شعبہ ء اردو ، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے پریم چند سیمینار ہال میںمعروف ڈرامہ نگار کے انتقال پر ایک تعزیتی جلسے کاانعقاد
میرٹھ(اسٹاف رپورٹر)شعبہ ء اردو ، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے پریم چند سیمینار ہال میںاس معروف ڈرامہ نگار کے انتقال پر ایک تعزیتی جلسے کا اہتمام کیا گیاجس کی صدارت کے فرائض ڈاکٹر اسلم جمشید پوری اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی نے انجام دئیے جبکہ خصوصی مقررین کی حیثیت سے یو،این ،آئی اور راشٹر سہارا گروپ کے نمائندے محترم کامران زبیری ،یو نائٹڈپروگرسیوتھیٹر ایسوسی ایشن کے نائب صدر محترم انل شرماشریک ہوئے۔
صدارتی خطبے میں ریوتی سرن شرما سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ مرحوم سے میرا تعلق پچھلے پچیس سال سے استاد وشاگرد ،باپ وبیٹے اور پیر و مرشدجیسا تھا۔انہوںنے میری کچھ ابتدائی کہانیوں اور ڈراموں میں اصلاح بھی کی اور مجھے ان کے ٹی وی سیریل’’خوشی‘‘ میں ان کے معاون کی حیثیت سے کام کرنے کی خوش نصیبی بھی میسر ہوئی جو میرے لئے فخر کی بات ہے
انہوں نے مزید کہا کہ یوں تو فکشن کی تمام اصناف مگر خاص طور پر ریڈیائی ڈراموں کی باریکیوں کو سمجھانے والا ان جیسا فنکار میں نے نہیںدیکھا۔ انہوں نے آگے کہا کہ ریوتی سرن شرما کا شمار ٹی وی سیریلس کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ان کے تحریر کردہ سیریلس عوام میں کافی مقبول تھے۔ریڈیو ڈراما کے تو وہ مستند اسرپٹ رائٹر تھے۔وہ شہرت سے دوراور خاموش خدمت کرنے کے عادی تھے اس لئے ان کی شخصیت وفن پرابھی ابتدائی کام بھی نہیں ہو سکا ہے ہماری کوشش ہو گی کہ بہت جلدی ان پر تحقیقی کام کر اکر ان کو سچا خراج عقیدت پیش کریں۔‘‘
ریوتی سرن شرما پر ایم فل کا مقالہ تحریر کنے والی شعبہ اردو کی سابق طالبہ تسلیم جہاں نے ان کی حیات اور خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ’’جو اردو اور ہندی میں یکساں شہرت رکھنے والے معدودے چند ادیبوں میں سے ایک تھے کا ،کل طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیاجس سے اردو اور ہندی زبانوں کے ادیبوں میں صف ماتم بچھ گئی وہ یوں تو ریڈیائی ڈرامہ نگار کی حیثیت سے معروف تھے لیکن درحقیقت وہ ٹی وی سیر یلس،فلم اسکرپٹ اور ناول نگاری کے میدان میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں ان کے ڈراموں کے چار مجموعے ’’تمہارے غم میرے‘‘،’’دشمن‘‘،’’آرزو ہی آرزو‘‘ ،’’کچھ سفیدی کچھ سیاہی‘‘منصئہ شہودد پر آئے ہیںتووہاں’’اور بھی غم ہیں زمانے میں ‘‘،’’لینا دینا‘‘،’’پھر وہی تلاش‘‘،’’دی گریٹ مراٹھا‘‘،’’ادھیکار‘‘،’’خوشی‘‘جیسے ٹی وی سیریلس،’’پرانی حویلی ‘‘،ویویک‘‘،’’تیسرا مندر‘‘جیسی فلمیں اور ’’اندھیری راتیں‘‘،’’سفر بے منزل‘‘جیسے ناول بھی منظر عام پر آکر دادوتحسین حاصل کر چکے ہیں۔‘‘واضح ہو کہ محترمہ تسلیم جہاں ریوتی سرن شرما کی ڈرامہ نگاری پرنہ صر ف اپنا ایم فل کا مقالہ تحریر کر چکی ہیں بلکہ ۲۰۱۵ء میں ان کی کتاب ریوتی ’’سرن شرما بحیثیت ڈراما نگار ‘‘ زیورطباعت سے آراستہ ہو کر ادبی حلقوں میں مقبول ہو چکی ہے،جسے اتر پر دیش اردو اکادمی نے انعام سے بھی نوازا ہے۔
خصوصی مقرر محترم کامران زبیری نے ریوتی سرن شرما کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریوتی سرن شرما جی اگر چہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن وہ اپنی تخلیقات بالخصوص ڈراموں کے ذریعے ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ان جیسا ڈرامہ نگار اب شاید ہی پیدا ہوسکے گا۔محترم انل شرما نے بتایا کہ ریوتی سرن شرما اچھے تخلیق کار کی طرح اچھے انسان بھی تھے فن کی بلندیوں کو چھو لینے کے بعد بھی ان میں غرور یا تمکنت نہیں تھی وہ ہر آنے جانے والے سے خندہ پیشانی سے ملتے اور ہر ممکن تعاون کی کوشش کرتے تھے ۔ہماری درخوست پر انہوں نے ہمیں اپنا ایک ناٹک ’’اندھیرے کا بیٹا‘‘اسٹیج کرنے کے لئے دیا تھا جو عنقریب پیش کیا جائے گا۔
اس موقع پر ناظمِ جلسہ نے ریوتی سرن شرما کے انتقال کو صنف ڈرامہ کا ناقابل تلافی نقصان بتاتے ہوئے سامعین کے سامنے ان کی شخصیت وخدمات کی اہم جھلکیاںپیش کیں ۔ ڈاکٹر شاداب علیم نے ان کے فن پر،پر مغز مقالہ پیش کیا ۔ جلسے میں ڈاکٹر الکاوسشٹھ،راشد یوسف،سریندر شرما،مسعود اختر،عامر نظیر ڈار،طاہرہ پروین ،شبستاں،فرحناز،روزی،گلشن فاطمہ سمیت طلبہ نے شرکت کی۔