سر زمینِ جالنہ گہوارہ شعر و ادب

ڈاکٹر عالیہ کوثر علی شاہ خان
صدر شعبہ اْردو،راشٹر ماتا اندرا گاندھی کالج،جالنہ۔

اُردو کی نشو و نما کسی شاہی فرمان یا علماء کے فتوے یا کسی مجلس کے مشورے سے نہیں ہوئی بلکہ اس کا وجود محض اجتماع و اختلاط کا لازمی اثر تھا۔اُردو کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے اور بعد کا ادب ترقی پسند و جدیدیت کی تحریکوں کے بعد جو ادب تشکیل ہوا وہ تلخ تجربات،ادبی و فکری رحجانات، حالاتِ وطن، معاشرتی تقسیم ہند اور ذہنی انقلابات کا آئینہ ہے۔
نثر کی بہ نسبت شاعری نے ہمیشہ چاہے وہ روایت کا دور ہو یا بغاوت کا ۔اُردو کے مزاج کو ہی مقدم سمجھا۔اُردو میں نظم نگاری کی روایت خاصی پرانی ہے۔ یوں تو ایک اعتبار ہے علاوہ غزل کے اُردو میں زیادہ تر اصناف مثلاً، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ،ہجو، شہر آشوب،گیت سب نظم ہی ہیں۔اور تو اورغزل مسلسل کو بھی کئی شعراء نے عنوان قائم کرکے مغضیاتی طور پر نظم ہی کی طرح برتا ہے۔اصول و قواعد شاعری سے واقفیت جتنی لازمی ہے۔ٹھیک اسی طرح زبان اور اسکے ادب سے واقف ہونا شاعر کی تربیت کا حصہ ہے۔ اس تربیت کے بغیر شعر کہنا جُرم ہے۔
یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ’’شاعری فی نفسہ ایک فن لطیف اور فطری چیز ہے۔ جس میں ہر شاعر اپنے شعور و مذاق کے مطابق اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کرتا ہے۔چونکہ شاعری لفظ شعور سے مشق ہے جب تک شعور صحیح اور پختہ نہ ہو شاعری صحیح نہیں ہوسکتی‘‘(مظہر عر فانی)۔
اُردو شاعری نے ہمیشہ ہی مختلف اثرات کو قبول کیا ہے۔ان میں مغربی اثرات بھی شامل ہیں۔لیکن ان کا اثر صرف ہیتوں کو بدلنے میں معائون و کار گر ثابت ہوا۔جب شاعر مہمل گوئی تک پہنچ جاتا ہے تو فنی چابکدستی و فنی گرفت اس کے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے۔
ہندوستان کے ہر صوبہ کی اپنی تاریخ ہے،اپنا ادب ہے۔مراٹھواڑہ کا علاقہ بھی شعر و ادب کیلئے ہمیشہ ہی ساز گار رہا ہے۔جب بات مراٹھواڑہ کی ہو اور جالنہ کی ادبی خدمات کا ذکر نہ ہو ممکن نہیں۔جالنہ مراٹھواڑہ کی قدیم بستیوں میں شمار ہوتا ہے۔اسے راجہ رام نے آباد کیا تھا۔اور’’جانک باڑی‘‘ نام رکھا ۔ اسکی اولاد میں راجہ جالندھر نے بھی یہاں حکومت کی اس وقت اس شہر کا نام ’’جانک پور‘‘ اور بعد میں رفتہ رفتہ جالنہ پور ہوگیا۔جالنہ کبھی اورنگ آباد کا تعلقہ تھا۔لیکن اسکی حیثیت ہمیشہ ہی تجارت و حرفت، مالدار علاقہ کے روپ میں رہی ہے۔یہاں کے مساجد ،درگاہیں،قلعہ، فصیلیں، تالاب اور زرخیز زمین قابل رشک ہیں۔
