ
؎ بھر گئی ہے اس قد ر تنویر ؔ از خود رفتگی
پوچھتا پھرتا ہوں اب غیروں سے اپنا نام بھی
اس شعر کے خالق محمد الیاس ملک تنویر بھدرواہی کا میدانِ سُخن غزل ہے۔ چناچہ انہوں نے رُباعیات بھی رقم کی ہیں اگر چہ ان کی رُباعیات کی تعداد زیادہ نہیں ہے لیکن پھر بھی فکر و فن کے اچھے نمونے ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے ’’ پر تو ِتنویر‘‘ اور ’’منظرمنظر آئینہ‘‘ شائع ہو چکے ہیں ۔ تصوف، اخلاقیات،غربت، نا انصافی، انسانی قدروں کا زوال اور انتشار ان کی شاعری کے خاص موضوع رہے ہیں۔
نمونہ کلام:۔
(۱) کٹتی ہو گر زندگی پسپائی میں
پھر لطف کہاں انجمن آرائی میں
جس دل پہ مسلط ہو اندھیرے غم کے
وہ کیوں نہ بھٹکتا ر ہے تنہائی میں
(۲) ہر چند ہو افکار کا گہنا اچھّا
لگتا نہیں خاموش ہی رہنا اچھّا
سچ کہنے سے ہو جائے خفا تو
کچھ کہنے سے ہے کچھ بھی نہ کہنا اچھا
کشمیر میں جدید شاعری کی انفرادی لَے سے اپنی پہچان بنانے والے شاعر مظفر ایرجؔ کے شعری مجموعے ’’ابجد‘‘ ،’’انکسار‘‘، ’’ ثبات‘‘ ، ’’دل کتابـ ـــ‘‘او ر ’’ سخن آئینہ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ایرجؔ اسلامی اساطیر اور تلمیحات سے اپنی شاعری کا تاروپود بُن کر ان کو انسانی زندگی سے منسلک کرنے کی سعی کرتے ہیں۔نا مساعد حالات اور سماج کے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے حوالوں میں اپنی شناخت تلاشتے ہیں۔ مسائل ِ حیات و کائنات ، عصری حسّیت ،توحید پرستی ، جدیدیت اور تصوّف کا امتزاج جیسے موضوعات ان کے تخلیقی ہُنر کے خاص جوہر ہیں۔ ـــ’جو ان کی رُباعیات میں سامع سے ہمکلام ہوتے ہیںـــــ‘۔
نمونہ کلام:۔
(۱) اخلاق سے اقدار سے وابستہ میں ہوں
ہاں حال میں بھی عہد گزشتہ میں ہوں
پھر مصر کا بازار ہے پھر دام لگا
یوسفؑــ نہ سہی یوسفؑ گمِ گشتہ میں ہوں
(۲) جینے کی کو ئی مجھ کو نشانی دے دے
ساکن ہوں نیا رُخ دے روانی دے دے
بے برگ و شجر دشت کو اے ابر کرم
رِم جھم سے برستا ہوا پا نی دے دے
ریاست جموں و کشمیر میں صنفِ رُباعی کے مجتہد فرید پربتیؔاپنے فن کے بارے میں فرماتے ہیں۔
ؔؔؔ ؎ وہ غزل ہو کہ رباعی ہو، دیا تو نے فریدؔ
ایک اک صنف کو انداز بیاں ایک نیا۔
فرید ؔپربتی نے غزل ، نظم اور رُباعی میں طبع آزمائی کی ہے اور آخرش رباعی کا پانی انہیں زیادہ راس آگیا۔ ان کی رُباعیات کی وجہ سے پہلی بار ریاست میں صنفِ رُباعی ایک تبدیل ہوتے ہوئے ذایقے سے متعارف ہوجاتی ہے چناچہ انہوںنے روایتی موضوعات و تراکیب اور الفاظ و خیالات کے ساتھ ساتھ جدید اُسلوب کے اور نئے تجربات کر کے اس صنف کے کینواس پر اور نئے امکانات روشن کر دیئے اور یوں ہم ان کی رُباعیات میں اُس مسافر سے متعارف ہو جاتے ہیں جس کے خواب شرمندٔہ تعبیر نہ ہو سکے ہیں جو اپنے روز و شب کی گردش میں