سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا…..اقبال کی حب الوطنی کا مطالعہ

\"\"
٭ڈاکٹر صالحہ صدیقی(الہٰ آباد)
علامہ اقبال کو کون نہیں جانتا ؟ہر اردو طالب علم کی بنیادی تعلیم انھیں کی نظموں کو پڑھ کر شروع ہوتی ہے ،لیکن اقبال ہر عمر کے لوگوں کے شاعر ہیں ،وہ ایک بالغ النظر شاعر تھے۔ان کے علم کا یہ حال تھا کہ وہ مشرق و مغرب کا سنگم کہلائیں۔کیونکہ ان کی ابتدائی زندگی گہوارۂ مشرق میں گزری تو جوانی مغرب کے کُفر ساماں ماحول میں بسر ہوئی۔انھوں نے فلسفہ مشرق بصدشوق پڑھا تو اس سے کہیں زیادہ ذوق سے فلسفہ مغرب کا درس لیا۔وہ علوم ایشیا کے علمبردار تھے ،تو یورپ کے علوم کے تاجدار بھی تھے۔تاریخ پر ان کی گہری نظر،اقتصادیات و معاشیات کے علاوہ علم الاقوام دل و دماغ میں رچا بسا تھا ۔ان کی بصیرت و بصارت اور فکرو آگہی نے سارے تصورات و نظریات کے عمیق مطالعہ سے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ ’’ قلب مسلماں‘‘ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی دوسری شئے نہیں ۔’’ نگاہ مسلم‘‘ سے زیادہ زلزلہ افگن اور تقدیر شِکن کوئی ہتھیار نہیں۔ان کی نظروں میں ’’قلب مسلماں ‘‘اور ’’نگاہ مسلم‘‘ ہی وہ تریاق ثابت ہو سکتا تھا ۔جس سے جاں بلب اور لب گور ،حیات نو سے آشنائی حاصل کر سکتا ہے۔’’قلب مسلماں ‘‘ اور ’’نگاہ مسلم ‘‘ کے ساتھ ساتھ’’مردمسلماں‘‘ان کی نظروں میں بر افگندہ نقاب ہو کر دنیا کے ہر دُکھ ،ہر درد ،ہر بیماری اور ہر آزار دور کر دے۔یہی علامہ اقبال کا پیام ہے ۔یہی ان کی شاعری کا سر چشمہ ہے۔یہی اس مردقلندر کی ’’نوائے پریشاں ‘‘ہے ۔اقبال کا علمی قد و قامت ،ان کی فلسفیانہ حیثیت ،ان کی منفرد سوچ و فکراور ان کا اسلوب و بیان اتنا بلند ،اتنا ارفع و اعلی ہے کہ نہ صرف ہجوم سخن فہماں جھوم جھوم اٹھتے ہیں بلکہ سخن نا شناساں بھی سر دھننے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ مخالفین اقبال نے مخالفت کا گرد و غبار بھی اڑایا ،مگر ایک زمانہ بیت گیا ،اقبال کی شاعری ،ان کا پیام،فلسفہ،سیاسی نظریات اور اسلامی تصورات وہ رخ روشن بنے ہوئے ہیں جن کے نظارہ تابندہ سے دنیائے ادب کی آنکھیں آج بھی خیرہ ہو رہی ہیں ۔علامہ محمد اقبال نے کبھی کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا انھوں نے اسلامی شخصیات کا ذکر کیا تو دوسری طرف ’رام‘ کو قدیم ہندوستانی تہذیب کے ایک عظیم انسانی نمونے کی حیثیت سے سر زمین ہند کے لیے باعث فخر سمجھا اور ان کی شخصیت اقبال کے نزدیک ہندوستان کے لیے مایہ ناز ہے یہاںتک کہ وہ انھیں ’’امامِ ہند‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اقبال کا یہ طرز فکر اُن کی ہندوستانی تمدن سے گہری وابستگی اور اْن کے یکجہتی پسند مزاج کا آئینہ دار ہے نیز ان پر عائد اس الزام کا جواب اس میں موجود ہے کہ وہ ایک خاص قوم وملک کے حامی اور نظریہ ساز تھے۔ماہر اقبالیات خلیفہ عبدالحکیم اس بابت لکھتے ہیں:
’’اقبال نہایت فراخ دلی اور وسیع المشربی سے اس کا اقرار کرتا ہے ، اس کا دل نہ ہندوستان سے برداشتہ ہے اور نہ وہ ہندو قوم سے نفرت کرتا یا اس کی تحقیر کرتا ہے۔ بلند پایہ نفوس کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ وہ دوسری ملتوں کے مذہبی پیشواؤں کی تذلیل کریں اور اپنی متعصبانہ ملت پرستی میں دوسری ملتوں کے دینی اور تہذیبی کارناموں کی داد نہ دیں۔‘‘
