از : ڈاکٹر قدسیہ نصیر
نئی دہلی۔
Email:-qudsia.nasir1@gmail.com
سالِ نَو کی آمد آمد ہے۔ رواں سال جب الوداع کہہ رہا ہو تو ذرا پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں کہ اس ایک برس میں زمینِ چمن نے کیا کیا گُل کھلائے، اور بدلتا رہا رنگِ آسماں کیسے کیسے؟ہمارے ملک میں حصولیابی کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ خصوصاً خواتین نے کامیابی و کامرانی کی جو نئی تاریخ رقم کی ہے وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس برس بھی تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین نے جو کارہائے نمایاں انجام دیں ہیں وہ قابل فخر بھی ہے اور قابل رشک بھی۔ سیاست کے میدان سے لیکر کھیل کے میدان تک خواتین نے بڑی ہنر مندی سے اپنا سفر طے کیا ہے۔ موسیقی،فلم ، مصوری، صحافت، صنعت و حرفت ، تعلیم، بینک کاری اور شعبہ جراحت سے لیکر خلائی مشن تک خواتین نے جس عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے وہ نسل نو کے لئے قابل تقلید ہے۔
اپنے زمانے کے مایا ناز بیڈ منٹن کھلاڑی اور بیڈمنٹن کے موجودہ نیشنل کوچ پولیلا گوپی چند نے سالِ رواں کو بیڈمنٹن کے نقطہ نظر سے ایک شاندار سال قرار دیا ہے۔ سال ۲۰۱۷ میں سائنہ نیہوال اور پی وی سندھو دونوں کے کارنامے قابلِ فخر رہے ہیں۔پی وی سندھو ۲۰۱۷ میں اپنی کارکردگی سے خود بہت خوش اور مطمعن ہیں۔ انھوں نے دو دو سُپر سیریز جیتنے کے علاوہ ورلڈ چیمپین شپ میں سلور میڈل بھی حاصل کیا۔پی وی سندھو نے ریو ڈی جے نیریو اولمپک سے جو سفر شروع کیا تھا وہ سفر نہ صرف جاری ہے بلکہ سن ۲۰۱۷ میں وہ اپنی کامیابی کے عروج پہ رہی ہیں۔ انھوں نے گلاسگو عالمی چمپیئن شپ اور ہانگ کانگ اوپن سیریز میں دوسرا مقام حاصل کیا۔ سال رواں میں پی وی سندھو عالمی رینکنگ میں تیسرے مقام پہ رہیں۔ پی وی سندھو کے لئے بھی رول ماڈل رہیں سائنہ نہوال وہ کھلاڑی ہیں جنھوں نے بھارت میں بیڈمنٹن کو لڑکیوں میں مقبول بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ سن ۲۰۱۷ کا آغاز سائنہ نہوال نے ملیشیا اوپن گرانڈ پریکس گولڈ کے ساتھ کیا۔ اس سال سائنہ نہوال نے نیشنل بیڈمنٹن چمپیئن شپ جیت کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔
ہاکی ہمارے ملک کا قومی کھیل ہے۔ ہاکی کے میدان میں عالمی سطح پر ہمارے کھلاڑیوں نے ہمیشہ بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہاکی کے جادوگر میجر دھیان چند کے علاوہ آر پی سنگھ، محمد شاہد، پرگٹ سنگھ ، ظفر اقبال، دھنراج پلئی اور بابو کے ڈی سنگھ جیسے عظیم کھلاڑی ہمارے ملک میں پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن ہاکی کے میدان سے خواتین کا نام بہت کم سامنے آتا تھا۔ عالمی سطح پر خواتین ہاکی ٹیم کے کارنامے متاثر کن نہیں تھے۔ لیکن سال رواں میں بھارت کی خواتین ہاکی ٹیم نے وہ کارنامے انجام دئے ہیں کہ کھیل شائقین ششدر رہ گئے۔ جاپان میں منعقد ایشیا کپ جیت کر نہ صرف ہندوستانی ترنگے کی شان بڑھائی بلکہ اگلے سال ہونے والے ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی بھی کیا۔ ایک نہایت سخت اور دلچسپ مقابلے میں چین کی ٹیم کو شکست دے کر ہندوستانی خواتین ہاکی ٹیم نے ہمارا سر بلند کیا۔ خوشی کے اس موقعے پر خود وزیر اعظم ہند نے خواتین ہاکی ٹیم کو مبارکباد پیش کی۔ محترم وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں ہماری لڑکیوں کی کارکردگی پہ ناز ہے۔ رانی، مونیکا، سویتا ،لیلیما مِنج اور نوجوت کے کھیل نے دنیا بھر کے ہاکی شائقین کو متاثر کیا۔ جاپان کے شاندار ہاکی اسٹیڈیئم میں ہندوستانی لڑکیاں جب ترنگے کے ساتھ مارچ کر رہی تھیں تو ہر ہندوستانی کا دل باغ باغ ہو رہا تھا۔ ہاکی کی طرح کرکٹ کے میدان میں بھی ہندوستانی لڑکیوں نے سال ۲۰۱۷ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔انگلینڈ میں منعقد ورلڈ کپ میں ہندوستانی خواتین کرکٹ ٹیم نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کر کے لاکھوں شائقین کا دل جیت لیا۔ متالی راج ، ہرمن پریت کور ، نزہت پروین اور جھولن گوسوامی جیسی کھلاڑیوں نے ہندوستانی خواتین کرکٹ ٹیم کو ایک نئی بلندی عطا کی ہے۔ سن ۲۰۱۷ میں خواتین کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے لئے ممبئی ایئرپورٹ سے جب روانہ ہو رہی تھی تو ٹیم انتظامیہ کے افسران کے علاوہ کھلاڑیوں کے گھر کے چند افراد ہی ایئر پورٹ پہ موجود تھے۔ لیکن یہی ٹیم جب فائنل مقابلے تک پہنچی تو ملک بھر میں ان لڑکیوں کی کامیابی کے لئے دعائیں ہونے لگیں۔ اگرچہ یہ ٹیم فائنل مقابلے میں شکست سے دوچار ہوئی ۔ لیکن اپنی سوجھ بوجھ اور جارحانہ کھیل سے ان لڑکیوں نے بے حد متاثر کیا۔
سیاست کے میدان میں بھی ہندوستانی خواتین نے قابلِ تحسین خدمات انجام دی ہیں۔ بات محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی کی ہو یا محترمہ سشما سوراج و محترمہ نرملا سیتا رمن کی۔ ان سب کی خدمات کو نہ صرف ملکی سطح پر سراہا گیابلکہ بین الاقوا می سطح پر ان کی پذیرائی ہوئی ہے۔ رواں سال میں وزارت اطلاعات و نشریات جیسی اہم وزارت کی ذمہ داری محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی کو دی گئی ہے۔ اس سے قبل وہ ٹیکسٹائل اور فروغ انسانی وسائل جیسی اہم وزارتوں کی ذمہ داری بہ حسن و خوبی انجام دے چکی تھیں۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں محترمہ اسمرتی ایرانی سے پہلے صرف تین خواتین کو وزارت اطلاعات و نشریات کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ صرف ہمارے ملک میں نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں وزارت دفاع کو ایک بے حد اہم وزارت تصور کیا جاتا ہے۔ہندوستانی خواتین کے حوالے سے رواں سال اس طرح بھی اہمیت کا حامل ہے کہ محترمہ نرملا سیتا رمن کو وزیر دفاع کی ذمہ داری دی گئی۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں محترمہ نرملا سیتا رمن دوسری خاتون وزیر دفاع ہیں۔ تمل ناڈو کے مدورئی میں ایک بہت معمولی تمل خاندان میں پرورش پانے والی نرملا سیتا رمن نے اپنی محنت اور قابلیت سے یہ پُر وقار مقام حاصل کیا ہے۔ ہندوستان کی تمام خواتین کے لئے وہ باعث رشک اور باعث تقلید ہیں۔
