ریختہ کے بانی جناب سنجیو صراف کے نام شاہد حبیب فلاحی کا کھلا خط

\"\"
شاہد حبیب فلاحی

محترمی و مکرمی جناب سنجیو صراف صاحب

آداب
امید کہ بخير و عافیت ہوں گے!
\"\"

جشنِ ریختہ کے منسلک پوسٹر سے علم ہوا کہ اس بار 2019 کے جشنِ ریختہ کو اردو کے بجائے ہندوستانی زبان و تہذیب کا جشن کہہ کر اس کی تشہیر کی جا رہی ہے. جس پر اہلِ اردو کے بیچ کافی ناراضگی اور بے چینی پائی جا رہی ہے. مجھے لگتا ہے کہ ایسا غلطی سے ہوا ہوگا. اگر ایسا کسی تکنیکی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے تو گزارش ہے کہ فوری اس کی اصلاح کی جائے لیکن اگر کسی منصوبے کے تحت ہوا ہے اور اس کی اصلاح نہیں ہو پاتی ہے اور جشنِ ریختہ کو ہندوستانی کے بجائے اردو زبان و تہذیب کا جشن اعلانیہ قرار نہیں دیا جاتا ہے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمیں اس پروگرام کا بائیکاٹ کرنا پڑے گا. حقیر خود بھی اس میں شریک نہیں ہوگا اور تمام احباب اور بزرگوں سے گزارش کرے گا کہ اردو کی شناخت اور اس کی بقا کے لیے لازما اس پروگرام کا بائیکاٹ کریں. بطورِ خاص مشارکین اساتذہ اور فنکاروں سے گزارش کی جائے گی کہ وہ واضح انداز میں اس کا بائیکاٹ کریں تاکہ سازش کا قلع قمع کیا جا سکے. ورنہ جیسے پریم چند کو ہندی والوں نے ہڑپ لیا اور وہ ہندی کے ادیب ہو گئے، ویسے ہی اردو کو بھی ہندوستانی کہہ کر ہندی والے ہڑپ لیں گے اور سنگھ پریوار کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہو جائے گی.

آپ کے اس طرزِ عمل کی مشرف عالم ذوقی نے ان الفاظ میں مذمت کی ہے:
\”جو زبانیں ہندوستان میں ہیں ، وہ ہندوستانی ہیں .بنگلہ ، ملیالم ، تلگو ، تمل ..کیا ان زبانوں پر ہندوستانی کا ٹیگ لگایا جا سکتا ہے ؟ کیا ان زبانوں کو یہ قبول ہوگا ؟ جب گاندھی جی نے اردو کو ہندوستانی کہا تھا ، اس وقت ماحول دوسرا تھا . فارسی کی بھی حکومت تھی .اردو قانون کی زبان بھی تھی . معاشرے میں اردو کا چلن تھا . وقت کے ساتھ ، آزادی کے بہتر برسوں میں کیا ہوا ، یہ ہم بھی دیکھ رہے ہیں . بابری مسجد فیصلہ کو دیکھیں . ملی تنظیمیں بار بار کہتی رہیں ، جو فیصلہ اے گا ، ہمیں منظور ہوگا . حکومت اور عدلیہ کو علم تھا کہ مسلمان ہر فیصلہ قبول کریں گے . اردو کے ساتھ یہی ہو رہا ہے . اردو یا ہندوستانی ؟ اردو کیوں نہیں ؟ شناخت تو اردو ہے اور اردو ہندوستان کا اسی طرح اہم حصّہ ہے ، جس طرح باقی زبانیں ہیں .بلکہ وقت کے ساتھ اردو کا گراف نیچے آتا گیا .دیگر زبانوں کا گراف بلند ہوتا گیا . یہاں تک کہ ابھی حال میں قانون کی کتابوں سے بھی اردو کو خارج کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے . اس تناظر میں حقیقت یہ ہے کہ اردو کو ہندوستانی ٹھہرانا اس بڑی سازش کا خاموشی سے حصّہ بن جانا ہے ، جس کی شروعات ہو چکی ہے . تمل ، تمل ہے .بنگلہ ،بنگلہ ہے . اردو ، اردو ہے . ریختہ نے اردو کے لئے جو کچھ کیا ، اس کی اہمیت سے انکار نہیں . لیکن نیا سیاسی ماحول اردو کے حق میں کس قدر ہے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں . اس لئے میرا اردو کے دانشوروں سے بھی کہنا ہے کہ اب اردو کو بار بار ہندوستانی کہنا بند کریں . اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی تو ہندوستانی ہونے میں کسکو شک ہے . لیکن اردو کو اردو ہی رہنے دیا جائے\” (مشرف عالم ذوقی).

امید ہے آپ میری گزارشات پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے اور جشنِ ریختہ کو اردو زبان و تہذیب کا ہی جشن بنے رہنے دیں گے. تاکہ اردو والے آپ پر اپنی محبتیں روایت کے مطابق نچھاور کرتے رہیں.
شکریہ

احترام کے تمام تر واجبات کے ساتھ
شاہد حبیب فلاحی
To,
contact@jashnerekhta.org
contact@rekhta.org

Leave a Comment