متمول علاقہ، پیسہ کی فراوانی نے یہاں کے رہنے والوں میں کچھ شاہی شوق پیدا کردئے تھے جن میں پہلوانی اور شاعری صف اول میں شامل ہیں۔جالنہ کے چند نمائدنہ شعراء پر مختصر تبصرہ کرنا چاہتی ہوں۔
{حضرت جان اللہ شاہ }
آپ کا نام جان محمد ہے۔حضرت شیخ المشائخ قطب ربانی محبوب سبحانی حبیب یزدانی غوث الااعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒکی اولاد سے اور مرید حضرت شیخ میراں جی صدیقی برہانپوری کے ہیں۔شاہ جان اللہ مرشد کا عطا کیا ہوا خطاب ہے۔
حضرت جان اللہ شاہ ایک جلیل القدر بزرگ گزرے ہیں جنکی علم و حکمت اور کمال کے سبھی قائل ہیں۔آپ علوم ظاہری و باطنی کے ماہر کامل اور نکات و امورتصوف میں درجہ کمال رکھتے تھے۔آپکو فن سپہ گری ،خطاطی، شاعری ،علم تکثیر اور علم اخلاقیات میں کامل مہارت حاصل تھی۔
یہ بات سچ ہے کہ بزرگان دین و شعرائے متقدمین نے جو شاعری کی ہے وہ ہمارے لئے قابل تقلید اور سبق آموز ہے۔آج کی مادیت پسند زندگی میں لقوف کا رنگ دھند لاتا جارہا ہے۔عوام کی رومانیت زنگ آلود ہوتی جارہی ہے۔اور وہ عرفانِ الہیٰ سے بے بہرہ ہوتے جارہے ہیں۔حضرت جان اللہ شاہ کا تخلص روحیؔ تھا۔ آپ کے دست مبارک سے تحریر کردہ قرآن مجید قلمی آج بھی آپ کے گنبد مبارک میں موجودو محفوظ ہے۔جو قابل دیداراور فن خطاطی کے اعتبار سے لاجواب ہے۔
آپکی متعدد تصنیفات ہیں۔جو اب دستیاب نہیں ہے۔(۱) الٰہیات حقیقیہ۔(۲) غلبئہ حق۔(۳) منازِل روحی۔(۴)فلک البروج۔(۵) محل تصرف۔(۶)ام علوی۔اس کے علاوہ آپ نے شاہ محمد علی سے ایک کتاب ’’منور القلوب‘‘ تالیف کروائی تھی۔اس میں اربعین اسم ذات کے شروط مقرر کیے گئے ہیں۔
ہست جنّت ساز رحمت ہست در
یک در توبہ اس از آن ہشت در
ایں ہمہ کہ باز باشد کہ فراز
زاں در توبہ نیا شد جز کہ باز
جالنہ میں آپ کی آمد سے پہلے آپ اورنگ آباد میں مقیم تھے۔وہاں جامع مسجد میں آپ کا قیام تھا۔اورنگ زیب عالمگیر سے آپ کی ملاقات وہیں ہوئی تھی۔اورنگ زیب آپ کی ریاضت و عبادت اور ظاہری و باطنی فضل وکمال اور ولایت کا ملہ کی صداقت و عظمت دیکھ کر آپ کے عقیدت مند ہوگئے تھے۔اسی عقیدت کے پیش نظر شہنشاہ عالمگیر نے جالنہ میں ۵۷۰؍ بیگھا زمین آپکو پیش کی تھی۔جالنہ کی آب و ہوا آپکو متاثر کر گئی تھی۔اور آپ نے اورنگ زیب کی اس پیشکش کو قبول کرلیا تھا۔اسطرح جالنہ میں قادر آباد کا علاقہ آپ ہی کا بسایا ہوا ہے۔کنڈلیکا ندی کے کنارے آپ کی درگاہ شریف موجود ہے۔
ووقت کا تقاضا ہے کہ ہم بزرگانِ دین ،مفکرین اسلام کی تعلیمات کو رائج کریں،تاکہ آنے والی نسلیں علم و ادب سے بے بہرہ نہ رہے۔
{فخر مہاراشٹر رائے ہریش چندر سا ہنی دُکھی ؔ}