ساقی،ساغر و جم کا تذکرہ کرکے ’تُحفظ ِ ذات‘ کی بات کرتا ہے حزُن و ملال کے موسم میں جس کے قلب وجان میں ستاروں کی روشنی بھی چبھ جاتی ہے حسنِ یوسفؑ اورگریۂ یعقوبؑ جیسی تلمیحات کا سہارا لے کر اپنے دریدہ زخم پانٹے کی بات کرتا ہے کبھی عصرِ حاضر کے تجارتی اور صارفی سماج کے خلاف احتجاج بلند کر کے امن و امان اور محبت کے دلنشین نغمے گاکر اپنی تہذیب و ثقافت کی جڑیں نئے سرے سے تلاشنے کی سعی کرتا ہے تو کبھی بھیگی رتُوں کا نوحہ خواں بن کر بیکسی ، مظلومی ، مجبوری اور لاچاری کے پُر نم اور پُر شور نالے فضائے بسیط کو سونپ دیتا ہے۔حقانی القاسمی کے ا لفاظ میں؛
’’فریدؔپربتی اپنے شعری طریق اور تخلیقی اظہارمیں وحیدوفریدہیں۔انہیںشعری روایت کی جمالیات کی آگہی ہے اورانسانی اقداروروایات کا عرفان بھی ہے۔دردوغم ان کی شاعری کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔اس لیے ان کی شاعری میںوہ ساری آوازیں مل جاتی ہیںجو کسی ٹوٹے ہوئے زخمی دل سے آ ہ کی صورت ابھرتی ہیں۔‘‘
(فریدؔ پربتی۔ فرید نامہ۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوسـ‘دہلی۲۰۰۳۔ص۱۲۹۔۱۳۰)
نمونہ کلام:۔
(۱) کم کوشُ ، سُبُک بار کہے جاتے ہیں
ہیں قند پہ تلوار کہے جاتے ہیں
دوں رائے ،حدیں پھاند لوں ، یہ ٹھیک نہیں
مجبُور ہیں ، مختار کہے جاتے ہیں۔
(۲) واقف میں ہر اک خواب کی تعبیر سے ہوں
میں حُسن ہوں اور حُسن کی جاگیر سے ہوں
کہتے ہیں مجھے یوسفِ ثانی مرے دوست
کنعَاں سے نہیں ، وادیٔ کشمیر سے ہوں۔
صنفِ رُباعی میں انفرادی لَے اور رومانی لَمس کے حوالے سے گھر آنگن کے حسبِ حال کو پیش کرنے والے شاعر مسعودساموںؔ کا شعری مجموعہ ’’سخن ہائے آشنا‘‘( ۲۰۱۶ء )کے نام سے شائع ہو چکا ہے اس میں ۳۱ رُباعیاں شامل ہیں۔جو روانی اور شعریت کے حُسن سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔اپنے فن کے بارے میں خود فرماتے ہیں۔ ؎
اک بات میں برسوں کی کہانی کہنا
رُک رُک کے گہے گہے روانی کہنا
آساں ہے مجھے حُروُف ِابجد کی طرح
ہر چند کہ مشکل ہے رُباعی کہنا
ساموںؔ کی رُباعیوں میں یادِ ماضی ایک کھنڈر کی صورت اختیار کرتی ہے ۔بیتے لمحوں کی یادیںاوران یادوں کی دھیمی دھیمی آنچ شاعر کو نہ صرف محبتوں کی ڈسنے کی چہکار ، لرزتے آنسو، سرد سناٹے ، عجز بیانی، دلِ پریشان کے لئے سامانی ٔ پشیمانی کی تلاش اور ترک ِ تعلق کو بندھن لکھنے پر مجبور کر دیتی ہے نیز سرد راہوں کا لہو،خوف کی کالی گھٹائیں اور لبوں پہ خاموشی کی مہر بھی شاعر کے نہاں خانہ کو غم خانہ بنا دیتی ہے جس سے شاعر کی شعری کائنات میں ایک طرح کی آہستگی ،قاعدہ بند حُزن ،شُورش اور سیاسی جبر کا سا احساس ہونے لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شاعر ِفنِ شعرکو محض حکایتِ جان نہیںبننے دیتا ہے بلکہ اسے حدیثِ جہاں کا آئینہ بھی بنا دیتا ہے۔
