سابق نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری نے کیا \’\”دی وائر اردو\” کا اجرا ، کہا ؛ یہ ایک معجزہ ہے کہ ہندوستان میں اردو زبان زندہ ہے

آخر کیا وجہ ہے کہ جب کوئی ریختہ اور دی وائر اردو کو لیکر اٹھتا ہے ، اردو کی محفل سجاتا ہے تو اس کی حمایت میں جوق درجوق لوگ شامل نظر آتے ہیں

\"1238293_10200158111390561_1988994772_n\"
٭اشرف علی بستوی
\"LaunchUrduAayush\"

نئی دہلی ۔توقع کے عین مطابق نیوز پورٹل دی وائر اردو کا 15 اگست کی شام کانسٹی ٹیوشن کلب کے کھچا کھچ بھرے ہال میں بڑی آن ،بان ،شان سے سابق صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری نے اجرا کیا ۔
حتمی طور پر یہ کہہ پانا تو مشکل ہے کہ لوگوں کا یہ جم غفیر اس موقع پر حامد انصاری کو سننے آیا تھا ، جن کے خلاف گزشتہ ہفتے ملک کے اقتدار پر قابض طبقہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ الزام لگا کر نہ جانے کیا کیا اول فول بک رہا تھا یا یہ بھیڑ حامد انصاری کی ہمدردی میں جمع ہوئی تھی ؟ یا واقعی سبھی اردو دوستی میں یہاں تشریف لائے تھے؟ اور اس تقریب کا گواہ بننے کی چاہت انہیں یہاں کھیچ لائی تھی ۔ تجزیہ کار متعدد پہلو سے اس تقریب کا تجزیہ کرتے رہیں گے ۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق دی وائر اردو کے اجرا کا پروگرام بہت پہلے سے طے تھا جس میں حامد انصاری مدعو تھے ۔
اس موقع پر محمد حامد انصاری نے معروف سینئر جرنلسٹ ونود دوا کو دیے گئے لائیو انٹریو میں کہا کہ دی وائر کا اپنا اردو پورٹل لانچ کرنے کا قدم قابل ستائش ہے ۔ اردو کی موجودہ صورت حال اور اس کے مسقبل پر کیے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ 2011کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں لگ بھگ 85 ملین لوگ اردو زبان بولنے والے ہیں اس لیے مجھے اردو کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ دراصل اردو سیاست کا شکار بنا دی گئی ۔
ہندوستان میں اسے مسلمانوں کی زبان کہہ کر گمراہ کن پروپیگنڈہ کیا گیا ، اردو کو مسلمانوں کی زبان کہنے والے بتائیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 185 ملین ہے اور ہندوستان میں 85 ملین اردو بولنے والے ہیں جس میں سبھی شامل ہیں تو یہ مسلمانوں کی زبان کیسے ہو گئی؟ ان کا واضح اشارہ تھا کہ اگر یہ مسلمانوں کی زبان ہوتی تو سبھی 185 ملین مسلمانوں کی زبان ہوتی اور پھر اس میں دوسرے لوگ شامل نہ ہوتے ۔
اردو ایک عالمی زبان ہے ۔ اس زبان کا دائرہ دنیا بھر میں پھیل چکا ہے ،امریکہ ،فرانس ، آسٹریلیا ، برطانیہ ہر جگہ اس کے چاہنے والے پائے جاتے ہیں ۔
ہاں اردو کے مستقبل کے تعلق سے اگر یہ سوال 25 سال قبل کیا جاتا ہے تو جواب قدرے نفی میں ہوتا مگر یہ ایک معجزہ ہے کہ اردو زبان زندہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں 22 زبا نیں ہیں جن کودستو ر میں ذکر کیا گیا ہے اس میں اردو بھی ہے اس کے لیے 100 اور زبانیں ہیں ۔ ہمارے ملک میں زبان کی رنگا رنگی بڑی دلچسپ ہے ۔