ہریش چندر دُکھی ؔ جالنوی ۱۷ ؍برس کی عمر میں ۱۹۲۲ کو پنجاب سے جالنہ منتقل ہوئے۔ یہاں آنے کے بعد انھوں نے تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے تجارت کی طرف متوجہ ہوئے۔ملنساری ،صاف گوئی وغیرہ معمولی دیانت سے تجارت میں روز افزوں ترقی ہوتی گئی۔ساتھ ہی ساتھ شعر وسخن کا جذبہ بھی اُبھر تا رہا۔ غور و فکر میں منہمک ہوتے گئے۔حسنِ اتفاق سے حکم محمد ابراھیم صاحب صدیقی خلیل کے پاس اکثر و بیشتر جا کر فنونِ شاعری پر معلومات حاصل کرتے رہے۔حکیم صاحب نے مولوی غلام علی بیدل ؔ کی نشاندہی فرمائی اور موصوف سے آپ نے علم حاصل فرمایا۔
ذوق سخن میں فراوانی ہوتی گئی۔غزل پر غزل لکھ کر مشاعروں میں پڑھنا شروع کردیا۔
یوں تو میں کچھ نہیں جز ذرئہ ناچیز دُکھی ؔ
چشم بینا ہوتو آئینہ کونین ہوں میں
فرش سے عرش تک ہمیں ہم ہیں
اوج کیا شئے ہے ارتقاء کیا ہے
دُکھی ؔ نے اپنے رشہاتِ قلم سے ناصرف اپنی ادب دوستی کا ثبوت بہم پہنچایا ہے بلکہ اس قحط الر جال کے زمانے میں مہاراشٹر کے رقبہ کو اپنے نورانی قلم سے جگمگایا ہے۔
ہے کون میرے روبرو ہے کس سے میری گفتگو
وہ کیا ہے میرے روبرو جسے کہ میں ہوں ہو بہو
ہر ایک سن نہ سکے گا میرے فسانے کو
ہنسی کہ پردے میں چھپ چھپ کہ رو رہا ہوں میں
جالنہ کے اطراف و اکناف میں ادبی مجالس کی بنیاد رکھی۔چونکہ وہ ایک متمول خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ پیسے کی فراوانی نے خدمت زبان و ادب کے سلسلہ میں بے دریغ مصارف برداشت کرلئے۔دکھی ؔ کا کلام زمانہ شناسی اور خدا پرستی کی زبان حال شہادت دیتا ہے۔
آج تک شانہ تدبیر سے آتی ہے صدا
زلف گیتی تیرے مشکل ہی سے خم نکلیں گے۔
جب فنا ہے تو پھر بقا کیا ہے
فلسفی تیرا فلسفہ کیا ہے
میری ہستی کا مدعا کیا ہے
ابتداء کیا ہے انتہا کیا ہے
انکی زبان کی شگفتگی قاری کو محصور کرلیتی ہے۔ دکھی ؔکے چار مجموعہ کلام شائع ہوچکے ہیں۔’’کلام دکھیؔ(1957)،’’رموز فطرت(1963)،’’رموز کائنات(1964)‘‘ اور’’جان تصوف1975‘‘۔ ان شائع شدہ مجموعہ کلام سے کلام دکھی ؔ دستیاب نہ ہوسکا۔دکھی ؔنے غزلیں، نظمیں، قطعات وغیرہ سبھی پر قلم اٹھایا ہے۔لیکن ان کا رحجان طبع اور مزاج شاعری غزل کی طرف زیادہ مائل ہے اور اس صنف میں وہ دیگر اصناف سخن سے زیادہ کامیاب ہے۔
تحقیق کے پردوں میں یہ راز انوکھا ہے
کہتے ہیں جسے دنیا دلچسپ تماشا ہے
میرے اشک رواں بولے میرے دیدہ تر سے
مجھے وہ در ملا ہے جو کہ ملتا ہے مقدر سے
اہل بھوپال نے دکھی ؔکو’’فخر مہاراشٹر‘‘کا خطاب دیا تھا۔اور حقیقتاً یہ خطاب دکھی ؔکے پرواز فکر انکی ادبی کاوشوں کو خراج پیش کرتا ہے۔
{مولوی محمد رحمت خاں مظہر عرفانیؔ}
