٭محمد حسین کی رپورٹ
ہندوستان بھر میں اور ہندوستان سے باہر دنیا کے گوشے گوشے میں مقیم ہندوستانیوں نے ہندوستان کی آزادی کی ۷۱ویں سالگرہ کا جشن بڑے جوش و خروش سے منایا۔ اس خاص دن میں ڈیجیٹل میڈیا میں بہت کم وقت میں ایک اہم مقام اور شناخت بنانے میں کامیاب ’’دی وائر‘‘ گروپ نے ’’دی وائر اردو ‘‘ کے نام سے اپنی ویب سائٹ کے لیے افتتاحی تقریب رکھی ۔ اس افتتاحی تقریب میں مہمان خصوصی کے بطور سابق نائب صدر جمہوریہ عزت مآب حامد انصاری کو مدعو کیا گیا ۔ پروگرام کا افتتاح معروف صحافی ونود دؤا کی بیوی چنّا دوا کی مترنم آواز میں فیض کی ایک نظم سے ہوا ۔
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں
افتتاحی تقریب میں دی وائر کے بانیان میں سے ایک، معروف صحافی سدھارتھ وردراجن نے تعارفی کلمات میں کہا کہ دی وائر مئی ۲۰۱۵ میں وجود میں آیا لیکن اس کاخاکہ پہلے سے ہم بانیان کے دماغ میں چل رہاتھا کیوں کہ دی وائر کے بانیان ملک کی تقریباً تمام معروف میڈیا ہاؤسیز میں صحافتی کام کر چکے ہیں ۔ جن کا حال ہم سب کو معلوم ہے کہ سب کارپوریٹ اورسرکار کے دباؤ میں کام کر رہے ہیں اس لیے ہم سب نے سوچا کہ ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا جائے جو کارپوریٹ اور سرکار کے دباو ٔسے آزاد ہوکر اپنا کام کر سکے ۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کی مین اسٹریم میڈیا کا رخ ایک ہی طرف جا رہا ہو شدت سے یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ ایک آزاد پلیٹ فارم قائم کیا جائے ۔ لہٰذا مئی ۲۰۱۵ میں بے سروسامانی کے عالم میں دی وائر انگریزی وجود میں آیا پھر متعدد صحافیوں ، فوٹوگرافر اور خیر خواہوں کی حمایت ملی تو ہندی میں بھی دی وائر کو شروع کیا گیا ، ہندی کے ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی یہ کام ہونا چاہیے لہذا ہندوستان کی آزادی کے ۷۱ ویں سالگرہ کے جشن کے موقع پر دی وائر گروپ نے کانسٹی ٹیوشن کلب میں سابق نائب صدر جمہوریہ عزت مآب حامد انصاری کے ہاتھوں دی وائر اردو کا افتتاح کیا ۔ اس دوران انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ دی وائر ایک غیر منفعت بخش ادارے کی شکل میں کام کر رہاہے ۔اسے بنگلور کے’’ دی انڈپینڈینٹ اینڈ پبلک اسپریٹیڈ میڈیا فاؤنڈیشن ‘‘نامی ایک رفاہی ادارے کا تعاون حاصل ہے ساتھ ہی وردراجن نے حاضرین سے مالی امداد کی اپیل بھی کی ۔حاضرین کے درمیان ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا جس میں دی وائر کو مالی تعاون دینے کی اپیل کے ساتھ بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات بھی مذکور تھیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کارپوریٹ میڈیا کی ریل پیل کے درمیان ایک خیراتی میڈیا کی بقا ممکن ہے ۔ ؟ کیوں کہ کارپوریٹ میڈیا کی اتنی بھیڑ ہے جہاں پیسہ ہی پیسہ اور گلیمر ہی گلیمر ہے ایسے عالم میں کوئی صحافی آخر اپنا پیٹ کاٹ کر خیرات کے سہارے کب تک کام کر سکتا ہے ۔ اس لیے جہاں دی وائر کے اردو ایڈیشن کے افتتاح سے خوشی ہو رہی ہے وہیں تشویش بھی لاحق ہو رہی ہے کہ پتہ نہیں یہ کب تک اپنا وجود برقرار رکھ پائے گا ۔ خوشی تو بہر حال ہو رہی ہے کہ دی وائر کی رپورٹنگ اور خصوصی کوریج کا ایک معیاری انداز ہے جو کارپوریٹ ،سیاسی پارٹیوں یا سرکار کے دباؤ میں نہیں بلکہ حق اور سچ کی علمبرداری کرتا نظر آیا ۔اگریہ انداز و اطوار اردو میں بھی قائم رہے تو اردو قارئین کو بھی معیاری ، تحقیقی ، کارآمد خبروں اور مواد سے شناسائی حاصل ہوگی ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ اردو زبان میں بھی معیاری کام کرنے کی بھرپور گنجائشیں ہیں نیز اردو زبان کے فروغ کے بھی امکانات روشن ہوں گے ۔ اس لیے میں دل سے دی وائر کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں ۔
پروگرام کے کنوینر اور دی وائر اردو کے ایگزکیٹو ایڈیٹر مہتاب عالم نے کہا کہ ویب سائٹ پر اردو میں مضامین ، خبریں ،تبصرے ، تجزیے ہوں گے ۔ ساتھ ہی ویڈیو اور آڈیو کی شکل میں بھی مواد فراہم کیا جائے گا۔
دی وائر اردو کا عملی افتتاح سابق نائب صدر جمہوریہ ہند حامد انصاری کے انٹرویو سے ہوا ۔حامد انصاری ایک قابل فخر شخصیت کے مالک ہیں لیکن اس انٹرویو میں حامد انصاری کے جوابات سے زیادہ ونود دؤا کے سوالات اور خوبصورت لب ولہجے میں اردو کا جادو سر چڑھ کے بول رہاتھا ۔ حامد انصاری صاحب اپنے حالیہ بیان کی وجہ سے آر ایس ایس اور بی جے پی نواز حلقے میں متعوب بنے ہوئے ہیں۔ ونود دؤا نے ان سے اس بیان کے بعد لوگوں کے رد عمل پر ان کا تاثر جاننے کی کوشش کی لیکن حامد انصاری صاحب نے خوبصورتی سے ٹال دیا کہ یہ اردو کا پروگرام ہے یہاں صرف اردو کی بات ہوگی ۔ حالاں کہ یہ کوئی اردو کا ادبی جلسہ نہیں تھا یہ تو صحافتی پروگرام تھا ۔تاہم انہوں نے دستور میں اردو اور ہندوستانی کے وجو د کی اہمیت پر دستوری گفتگو کی ۔ اردو زبان کی موجودہ صورت حال پر بھی دانشورانہ اظہار خیال کیا ۔جب ونود دؤا نے حامد انصاری صاحب سے سوال کیا کہ آپ کی نظر میں موجودہ دور میں اردو کی کیا صورت حال ہے تو انصاری صاحب نے جواب دیا کہ ایک معجزہ ہے کہ اردو دوبارا زندہ ہوگئی ہے ۔
ونود دؤا کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر پروگرام میں یہ کہتے ہیں کہ انہیں اردو نہیں آتی لیکن اتنی خوبصورتی اور سلاست سے اردو بولتے ہیں کہ صاف لگتا ہے کہ انہوں نے جھوٹ بولا کہ انہیں اردو نہیں آتی ۔ بعد میں وضاحت ہوتی ہے کہ اردو رسم الخط سے نابلد ہیں لیکن اردو الفاظ کا تلفظ باقاعدگی اور خوبصورتی سے کرتے ہیں ۔ آج یہ راز بھی کھلا کہ اقبال، فیض اور چکبست وغیرہ کو انہوں نے دیوناگری رسم الخط میں پڑھ رکھا ہے اور ان کے والد نے انھہیں ’بانگ درا‘ کی نظمیں زبانی یاد کرا دی تھیں یہی وجہ ہے کہ وہ اتنی خوبصورتی سے اردو بولتے ہیں ۔پروگرام کے اختتام پر حاضرین کے ہجوم کے درمیان مجھے ان سے ملنے کا موقع ملا تو ان سے میں نے کہا سر آپ اتنی خوبصورتی اور سلاسست سے اردو بولتے ہیں کہ سن کر مزہ آتا ہے لیکن خواہ مخواہ ہر پروگرام میں آپ یہ صفائی دیتے پھرتے ہیں کہ آ پ کو اردو نہیں آتی ۔
سدھارتھ وردراجن کےساتھ محمد حسین
