سعودیہ میں بھیڑ کنٹرول کا انوکھا انداز

ڈاکٹر اقبال احمد بسکوہری
استاد جامعہ محمدیہ منصورہ،مالیگاؤں

مملکت سعودیہ عربیہ اور اس کے اسرہ حاکمہ کو اللہ رب العالمین نے پاسداران حرمین شریفین کا عظیم منصب عطا کیا ہے ۔درحقیقت یہ حرمین شریفین اور اسلامی مقدسات ،مشاعر حج اور حُجّاج بیت اللہ کے سچے نگہبان اور بے لوث خادم ہیں ۔اللہ نے طویل مدت سے ان کو اس شرف سے نوازا ہے جس کو وہ بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔مقدسات کیا ہوتے ہیں اور ان کی پاسبانی کیسی ہونی چاہئے ؟یہ اولاد اسماعیل کو ورثہ میں ملی ہے ۔جزیرہ میں بسنے والے عرب مستعربہ جس خاندان کے بھی ہو ں یہ سب اولاد اسماعیل ہی ہیں ۔
سعودی شاہی خاندان نے حرمین شریفین کو مرکز توحید بنانے کے لئے جو قربانیاں دی ہیں وہ تاریخ کے سنہرے اوراق ہیں ،حرم کا تقدس اور مقامات مقدسہ کی عظمت وہ دیگر لوگوں سے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں۔حرمین شریفین اور مقامات مقدسہ کی خدمت کی جتنی شکلیں ممکن ہیں ،حجاج بیت اللہ اور زائرین ِ حرمین شریفین ومقدسات کی جتنی خدمت ممکن ہے ‘اس کو یہ دل وجان سے ادا کرتے ہیں ۔یہ روز روشن کی طرح عیاں اور بدیہی بات ہے ۔اللہ رب العالمین ان کو جزاء خیر عطافرمائے ،اپنی توفیق سے نوازتا رہے ،ان کو دن ورات ترقی عطافرمائے اور مسلمانوں پر ان کا سایہ قیامت تک باقی رکھے ۔آمین
حکومت سعودی عرب نے اپنے دور حکومت میں خدمات کا جو نظارہ پیش کیا ہے اور کرتا آرہا ہے یقینا یہ کسی عجوبہ سے کم نہیں ۔حرمین ومشاعر مقدسہ کی توسیع وتحسین وتزئین وحفاظت بے مثال ہے ۔حجاج کرام وزائرین کے آرام وآسائش کا انتظام قابل شکر وتقدیر کارنامہ ہے ۔ ہر قلب سلیم اور تندرست عقل وخِرد رکھنے والا انسان ‘ ان کی خدمات کااعتراف کرنے پر مجبور ہے ۔
اس سال راقم کو حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ،تیس سال قبل بھی ان مقامات سے آنکھیں ٹھنڈی اور دل ودماغ کو معطر کرنے کی توفیق مل چکی ہے ۔اس بار بہت ساری مزید خوبیاں دیکھنے کا موقع ملا ۔ بھیڑ بھاڑ کو کنٹرول کرنے کی ایک خوبی قابل توجہ وتعریف ہے ۔جس انداز کا منظر نگاہوں نے دیکھا ‘وہ زبان سے بیان نہیں کیا جاسکتا۔
یہ تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ انسانوں کی بھیڑ بھاڑ پر کنٹرول بہت مشکل کام ہوتا ہے ۔ اس کے لئے حکومتوں کی پوری مشینری لگانی پڑتی ہے ۔خاص طور سے وہ بھیڑ بھاڑ جہاں دنیا کے گوشہ گوشہ سے لوگ جمع ہوں ،جن کی مختلف زبانیں ،مختلف تہذیبیں ،مختلف مزاج اور رہن سہن کے مختلف طور طریقے ہوں ،ہر عمر کے لوگ ہوں،مختلف قدوقامت اور جسامت کے لوگ ہوں ‘ان کو کنٹرول کرنا کار دارد ہے ۔ وہ بھی معمولی تعداد نہیں لاکھوں کی تعداد میں اور مخصوص اوقات میں اکٹھا ہوں ۔ یہ منظر زیارت کے موسم میں صرف سعودیہ میں نظر آسکتا ہے ۔حرمین کے مناظر ہوں یا مقدسات وزیارت گاہوں کے ۔خاص طور سے موسم حج اور ایام حج میں انسانوں کا امنڈتا ہوا سیلاب ہر طرف سے نظر آتا ہے جو نہ ختم ہونے والے سلسلہ کی طرح دکھائی دیتاہے ۔جہاں دیکھو وہاں یہی صورت ِ حال ہے ۔ مکہ مکرمہ کی سڑکیں اور گلیاں ہوں یا منٰی،مزدلفہ اور عرفات کا میدان اور ان کی طرف جانے والے راستے ۔سب کا یہی حال رہتاہے ۔۸؍ذی الحجہ ہی سے مکہ مکرمہ سے عرفات تک یہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔۱۰؍تاریخ کو رمی جمار ،طواف زیارت اور دیگر مناسک کی ادائیگی کا منظر کیا خوب ہوتا ہے !