مولوی محمد رحمت خاں مظہر عرفانی صاحب جالنہ کے ایک بلندپایہ شاعر اور صاحب طرز ادیب،خطیب اور عالم دین بھی تھے۔وہ شاعری کو مادیت کے ساتھ ساتھ تصوف سے مالا مال دیکھنا چاتے تھے۔انکا کہنہ تھا کہ’’شاعر ی خواہ مخلتف رنگ کی ہو فی نفسہ افادیت سے خالی نہیں ہوتی‘‘انکی شاعری میں تصوف کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔انکی جملہ چھ تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ سبھی تصوف سے متعلق ہے۔اُنھیں نظم و نثر دونوں میں دسترس حاصل تھی۔
بتائو کیا مری تخلیق کی اصلی بنا کیا ہے
دلیل سر حق تنویر مطلق کے سوا کیا ہے
رہے پیش نظر ہر دم مال زندگی مظہرؔ
تقاضا مقصد تخلیق کا اسکے سوا کیا ہے
زندگانی عارضی فانی و پر آرام ہے
اور دوامی زندگی باقی و بے تمام ہے
مظہر عرفانی صاحب کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے۔انکے کئی شاگرد موجود ہیں۔انھوں نے بے شمار اشعار سے ایک اچھے معنی خیز شعر کی تائید کی ہے۔دنیا کو دین کی سیڑھی کے سہارے چلنے کو ہی حیات انسانی کا حاصل قرار دیا ہے۔ اس لئے وہ ہر شاعر سے اسی بابت امید رکھتے تھے کہ اپنے ذوق سخن میں تصوفانہ رنگ کی جانب زیادہ توجہ دے۔تاکہ ظاہر کے ساتھ باطنی کمال میں بھی دسترس حاصل ہوسکے۔
خدا جانے کہ راز زندگی کیا ہے فضاء کیا ہے
حیات و موت تبدیلی مکانی کہ سوا کیا ہے
جلوہ بھی خود اور وہ خود جلوہ نما بھی
شامل بھی ہے ہر شئے میں وہ ہر شئے سے جُدا بھی
{غلام ادریس نظرؔ جالنوی}
نظرؔ جالنوی کا نام گذشتہ پانچ چھ دہائیوں سے مراٹھواڑہ کی ادبی فضائوں میں گونج رہا ہے۔ انگی شخصیت کی سادگی اور فن کی پختگی کے سبھی معترف ہیں۔علمی و ادبی سرگرمیاں نظرؔ کو ورثہ میں ملی ہیں۔آپکے جد امجد مولوی محمد زبیر صاحب اور والد بزرگوارمولوی محمد سلیمان صاحب قاسمی چشتی اپنے زمانہ کے ایک جیّد عالم اور شاعر گزرے ہیں۔ایسے ذی علم بزرگوں کے سایہ عاطفت میں آپکی طبیعت کے فطری جوہر نے جلا پائی۔ابتدائی اصلاح والد نے کی بعد ازاں علامہّ درد کا کوری سے اصلاح سخن لیتے رہے۔
غزل کی دہلیز سے اُردو شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔غزل کے علاوہ دیگر اصناف شاعری میں بھی کامیاب طبع آزمائی کی (نظم، قطعات، نعت و سلام حمد و منقبت،نعت و منقبت کا ایک سدا بہار گلدستہ’’دامن رسول‘‘کے نام سے 1973 میں منظر عام پر آچکا ہے۔
نام ہے ربِّ دو جہاں تیرا
یہ زماں تیرا لامکاں تیرا
ذرّہ ذرّہ گواہی دیتا ہے
نور ہر شئے میں ہے عیاں تیرا
کیا نظرؔ اس میں نہیں بخشش میری
کیا غلام ان کا میں کہلاتا نہیں
اس مجموعہ کلام میں شامل تمام نعت و مناقب انکے ذوق و شوق اور حبیب حق رسولؑ سے حُسنِ عقیدت کا ثبوت ہیں۔
تجلّی کیوں نہ ہو ایمان کی اس دل میں