نمونہ کلام: (۱) اک عمر کا انجام یہ ڈھلتا منظر
یہ آخری لمحات یہ جلتا منظر
یادوں کی بس اک آنچ دھیمی دھیمی
برف، آنسو، خلا پگھلتا منظر
(۲) کیا علم کہ کب کس کو چُنے ہے جنگل
ہاں کب سے مرے سر پہ اڑے ہے جنگل
کہتا ہوں کہ اے کاش نہ اُپجا ہوتا
ہر لمحہ نیا سر پہ اُگے ہے جنگل
ریاست کے منجھے ہوئے شاعر رفیق رازؔ نے کشمیری زبان کے علاوہ اُردو زبان میں بھی اپنے خیالات و جذّبات اور تجربات و مشاہدات کو زبان دی ہے۔غزل، نظم کے علاوہ رُباعی کے خم کا کل کو بھی سجانے سنوارنے میں مصروفِ کار ہے۔ ان کے جذّبات و خیالات کے تین مجموعے ’’ انہار ‘‘ (۲۰۰۴)، ’’مشراق‘‘(۲۰۰۹)، اور ’’ نخل آب ‘‘ (۲۰۱۵)کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔
رفیق رازؔ کے یہاں ہر نوعیت کی رُباعیاں ملتی ہیں۔حمدیہ،نعتیہ، تصوف ،عشق و مستی، اخلاقی وغیرہ ۔ یہ رُباعیات ز خمی رُوح ،اُمیدوں کی گوشہ نشینی، بے چہرگی اور دشتِ ذات میں آویزاں خوابوں کی دستاویز ہیں ۔وجودیت کی بُو باس کی ساتھ تہذیبی صورتحال اور ذاتِ باری کی عظمت کا احساس بھی رُباعیات کا حصّہ دار ہے۔ موضوع کلاسیکی ہو کے بھی جدید ہے صلاحیتوں کی سر گوشیاں بھی نمایاں ہیں۔
نمونۂ کلام:۔
(۱) منزل کی کشش اس کی دشمن ہے بہت
ٹوٹے گا بکھر جائے گا الجھن ہے بہت
شیشے کے مسافر نے سوچا ہی نہ تھا
سفاک سیہ جادۂ آہن ہے بہت
(۲) روشن کیوں تھا یہ دشت امکاں رات
یہ پیڑ یہ سائے کیوں تھے حیراں رات
جنگل میں فقیر تو کئی ہیں لیکن
شعلہ کس کی سوچ کا تھا رقصاں رات
ریاست میں فریدؔپربتی کے مشن کو آگے بڑھانے والاشاعر سلیم ساغرؔ نوجواں نسل کے نمائندہ شاعر ہے ۔اب تک ان کی شاعری کے دو مجموعۂ غزلیات ’’ انتظار اور سہی‘‘ اور ’’ وِجدان‘‘ اور ایک مجموعہِ رُباعیات ’’ رقصِ طاوس‘‘ کے نام سے منظر ِ عام پر آچکا ہے۔ ساغرؔ صنفِ رُباعی کے ماہر شاعر ہے وہ اس صنفِ سخُن کی فنی باریکیوں سے بہ احسن واقفیت رکھتے ہیں۔اس کی عمدہ مثال ان کی رُباعیات ہیں۔اس فن میں ریاضت کی کیا اہمیت ہے فرماتے ہیں:۔ ؎
اک زخم کو صدبار ہے سینا لازم
پانی کی طرح آگ ہے پینا لازم
آجائے گی قابو میں رُباعی لیکن
اک عمر ریاضت میں ہے جینا لازم۔
سلیم ساغرؔ کی رُباعیات کا موضوعاتی کینواس نہایت ہی وسیع ہے جس کا سر چشمہ شاعر کی ’’شاعرانہ تنہائی‘‘ ہے ۔ان کے یہاں حمدیہ اور نعتیہ رُباعیات بھی ہیں ۔محبت کی مہک اور جوروستم سے لبریز رُباعیات بھی۔ قومیت ،خوابوں اور تمناؤں کا قتلِ عام،یادوں کی پرچھائیاں ،مستقبل کا خواب ،احساس کی شدت، تڑپ کی لذت،زخمِ جگر پر کارِ ستم،محرومیت اور فرقت کے علاوہ کلاسیکی ہجر کی بازیافت بھی رُباعیوں کے موضوع ہیں۔
