ریفریشرکورس کے شرکاء کی موجودگی میں ’’سورج :چاندنی رات میں‘‘ کارسم اجراء

عالمی معیارکی تحقیق کے لیے تحقیق کے طریقہ کارسے واقفیت ضروری۔پروفیسرتوقیراحمدخاں

\"img-20161222-wa0000\"
علی گڑھ ،(اسٹاف رپورٹر) مرکزبرائے ترقی انسانی وسائل (ایچ آر ڈی سی،اکیڈمک اسٹاف کالج) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زیراہتمام جاری ریفریشرکورس کے شرکاء کی خواہش کوملحوظ رکھتے ہوئے ’’ریسرچ میتھڈولوجی‘‘کے موضوع پرخصوصی لکچرزکااہتمام شعبہ اردوکے ریسرچ ڈویژن ہال میں کیاگیاجس کاآغاز کرتے ہوئے کورس کوآرڈینیٹرپروفیسرصغیرافراہیم نے کہاکہ گلوبلائزیشن کے اس دورمیں معیاری تحقیق پر دنیابھرمیں کام ہورہے ہیں اس لیے ہندوستان میں بھی تحقیق کے معیارکوبلندکرنے کے لیے ریسرچ میتھڈولوجی کورس کی اہمیت سے انکارنہیں کیاجا سکتا۔صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے صدرشعبہ اردو پروفیسر سیدمحمدہاشم نے کہا تحقیق بہت محنت ومشقت اوردیدہ ریزی کامطالبہ کرتی ہے۔ عہدحاضرمیں اس معیارکوبلندکرنے کے لیے جدید ذرائع مثلاًانٹرنیٹ، ای۔لائبریری،ویب سائٹ کابھی استعمال کیاجاسکتاہے لیکن خیال رہے کہ ان سے حاصل ڈاٹا(مواد)کااستعمال احتیاط کے ساتھ کیاجاناچاہیے۔ دہلی یونیورسٹی کے سابق صدرشعبہ پروفیسر توقیراحمدخاں نے کہاکہ ریسرچ کے طریقہ کار اورجدیدنقطہ نظرسے عدم واقفیت کی بنیاد پر کی گئی تحقیق معاشرہ یاادب پرکوئی تاثر قائم نہیں کرسکتی اس لیے اس کی افادیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ انھوںنے کہاکہ ریسرچ اسکالرس کوریسرچ میتھڈولوجی پرسنجیدگی کے ساتھ عمل کرناچاہیے۔ انھوںنے ڈاکٹر وکرم سنگھ کی کتاب کے اردو ترجمہ پر بھی اظہارخیال کیااور مصنف و مترجم کو مبارک باددی۔ الٰہ آبادیونیورسٹی کی صدرشعبہ اردوپروفیسرشبنم حمیدنے کہاکہ کسی بھی یونیورسٹی کی رینکنگ پر وہاں ہورہی ریسرچ کابہت اثرپڑتاہے۔ ریسرچ کاکام یونیورسٹی کی شناخت کاسبب ہوتاہے۔ انھوںنے وکرم سنگھ کی کتاب پر پرمغز گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ریسرچ کرنے والوں کواس کے اعلیٰ معیارکی طرف توجہ ضرورکرنی چاہیے۔ کورس کے شرکاء کی خواہش کوملحوظ رکھتے ہوئے معروف ہندی ادیب وشاعر ڈاکٹروکرم سنگھ (آرٹی اوعلی گڑھ)کے تحریرکردہ سفرنامہ ناروے ’’سورج چاندنی رات میں‘‘اردوترجمہ ڈاکٹرمحمدفرقان سنبھلی کی رسم اجرا ء عمل میں آئی۔اس موقع پر ڈاکٹروکرم سنگھ نے ریسرچ ،ادب اورسفرنامہ کے موضوع کے تعلق سے کہاکہ ناروے ایک ایساملک ہے جس کی تاریخ تواہم ہے ہی ساتھ وہاں کانظم ونسق بھی قابل تعریف ہے وہاں اہم سرکاری عمارتوں اوررہنمائوں کے حفاظتی لشکرنہیں ہوتے جیسے کہ ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں۔ انھوںنے کہاکہ ناروے میں رات میں بھی سورج نکلتا ہے انھوں نے سفرنامہ کوتحریرکرنے کاایک مقصدیہ بھی بتایاکہ وہاں کے کلچرسے ہندوستانی لوگ بھی واقف ہوسکیں۔ ڈاکٹرفرقان سنبھلی نے ترجمہ کی غرض وغایت پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ یہ دونوں ممالک کو قریب لانے میں معاون ہوسکتاہے اوریہاں کے عوام ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اختتام پرکورس کے شرکاء نے صدرشعبہ کاشکریہ اداکیا کہ انھوں نے رفتار،علی گڑھ میگزین اور دیگر کتب انھیں بطورتحفہ پیش کی۔
ڈاکٹرعابدرضابیدار، مہرالٰہی ندیم،پروفیسرشہاب الدین ثاقب،پریم کمار،پروفیسرطارق چھتاری،ڈاکٹرمہتاب حیدرنقوی ، ڈاکٹرسیماصغیر، حافظ محمدصابر، کلیم تیاگی ،اکرم شیروانی ،پروفیسرقمرالہدی فریدی،پروفیسرسیدسراج اجملی ،ڈاکٹر محمدشارق ،ڈاکٹرمحمدشاہد،ضمیر اللہ،عبدالرازق کے علاوہ ڈاکٹر محمد راغب ڈاکٹر محمد طالب دیشمکھ آکولہ ،مہاراشٹر،ڈاکٹر افضل مصباحی، ڈاکٹر ایم اے حق، ڈاکٹر مجتبیٰ جمال، ڈاکٹر محمود مرزا، ڈاکٹر عبدااللہ امتیاز، ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری، ڈاکٹر مزمل کوثر،ڈاکٹر نکہت فاطمہ، ڈاکٹر جمشید احمد ممبئی،ڈاکٹر زرین خان، سعدی مصطفی علوی، ڈاکٹر شبینہ پروین، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اساتذہ ، کے علاوہ بڑی تعدادمیں ریسرچ اسکالرز اور ریفریشر کورس کے شرکاء نے شرکت کی۔ پروفیسرسیدمحمدامین کے دعائیہ کلمات پر جلسہ کااختتام ہوا۔ پروفیسرسیدمحمدامین، نے اظہار تشکر پیش کیا۔
\"img_20161222_122252\"

Leave a Comment