اردو روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے ، پھر نئی نسل سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اردو کا ساتھ دیں گے اس کے جواب میں حامد انصاری کہتے ہیں۔
ہاں یہ بہت بڑی کمی ہے کہ اردو روزگار فرام کرنے کی زبان نہیں رہ گئی ہے لیکن صرف اس لیے کہ اس زبان میں روزگار کے مواقع نہیں کسی بھی زبان کو زندہ نہ رکھنا مناسب نہ ہوگا ۔
انٹر ویو کے دوران کم ازکم دو دلچسپ موڑ ایسے آئے جب ونود دوا نے کچھ ایسے سوالات کیے اور ان سے راست طور پر کچھ کہلوانے کی کوشش کی ، موصوف بڑی چابک دستی سے ونود کے اس وار سے ڈپلومیٹک ڈھنگ سے نکل گئے ۔
ایک سوال تو یہ تھا کہ آپ کا کافی طویل کریر رہا بحیثیت ڈپلومیٹ ، بحیثیت وائس چانسلر ، بحیثیت نیشنل مائناریٹی کیمشن کے چیرمین اور پھر انتہائی اہم ذمہ داری نائب صدر جمہوریہ کی نبھائی کون سی حیثیت میں آپ خود کو زیادہ مطمئن پاتے ہیں ؟ مسکراتے ہوئے فوری طور پر کہا ہر ذمہ داری کا اپنا لطف ہوتا ہے ۔
ونود دوا کا دوسرا بڑا سوال ان کے حالیہ انٹرویو پر ہوئے تنازعے کے تعلق سے تھا اس پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی ایک بار پھر انہوں نے ایک ماہر ڈپلومیٹ کی طرح ایک لائن کا سیدھا سا جواب دیا \’ جناب یہ اردو کی محفل ہے یہاں آج صرف اردو کی ہی بات ہونی چا ہئے \’ حامد انصاری کا یہ جواب سن کر ہال میں قہقہ گونج اٹھا ۔
اس سے قبل دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ ورد راجن نے دی وائر کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ ایک ایسا میڈیا شروع کیا جائے جو عوام اور جرنلسٹ کے درمیان ایک رشتہ قائم کرے جس کو لوگ خود اپنا سمجھیں اور ساتھ آئیں ۔
ہمارے لیے قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اسے عوامی تعاون سے چلانے میں کامیاب رہے ، وائر ایک عوامی میڈیا ادارہ ہے جو عوام کے تعاون سے چلایا جا رہا ہے ۔ انگریزی اور ہندی کی کامیابی کے بعد ہم نے اردو میں دی وائر اردو لانچ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ اردو قارئین کو بھی معیاری صحافت تک رسائی ہو سکے ۔
ہمارا ماننا ہے کہ اگر ہندوستان میں اچھی صحافت کرنی ہے تو یہاں کی سبھی زبانوں میں کام کرنا ہوگا ہم اسی نہج پر کام کر رہے ہیں مستقبل میں ہم اور زبانوں میں اسے آگے بڑھائیں گے ۔ دی وائر اردو کے ایگزیکیوٹیو ایڈیٹر مہتاب عالم نے پروگرام کی نظامت کی ۔
چہار جانب سے دی وائر اردو کو نیک خواہشات کی صدائیں گونج رہی تھیں اسی کے ساتھ یہ محفل اختتام پذیر ہوئی ،اور ساتھ ہی ہم روایتی اردو والوں کے سامنے ایک سوال بھی چھوڑ گئی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جب کوئی ریختہ اور دی وائر اردو کو لیکر اٹھتا ہے ، اردو کی محفل سجاتا ہے تو اس کی حمایت میں جوق درجوق لوگ شامل نظر آتے ہیں ، لوگوں کی شرکت قابل رشک ہوتی ہے ؟ کیا یہ ان کے حسن انتطام اور پرفیشنل مہارت کا نتیجہ ہے ؟ اردو کی محفلیں تو ہم بھی سجاتے ہیں لیکن وہ اس قدر مقبول عام کیوں نہیں ہوتیں ؟

Leave a Comment