٭سعدیہ سلیم
شعبۂ اُردو سینٹ جانس کالج، آگرہ
جسم تو خاک ہے اور خاک میں مل جائے گا
میں بہرحال کتابوں میں ملوں گا تم کو
اس دنیا کی ابتداء سے اب تک بے شمار لوگ اس دنیا میں پیدا ہوئے پر جو شخص آیا۔ اُس کو ایک نہ ایک دن اس دارِ فانی سے کوچ کرنا ہے۔ ہر شخص ایک خاص مدت کے لئے ویزا لے کر آیا ہے۔ جس کی مدت پوری ہوتی گئی۔ وہ یہاں سے رخصت ہوتا گیا۔ یہی سلسلہ آج تک بھی ہے۔ اور تا قیامت تک جاری رہے گا۔ نئے لوگ آتے رہتے ہیں۔ اور پرانے اس دنیا سے رخصت ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے کاموں کی بدولت اپنا ایسا نقش ہمارے ذہنوں پر چھوڑا کہ لوگ انہیں یاد کرتے ہیں۔ ان کے کارناموں سے کچھ سیکھتے ہیں۔ اور اپنے لئے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ لوگ جسمانی طور پر بھلے ہی ہمارے درمیان نہ ہوں لیکن روحانی طور پر اپنی خدمات کے تئیں ہمارے درمیان زندہ و جاوید رہیں گے۔ اور اسی میں ہی ایک معزز شخصیت ’’سر سید احمد خاں ہے‘‘۔
سرسید احمد خاں صرف ادبی شخص ہی نہیں۔ بلکہ مکمل ادب ہیں۔ جہاں تک اُردو ادب میں مضمون کا سوال ہے۔ ان کی مضمون نگاری ادب میں ایک انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔ جبکہ ان کے ساتھ ان کے علاوہ انکے ادبی رفقاء نے بھی مضامین لکھے ۔ جیسے حالیؔ، محمد حسین آزادؔ، شبلیؔ، ڈپٹی نذیر احمد، محسن الملک، وقار الملک اور مولوی چراغ علی نے بھی سماجی مضامین لکھے۔ لیکن وہ سرسید کے پائے کمال تک نہ پہنچ سکے۔ سرسید کے مضامین اس دور کی سماجی، نفسیاتی اور معاشی حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ 1857ء کی جنگ میں جو حالات ملک کے بنے ہوئے تھے اس کے جز کو سرسید نے اپنے مضامین میں پیش بھی کیا۔ اور قوم کی اصلاح کا کام بھی ان مضامین سے لیا۔ تاکہ عوام تک ان کی سوچ ان کی فکر بآسانی پہنچ سکے۔ قومی جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ قوم کو اپنے مضامین کے ذریعے بیدار کرنا چاہتے تھے۔ جو انہوں نے کیا جس دور میں سرسید نے آنکھیں کھولی وہ دور نفسا نفسی کا دور تھا۔ قوم کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ اور قوم کو ایک ایسے ادیب کی ضرورت تھی جو قوم کا بیڑا پار لگائے۔ اللہ نے سر سید جیسے قومی رہنما کو دنیا میں بھیجا۔ انگریز جو مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے۔ سرسید نے اپنے مضامین کے ذریعے ایک طرف تو قوم کو بیدار کیا اور دوسری طرف انگیریزوں کی غلط فہمیاں بھی دور کیں۔
سرسید نے قوم کی بگڑتی ہوئی حالت پر افسوس ظاہر کیا اور ایسے مضامین لکھنا شروع کئے جو ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ قوم کی اصلاح کا بھی فرض انجام دیں۔ سرسید نے ایسے ادیبوں کو اور شاعروں کو اپنے ساتھ جوڑا جو ان کے ہی ہم خیال تھے اور ہم مجاز بھی تھے۔