جو دل میں الفتِ محبوبؑ کا کردگار ہے
ان کا یہ مجموعہ جذبات اور سوز و گداز سے معمور ہے۔نظر کا ایک اور مجموعہ کلام’’دھڑکن‘‘1998 میں شائع ہوچکا ہے۔’’گہرائیاں‘‘انکی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ جو جالنہ کے ادبی خزانے میں شامل ہے۔
’’دھڑکن‘‘ انکی پوری شاعری کی عکاسی کرتا ہے۔اور انکی شاعری انسانی دل اور جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔
آرزو کب ہے تیری انجمن آرائی کی
دوستی راس مجھے آئی ہے تنہائی کی
کھلے جو دل کے ہیں وہ بات صاف کرتے ہیں
حقیقتوں کا وہی اعتراف کرتے ہیں
انکے اشعار زندگی کے تلخ تجربات و مشاہدات کو من وعن بیان کرتی ہے۔ عزم و حیات کے اسباق ہیں جو اپنے غم بھول کر دوسروں کے جیسے کسی راہ ہموار کرتے ہیں۔
زندگی پر ہے موت کا سایہ
زندگی خود پہ خندہ زن بھی ہے
زندگی غم کدے کو کہتے ہیں
زندگی شمع انجمن بھی ہے
{عروج احمد عروجؔ}
عروج کی شاعری فنی اور معنوی اعتبار سے ایک حساس دل اور باشعور انسان کی سوچ کا حاصل ہے۔کانٹوں کی چھبن کو بھی بھول کی خوبصورتی کا محافظ سمجھ کر قبول کیا ہے۔غزل کے روایتی مضامین سے ہٹ کر زندگی سے جڑے مختلف موضوعات کو غزل میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ان کے اشعار اندرونی کیفیات کا بر ملا اظہار ہے۔
جالنہ کے معتبر شعرا میں ان کا مقام خاص ہے۔’’بیتے دنوں کا موسم‘‘1981میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ کلام کا ہر شعر عروج کی پُر اعتماد شخصیت کا آئینہ ہے۔سادگی انداز قاری کے ذہن و قلب تک گھر کر جاتی ہے۔
ملنے والوں کو تو ہر حال میں ملنا ہے عروج
کیوں نہ گرتی ہوئی دیوار گرادی جائے
غموں کی دھوپ کچھ ایسے خلوص سے گزری
کہ جیسے شاخ تمنا نہیں جلی اب کے
انکی شاعری کا اپنا لہجہ ہے۔ اپنے دور کی بے حسی و زمانے کی بے رُخی کا اظہار بڑے ہی نرم لہجے میں کر جاتے ہیں۔معاشرے کی کربناک پہلوئوں سے نقاب اُٹھانے کا کام کیا ہے۔
میں نے مانگا تھا زخموں کا ہی مرہم تجھ سے
کس نے پھر رکھ دئے زخموں پر میرے انگارے
آپ نے سوچا نہیں آپکی باتوں سے کبھی
کتنے نشتر جو میرے قلب و جگر تک پہنچے
{مولانا محمد عمر صدیقی اطہرؔ}
مولانا محمد عمر صدیقی کی شاعری پر تجمل و پُروقار ادب کی صرف بازگشت نہیں ہے بلکہ اسکی توسیع ہے۔ وہ جالنہ کے معروف عالم دین اور صوفی شاعر ہیں۔چونکہ وہ فارغ دیو بند تھے اسلئے اسلامی نظریات، اصول و قوانین کو زندگی بھر نبھاتے رہے۔اور انہی کا اثر ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔دینی و ادبی سر گرمیوں کے حوالے سے مقبول رہے ہیں۔آپ کے استاد خیالی برہان پوری تھے۔ ہم عصر شعراء انھیں ’’غالب ثانی‘‘ کہا کرتے تھے۔