اقبال کی بیشتر ابتدائی نظمیں اسی جذبے کے ساتھ لکھی گئی جن میں وطن دوستی ،وطن پرستی ،وطن محبت کو اوّلیت دی گئی۔اقبال نے ان نظموں کو اتنے پر اثر انداز میں لکھا کہ پڑھنے والے میں بھی وطنیت کا آتش بلند ہوا ۔اس جذبے سے لکھی گئی ان کی نظموں میں ہمالہ ،ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ،ترانۂ ملی ،نیا شوالہ ،وطنیت ،خطاب بہ جوانان اسلام ،ہلال عید ،صدائے درد ،تصویر درد،آفتاب ،ترا نہ ٔ ہندی ،اور نیا شوالہ بہترین مثالیں ہیں ۔ان نظموں کو متاثر انداز میںپیش کر نے کے لیے اقبال نے ڈرامائی اسلوب فن سے کام لیا ۔حب الوطنی سے متعلق اقبال کیبہترین نظموں میں سے چند کا مطالعہ یہاں پیش کیا جاتا ہیں :
(۱)ہمالہ :۔یہ اقبال کی ’’ بانگ درا ‘‘ میں شامل پہلی نظم ہے ۔جو رسالہ مخزن میں ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی ۔فنی اعتبار سے ایک کامیاب نظم ہے۔ جس میںقدرت کے دلکش مناظر کے ساتھ لفظوں کے انتخاب وترتیب ،اسلوب و تراکیب کا خاص خیال رکھا گیا ہیں ۔ خیالات کی دلکشی و رعنائی قابل دید ہے۔اس نظم میں وطن پرستی کی گونج صاف سنائی دیتی ہے ۔جہاں تک بات اس نظم میں ڈرامائی عناصر کی ہیںتو اقبال نے ’’اے ہمالہ !‘‘ ، ’’اے مسافر ‘‘ ،’’ اے تصور ‘‘ سے جو خطاب کیا ۔اس کے علاوہ ’’چھیڑتی جا! ‘‘ کہہ کر جو شخصی رنگ پیدا کیا اس سے ہمالہ تجسیمی صورت میں نمایاں ہوتاہے اور ابتدا ٔ تا آخیر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمالہ کوئی پہاڑ نہیں بلکہ جیتا جاگتا انسان ہو ۔حالانکہ اس نظم کی ابتدا ٔ ہمالہ کو مخاطب کرتے ہوئے شاعرکے بیانیہ انداز میں اس کی تعریف سے ہوتی ہے جس میں وہ اس کی عظمت و شان کوبیان کرتا ہے ،کہنے کو تو یہ وطن پرستی پر مبنی ایک نظم ہے لیکن جب ہم اس نظم کا دوسرے زاویہ نگاہ سے مطالعہ کرتے ہیں تو پتہچلتا ہے کہ اقبال نے اس نظم میںحیات و کائنات اور زندگی سے متعلق کئی راز کھولے اور کئی کی طرف اشارہ کیا تو کئی پہلو ایسے بھی ہیں جس سے عبرت ملتی ہے۔اس اشاراتی نظام سے اس نظم میں کشمکش کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔اس نظم کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو (۱)
اس طرح خوبصور ت دلکش مناظر کے ساتھ شروع ہوئی یہ نظم ایک سنجیدہ نقطہ نظر پر ختم ہوتی ہے جس سے پوری نظم ایک ڈرامائی کیفیت کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔
(۲)ہندوستانی بچوں کا قومی گیت :۔علامہ اقبال نے یہ نظم بھی وطن پرستی (نیشنلزم)کے جذبے سے سرشار ہوکر لکھی ۔یہ نظم بہت آسان زبان میں لکھی گئی ہے ،جس میں خیالات،معنی و مطالب آئینے کے مانند صاف ہو جاتے ہے۔اس نظم میں بھی ڈرامائی عناصر کے نقوش بکھرے پڑے ہیں۔شاعر نے خطیبانہ و بیانیہ انداز اختیار کر اس نظم میں اپنی وطن محبت کے جذبات قلمبند کیے، اشعار ملاحظہ فرمائیں:
چشتیؒ نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
یونانیوں نے جس کو حیران کر دیا تھا
سارے جہاں کو جس نے علم وہنر دیا تھا
مٹی کو جس کی حق نے زرکا اثر دیا تھا
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے ،میرا وطن وہی ہے
بندے کلیمؑ جس کے، پربت جہاں کا سینا
نوحؑ بنی کا آکر ٹھیرا جہاں سفینہ
رفعت ہے جس زمیںکی بام فلک کا زینا
جنت کی زندگی ہے، جس کی فضا میں جینا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے (۲)
اس طرح اس سیدھے سادے معنی خیز پر اثر نظم میں ہمیںحب الوطنی کا درس اقبال نے پڑھایا اور تاریخ کے حوالے سے وطن محبت کا پیغام دیا ۔