سرسید کے مضامین سماجیات پر منحصر ہیں۔ سرسید قوم کو انگریزوں تعلیم سے آشنا کرانا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے 1863ء (غازی پور) میں سائنٹفک سوسائٹی (Scientific Society) قائم کی۔ اس سوسائٹی میں انگریزوں کی کتابوں کا اُردو میں ترجمہ ہوا۔ سرسید کے مضامین میں جو زبان استعمال ہوئی وہ نہایت ہی سادہ اور روا تھی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ عوام زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی۔ اور وہ اپنی بات عام آدمی تک پہنچانا چاہتے تھے۔ سر سید نے زیادہ تر جدید تعلیم پر زور دیا۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے۔ کہ جدید تعلیم کے بغیر مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے۔ سرسید کی نگاہ بہت دور تک تھی۔ انہوں نے یہ دیکھ لیا تھا۔ کہ زندگی نے جو رُخ اختیار کر لیا ہے۔ اس کو بدلا نہیں جاسکتا اور اس میں رکاوٹ پیدا کرکے اس رفتار کو بھی روکا نہیں جاسکتا۔ بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ اس لئے انہوںنے اپنی تمام تر توجہ جدید تعلیم پرمذکور کردی۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد ہی اپنے ہم وطنوں کو جدید علوم سے روشناس کرانا تھا۔ اس سوسائٹی کے جلسوں میں جس میں نئے نئے سائنسی مضامین پر لیکچر ہوئے۔ اور آلات کے ذریعے سے تجربے بھی کئے جاتے۔ اس طرح سے سرسید نے بہت سے مضامین لکھے۔ جس میں قوم کی خدمات کو مدِ نظر کیا اور اصلاحی پہلو کو بھی اُجاگر کیا۔ ہندوستانی ادب جو زوال کے دور میں زندگی کے دھاروں سے کٹ کر نشاط تفریح کی جنت خیات بن گیا تھا۔ ہندوستانی زندگی کو بدلتے ہوئے حالات سے نئے طرز سے آشنا کرنے اور مسلسل اصلاحی عمل سے نئے رنگ پیدا کرنے سہرا سرسید کے سر ہی بندھتا ہے۔ ان کی ذہانت، محنت اور ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ 18؍برس کی سن میں انہوں نے تعلیم کے مدارس طے کر لئے۔ اسی زمانے میں انہوں نے مضمون نگاری شروع کی۔ ان کے مضامین ’’سیدالاخبار‘‘میں چھپتے تھے۔ سرسید بہت سادہ زبان لکھتے تھے۔ اور شعوری طور پر اس کی کوشش کرتے تھے۔ کہ ان کے مفہوم کا کوئی حصہ فکری الجھائو یا بیان کی پیچیدگی کی نظر ہوکر محروم نگاہ نہ رہ جائے۔ وہ انگریزی الفاظ بہت بے تکلفی سے استعمال کرتے ہیں انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ اور ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے انتہائی سادہ زبان میں اسے بیان کردیا ہے۔ واقعات پسندی اور ایسی واقعات پسندی جو آزاد فکر کی توانائی اپنے اندر رکھتی ہے۔ سرسید نے ہمہ گیر طور روایت پرستی کے بندھنوں کو توڑا ہے۔ اور اس آزادی کے ساتھ لکھا ہے جسے ہم ’’افسانویت‘‘ کہتے ہیں ویسے تو سرسید نے بہت مضامین لکھے۔
عمر رفتہ، ترقی علماء و انشاء، بحث و تکرار، امید کی خوشی وغیرہ’’امید کا خوشی‘‘ انکا ایک مشہور مضمون ہے۔ اس میں بہت لطیف خیال آرائی بھی ہے۔ اور حالات بیان بھی اس مضمون کے چند ٹکرے ملک ملاحظہ ہو۔