پروگرام کے اختتام پر دی وائر کے بانیوں میں سے سدھارتھ وردراجن سے بات کرنے کا موقع ملا ۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ عام طور سے اردو اور ہندی میں کام کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ ترجمے پر اکتفا کرتے ہیں تو کیا آپ بھی اسی ڈگر پر چلنے والے ہیں یا آپ کچھ الگ کریں گے ۔ ؟سدھارتھ وردراجن نے جواب دیا کہ ابھی تو ہمارا ۸۰ فی صد کام ترجمے پر ہی منحصر ہوگا لیکن دھیرے دھیرے کوشش ہوگی کہ ہماری ایسی ٹیم تیار ہوجائے جو اصلی اور تخلیقی طور پر اردو میں ہی کام کریں ۔
حاضرین کی تعداد اس قدر تھی کہ منتظمین نے اتنی توقع نہیں کی ہوگی کیوں کہ اگر انہیں اس قدر ہجوم کی توقع ہوتی تو کانسٹی ٹیوشن کلب کا یہ چھوٹا ہال بک نہیں کیا جاتا بلکہ آڈیٹوریم بک کرلیا جاتا ۔ حاضرین میں زیادہ تر میڈیا سے وابستہ نمایاں شخصیات اور دیگر میدان کی مقتدر ہستیاں تھیں ۔ این ڈی ٹی وی انڈیا کے معروف اینکر رویش کمار سامعین کی صف میں بیٹھے تھے تو راجیہ سبھا ٹی وی کی عارفہ خانم جگہ نہ ملنے کے باعث شروع سے اخیر تک اسٹیج کے ایک کنارے کھڑی ہی نظر آئیں ۔ فلمی اداکارہ شرمیلا ٹیگور بھی بلا کسی خصوصی اعزاز کے سامعین کی صف میں بیٹھی رہیں تو ان کے ساتھ سبھاشنی علی اور معروف ماہر اقتصایات جیاتی گھوش بھی اسی صف میں بیٹھی تھیں ۔دہلی یونی ورسٹی کے پروفیسر اپوروانند ،معروف صحافی صبا نقوی ، بھگت سنگھ پر تحقیقی کام کرنے والے پروفیسر چمن لال ،جامعہ ملیہ کے سابق وائس چانسلر شاہد مہدی ،معروف تاریخ داں رعنا صفوی ،جدیو کی طرف سے راجیہ سبھا ایم پی اور فی الحال جدیو کی پارلیمنٹری پارٹی سے نکالے گئے علی انور وغیرہ بمشکل سامعین کی صف میں جگہ پاسکے ۔ان کے علاوہ بھی ہندی ، انگریزی اور اردو کے نامور صحافیوں کی بڑی تعداد نے اس تقریب میں شرکت کی جن میں تمام کو میں نہیں پہچانتا اور نہ تمام پر میری نظر گئی ہوگی ۔
اردو کے صحافیوں میں سے زین شمسی صاحب سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے کہا دیکھو اس پروگرام میں شرکت کرنے والوں کی ضیافت میں صرف ایک کپ چائے کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن حاضرین کی کس قدر بھیڑ ہے اور کتنی مقتدر شخصیات ہیں ۔ یہی اگر کوئی اردو والا پروگرام کرے تو بریانی کا اہتمام کرنا ہوتا ہے پھر بھی بمشکل ہال بھرتا ہے ۔ یا یوں ہوتا ہے کہ بریانی کھائے اور چلتے بنے ۔ زین شمسی صاحب کی بات بالکل درست لگی واقعی اردو والوں کے پروگرام کا یہی حال ہے کہ انہیں بریانی کھلائی جائے تبھی وہ پروگرام میں آتے ہیں ۔
کمپوزنگ کی خامی درست کرتے ہوئے سہیل اختر
اسٹیج پر جو فلیکس بورڈ لگا تھا اس میں کمپوزنگ کی خامی نے اردو والوں کی غیر ذمےدارانہ حرکت کی پول بھی کھول دی ۔نائب صدر جمہوریہ کہ جگہ نائب ’صرد‘جمہوریہ ‘ کمپوز ہو گیا تھا ۔جسے عارضی طور پر اردو کے صحافی سہیل اختر قاسمی نے درست کرنے کی کوشش کی ۔یہ تسلیم کہ غلطی ہو جاتی ہے اور یہ بھی کہ یہ بہت بڑی غلطی تو نہیں لیکن ایک شاندار تقریب میں چھوٹی سی چوک بھی بدنما داغ لگا دیتی ہے ۔
پروگرام کا اختتام قومی ترانے کی دھن پر ہو ا۔
’’دی وائر اردو‘ سے ہم امید کرتے ہیں کہ صحافت کے جدید معیاروں کے ساتھ بلا کسی دباؤ کے اپنا کام کرے گا ۔