(۳)ترانہ ملی :۔یہ نظم علامہ اقبال کے وطن پرستی (نیشلزم ) کے نظریہ کو ترک کر’’ ترانہ ملی ّ ‘‘ لکھا ۔جس میں وطن اور اس کی ہر شئے سے محبت کا قلبی اظہار کیاگیا ہے۔یہ نظم شائع ہونے سے آج تک اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد ہر بچے کی زبان پر ہے۔ہر بچے کے بچپن کی کوئی نہ کوئی یاد اس نظم سے وابستہ ہے۔اس طرح یہ ایک شاہکار نظم ہے جس نے وطن کی محبت ہر نئی نسل کے سینے میں پیدا کی ۔یہ نظم بھی سیدھے سادے آسان لفظوں میں خوبصورت و دلکش انداز میں لکھی گئی ہے۔یہ نظم اقبال کے افکار میں عالمی سطح پر وسعت کو درشاتا ہے مراد یہ کہ جو اقبال صرف ہندوستان کوخطاب کرتے تھے اب سارے جہاں کو مخاطب کرنے لگے۔ اس نظم میں بھی بیانیہ انداز میں شاعر نے ملک و قوم کو خطاب کیا ،اس نظم کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن، سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
اے گلستان اندلس! وہ دن ہے یاد تجھ کو؟
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
اے موج دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
اے ارض پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
اقبالؔ کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کاراں ہمارا(۳)
(۴)نیا شوالہ :۔یہ نظم اقبال کی وطن پرستی کی ایک بہترین مثال ہے ۔اس کا انداز بیان مؤثر و دلکش ہے ۔شاعر نے اپنی اس نظم کے ذریعہ وطن کی عظمت و شان کا نقش ہر ملک و قوم کے دل پر قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔اس نظم میں اقبال کی وطن محبت اپنے نقطہ عروج پر دکھائی دیتی ہے جب انھوں نے ہندوستان کی زمیں کے ذرے ذرے کو دیوتا کہا۔اس نظم کے سلسلے میں اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ یہ ہندو مسلم اتحاد کی بہترین مثال ہے ۔اس نظم کی ابتدأ طنزیہ لہجے میں شروع ہوتی ہے ۔جسے پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر کے دل میں آگ بھری ہو۔اس نظم میں ڈرامائیت کا ایک شدید غلبہ دکھائی دیتا ہے۔یہ نظم اقبال کی وطن محبت کی عمدہ مثال ہے اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تونے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایاواعظ کو بھی خدا نے
تنگ آکے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا واعظ چھوڑا ،چھوڑے ترے فسانے
آ…! غیرت کے پردے اک بار پھر اٹھا دے
بچھڑوں کو پھر ملا دیں، نقش دوئی مٹا دیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ…! اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامان ِ آسماں سے اس کا کلس ملا دیں
ہر صبح اٹھ کے گائیں منتروہ میٹھے میٹھے
سارے پجاریوں کو مے پیت کی پلادیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے (۴)
(۵)وطنیت:۔ علامہ اقبال کی شاعری میں لفظ ’’ وطنیت ‘‘ ایک وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے۔پہلا تو عام نظریہ جو ہر کوئی جانتا ہے یعنی اپنے وطن سے محبت کا جذبہ ۔جو ہر ملک و قوم میں اپنی سرزمیں سے ہوتا ہے ،اور وہ اپنی جان قربان کر کے بھی اپنے وطن کا وفادار ہوتا ہے۔دوسرا ’’وطنیت ‘‘ کا سیاسی تصور ۔جو اس نظم میں بیان کیا گیا ہے ۔وطن سے محبت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے مذہب سے دور ہوگئے۔اقبال نے اپنی ساری زندگی ’’وطنیت ‘‘ کے اسی غیر اسلامی نظریہ کی تردید کی،اور ’’ بانگ درا‘‘ سے لے کر’’ ارمغان حجاز تک ’’وطنیت ‘‘ کے مقاصد کو واضح کرتے رہے ۔ بہر حال علامہ اقبال کی یہ بھی انتہائی اہم نظم ہے جس میں ڈرامائی اوصاف بکھرے پڑے ہیں ۔اس نظم کا ڈرامائی جزئیات کے مطابق مطالعہ یہاں پیش کیا جاتا ہے ۔
اس دور میں مے اور ہے ،جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوبؐ الٰہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیر ہن اس کا ہے ،وہ مذہب کا کفن ہے
٭
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے!