’’اے آسمانوں کی روشنی اور ایک نا امیددلوں کی تسلّی امید! تیرے ہی شاداب اور سبز باغ سے ہر ایک محنت کا پھل ملتا ہے تیرے ہی پاس ہر درد کی دوا ہے تجھی سے ہر ایک رنج میں آسودگی ہے۔ عقل کے ویران جنگلوں میں بھٹکتے بھٹکتے تھکاہوا مسافر تیرے ہی گھنے باغ کے سر سبز درختوں کے سائے کو ڈھونڈتا ہے وہاں کی ٹھنڈی ہوا، خوش حال جانوروں کے راگ ، بہتی نہروں کی لہریں، اس کے دلوں کو راحت دیتی ہیں۔ اس کے مرے ہوئے خیالات کو پھر سے زندہ کرتی ہیں۔ تمام فکریں دل سے دور ہوتی ہیں۔ اور دو راز زمانے کی خیالی خوشیاں سب موجود ہوتی ہیں‘‘۔ (مضمون: امید کی خوشی)
’’گزرا ہوا زمانہ‘‘، ’’سیراب حیات‘‘ وغیرہ بھی اس قسم کے مضامین ہیں۔ سرسید کی تحریروں میں کہیں کہیں پر زور قلم کا رنگ آگیا ہے یہ ایسے مواقع ہیں جس میں انہوں نے ایسے مخالفوں کی تنگ نظری تعصب اور کم فہمی پر ششتہ ادبی طنز کیا ہے۔
سرسید نے مختلف موضوعات میں طبع آزمائی کی ان کے مضامین نے لوگوں کو بے حد متاثر کیا۔ بلکہ ان کی تحریریں اس قدر اثر انداز ہوتی تھیں کہ قاری کے دل پر فوراً اثر کرلیتی۔ ان کے مضامین مختصر عام فہم اور اپنے مقصد پر حاوی ہوتے تھے۔ اپنے مقصد کے حصول میں انہیں بہت سی رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اپنے حوصلوں کو کبھی پست نہیں ہونے دیا۔
’’ہم بڑے حوصلے کے بڑے لوگ ہیںزخم پر زخم دل پہ ہیں کھائے ہوئے۔پھر بھی اپنی ایک ہی روش وہ جو ہے پرچم حق ہیں پھر بھی اٹھائے ہوئے‘‘۔
یہ ایک مسلمہ حقیت ہے کہ سرسید کو اللہ نے خاص ذہن عطا کیا تھا۔ پھر یہ بھی ان کی خوش نصیبی تھی کہ ان کو ماں کی صدرت میں ایک نہایت ہی باوقار اور سمجھ دار خاتون کی گود نصیب ہوئی۔ جنہوں نے سر سید کے پوشیدہ جوہر کو پہچان لیا اور ان کی تربیت اس طرح کی کہ سر سید کی شخصیت ماں کی گود کی بھٹّی میں تپ کر کندن بن گئی۔
خصوصاً اُردو ادب اُردو زبان پر ان کے احسانات کے آگے ہماری گردن احساس ممونیت کے ساتھ ہمیشہ ضم رہیں گی۔ سرسید سے پہلے اُردو ادب میں نثر کا خصوصاً عملی نثر کا وجود نہ تھا۔ ادب کا دائرہ علاوہ شاعری کے مذہب تصوف اور تاریخ نگاری تک محدود تھا۔ غالبؔ کی نثر بھی کوئی شعوری کوشش نثر کی اصلاح یا ارتقاء کی نہ تھی۔ بلکہ یہ وہ خطوط تھے جو وقتاً فوقتاً انہوں نے اپنے دوستوں کو لکھے۔ سرسید نے اُردو نثر پر کئی طریقوں سے اثر ڈالا۔ انہوں نے مضمون و معنیٰ کو اولیت دی طرز ادا کو ثانوی درجہ دیا۔ انہوں نے زبان کو عام فہم بنایا اور ہر قسم کے مضامین ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کی۔
اُردو ادب کی خدمات میں ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا بھی بڑا دخل ہے۔ جس کی نثر نے اُردو کو علمی ادبی، معاشرتی اور تہذیبی اقدار سے مالا مال کیا اور لوگوں کے ذہنوں کو جلا بخشی۔ یہ بھی سر سید کی بڑی خوش قسمتی تھی کہ انہیں رفقائے کار کا ایسا حلقہ میں اثر تھا۔ جس میں ہر ایک قومی خدمت کے جذبے سے سرشار تھا اور یہی وجہ تھی کہ سر سید تحریک کا جادو ہر جگہ سر چڑھ کر بولا ورنہ اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ جب تک کسی تحریک میں بے لوث، بے غرض خدمت کرنے والے ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر سنجیدگی سے سوچنے والے افراد نہ ہوں تحریک اپنی موت آپ مرجاتی ہے۔ یوں تو سر سید کی تصانیف کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں ادبی، سیاسی، تاریخی، اور مذہبی سب ہی اقسام کی کتب موجود ہیں لیکن زیادہ مشہور مندرجہ ذیل کتابیں ہوئیں۔