کھل گئے اسرار ہر دشوار آساں ہوگیا
آج اپنی منزلوں کا ہم کو عرفاں ہوگیا
کیونکر مجھے راس آئے کسی اور کی نسبت
دنیا ہے اگر میری بہ ایمائے مشیت
مولانا کا علم و فضل انکی گفتگو میں صاف ظاہر تھا۔ ٹھیک اسی طرح انکے قلم میں بھی انکا اظہار ہوتا ہے۔
وقت کے ہاتھوں میں ہے اک تازیانہ آج کل
زندگانی کا چلن ہے مجرمانہ آجکل
زندگی کا تجربہ، نشیب و فراز،عروج و زوال سے جب ایک شاعر گزرتا ہے تو ان مشاہدات اور تجربات کو شاعری کا جامعہ پہنا کر اپنی تکالیف کا مداوا کرتا ہے۔ اطہرؔ صاحب بھی مصائب و آفات سے اعتماد و یقین کامل کے ساتھ نبرد آزما رہے۔
میں اس دنیا میں ہوں اطہرؔ جہاں محسوس ہوتا ہے
کہ حق کو اہل باطل بر ملا باطل سمجھتے ہیں
ہوگیا عنقا مذاقِ مخلصانہ آج کل
عام ہے ہر سو، تجاہل عارفانہ آج کل
زمانہ کی شکایت، کشمکش حیات کو وہ صفحہ قرطاس پر موتیوں کیطرح سجا دیتے ہیں۔
عجب حال ہے کچھ ان دنوں طبیعت کا
کبھی سکوت کا غلبہ کبھی ہے وحشت کا
شبانہ روز کی مصروفیت ہے جانِ خریں
بہانہ ڈھونڈ رہی ہے غریب رخصت کا
اپنے اطراف و اکناف کا شکوہ ضرورہے لیکن شکست قبول نہیں۔’’نقشِ دوام‘‘1994 میں شائع ہوچکا ہے۔اس مجموعہ کلام میں زباں و بیاں کی ندرت اور مضامین کے تنوع کا دیدہ زیب امتزاج ملتا ہے۔
نازک ترین دورمیں اطہرؔ ہے زندگی
گھبرا کے اسکو اور دگر گوں نہ کیجئے
{شمس جالنویؔ}
شمس کے لب تبسم کے بھوکے نہیں
ہم کسی کی عنایت کے بھوکے نہیں
شمس صاحب کا درج بالا شعر انکی شخصیت کا مکمل عکاس ہے۔واقعی شمس صاحب کی خودداری انکی شخصیت کو دوسروں سے جدا کرتی ہے۔بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں۔ مسحور کن ترنم کیساتھ جب وہ کلام پیش کرتے ہیں تو سامعین محفل سحر ذدہ ہوجاتے ہیں۔ان کا انداز بیاں آواز کی گونج سادگی سے معمور شعروں سے سامعیں شرابور نظر آتے ہیں۔انھیں نکہت و نور کا شاعر کہا جاتا ہے۔
شمس صاحب کی شاعری در اصل انکی زندگی کے تلخ تجربات، وقت کی ستم ظریفی کامجموعہ ہے۔ اظہار میں درد ہے، چبھن ہے۔ بناوٹ یادکھاوا نہیں ہے حقیقت کا برملا اظہار ہے۔
پالا غم دوراں نے بڑے ناز سے مجھ کو
میں موم بھی ہوں سخت بھی پتھر کی طرح ہوں
اپنے محسوسات کو عمدہ و نفیس انداز میں پرویا ہے۔انکی قادری الکلامی انھیں ہمعصر شعراء میں الگ مقام عطا کرتی ہے۔انکا قلم فنی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔
ضبط کا دامن بوقت امتحاں چھوڑے نہیں
گلستاں جلتا رہا پر آشیاں چھوڑے نہیں
فریب دینے لگے جب مرے ہی بسائے مجھے
کسی کے پیار کا کیسے یقین آئے مجھے
انکی غزلوں میں خالص عشقیہ مضامین کو کم جگہ ملی ہے۔حالانکہ بے ساختگی اور دلآویزن انکے اشعار میں موجود ہے۔
