ریاض عادل : ہم نے چراغ کو سورج بنتے دیکھا ہے

\"\"
٭پروفیسر اسلم جمشید پوری
\"\"
مشرقی دہلی کی ایک مشہور کالونی ہے یمنا وہار ۔اس کالونی سے متصل شمالی گھونڈہ،نورالٰہی، موج پور، وجے پارک ، برج پوری علاقوں میں کثیر مسلم آبادی ہے ۔اس مسلم آبادی کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گذشتہ 20-25 برسوں سے جو اقلیتی ادارے سرگرم عمل ہیں ان میں الفلاح اسلامک اسکول، سیفی پبلک اسکول اور مجیدیہ ماڈل اسکول خاص ہیں۔ ان میں موجی خان کے انتقال کے بعد سیفی پبلک اسکول تو آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتا گیا۔ الفلاح اسلامک اسکول ، جماعت اسلامی کے اداروں کی شاخ ہے اور مستقل خدمت خلق میں مصروف عمل ہے۔ اس سلسلے میں مجیدیہ ماڈل اسکول کی تعریف کرنی ہوگی کہ ہر گذرتے برس کے ساتھ یہ بڑا ہوتاگیا ۔ ایک اسکول کس طرح، تحریک میں تبدیل ہوتا ہے ، دراصل جب ذاتی مفاد پر عوامی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے اورجب قوم کے نونہالوں کو اپنی اولاد جیسا سمجھتے ہوئے ان کی تعلیم و تعلم کو اہمیت دی جاتی ہے تو پھر تعلیمی ادارے ، تحریک بن جاتے ہیں۔ دوسرے تحریک کا مرکز کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت ہوتی ہے ، جسے قوم کی فکر ہوتی ہے جو اپنا سب کچھ قوم کی خاطر قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتی ہے اور قوم کے مستقبل سنوارنے کے لیے منصوبہ بند اقدام کرتی ہے۔ اس پس منظر میںاگر ہم ماضی پرنظر ڈالیں تو مصلح قوم سرسید احمد خاں اور حکیم عبدالحمید جیسی شخصیات منور ماہتاب کی مانند ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ ان شخصیات کی قربانیاں اظہرمن الشمس ہیں ۔ خصوصی طور پر سرسید علیہ الرحمہ نے قوم کی تعلیمی اورسماجی حالت کے پیش نظر جو تحریک چلائی تھی وہ دوررس نتائج کی ضامن تھی۔ اسی تحریک کا نتیجہ نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے بلکہ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں شمالی ہندوستان میں قائم ہونے والے سینکڑوں تعلیمی ادارے ہیں، جن سے علم و فن کا فیوض اب تک جاری ہے اور ہر روز نئے چراغ روشن ہو رہے ہیں۔ سرسید احمد خاں کی تحریک کو اپنا مقصد حیات بنانے اور موجودہ عہد میں قومی تحریک شروع کرنے والے ایسے افراد میں مجیدیہ ماڈل اسکول کا قیام کرنے والے محترم ریاض عادل کا بھی شمار ہوتا ہے۔ انہیں سرسید کا سچا جاں نشین کہا جائے تو ، غلط نہ ہوگا۔
1987ء میں گھونڈہ(مشرقی دہلی) جیسے علاقے میں ایک چھوٹے سے مجیدیہ ماڈل اسکول نامی پودے کی تخم ریزی ریاض عادل اور ان کے والد عبدا لمجید کی کاوشوں سے ہوئی۔ ایک بات اور واضح کردوں کہ محترم عبدالمجید (مرحوم) ایک مدرس تھے۔ وہ میرٹھ میں ایک سرکاری پرائمری اسکول میں صدر مدرس تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ ان کے تینوں بیٹے پرائمری اسکولوں کے مدرس بنے۔ پھران کے بچے بھی درس و تدریس میں آگے آئے۔ یو ں کہا جائے تو عبدالمجید کا خاندان ، درس و تدریس کو اپنا پیشہ بناتے ہوئے ،اسی کے لیے پورے علاقے میں مشہور ہو گیا۔ ریاض عادل (جنکی پیدایش باغپت کے ایک گائوں میںہو ئی اور ابتدائی تعلیم میرٹھ میں ہوئی) جو خود ایم سی ڈی پرائمری اسکول میں مدرس تھے، نے قوم کی تعلیم کی خاطر ایک چھوٹے سے ادارے کا قیام کیا۔ آ ج کل اسکول آپ کو ہرگلی محلے میں مل جائیں گے۔ اسکول کھلتے ہیں، کچھ برس بزنس کرتے ہیں اور بند بھی ہو جاتے ہیں۔ یا پھر استحصال کا مرکز بن جاتے ہیں۔ مجیدیہ ماڈل اسکول کی شروعا ت ضرور عام اسکولوں کی طرح ہوئی مگر بہت جلد اسکول نے اپنی انفرادیت کے سبب الگ شناخت قائم کر لی۔ صرف دس سال کی محنت میں ہی 1997ء میں اسکول کا دس سالہ جشن منایا گیاتو اسکول انتظامیہ میں عوامی نمائندے، تعلیم و تدریس سے وابشتہ افراد کی شمولیت نے اسکول کو عوامی تحریک میں تبدیل ہونے کے اشارے دے دیے تھے۔ اسکول علاقے کی پسند بننے لگا۔ آس پاس الفلاح اسلامک اسکول اور سیفی پبلک اسکول پہلے سے مستحکم (Well established) ادارے موجود تھے۔ لیکن مجیدیہ ماڈل اسکول کا عوامی تحریک بننا اوراس سے منسلک افراد کی صاف سماجی شبیہ اور نیک بینی نے اسکول کو عوام تک پہنچانے میں خاصی مدد کی ۔اسکول کی آمد کا ایک پیسہ بھی ریاض عادل اپنے ذاتی مصرف میں نہیں لیتے تھے۔ جبکہ وہ ایسا کر سکتے تھے۔ وہ کثیرولاد ہونے کے باوجود ایسا نہیں کرتے تھے۔ گھر کے اخراجات کو ان کی اپنی سرکاری نوکری کافی تھی کہ وہ کفایت شعاری۔ کو اپنا نصب لعین مانتے تھے۔ اسکول کی ساری آمد اسکول پرہی خرچ ہوا کرتی تھی۔ ریاض عادل نے اپنے گھروالوں پر یہ عیاں کردیا تھا کہ اسکول اور اس کی آمدنی پر آپ لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے۔ جب دل صاف اور نیت ایسی ہو تو عوام کا ساتھ بھی ملتا ہے اور اللہ کی مدد بھی آتی ہے۔
1996ء سے میری ریاض عادل سے ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے بھی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی اور پھر ہم لوگوں نے ساتھ مل کر اسکول کا شاندار دس سالہ جشن منایا۔ مختلف منصوبے بنائے گئے۔ ایک آدھ سال ہی میں ہماری ملاقات، بھروسے اعتمادد اور قومی جذبے کے بل بوتے مضبوط ہوتے ہوئے دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ 1998ء میں ایک موقع ایسا آیا کہ مجھے اسکول کے مینجر کے عہدے کی پیش کش ہوئی، جبکہ میں اسکول کی کمیٹی میں رکن کی حیثیت سے شامل تھا۔ میں نے اسے ایک جیلینج کے طور پر قبول کیا اور بغیر کسی مشاہرے کے خدمت خلق کی خاطر اسکول میں بطور مینجر جوائن کر لیا۔ تحریک کو مزید شدت سے آگے بڑھایا۔ ہم لوگوں نے تجربے کے طور پر اسکول میں قرآن ناظرہ کو اسکول کے نصاب کا حصّہ بنایا۔قاری اور حفاظ رکھے گئے اور روزانہ ہر کلاس میں ایک پیریڈ قرآن کا شامل کیا گیا۔ یہ بھی طے کیا کہ اسکول سے پانچویں مکمل کرنے والے ہر طالب علم کو قرأت قرآن آجائے اور وہ ناظرہ مکمل کر لے۔ لہٰذا پانچویں کے بعد ایسے طالب علموں کے لیے عوامی جلسے کرکے انہیں قرآن بھی تقسیم کیے گئے۔
اسکول میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے نئے نئے تجربات کئے گئے۔ دراصل اسکول کا مشن وہی تھا جو سرسید نے ہمیں دیا تھا یعنی ایک ہاتھ میں قرآن ، ایک ہاتھ میں سائنس اور سرپر لاالہ اللہ کا تاج۔ اسکول سے تحریک بن چکا مجیدیہ ماڈل اسکول، اس مشن کے ساتھ علاقے کا محبوب ادارہ بن گیا۔ 1987 ء میں اکیلے ریاض عادل نے جو کوشش کی تھی ، وہ اب کا رواں کی شکل اختیار کر گئی تھی بقول مجروح سلطان پوری:
میں اکیلا ہی چلا تھا جائب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
شریک ِ حیات یاسمین ریاض، ماسٹر علی شیر سیفی، ڈاکٹر علیم اشرف، سید سبط حسن، محمد ضیاء اللہ ، حافظ فتخاار الحسن ،محمد حسین انصاری ، معین الدین وغیرہ کی شکل میں قافلہ تشکیل پاتا گیا۔ بعد میں ڈاکٹر الیاس ،جسٹس فخرالدین، ڈاکٹر پرویز میاں، کلیم الحفیظ، ایڈوکیٹ محمد سلیم، ڈاکٹر راحت مظاہری، ماسٹر نثار احمد، معین اختر انصاری وغیرہ کی شرکت نے تحریک کو بڑا کینوس عطا کیا۔ اس صدی کی شروعات میں مجیدیہ اسکول کی نئی کشادہ عمارت کا سنگ بنیاد فخر ملّت محترم ڈاکٹرمفتی محمدمکرم ،امام فتح پوری مسجد، کے ہاتھوں رکھا گیا۔ ایک سے دو ادارے ہوئے تو تحریک میں مزید فعال لوگ شامل ہوتے گئے۔ ریاض صاحب نے اپنی حکمت ِ عملی سے نئے منصوبے بنائے۔ جدید فاؤنڈیشن ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا، ساتھ ساتھ Supur thirty نام کا گروپ تشکیل پایا۔ یہ وہ لوگ تھے جو سماج میں اپنی علمی و قومی خدمت سے پہچانے جاتے تھے۔ کام کو آسانی سے کرنے کے لیے متعدد ذیلی کمیٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔چیئر مین ، سکریڑی اورتین ممبران پر مشتمل مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لیے کمیٹیاں بنیں۔(1 ) العلم فاؤنڈیشن فار ایجو کیشن کمیٹی کے تحت طالب علم اورعوام کے تعلیمی مسائل ، اسکالر شپ ، مقابلہ جاتی امتحانات اور طلبہ کو مختلف سمتوں کے لیے تیار کیا جانے لگا۔ (2) پبلک ویلفیر اینڈ سوشل جسٹس کمیٹی کے تحت سماجی مسائل، عوامی پریشانیاں اورسماجی انصاف کے لیے کام شروع ہوا۔ گذشتہ دہلی فسادات اورکورونا کے مشکل ترین دور میں کمیٹی نے عوام کی ہر ممکن مدد کی۔ پانچ سو سے زائد مہینے بھر کے راشن کے پیکیٹ کی تقسیم کے علاوہ روزانہ 300 انتہائی غریب لوگوں کو دودھ مہیا کر ایا گیا۔ (3) فروغ اردو اور عربی زبان کمیٹی کے تحت اردو کے فروغ کے منصوبوں پر عمل در آمد اور آسان عربی کے ذریعہ قرآن فہمی کو عام کیا گیا۔ اردو کے مختلف پروگرام ، جلوس، مقابلے وغیرہ کا سال بھر انعقاد کمیٹی کرتی رہتی ہے۔ (4) فروغ دین و اصلاح معاشرہ کمیٹی کے تحت شادیوں کو کم خرچ بنانے ، بارات میں شرکت سے گریز اور اسلامی طریقوں کو رائج کرنا۔ کمیٹی نے دو بہت اہم کام انجام دیے۔ شادیوں کو کم خرچ بنانے کے لیے’’شادیوں کو نکاح بناؤ‘‘ کا نعرہ دیا گیا۔ یعنی نکاح اور ولیمے کے علاوہ غیر اسلامی رسومات کا بائیکاٹ ، نکاح کے دستاویز کو زیادہ عوامی اورشفاف بنانے کے لیے ’’جدید جکاح نامہ رجسٹر‘‘ بنوائے گئے، جن میں دولہا ، دلہن ، وکیل اور گواہان کے آدھار نمبر ، تصاویر اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی ہراندراج۔ کو یقینی بنایا گیا۔ کمیٹی کی اس پہل کا دہلی اور اطراف میں خاصا استعمال ہوا اور نئے نکاح رجسٹر کمیٹی کی طرف سے شائع کروا کے مفت فراہم کرائے گئے۔ (5)ایجو کیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کمیٹی کے تحت نئی نئی معلومات ، اسلامی تاریخ اور بزرگوں کے احوال شائع کرنے کے علاوہ مختلف ٹریننگ کیمپ لگائے جاتے ہیں۔درجنوں کتابچے اور کتب شائع کی گئیں،جن میں عام معلومات سے لے کر دینی معلوموت اور مذہبی امور کے تعلق سے بہترین مضامین شامل تھے۔ گذشتہ تیس پیتس برسوں میں مجیدیہ سے جدید فاؤنڈیشن ٹرسٹ کی شکل میں ایک چھوٹے سے اسکول سے تحریک بننے والے ادارے نے مشرقی دہلی کے لیے نمونے کا کام کیا۔ شمالی گھونڈہ ،نور الٰہی ، برج پوری علاقوں میں چھوٹی چھوٹی لائبریری قائم کی گئیں۔ ایک ماہانہ رسالہ’ مجیدیہ ٹائمز‘ ، کا اجرا عمل میں آیا۔جو اردو ہندی اور انگریزی میں بیک وقت پابندی سے شائع ہوتا ہے ۔ کمیٹی نے ہریالی لانے کے لیے خود بھی کام کیے اورعوام میں بیداری مہم بھی چلائی۔ مختلف اداروں (یوپی رابطہ کمیٹی) کے ساتھ مل کرتعلیمی کارواں نکالے گئے۔دہلی اوراترپردیش کے علاوہ ملک کے مختلف صوبوں میں کارواں کے تحت تعلیمی بیداری کا کام مستقل کرتے ہیں۔ اسکالر شپ کے امتحانات منعقد کرائے گئے اور ضرورت مند اور ذہین طالب علموں کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ۔
ایک چھوٹے سے اسکول سے شروع ہونے والا ادارہ آج، مجیدیہ ماڈل اسکول ، مجیدیہ پلے وے اسکول ، مجیدیہ پری نرسری اسکول، مدرسہء جدید( خود کفیل اسلامی مدرسہ)، سلائی مراکز، جیسے نصف درجن اداروں میں پھیل چکا ہے۔ ادارے سے فارغ طلبہ روزگار بھی پا رہے ہیں۔ ساتھ ہی تحریک کے ممبران کی تعداد میں روز افر وں اضافہ ہو رہا ہے۔ سماجی خدمات میں بھی ادارے نے نئے سنگ میل قائم کر رہے ہیں ۔
ایسا کب ہوتا ہے؟ جب ارادے مضبوط ، نیت صاف، مقصد واضح اورسب سے ضروری بات ایک سچا اور ایمانداررہبر ساتھ ہو۔ ریاض عادل نے پوری ایمانداری سے اسکول اور تمام اداروں ، کمیٹیوں کوNO Profit No loss کی بنیاد پر قائم رکھا ہے۔ جو بھی آمدنی ہے، وہ اداروں کے فروغ میں ہی صرف ہوتی ہے۔ ریاض عادل ، جن کی محنت اور عدل پسندطبیعت نے سرسید کے خوابوں کو پورا کیا ہے۔ ہم نے ایک ریاض عادل کو اپنے علاقے کا سرسید بنتے دیکھا ہے۔ لیکن افسوس اتنی پیاری اور قوم کی فکر کرنے والی شخصیت کو گذشتہ دنوں کورونا نے ہم سے چھین لیا۔بے شک ہم سب کو اسی خدا کی طرف واپس جانا ہے ۔آج ریاض صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ مگر وہ اپنے حصّے کا بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ کام وہ کر گئے ہیں۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کے ساتھ روز گار تک بھی پہنچا گئے ہیں۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کی وہ کوشش جو تحریک بنی ،کو ہم اپنے لہو سے سینچ کر زندہ رکھیںیہی ریاض صاحب کو سچا خراج ہوگا اورتحریک کے مقاصد کا حصول بھی ۔جدید فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے سبھی ٹرسٹی اور سپر 30 جو ریاض صاحب کی زندگی ہی میں سپر 36 میں تبدیل ہو گئی تھی کے سبھی اراکین، مل کر ادارے کو آگے بڑھائیں۔ اور ہر کمیٹی اپنا اپنا کام ایماندارانہ طور پر انجام دے۔ ہمارے یہ کام ہی مستقبل میں ریاض عادل کے خوابوں کی تعبیر ثابت ہوں گے۔ آنے والی نسلیں جب ہم سے پوچھیں گی کہ تم نے ریاض عادل کو دیکھا تھا تو ہم کہہ سکیںکہ ہم نے چراغ کو سورج بنتے دیکھا ہے۔ایسا سورج جو یاسمین ریاض،صفدر ریاض،مدثر ریاض،کہکشاں ریاض،ڈاکٹر باقر ریاض،سمییہ ریاض،کے علاوہ سینکڑون دوستوں،ٹرسٹ کے اراکین،اسکولوں کے ہزاروں طلبہ و طالبات اور بے شمار چانے والوں کے دل و دماغ میں ہمیشہ روشن رہے گا۔
٭٭٭

Leave a Comment