سرسید شناسی میں خواتینِ علی گڑھ کا حصّہ بحوالہ تعلیم نسواں

سر سید احمد خان کی یوم پیدائش پرخصوصی پیش کش

\"2203\"
٭ڈاکٹرسیما صغیر
اسوسیٹ پروفیسر

شعبۂ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
(یوپی) انڈیا
seemasaghir@gmail.com

\"Sir

سرسید پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ تعلیمِ نسواں کے سلسلہ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ جدید تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ در اصل ایسا نہیں تھا شناسانِ سرسید نے سائنٹفک سوسائٹی، انسٹی ٹیوٹ گزٹ، تہذیب الاخلاق وغیرہ کے حوالے سے دلائل پیش کیے ہیں کہ سرسید نے خواتین کی علمی اور ثقافتی خوبیوں کی ستائش کی ہے وہ بھی خلوصِ دل اور احترام کے ساتھ۔ اُن کے رفقاء میں نواب شاہ جہاں بیگم، ڈپٹی نذیر احمد اور حالیؔ کی خدمات برائے طبقۂ نسواں سے سبھی واقف ہیں۔ علی گڑھ تحریک کے ساتھ ساتھ تعلیمِ نسواں کو تقویت دینے والوں میں نواب سلطان جہاں بیگم اور شیخ عبداللہ عُرف پاپامیاں کے بعد سیدکرامت حسین، سید امیر علی، بدر الدین طیب جی، خواجہ غلام الثقلین وغیرہ سے کون چشم پوشی اختیار کرسکتاہے۔
مختلف زبانوں میں خواتین نے سرسید اور علی گڑھ تحریک کے موضوع پر خاصا لکھا ہے۔ صرف اردو میں ہم دیکھیں تو سرحد کے اُس پار بشریٰ خان (ملتان)، سعدیہ فرحت (کراچی)، حمیدہ اختر حسین (کراچی) اور نوشابہ صدیقی (کراچی) نے اِس موضوع پر زبردست کام کیاہے۔ ہندوستان کی مختلف جامعات اور اُن سے وابستہ کالجوں میں بھی خوب کام ہو رہا ہے۔
میں اپنی بات کو اِس مختصر سے مضمون میں علیگ برادری سے محض اُن چند خواتین کے ناموں پر اکتفا کروں گی جنھوں نے سرسید احمد خاں پر صرف مضامین نہیں بلکہ ایک منصوبے کے تحت مکمل کتاب لکھی جیسے کُسم النسل، اسکوپ اور بھی محدود کرتے ہوئے اردو کے دائرے تک بات کروں ، وہ بھی مطبوعہ ادب پاروں تک تو ماضی میں راحلہ خاتون، زاہدہ خاتون شروانیہ، بیگم نفیس، تسنیم سلیم وغیرہ کے علاوہ چند برس پہلے شعبۂ اردو علی گڑھ میں ہی کئی خواتین نے اِس موضوع پر مدلل تحریریں قلم بند کی ہیں۔ جن میں اہم مقالے مسرت پروین کا’’علی گڑھ تحریک اور تعلیمِ نسواں‘‘ ، نکہت آفرین کا ’’اردو میں سرسید کی تاریخ نویسی کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ‘‘ اور شگفتہ یاسمین کا ’’اردو ناولوں پر علی گڑھ تحریک کے اثرات‘‘ قرار دئیے جاسکتے ہیں۔
علی گڑھ کی روح کو سمیٹے ہوئے علی گڑھ سے باہر خلق کیا جانے والا تحقیقی مقالہ ڈاکٹر قدسیہ خاتون کا ہے جو ’’سرسید کی ادبی خدمات اور ہندوستانی نشاۃ ثانیہ‘‘ کے عنوان سے ستمبر ۱۹۸۱ء میں کتابستان الٰہ آباد سے شائع ہوا۔ اس مقالے نے بزمِ خواتین میں ایک ہلچل پیدا کردی اور نتیجتاً علی گڑھ، دہلی اور بھوپال میں منصوبے بند طریقے سے علی گڑھ تحریک پر کام شروع ہوا۔ڈاکٹر قدسیہ خاتون محبِ سرسید، ڈاکٹر سید محمود کی بیٹی ہیں۔ سید محمود (۱۸۸۹ء۔ ۱۹۷۱ء) کاآبائی وطن غازی پور تھا۔ وہ ۱۹۰۱ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج ، علی گڑھ میں داخل ہوئے۔ ۱۹۰۸ء میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے پیش نظر کالج ڈسپلن توڑنے کے الزام میں نکال دئیے گئے۔ حسرتؔ موہانی کی طرح کچھ عرصہ مادر درس گاہ سے ملحق علاقے میں رہتے ہوئے طنز ملیح سے محفلوں کو زعفران زار بناتے رہے، پھر والدین کے اصرار پر لندن چلے گئے۔ جرمنی سے پی ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی۔ اُن کی کوئی بھی تقریر یا تحریر علی گڑھ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔ قدسیہ صاحبہ نے اپنے والد کی طرح علی گڑھ کے ہوسٹل میں رہ کر باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی مگر خود کو انھوں نے ہمیشہ علی گڑھ تحریک سے بے حد قریب پایا جس کا شاہد اُن کا طبع زاد مقالہ ہے۔ وہ اس کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں:
’’والد محترم کی زبانی علی گڑھ کالج کے اوّلین زمانہ کی تعلیمی سرگرمیوں ، طلبہ اور بورڈنگ ہاؤس کی مخصوص طرزِ زندگی ، لطائف اور جوش جذبات کے کارنامے سن کر بچپن ہی میں مجھے علی گڑھ اور سرسید کی شخصیت سے لگاؤ ہوگیا تھا۔ زمانۂ تعلیم میں سرسید احمد خاں اور ان کے کارناموں سے واقفیت کے ساتھ دلچسپی زیادہ گہری ہوگئی‘‘۔
قدسیہ خاتون نے اس مقالہ کو پروفیسر احتشام حسین کی نگرانی میں مکمل کیا۔ اس میں تحلیل وتجزیہ ، تنقید اور دلائل کی مدد سے سرسید احمد خاں کی تہذیبی، ثقافتی، سماجی اور ادبی خدمات کو اِس طرح اُجاکر کیا گیا ہے کہ تعلیمِ نسواں کا مکمل رجحان عیاں ہوجاتاہے۔
۱۹۸۴ء میں پروفیسر ثُریا حسین صدر شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے یو۔جی۔سی۔ کی جانب سے ’’سرسید پروجیکٹ‘‘ حاصل کیا۔ شاہدہ بیگم، نیلم فرزانہ، ابوصالح، نسرین ممتاز اور حسن سبحانی تین سال اسِ اہم منصوبے سے منسلک رہے۔ ۱۹۹۲ء میں ۴۳۰ صفحات پر مشتمل یہ پروجیکٹ ’’سرسید احمد خاں اور اُن کا عہد‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، حکومت اترپردیش، لکھنؤ کے مالی اشتراک سے شائع ہوا۔ پروفیسر ابوالحسن صدیقی اِس کتاب کے فلیپ پر لکھتے ہیں:
’’پروفیسر ثریا حسین نے اِس میں سرسید کو اُن کے صحیح علمی اور سماجی پس منظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب سرسید سے متعلق لٹریچر میں ایک وقیع اضافہ ہے۔ اِس میں سرسید کی شخصیت، اُن کے کارناموں اور اُن کی معاصر صورتِ حال کا جائزہ نہایت غیر جانب دارانہ انداز میں لیا گیاہے۔‘‘
پروفیسر آل احمد سرور کے الفاظ میں:
’’سرسید احمد خاں اور اُن کا عہد‘‘ میں پروفیسر ثریا حسین نے سرسید کی مذہبی، تاریخی، لسانی وادبی، سیاسی اور تعلیمی خدمات کا ایک جائزہ لینے کی قابلِ قدر کوشش کی ہے‘‘۔
یہ سب دُرست مگر مجموعی طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ اس میں سرسید کے بیانات، لکچرز، خطوط یا پھر سفرنامہ لندن اور پنجاب کے جائزے پر اکتفا کیا گیاہے۔ کرامت حسین اور شیخ عبداللہ کا تفصیلی ذکر ہے یا پھر نواب سلطان جہاں بیگم کی خدمت کو گنایا گیا ہے حالاںکہ قاری کو پروفیسر ثریا حسین سے اِس سے زیادہ کی توقع تھی کیوں کہ انھوں نے فرانس سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر رشید جہاں اور قرۃ العین حیدر کو بے حد پسند کرتی تھیں۔ خواتین کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتی رہتی تھیں۔ اس لیے وہ نہایت مدلل اور موثر انداز میں سرسید اور تعلیمِ نسواں کے تعلق سے بہت واضح رائے دے سکتی تھیں جس کی بنا پر یہ اہم کتاب دستاویزی حیثیت اختیار کرسکتی تھی۔