آج عالمی سطح پر آلودگی کو لیکر بحث جاری ہے۔ گلوبل وارمنگ ایک سنگین صورت حال میں دنیا کے لئے چیلنج بنا ہے۔ ہمارے ملک بھارت میں بھی ماحولیات کو آلودگی سے پاک رکھنے کی جدو جہد جاری ہے۔ اس جد وجہد میں سنیتا نرائن جیسی خواتین کے رول کو بھلا کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ پدم شری سنیتا نرائن ’’ ڈائون ٹو ارتھ ‘‘ میگزین کی اڈیٹر ہیں۔ وہ ماحولیاتی آلودگی اور فوڈ سیفٹی کے تعلق سے مسلسل لکھتی رہتی ہیں۔ اس سال انھوں نے فوڈ سیفٹی کے میدان میں جو کارنامے انجام دئے ہیں اس کے لئے آنے والی نسلیں شکر گزار ہونگی۔
ایک زمانے تک یہ تصور عام تھا کہ بزنس ورلڈ میں مالکانہ حقوق عورتوں کے لئے محال ہے۔ لیکن دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہندوستان میں بھی خواتین نے بزنس ورلڈ میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ میدان کوئی بھی ہو خواتین اعلیٰ ترین مقام پہ پہنچ سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں محترمہ ونیتا نرائینن کی کامیابی قابل ذکر ہے۔ سال رواں میں انھیں آئی بی ایم جیسی بڑی کمپنی میں چیئر پرسن بنایا گیا۔
جہاں تک شعر و ادب کی دنیا کا سوال ہے تو سال رواں میں لٹریچر کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’ بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ ‘‘ ایک خاتون کو دیا گیا ہے جنھیں ہم سب کرشنا سوبتی کے نام سے جانتے ہیں۔ کرشنا سوبتی نہ صرف ہندی کی بڑی ادیبہ ہیں بلکہ تمام ہندوستانی زبانوں میں وہ ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ سالِ رواں میں جیسے ہی گیان پیٹھ ایوارڈ کے لئے کرشنا سوبتی کے نام کا اعلان ہوا وہ مہادیوی ورما، قرۃالعین حیدر، مہاشویتا دیوی اور اندرا گوسوامی جیسی عظیم لٹریری ہستیوں کی فہرست میں شامل ہو گئیں۔ کرشنا سوبتی افسانے ، ناول اور مضامین لکھتی رہی ہیں۔ انھوں نے بہت کم عمری میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی ہندی ایک الگ اسلوب کی ہندی ہے۔ اپنی ہندی تحریروں میں انھوں نے پنجابی اور اردو کے الفاظ کو بڑی خوبصورتی سے پرویا ہے۔ کرشنا سوبتی کے ناولوں کا ترجمہ اردو اور انگریزی کے علاوہ بہت سی زبانوں میں ہو چکا ہے۔
ہندوستانی خواتین کو ہر میدان میں ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لئے نیتی آیوگ نے ایک بہت کار آمد پہل کی ہے۔ رواں سال میں وزارت اطلاعات و نشریات کی وزیر محترمہ اسمرتی ایرانی نے ان ایک درجن خواتین کو انعام سے نوازا جنھوں نے بے سروسامانی کے عالم میں کار ہائے نمایاں انجام دئے تھے۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں رہ کر ، وسائل کی کمی کا سامنا کرتے ہوئے سماج اور ملک کی بہتری کے لئے کچھ کر نے کا جذبہ رکھنے والی ان خواتین کو ایوارڈ دیکر محترمہ اسمرتی ایرانی نے ایک قابل تعریف فریضہ انجام دیا ہے۔ ان میں گلوکارہ بننے کی خواہش رکھنے والی اتر پردیش کی لکشمی اگروال اور بنگال کی سبھاسنی مستری بھی شامل ہیں۔ نہایت کم عمری میں سبھاسنی مستری کے شوہر کا انتقال اس وجہ سے ہو گیا کہ اسے وقت پر مناسب علاج کی سہولت نہ مل سکی۔ شوہر کے انتقال کے بعد سبھاسنی نے اپنی غربت اور بے بسی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے علاقے میں ایک اچھے اسپتال کی بنیاد رکھی۔ اور اپنے جنون سے اسے پورا کر کے دکھایا۔سڑک کنارے سبزی فروخت کر کے سبھاسنی نے اپنے چار بچوں کی پرورش کی اور تھوڑے تھوڑے پیسے بچا کر غریبوں کے لئے ایک اسپتال قائم کر دیا۔ اس کے جنون کو دیکھتے ہوئے علاقے کے لوگوں نے بھی اس کی بھرپور مدد کی۔ اس باحوصلہ خاتون کو رواں سال میں مرکزی حکومت کی جانب سے ایوارڈ پیش کر کے ان تمام خواتین کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے جو زندگی میں شکست کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک باحوصلہ خاتون ممبئی کی سفینہ حسین بھی ہیں جنھیں اس برس نیتی آیوگ کی جانب سے ایوارڈ پیش کیا گیا۔لندن اسکول آف اکونامکس سے گریجو ایٹ سفینہ حسین کے لئے یورپ میں کہیں بھی ایک اچھی نوکری کی بھرپور گنجائیش تھی۔ لیکن وطن واپس آکر انھوں نے غریب اور نادار لڑکیوں کی تعلیم کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔ ان کے اسی جذبہ ایثار کو دیکھتے ہوئے انھیں اس برس نیتی آیوگ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
فلم اور مقابلہ حسن کے میدان میں بھی ہندوستانی خواتین نے رواں سال میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جہاں ایک طرف پرینکا چوپڑہ جیسی اداکارہ نے بالی وُڈ میں اپنی اداکاری کا جلوہ دکھا کر بالی وُڈ کو ہندوستانی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے لئے مجبور کیا۔ وہیں کنیکا کپور جیسی گلوکارہ نے انٹر نیشنل انڈین فلم اکیڈمی کا ایوارڈ جیت کر اس سال کو یادگار بنایا۔ دوسری طرف انٹر نیشنل مقابلہ حسن میں مانوشی چھلر نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ چین میں منعقد مِس ورلڈ مقابلہ حسن میں ہریانہ کی میڈیکل طالبہ مانوشی چھِلّر نے دنیا بھر کی ایک سو اٹھارہ (۱۱۸) حسینائوں کو مات دیکر خطاب اپنے نام کیا۔ ادھر چین میں مانوشی چھِلّر ہندوستان کا نام روشن کر رہی تھیں تو ہمالہ کی بلندی کو اپنے حوصلے سے پست کرنے والی ۳۷ سالہ انشو جام سینپا نے ایوریسٹ کی چوٹی کو فتح کر کے یہ ثابت کیا کہ حوصلے بلند ہوں تو کسی بھی بلندی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اروناچل پردیش کی رہنے والی انشو جام سینپا وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے چار مرتبہ مائونٹ ایوریسٹ کو فتح کیا ہے۔ اسی برس ہریانہ کی بہادر پولس انسپکٹر انیتا کنڈو نے چین کی جانب سے ایوریسٹ فتح کر کے تاریخ میں اپنا نام امر کر لیا۔ سال رواں میں خواتین کے حوالے سے ایک اہم خبر یہ بھی رہی کہ ہندوستان کی چار سب سے قدیم ہائی کورٹس کی چیف جسٹس خواتین رہی ہیں۔ ممبئی، چنئی، کولکاتا اور دہلی ہائی کورٹس کی سربراہی خواتین کے ہاتھوں میں رہی۔ مختصر طور پہ ہم دیکھتے ہیں کہ سال رواں میں خواتین نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دی ہیں۔ جس پہ ملک کو ناز ہے۔