اقوام میں مخلوق خدا بنتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے (۵)
(۶)صدائے درد :۔ یہ علامہ اقبال کی انتہائی اہم نظم ہے جس میں اقبال نے ۱۹۰۵سے لے کر ۱۹۴۵تک کے ہندستان کی تاریخ کی تصویر کشی کی ہے۔اس نظم میں انھوں نے ہندو مسلم قوم کو ایک ہی خرمن کے دانوں سے تعبیر کیا ہے ۔اقبال کا یہ نظریہ سرسید احمد خاں کے اس تقریر سے مستعار لیا گیا ہے جب سر سید نے کہا تھا کہ ہندوستان ایک دلہن اور ہندو مسلمان اس کی دو آنکھیں ہیں اور اس کاحسن دونوں آنکھوں کی بقاء پر موقوف ہے اگر ایک آنکھ جاتی رہے تو یہ دلہن کانی ہو جائے گی۔اس نظم کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں :
جل رہاہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط ! آب گنگا تو مجھے
سر زمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا ،یاں تو اک قر ب فراق انگیز ہے
بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب
جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں
لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں
اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتاہوں میں
دانہ خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں ؟
حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو
کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے
پھونک ڈالا جب چمن کا آتش پیکار نے (۶)
(۷) آفتاب :۔یہ نظم گائتری منتر کا منظوم آزاد اردو ترجمہ ہے ۔جسے اقبال نے رگ ویدکے مشہور مقدس منتر سے لیا ۔جسے ہندو مذہب میں لوگ ’’ گائیتری منتر ‘‘ بولتے ہے ، جو رگ وید کی روح مانی جاتی ہے ۔یہ ہندو مذہب میں کسی کی موت کے وقت بیٹھ کر لوگ اس شخص کی آتما کی شانتی کے لیے پڑھتے ہے۔یہ منتر وید کے تیسرے منڈل کے بھجن نمبر ۶۲کے دسویں اشلوک میں آیا ہے۔اس نظم کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اے آفتاب! روح و روان جہاں ہے تو
شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا
قائم یہ عنصر وں کا تماشا تجھی سے ہے
ہر شئے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے
وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے
دل ہے ،خرد ہے ،روح رواں ہے ،شعور ہے
اے آفتاب! ہم کو ضیائے شعور دے
چشم خرد کو اپنی تجلی سے نور سے
ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو
زائیدگان نور کاہے تاجدار تو
نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری
آزاد قید اوّل و آخر ضیا تری(۷)
اس پوری نظم میں تسلسل اور روانی کا عنصر غالب ہے ۔خیال صاف ستھرے آسان اور عام فہم زبان میں ادا کئے گئے ہے ۔جس کے سبب کہیں بھی کشمکش یا تصادم کی کیفیت کا احساس نہیں ہوتا۔معنی یا مطالب سمجھنے میں کوئی رکاوٹ در پیش نہیں آتی ہے۔
(۸)تصویر درد:۔یہ علامہ اقبال کی ایک طویل نظم ہے ۔جسے اقبال نے ۱۹۰۴کے آغاز میں لکھی تھی ۔یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال پر وطن پرستی کا رنگ غالب تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس نظم میں وہ ایک وطن پرور کے روپ میں سامنے آتے ہے۔اقبال کی وطن پرستی کی جو شدت اس نظم میں محسوس ہوتی ہے وہ کہیں اور نہیں دکھائی دیتی ، وطن پرستی پر لکھی گئی ان کی تمام نظموں میں یہ ممتاز حیثیت رکھتی ہیں ۔اس نظم میںشاعر بیانیہ انداز میںداستان گوئی کے انداز میں مخاطب ہوتا ہے جس کے سبب پہلے مصرعہ سے ہی ڈرامائیت کااحساس ہونے لگتا ہے ۔ چونکہ یہ ایک طویل نظم ہے اس لیے طوالت کے ڈر سے ان عناصر کا مطالعہ میں بطور مثال چند اشعار ہی پیش کیے جائیں گے۔
نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے ،بے زبانی ہے زباں میری
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا ، تیری محفل میں ؟
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
الٰہی ! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا مین رہنے کا ؟
حیات جاوداں میری ، نہ مرگ ناگہاں میری !