علی گڑھ کی ایک اور خاتون ڈاکٹر فرح جاوید نے گرلس اسکول سے ایم۔اے۔ تک کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حاصل کی۔ البتہ پی ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری انھیں دہلی سے تفویض ہوئی۔ اُن کی کتاب’’سرسید احمد خاں: ایک مفکر اسلام‘‘ ۲۰۱۱ء میں منظر عام پر آئی جس میں محترمہ نے سرسید کے مذہبی اور قومی افکار کے ساتھ تعلیمی رُجحان پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ پروفیسر اختر الواسع اِس بابت فرماتے ہیں:
’’سرسید کی مذہبی فکر خاصی متنازع رہی ہے اوراسی لیے اس پر خاصی تنقید بھی ہوئی ہے۔ ہمارے لیے بھی سرسید کی ہر مذہبی رائے سے اتفاق کرنا بالکل ضروری نہیں۔ لیکن اِس اختلاف کا مطلب یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنے اوپر اس فکر کے سارے دریچے بند کرلیں۔ سرسید کی مذہبی فکر کا جو پس منظر ہے اور ان کی پیش کردہ تعبیرات و توجیہات کے پیچھے جو مقاصد پنہاں ہیں، اُن پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ سرسید نے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن مذہبی فکر کے حوالے سے اُن کی اِس خدمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو زبان میں مذہب کے مطالعے کے لیے انھوں نے ’’عقلیت پسندی‘‘ جدیدیت اور روشن خیالی کی جس روایت کی بنیاد ڈالی اُس سے دامن بچانا اب ممکن نہیں رہا۔ ہمارے انتہائی راسخ العقیدہ مذہبی عالم اور دانش ور بھی اِس سے پہلو تہی نہیں کرسکتے۔
مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر فرح جاوید نے سرسید کو اپنے مطالعے کاموضوع بناتے ہوئے چار مبسوط ومتنوع موضوعات والے مضامین پر مشتمل یہ کتاب ہمارے مطالعے کے لیے پیش کی ہے‘‘۔
کم عمری میں اچانک ہم سے بچھڑجانے والی نسرین ممتاز بصیر نے سرسیداحمد خاں کے چند ذاتی خطوط کو یکجا کرکے علی گڑھ تحریک کو سمجھنے اور اُس کا ازسرنو مطالعہ کرنے کا احساس دلایا ہے۔ وہ ’’خطوط ِ سرسید‘‘ کے مقدمہ میں لکھتی ہیں:
’’خطوط کے بین السطور پنہاں موضوعات ایک تحریک، ایک عہد اور ایک شخصیت کی کہانی سُناتے ہیں اور ان سطروں میں موجود مباحث اہلِ قلم حضرات کو دعوت فکر دے رہے ہیں‘‘۔ (ص:۳۰)
اِن مکاتیب سے سرسید کی کثیر الجہت شخصیت تو سامنے آتی ہے مگر تعلیمِ نسواں کے تعلق سے بہت واضح شبیہ نہیں اُبھرنے پاتی ہے۔ اِس جانب ڈاکٹر نفیس بانو نے یکسوئی سے کام کیاہے۔ وہ تواتر سے لکھ رہی ہیں۔ پروفیسر عتیق احمد صدیقی کی نگرانی میں لکھا ہوا اُن کا مقالہ ’’تہذیب الاخلاق کاتحقیقی اور تنقیدی مطالعہ‘‘ ۱۹۹۳ء میں شائع ہواہے۔ چھ ابواب پر مشتمل ۴۳۵ صفحات میں نفیس بانو نے پس منظر میں مشرق ومغرب کے مزاج پر بحث کی ہے پھر منظر نامہ کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے مختلف ضمنی عنوانات قائم کیے ہیں اور دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے کینوس خود بخود وسیع ہوتا گیا ہے کہ سرسید اور اُن کے رفقاء کی کارکردگیاں قاری کے سامنے ہوتی ہیں۔ مخالفین کے افکار و نظریات کو زیر بحث لاتے ہوئے انھوں نے طنزِ ملیح سے کام لیا ہے مگر خوبی یہ ہے کہ سوالیہ نشان لگانے کے انداز میں تلخی نہیں آنے پائی ہے۔ انھوں نے مدرسۃ العلوم کے پیشِ نظر جدید تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کیا ہے مگر اپنی دوسری کتاب’’سرسید کے فکری زاویے‘‘ میں تانیثی تعلیم کی حمایت میں سرسید کی اِس رائے کو فوقیت دی ہے:
’’۔۔۔ اب میں تم کو دوبارہ یقین دلاتا ہوں کہ جو خدمت میں اس وقت کررہا ہوں نہ صرف تمہارے لڑکوں کی ہی ہے بلکہ تمہاری لڑکیوں کی بھی ہے۔ اگر خدا نے چاہا تو ا س سے دونوں برابر فائدہ اُٹھائیں گے اور لڑکے اور لڑکیاں دونوں علم کی روشنی سے روشن ضمیر ہوں گے‘‘۔
در اصل نوآبادیاتی نظام میں برصغیر کے مسلمان جن مشکلات سے دوچار تھے، سرسید نے اُن کے اسباب وعلل کو تلاش کرتے ہوئے اُن کے تدارک پر بھی توجہ دی اور اِس کے لیے انھوں نے تعلیم کو سب سے اہم قرار دیا۔ اِس کی درجنوں مثالیں ملتی ہیں کہ بہت سی خواتین نہ صرف اُن کے فکری رجحانات اور بیانات سے متفق تھیں بلکہ اکثر صاحب حیثیت خواتین نے کالج کی تعمیر میں دل کھول کر چندہ دیا جن کے نام مسلم یونیورسٹی کی تاریخی عمارتوں کے کتبوں پر درج ہیں۔ بانئ درس گاہ نے مسائل کی پیچیدگیوں اور مزاج وفہم کے اعتبار سے حصول علم کی راہوں کو ہموار کرنے کے اِس طرح امکانی جتن کیے کہ توازن اور وسعت نظری برقرار رہے اِس کی ایک اور مثال پنجاب کے گُرداس پور میں خواتین کے تعلق سے دئیے گئے خطاب اور جوابات سے دی جاسکتی ہیں:
’’اے میری بہنوں! تم یقین جانو کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس میں مردوں کے حالات دُرست ہونے سے پہلے عورتوں کی حالت میں دُرستگی ہوگئی ہو اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں مردوں کی حالت دُرست نہ ہوئی ہو۔۔۔ میں نے تمہارے لڑکوں کی تعلیم پر جو کوشش کی ہے اُس سے تم یہ نہ سمجھو کہ میں اپنی پیاری بیٹیوں کو بھول گیاہوں بلکہ میرا یقین ہے کہ لڑکوں کی تعلیم پر کوشش کرنا لڑکیوں کی تعلیم کی جڑ ہے۔ پس جو خدمت میں تمہارے لڑکوں کے لیے کرتا ہو، درحقیقت وہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے ہے‘‘۔
سرسید وقت، حالات اور صورتِ حال کے پیش نظر لڑکوں کی تعلیم پر کچھ زیادہ توجہ دینے کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میں اپنی قوم کی خاتونوں کی تعلیم سے بے پروا نہیں ہوں۔ میں دل سے اُن کی ترقئ تعلیم کا خواہاں ہوں‘‘۔
اپنے اِس یادگاری خطبہ کے علاوہ سرسید نے خواتین کی تعلیم کے تعلق سے دیگر تحریروں اور تقریروں میں وضاحت کی ہے جس کا اعتراف نواب سلطان جہاں بیگم نے اپنی تحریروں میں کیا ہے۔نیز رسالہ ’’خاتون‘‘ کے اکثر شماروں میں سرسید کے تعلیمی مشن کامدلل اعتراف ملتاہے۔ سرسید کے تعلیمی مشن میں خواتین کی تعلیم وتربیت کی اہمیت اِس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ایم۔اے۔او۔ کالج کو مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا تو سرسید کی تربیت یافتہ نسل کے توسط سے ادارے کی پہلی چانسلر ایک خاتون، نواب سلطان جہاں بیگم منتخب ہوئیں۔ دوبارہ موقع آیا تو اُن کا انتخاب پھر ہوا۔ ایسا اِس لیے کہ چانسلر صاحبہ نہ صرف سرسید کے افکار ونظریات سے متفق تھیں بلکہ اِسی نصب العین کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔
ہمارا تعلیمی منظر نامہ اِس کا گواہ ہے کہ سرسید اور رفقائے سرسید کی بدولت جب سازگار ماحول پیدا ہوگیا تو نہ صرف عورتوں میں جدید تعلیمی رُجحان بڑھا بلکہ انھوں نے جلد ہی اِس میدانِ خارزار میں بھی نمایاں حیثیت حاصل کرلی ۔٭

Leave a Comment