اخلاقی تناظر میں لکھی گئی رُباعیات میں یادِ خُدا ،خوفِ خُدا،خلوص،سچائی،انسان دوستی،نیک نیتی،صبر ،نیک اعمال اور ہمدردی کی تلقین ملتی ہے۔حسد ، جھوٹ، فریب،احسان جتانا،تکبر وغیرہ جیسے کاموں سے پرہیز کادرس بھی ہے۔نیزّ سماجی تناظر کے تحت لکھی گئی رُباعیوں میں اکثر جگہوں پر شاعر کا لہجہ طنزیہ اور سوالیہ ہوجاتا ہے۔شاعر شبِ تاریک کے سحر ہونے میں جنت کے جلنے اور دوزخ کے مہکنے کی روُداد کے ساتھ پابندہ ٔزنجیر ،پامال اور رُوبۂ زوال نصیب کے نالے ہر حلقۂ گوش کے کانوں تک پہنچانا چاہتا ہے جس سے ایک سمت جہاں حاکمِ شہر شاعر کی تیر کے شکار ہوجاتے ہیں وہیں دوسری جانب بنجر سوچیں بھی ہدفِ تنقید کا نشانہ بن جاتی ہیں۔
مقامی یا نجی زندگی کے معاملات جیسے ۲۰۱۴ء کے سیلاب کی تباہ کاریاں ،ماں کی عظمت ،بیٹی کی پیدائش کے موقعِ پر خوشی کا اظہار جیسے موضوعات پر بھی رُباعیاں موجود ہیں۔اُردو زبان کی عظمت کے ساتھ ساتھ اُساتذۂ فن جیسے فریدؔ پربتی اور شبیر آذؔر کی فنکارانہ عظمت کا اعتراف بھی رُباعیات کا حصّہ ہے۔
سلیم ساغرؔریاست کے پہلے رُباعی گو شاعر ہیں جنہوںنے چھ(۶)رُبا عیات میںصنفِ رُباعی کے چوبیس(۲۴) اوزان کوبڑی ہُنر مندی سے استعمال کیا ہے ۔ریاست کی اکثر شاعری کا تخلیقی اظہارکا نظام علامتی پیرائے میں ہی سا منے آتاہے لیکن سلیم ساغرؔاس حد بندی کو پھلانگتے ہوئے تخلیقی اظہار کابراہِ راست پیرایہ اختیار کرتے ہیں۔احتجاج اور مزاحمت کا رنگ گہرا اورلہجہ زیادہ تیکھا ہوجاتا ہے البتہ مکمل تخلیقی جواز اور فنی گدازشاعر کا ساتھ بہت دُور تک نبھاتے ہیں۔ ساغرؔ کی رُباعیات میں روانی ،معنوی حُسن ،سادگی،رنگِ تغّزل، برمحل الفاظ کا استعمال کے علاوہ کلاسیکی لفظیات کا نئے معنوی تناظر میں استعمال جیسی خصوصیات بدردجہ اتم موجود ہیں۔
نمونہ کلام:۔
(۱) آنکھوں سے مری اشک چُرانے آجا
کچھ پل کو ذرا پھر سے ہنسانے آجا
فرقت میں مری جان پہ بن آئی ہے
آپاس مرے، کسی بہانے آجا
(۲) اک ڈھونگ رچائیں ابھی چل کر دیکھیں
بستی سے کہیں دوُر نکل کر دیکھیں
کیا رائے ہے دُنیا کی ہماری نسبت
آجائیں کوئی رُوپ بدل کر دیکھیں
میرؔاور غالبؔ کی شعری روایت کے امین شاعر جگمیت نوــربو، خیال لداخیؔ کے تین شعری مجموعے ’’ابتدائے خیال ‘‘ (۲۰۱۳)، ’’دیوانِ خیال‘‘ (۲۰۱۵) اور ’’آزارِ خیال‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ خیالؔ کا ایک اور شعری مجموعہ ’’ اظہارِ خیال ‘‘ اور علمِ عروض پر مبنی کتاب ’’ قاعدہ ٔسخن ‘‘ بھی زیرِ طباعت کے مراحل سے گزر رہی ہے۔خیالؔ لداخی نے تقریباً ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اگر چہ ان کی طبیعت کا زیادہ میلان غزل کی جانب ہے لیکن ان کی رُباعیات بھی فکر وفن اور زبان کے لحاظ سے پڑھنے کی چیز ہے۔
