سابق صدر شعبۂ اُردو ممبئی یونیورسٹی ڈاکٹر صاحب علی نہیں رہے

رات دس بجے جری مری قبرستان میں تدفین ، نم آنکھوں سے سپرد خاک کیا گیا
\"\"
٭فرحان حنیف وارثی
\"\"
ممبئی، ۲۴؍جنوری، : یونیورسٹی آف ممبئی کے شعبۂ اُردو کے سابق صدر ڈاکٹر صاحب علی کا جمعہ ۲۴؍ جنوری ۲۰۲۰ کو دورۂ قلب کے سبب انتقال ہوگیا۔ اطلاع کے مطابق وہ نماز جمعہ کی تیاری کررہے تھے کہ اس دوران انھیں دِل کا شدید دورہ پڑا ۔ انھیں فوری طور پر باندرہ کلانگر کے گرونانک اسپتال پہنچایا گیا۔ لیکن تب تک ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی ۔ انا للہ وانالیہ راجعون
ڈاکٹر صاحب علی پہلی بار ۲۰۰۴ میں شعبہ اُردو کے صدر بنے اور ۲۰۱۴ تک اس عہدے پر فائز رہے ۔ انھوں نے معین الدین جینا بڑے کے بعد یہ عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ بے حد ملنسار اور طلبہ میں مقبول تھے ۔ انہی کی کاوشوں سے یونیورسٹی آف ممبئی میں اُردو میں جرنلزم کا کورس شروع ہوا تھا ۔ وہ اپنے جونیئرس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے ۔
ڈاکٹر صاحب علی کے تقریباً بارہ کتابیں شائع ہوئی تھیں۔ جن کے نام مبادیات عروض ( عروض ) ، کوؤں کا اسکول ( مراٹھی ترجمہ) ، پھول اور بچے ( مراٹھی سے ترجمہ ) ،اُردو فکشن ایک مطالعہ (تنقید) ، اُردو افسانوی کا تجزیاتی مطالعہ ( تنقید اور تجزیہ) ، ترقی پسند تحریک اور بمبئی (تحقیق و تنقید) ، ممبئی کے ساہیتہ اکادیمی انعام یافتگان (شاعر ، ادیب اور مترجم ) ، رانی کیتکی کی کہانی ( ترتیب )، اردو اور عربی کے لسانی و ادبی روابط ( تحقیق و تنقید) اور ریاض خیر آبادی ( مونو گراف) ہیں۔
پروفیسر صاحب علی کے شاگرد عزیز اور الفلاح اسلامک فائونڈیشن انڈیا کے ڈائریکٹر ندیم احمد انصاری نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر صاحب علی فعال اور کامیاب اُستاد تھے اُن کی اچانک موت سے ممبئی کی بزم علمیہ میں اُداسی چھا گئی ہے ۔ وہ صاف گو ، ملنسار اور ایک اچھے انسان تھے ۔ ہم سب ان کی شفقتوں سے محروم ہو کر بہت رنجیدہ ہیں ۔ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں ۔
اسسٹنٹ پروفیسر ممبئی یونیورسٹی ، معروف شاعر اور ادبی رسالہ ’’اُردو چینل ‘‘ کے مدیر قمر صدیقی نے بتایا کہ وہ میرے لئے ایک سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے۔ برہانی کالج سے ممبئی یونیورسٹی تک اُنھوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی فرمائی۔ میرے تعلیمی کیرئیر میں ان کے نیک مشوروں کا بڑا عمل دخل رہا ہے ۔ مرحوم اُردو چینل میگزین اور ویب سائٹ کے تعلق سے بہت مخلص تھے اور اسے خوب سے خوب تر دیکھنے کے متمنی رہا کرتے تھے ۔‘‘قمر صدیقی کے بقول ’’انھوں نے ممبئی یونیورسٹی کے اُردو ڈپارٹمنٹ کو اپنی حکمت عملی ،قابلیت اور علمیت کی بنیاد پر دُنیا بھر میں ممتاز مقام عطا کیا ۔ مختلف کورسیس کے ذریعے اُنھوں نے غیر اُردو داں طبقے کو اُردو کی طرف راغب کیا تھا۔‘‘
ادبی رسالے ’’نیا ورق‘‘ کے مدیر، افسانہ نگار اور ڈاکٹر صاحب علی کے زیر نگرانی ایم فل کرنے والے طالب علم شاداب رشید نے اُن کی موت پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اسٹوڈینٹس سے بڑی محبت کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ وہ ان کی آئوٹ آف دی وے جا کر مدد کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ صدر شعبہ اُردو بنے تھے تو اُن کے شاگردوں نے اس خوشی میں ایک پروگرام منعقد کیا تھا۔ ان کی موت سے سبھی کو دھچکا پہنچا ہے ۔ میں نے ان کے زیر نگرانی ایم فل مکمل کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے سامنے سے فون کرکے مجھے بلایا تھا اور نوٹس کے تعلق سے مفید مشوروں سے نوازا تھا، انھیں کوئی بھلا نہیں سکتا۔
ادبی رسالے ’’تکمیل‘‘ کے نوجوان مدیر عامر قریشی نے کہا کہ مجھے یہ خبر سن کر افسوس ہوا اور سچ کہوںتو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔
ان کے اسطرح چلے جانے سے طلبہ کا ایک بڑا نقصان ہوا ہے ۔ مجھے بھی ان کی کمی شدید طور پر محسوس ہوگی۔
برہانی کالج کے سابق صدر شعبہ اُردو، شاعر اور معروف ناظم ڈاکٹر قاسم امام نے بتایا کہ صاحب علی ابتدائی دنوں میں برہانی کالج میں ہمارے ساتھ تھے ۔ پھر شعبہ اُردو کے صدر بنے ۔ اپنے مستقبل کو لے کر ہمیشہ چاق چوبند رہتے تھے ، جو ٹھان لیا وہ حاصل کرلیا۔ مختلف تدریسی اور غیر تدریسی کمیٹیوں میں شامل رہے اور خدمات انجام دیتے رہے ۔ ان کا یوں اچانک چلے جانا نہ صرف علم و ادب بلکہ بحیثیت ایک مخلص انسان کے ناقابل تلافی نقصان ہے ، اللہ ان کی مغفرت کرے ۔
ڈاکٹر یونس اگاسکر نے فیس بُک پر لکھا ہے کہ نہایت افسوس ناک خبر، تعلیمی و تحقیقی خدمات کے علاوہ شعبہ اُردو کی توسیع و ترقی میں بھی مرحوم کی انتظامی صلاحیتوں کا نمایاں حصہ رہا ہے ۔ خداوند کریم ان کے درجات عالیٰ کرے ۔
ڈاکٹر صاحب علی کی تدفین جمعہ کی رات دس بجے جری مری قبرستان میں عمل میں آئی۔ اس موقع پر تعلیمی، علمی و ادبی شخصیتوں کے علاوہ ان کے طلبہ کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

Leave a Comment