ایسی صورت حال میں اس غیر معمولی بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لئے اور ہر ایک کو سکون واطمینان سے مناسک حج اداکرنے کا موقع دینے کے لئے جو نفری قوت ہوتی ہے خواہ وہ سرکاری کارندے ہوں ،پولس ہوں ،فوجی یا نیم فوجی دستے ہوں ،اس بھیڑ پر کنٹرول اور قابو پانے کے لئے وہ جو وسائل استعمال کرتے ہیں ان میں ایک کلمہ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے جو ہر لمحہ سننے کو ملتا ہے ،تواضع وخاکساری اور الفت ومحبت سے بھرا ہوا ’’یا حاج!یا حاج!‘‘ کا کلمہ ہوتا ہے یعنی ’’اوحاجی صاحب!‘‘۔
میں نے دوران حج کسی کے بھی پاس ایک معمولی چھڑی بھی نہیں دیکھی ،نہ لاٹھی نہ ڈنڈا،نہ آنسو گیس ،نہ بندوقیں ،نہ رسیاں ،نہ جال اور نہ کوئی اور ہتھیار۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا یہی کلمہ پوری بھیڑ کو دنوں رات سنبھالتا ہے ۔ حتی کہ فوجی بھی صرف لباس سے فوجی معلوم ہوتے ہیں،وہاں سب خالی ہاتھ ہوتے ہیں صرف بعض بعض کے ہاتھوں میں وائر لیس فون ہوتے ہیں۔
ہم جیسوں کے لئے شدید دھوپ میں دس منٹ دھوپ میں کھڑا رہنا ناقابل برداشت ہوتا ہے ۔ لیکن یہ اللہ والے صبر وشکر کے پیکر بنے ہوئے حجاج کرام کی خدمت میں ڈٹے رہتے ہیں ۔شدید گرمی میں اپنے منہ پرپانی ڈالنے کی بجائے حجاج کرام کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے ہیں ،ان کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں ،چلتے ہوئے راستوں پر کھڑے ہوجانے والوں کو ’’یا حاج!یاحاج‘‘ کہہ کر متنبہ کرتے ہیں،مخالف سمت چلنے والے لوگوں کو اسی کلمہ سے روکتے ہیں،نظام کی پابندی اور اس میں سختی کے لئے یہی کلمہ استعمال ہوتا ہے ’’یا حاج! لا یاحاج!‘‘نہیں حاجی صاحب! ایسا نہ کیجئے،راستوں کی رہنمائی بھی کرتے ہیں ۔ان کو حجاج کرام کی قدردانی خوب آتی ہے۔
ماشاء اللہ وہاں کے باشندے بھی کتنے رحم دل ہیں ! جس راستے سے گذروکچھ نہ کچھ بانٹنے والے موجود رہتے ہیں،کوئی تازہ رُطب(کھجور)باغ سے لارہا ہے ،کوئی پختہ کھجور لارہا ہے ،کوئی مشروب پیش کررہا ہے ،پانی پلانے والوں کی کمی نظر نہیں آتی۔بہت سے لوگ شام کے وقت اپنی خصوصی گاڑیوں میں کھانے کے پیکٹ لاتے ہیں اور خاموشی سے تقسیم کرکے چل دیتے ہیں ۔خیر وبرکت کا کیا ہی خوب تر وخوشنما ماحول ومنظر ہوتا ہے!
۱۰؍ذی الحجہ کی رات کو مزدلفہ کا حسین منظر دیکھ کر چہل قدمی کے لئے طبیعت مچل رہی تھی ،چند قدم چلتے ہی پانی کی بوتلیں تقسیم کرنے والی گاڑیاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر نظر آئیں ،چند قدم آگے چلے تو تقریباً اٹھارہ سال کا ایک نوجوان زمزم کی بوتلیں تقسیم کررہا تھا ،اس نے بہت ہی محبت اور اصرار سے مجھ کو اورمیرے ساتھی پونہ کے مولانا سعید احمد سلفی کو چند بوتلیں دیں۔
ہم یہاں سے سڑک پر آئے یہاں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں کھڑی تھیں ،اس کا عملہ اپنی گاڑی کے سامنے پانی تقسیم کررہا تھا ،کچھ وقت بعد ان کے دوسرے ساتھی بسکٹ کے پیکٹ لے کر آئے اور پھر تھوڑی دیر بعد کچھ اور ساتھی کوئی مشروب لے کر آئے۔یہ کام خود ’’دِفاع مدنی‘‘کے لوگ کررہے تھے ۔
۱۲؍ذی الحجہ کو رمی جمار سے آگے کی طرف جارہا تھا ،فوج کی تین بسیں گذریں، وہ لوگ پانی کی بوتلیں تقسیم کرتے ہوئے گذررہے تھے ۔خیر وبرکت کی کیا ہی خوب تر سرزمین ہے!
اس سال 1437؁ہجری کا حج مجموعی طور سے بڑا ہی اطمینان بخش رہا ۔الحمدللہ شیعی مظاہرین کے نہ ہونے سے بھی ماحول پرسکون تھا۔
اللہ رب العالمین مملکت سعودی عرب ،وہاں کے مواطنین اور خدام حرمین شریفین کی خدمات کو قبول فرمائے ،اس حکومت کو جو دین اسلام کی واحد نمائندہ حکومت ہے ‘تاقیامت باقی رکھے ،اعداء اسلام اور حاسدین کے سر سے محفوظ رکھے ، خصوصاً ملک سلمان کو اللہ رب العالمین مزید شان وشوکت عطافرمائے اور انہیں دین اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی مزید توفیق عنایت فرمائے۔آمین
٭٭٭

Leave a Comment