ریختہ کی جانب سے لفظ ہندوستانی استعمال کرنے پر ابرار مجیب کے تاثرات

\"\"
٭ابرار مجیب،نئی دہلی

کچھ باتیں اتنی اہم ہوتی ہیں کہ خاموش رہنا ایک جرم کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ میں ان دنوں فیس بک سے دور ہوں اور بے حد مصروف ہوں لیکن اردو زبان کو لے کر ادارہ ریختہ کے تازہ مشن کے پسِ پردہ موجود محرکات پر مخالفت اور شک کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ گو کہ اردو کی بجائے اس زبان کے لیے لفظ ریختہ کا استعمال جوکہ متروک ہے کرنا ہی اپنے آپ میں کئی سوال کو مہمیز دیتا ہے۔ ابتداء میں کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی، ہمارے کان کھڑے نہیں ہوئے اور ہم جشنِ ریختہ میں جلوہ افروز ہوتے رہے۔
اردو زبان اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ اسم \”اردو\” سے ساری دنیا میں جانی، پہچانی اور استعمال کی جاتی ہے۔ ہندوستانی یا ریختہ لفظ کا استعمال اس زبان کو ان کے لیے بھی اجنبی بنادے گا جو اسے روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ مثلا\” کسی شاعر سے یہ کہیں کہ ہندوستانی کا کوئی شعر سنائیں تو وہ پوچھے گا کہ کون ہندوستانی؟ راجا ہندوستانی یا رانی ہندوستانی؟ ایک عجیب مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوجائے گی۔
اس ضمن میں فاروقی صاحب نے اپنی کتاب قدیم اردو میں بہت منطقی بحث کی ہے اور ان کا موقف صاف ہے کہ اردو کا نام نہ تو ریختہ ہوسکتا ہے نہ ہی ہندوستانی۔ نارنگ صاحب کو اس ضمن میں اپنا موقف صاف کرنا چاہئیے۔ ویسے فاروقی اور ننارنگ دونوِں ہی صراف صاحب کے جشن میں رونق افروز رہے ہیں۔ شمیم حنفی اور ان کے بعض شاگرد ریختہ سے گہری وابستگی رکھتے ہیں اس لیے یہ ان کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ ادارہ ریختہ سے وضاحت طلب کرکے اردو دنیا میں بنتی شک کی فضا کا سدباب کریں۔
مہاتما گاندھی نے اردو اور ھندی دونوں کا مشترکہ نام ھندوستانی تسلیم کیا تھا۔ بنیادی طور پر سوائے رسم الخط اور فارسی، عربی اور سنسکرت الفاظ کے استعمال کے دونوں زبانیں ایک ہی ہیں کیوں کہ ان کی گرامر ایک ہے۔ اگر دونوں زبانوں کو مشترکہ طور پر ھندوستانی کہا جائے تو ھندوستانی سیاست کے پیدا کردہ لسا نی آویزش اور منافرت کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ گاندھی کے مشورے کو مانے گا کون، حالات یہ ہیں کہ سادھوی پرگیہ ٹھاکر اور ہندوتوا کے علم بردار ناتھو رام گوڈسے کے پجاری ہیں۔ اس لیے یہ مشورہ قابل عمل ہی نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ریختہ جشنِ اردو منا رہا ہے یا جشن ہندوستانی۔ اگر جشن ہندوستانی یعنی ہندوستانیوں کا جشن تو بات قابل اعتراض نہیں لیکن اگر ریختہ ہندوستانی اردو زبان کے نعم البدل کے طور پر استعمال کررہا ہے تو بات یقینا\” قابل گرفت ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ ریختہ سے وضاحت طلب کی جائے یا ریختہ خود واضح کرے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ ریختہ کے لیے کام کرنے والے زیادہ تر لوگ اردو کے شاعر اور ادیب ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ اردو کا نام تبدیل کرنے کے حامی ہوں گے۔ بائی کاٹ اور نعروں کی باتیں کرنے کی بجائے ضروری ہے کہ ریختہ سے رابطہ کرکے معاملہ صاف کیا جائے۔

Leave a Comment