سُنوں گا جب تری آواز لوٹ آئوں گا
بلا کبھی تو مجھے صبح زندگی بن کر
شمس صاحب نے غزل میں کچھ نئے تجربے بھی کئے ہیں۔انھوں نے تین ٹکڑوں والے مصروں پر مشتمل شعروں والی غزلیں کہی ہیں۔
اہل ظرف ہو کر بھی

مئے کو ہم ترستے ہیں

تیرے منھ کو تکتے ہیں
ان پہ ہی نوازش کیوں

تیری جانِ مئے خانہ

پی کے جو بہکتے ہیں
انکے مجموعہ کلام’’تمازت‘‘ میں شامل غزلیں،قطعات شمس کی فنکارانہ خوبیوںکا مظہر ہیں۔وہ اپنے تخلص شمسؔ کا بخوبی استعمال کرتے ہیں۔
شمسؔ کا نام لب پہ آتے ہی
شب کی رنگت اڑی اڑی سی ہے
شمسؔ اب تو آجائو لوگ راہ تکتے ہیں
ہر طرف اندھیروں کا آج بول بالا ہے
{لیاقت علی خان یاسرؔ}
جالنہ کے نوجوان شاعر’صحافی‘ مضمون نگار ہیں۔حساس دل اور باشعور سوچ کے مالک ہیں۔ لیاقت علی خاں کا شمار جالنہ کے ان نمائندہ شعراء میں ہوتا ہے جنھیں اندرونی کیفیات اور اظہار کی ضرورت شعر کہنے پر اکساتی ہے۔ان کی قلم صفحہ قرطاس پر شاعر ی اور نثر دونوں کو یکساں بکھیر تا ہے۔شاعری آپ کے خون میں شامل ہے۔الفاظ کی سادگی معنوی و فنی خوبیاں قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔
دشتِ ویراں میں بھی ایک بزم سجائی ہم ہے
اب نہ تنہائی کا غم اور نہ تنہائی ہے
وہ حقیقت کا شعور رکھتے ہوئے احساس و جذبے کی شدت کے شاعر ہیں۔ عجز و انکساری انکی طبیعت کا خاصہ ہے۔ تجارت اور صحافت سے جڑے ہونے کے باوجود نرم دل شاعر ہیں۔انکے مضامین نے دانشور انہ چادر نہیں اوڑھی بلکہ عوام سے انہی کی سطح پر مکالمہ قائم کیا ہے۔عوام سے قربت کے باعث انکا کلام حقیقت سے پُر ہے۔
رب کون و مکاں مالکِ کل جہاں
تیری حمد و ثنا بھی میں کیسے کروں
تو ہے خالق میرا میں ہوں بندہ تیرا
ہاتھ اٹھا کر دعا بھی میں کیسے کروں
رنجیشیں ہیں تغافل ہیں عداوت بھی تو ہے
شکایتیں ہیں انھیں مجھ سے محبت بھی تو ہے
الفاظ کا انتخاب، جذبات کا اظہار انھیں انکے ہمعصر شعراء میں منفرد مقام عطا کرتا ہے۔اپنے پیش روئوں کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے اپنی راہیں خود متعین کی ہیں۔
چلو یاسرؔ سمیٹ لو اب مہ و انجم ستاروں کو
کوئی اب نیند کی دہلیز پر ہے منتظر اپنا
جالنہ میں اُردو شاعری کی اپنی روایت رہی ہے۔جو اُردو شعر و ادب کی دیرینہ روایتوں میں سے ایک ہے۔سرزمین جالنہ کی مٹی بزرگانِ دین کے فیض سے سیراب رہی ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں آج بھی شاعروں کی ایک صف موجود ہے جو تصوف دنیا کے ظاہری و باطنی خصوصیات کا احاطہ کرتی ہے۔کہا جاسکتا ہے کہ وقت کیساتھ ساتھ جالنہ کی شعری روایت میں وسعت و اضافہ ہوتا رہا ہے۔

Leave a Comment