آثار الصنادید: اس میں دہلی کی عمارتوں اور وہاں کے لوگوں کا حال ہے ۔
خطبات احمدیہ: یہ سر ولیم میسور کی اس کتاب کا جواب ہے جس میں اس نے حضور اکرمﷺ کے خلاف زہر
اگلا تھا یہ سر سید کا عظیم الشان علمی کارنامہ ہے۔
اسباب بغاوت ہند: سر سید نے اس میں 1857ء کی جنگ کی وجوہات بیان کی ہیں۔
ضلع بجنور: تفسیر القرآن اور مختلف علمی اور ادبی مضامین میں جو ’’مضامین سر سید‘‘ اور ’’مقالات سر سید‘‘ کے نام
سے مختلف جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔
سر سید پہلے شخص ہیں جنہوں نے اُردو زبان کو پستی سے نکالا اور اسے معیار تک پہنچایا۔ انہوں نے جو کوشش اُردو زبان اور ادب کے لئے کیں اس کا اندازہ اس اقتباس سے بخوبی ہوسکتا ہے۔
’’جہاں تک ہم سے ہوسکا اُردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعہ سے کوشش کی الفاظ کی درستگی، بول چال کی صفائی پر کوشش کی ہے۔ رنگین عبارت جو تشبیہات و استعارات خیالی سے بھری ہوتی ہے جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر اس کا اثر نہیں ہوتا، پرہیز کیا تُک بندی سے جو اس زمانے میں مقفیٰ عبارت کہلاتی تھی ہاتھ اٹھایا جہاں تک ہوسکا سادگیٔ عبارت پر توجہ دی‘‘۔
اس کے علاوہ سرسید نے اور بھی بہت اصلاحات کیں انہوں نے پیراگراف بناکر لکھنے کا طریقہ بتایا غرضیکہ سرسید کی ادبی خدمات کا جتنا بھی اعتراف کیا جائے کم ہے۔ سرسید احمد خاں کے پیشِ نظر چونکہ ایک اصلاحی مقصد تھا اس لئے ان کی پوری روح بیدار نہ ہوسکی تا ہم Essayکے مضامین اگرچہ انگریزی علی گڑھ تحریک اور تہذیب الاخلاق کی بدولت اُردو ادب کا تعارف ایک ایسی صنف سے ہوگیا جس کی جہتیں بے شمار تھیں اور جس میں اظہار کے رنگا رنگ موجود تھے۔
سرسید نے ہر پہلو پر قلم اٹھایا اور ہر مقام پر اپنا اصلاحی پہلو کو ہی اجاگر کیا۔ اکیلے ہی چلے اور پوری قوم کو کارواں بنالیا۔
’’مجروح سلطان پوری کا یہ شعر سرسید پر بالکل درست بیٹھتا ہے ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
غرضیکہ سرسید وہ روشن اور تابندہ ستارہ ہے جو رہتی دنیا تک ہمارے دلوں کو روشن کرتا رہے گا۔ اور ان کی خدمات کو ایک چھوٹے سے مضمون کے ذریعہ پیش کردینا نا ممکن ہے یہ تو علم کا وہ اتھاہ سمندر ہے جس میں بہت گہرائی ہے۔ اُردو ادب کی خدمات میں جو اہم کردار سرسید نے نبھایا اس کو ہمیشہ اپنے دل و دماغ میں گامزن رکھنا دانشوروں کی نشانی ہے۔ آخر میں انکی خدمات کو میں اپنی اس نظم کے ذریعہ پیش کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کررہی ہوں۔
باب سنہرا ہیں سر سید
اپنے مسیحا ہے سر سید
علم و ادب کے نیل گگن پر
ایک ستارہ ہیں سر سید
جو ظلمت کو دور بھگائے
ایسا تارہ ہیں سرسید
قوم کی کشتی کی خاطر تو
ایک کنارہ ہیں سرسید
جس سے ادب کی خوشبو آئے
وہ فوارّہ ہے سرسید
بخشا ایک نایاب ادارہ
کتنے اعلیٰ ہیں سرسید
کہتی ہے سب سے یہ سعدیہؔ
ادب کا گہوارہ ہے سرسید