خیالؔ لداخی حیات وکائنات کے مختلف پہلوؤں کو سوز ساز بنا کر رُباعی میں پیش کرتا ہے۔ درد کے سائے میں آکر شاعر اپنی فکر کا دائرہ سر شاری اور سر مستی کے ساتھ انسانی رشتوں کی پاسداری ،اخُوت ،دردمندی، محبت اور عرفانِ ذات کے سنگ گوندھ دیتا ہے۔ ذاتی مسائل اور خارجی زندگی کی معرکہ آرائیوں سے گھٹُن محسوس کر کے شاعر کا لہجہ حزُن پرست اور طنزیہ ہوجاتا ہے جس سے ان کے ہاں تنقید ِ حیات کا عنصُر شدت اختیار کرتا ہے۔تیز دُنیا کی بے ثباتی ،حبُِ وطن، سیاسی بدحالی ،خُدا کی شان و شوکت ، محروم کُن حالات ،اَمن اَمانی وغیرہ اان کی رُباعیوں کے اور دیگر موضوعات ہیں۔
نمونۂ کلام:۔
(۱) اک رات میں خورشید بھی ویراں ہوجائے
ممکن ہے کہ ہر سنگ بھی انساں ہو جائے
اس عہد میں اب کوئی نہ جانے ہے خیالؔ
کب کون سی شئے موت کا ساما ں ہو جائے
(۲) کاندھوں پہ مصیبت کی پٹاری اے دل
مشکل میں گذرنی تھی گزاری اے دل
معلوم نہ تھا ہے یہی دُنیا کا نظام
آزاد کے بازار میں زاری اے دل
قتیلؔ مہدی کا شمار بھی ریاست کی نئی نسل کے شعراء میں ہوتا ہے۔ حمد، نعت، منقبت،گیت،غزل کے علاوہ انہوں نے صنف ِرُباعی پر بھی خامہ فرسائی کی ہے ۔’’رداِ بردوش‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ جلد ہی منظر عام پر آنے والا ہے۔
تصّوف اور فلسفۂ اخلاق، ان کی رُباعیوں کا بنیادی موضوع ہے۔ صحافت سے وابستگی کی بنا پر اپنے ماحول اور اطراف کی ریشہ دوانیوں کی بھر پور آگہی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ شاعر باطن کی سُراغ رسانی میں کھو کر اپنے وجود ہی کو تشکیک کی دہلیز پر کھڑا کر دیتا ہے جہاں سے حُسن کی مئے کشی،عرفانِ حق، شبیری ،اُمید ویاس،نیکی اور بدی کی آویزش جیسے موضوعاتی سر چشمے شاعر کے لیے جلوہ گر ہو جاتے ہیں۔
نمونہ کلام :۔
(۱) ظاہر ہے جو کثرت میں وہی ایک تُو ہے
مستور بھی وحدت میں وہی اہک تو ہے
پھرتا ہے بکھرتا بھی ستاروں میں وہی
سمِٹا شبِ ظلمت میں وہی ایک تو ہے
(۲) پیچیدہ مسائل کو ہے تدبیر دوّا
اور ردِّ مصیبت کو ہے تکبیر دوّا
ظالم تجھے خُو کارِ یزیدی سے ولیک!
مظلوم ہوں مجھ کو غم ِ شبیرؓ دوّا ۔
عارضؔ ارشاد اور عاصم ؔاسعدی بھی ریاست میںصنفِ رُباعی کے دو اہم نام ہیں۔ دونوںشعرا ء کے یہاںبھرپورامکانات کی گنجائش ہے۔نمونہ کے طورپران کی ایک ایک رُباعی پیشِ خدمت ہے:
؎ تعلیم ہے شبیر کی سر خم نا کر
ہوظلم بھی ازحدتوکوئی غم ناکر
اللہ سے راضی تو مکمل ہوجا
پھر حق پہ ملے موت تو ماتم نہ کر۔ (عارضؔ)
جھانسے میں آرہے ہیں معصوم یہاں
ہر فکر او ر زاویہ ہے معدوم یہاں
خاکوں میں ر نگ بھرتے ہیں غیروںکے
ہے حق و صداقت کسے معلوم یہاں۔ (عاصمؔ)
کلام ِحاصل ،ریاست میں صنف ِ رُباعی کو جہاں کلا سیکی شعرا نے آبیاری کی وہیں جدید دور کے شعرا نے بھی حیات و کا ئنات کے مسائل کو موضوع بناکر پیش کیا۔یہی وجہ ہے ریاست میں اس صنف کا مستقبل ہمیں تابناکی کی راہ پر گامزن نظر آتا ہے۔