پریشاں ہوں میں مشت خاک ،لیکن کچھ نہیں کھلتا
سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گرد کدورت ہوں
اڑالی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
ٹپک اے شمع! آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں ،حسرت بھری ہے داستاں میری
اجاڑا ہے تمیزملت و آئیں نے قوموں کو
مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے؟
سکوت آموز طول داستانِ درد ہے، ورنہ
زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تاب سخن بھی ہے(۸)
لہٰذا یہ کہہ سکتے ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کو محض تفنن طبع کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اسے حیات انسانی کو سنوارنے کا وسیلہ بنایا ۔انھوں نے اپنی شاعری میں شعری محاسن کا استعمال اپنے ناز و انداز میں کیا۔اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کبھی حکیمانہ ،فلسفیانہ اور مفکرانہ انداز میں بات کہی تو کبھی مکالماتی، ڈرامائی،اور تمثیلی انداز میں اپنا پیغام دوسروں کے ذریعہ کہلایا۔کبھی غنائیہ اسلوب میں بات کہہ کر اپنے قارئین و سامعین میں کیف وسرور کی کیفیت پیدا کی تو کبھی ظریفانہ انداز اختیار کر قوم و ملت کی اصلاح اور انھیں حقیقت سے روشناس کرانے کا کام لیا۔اس طرح اقبال نے اردو کی مروجہ شعریات کو اپنے فکرکے سانچے میں تحریف و تقلیب کے ساتھ ڈھال کر اس میں نئی معنویت ،نئی تازگی،نئی گہرائی و نئی روح پھونک دی۔جس کے باعث اقبال کے کلام میں ان کے زبان و بیان میں ایسی ندرت پیدا ہوگئی جو اقبال ہی سے مختص ہے۔ شاید اسی لیے سجاد انصار ی نے کہا تھا کہ اگر قرآن اردو میں نازل ہوتاتو وہ اقبال کی نظم ہو تا یا ابولکلام آزاد کی نثر میں ۔ــ
حواشی
(۱)’’کلیات اقبال ‘‘ (اردو) ،خواجہ عبد الحمید یزدانی ،۲۰۰۶،کتابی دنیا ،دہلی ،’’بانگ درا‘‘، نظم ’’ہمالہ ‘‘ ،ص ، ۳۹۔
(۲)’ ’ایضا‘‘ َ….’’بانگ درا‘‘نظم’’ہندستانی بچوں کا قومی گیت ‘‘ ، ص ۱۲۲،۱۲۳۔
(۳)’ ’ایضا‘‘ َ….’’بانگ درا‘‘نظم’’ترانہ ٔ ملی ‘‘ ص ، ۲۲۵،۲۲۶، ۲۲۷۔
(۴)’ ’ایضا‘‘ َ….’’بانگ درا‘‘نظم’’نیا شوالہ ‘‘ ص ، ۱۲۳، ۱۲۴۔
(۵)’ ’ایضا‘‘ َ….’’بانگ درا‘‘نظم’’وطنیت ‘‘ ، ص ، ۲۲۷،۲۲۸۔
(۶)’ ’ایضا‘‘ َ….’’بانگ درا‘‘نظم’’صدائے درد ‘‘ ص ، ۶۱۔
(۷)’ ’ایضا‘‘ َ….’’بانگ درا‘‘نظم’’آفتاب ‘‘ ،ص ، ۶۲۔
(۸)’ ’ایضا‘‘ َ….’’بانگ درا‘‘نظم’’تصویر درد ‘‘ ، ص ، ۹۶سے ۱۰۷۔
٭٭٭
salehasiddiquin@gmail.com

Leave a Comment