سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سیمینار کا اختتام

غالب انسٹی ٹیوٹ وقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیراہتمام اسکالرزسیمینار کا انعقاد

\"28516001_1463084717151252_4557028002443138594_o\"

نئی دہلی(اسٹاف رپورٹر)غالب انسٹی ٹیوٹ اورقومی کونسل براے فروغ اردو زبان کے زیراہتمام بین الاقوامی ریسرچ اسکالر سمینار کی افتتاحی تقریب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ریسرچ کے حالات اب اس لئے اچھے نہیں رہے چونکہ اس کا تعلق اب ملازمت سے ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس کی بھی اپنی مجبوری ہے۔ سہولت کی کمی اورا س کی زیادتی دونوں ہی تعلیم کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یہ ایک اچھا فورم ہے۔ جہاں آپ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں۔ یہاں افتتاحی اجلاس میں رسمی کم ضروری باتیں زیادہ کہی گئی ہیں۔ تحقیق کے معیار کے زوال کے معاملے میں ریسرچ سپر وائزر بھی ذمہ دار ہیں۔ بلکہ برابر کے ذمے دار ہیں، معیار اور زوال دونوں معاملے میں نظام پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ریسرچ کے معیاری کام کو بھی نظرمیں رکھنا چاہیے۔ تحقیقی کام پر عرق ریزی کی اشد ضرورت ہے۔ مثالی تحقیقی کاموں کو ہم طلبہ کو دکھائیں اور انہیں پڑھائیں تاکہ وہ عملی طور پر اس سے روشنی حاصل کرسکیں۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد نے کہا کہ میں جب سے جامعہ میں آیاہوں۔ اس سمینار میں شامل ہواہوں، میں اپنے ریسرچ اسکالرز سے یہی کہوں گاکہ آپ اعلی درجے کی تحقیق کریں اور اردو کی اس روش کو ختم کریں ،جو اب تک جاری ہے۔ سائنس میں ریسرچ کا معیار آگے بڑھ رہا ہے۔ توزبان وادب کی ریسرچ کا معیار کیوں زوال کی طرف گامزن ہے۔اس سوال پر غورکرنے کی ضرورت ہے ۔ اچھے معیار کا ایک پیپر بھی آپ کو جاب دلاسکتا ہے۔اس لئے زود نویسی نہیں معیار پر توجہ دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اردو وفارسی میں بھی ماسٹرز کی سطح پر پیپر لکھوانا چاہیے۔ آپ کا دائرہ بڑا ہونا چاہیے۔ آپ کے پاس زیادہ سہولتیں ہیں اور آپ کے پاس ڈیٹا بھی زیادہ ہے۔ اگر آپ نے وقت کی اہمیت کو سمجھاتو سمجھ لیں کہ وقت بھی آپ کیساتھ انصاف کرے گا۔
\"28061798_1463084710484586_4393889229046142406_o\"

مہمان ذی وقار کی حیثیت سے جرمنی سے تشریف لائے معروف اسکالر عارف نقوی نے کہا کہ ہم تو یہاں یہ بھی دیکھنے آئے ہیں کہ یہاں کیا کام ہورہاہے تاکہ ہم جرمنی میں اس پر عمل کرسکیں۔ ہمیں تحقیقی کام پر زیادہ زور دینا چاہیے، ہماری ریسرچ کی زبان ایسی ہونی چاہیے تاکہ بعد کے طلبہ کو پڑھنے میں آسانی ہو۔ہمیں روایتی طریقے سے آگے بڑھ کر عالمی نقطۂ نظر کے ساتھ ریسرچ کرنی چاہیے ۔مجھے اردو کا مستقبل کافی شاندار لگ رہاہے میں اردو کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں۔
مصاعد قدوائی، وائس چانسلر،جامعہ اردو، علی گڑھ نے بحیثیت مہمان ذی وقار کہا کہ زبان وادب کسی مذہب وقوم تک محدود نہیں ہوسکتے۔ تحقیق کا کام زندگی کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے نوجوانوں میں جستجو ہواور وہ لگن کے ساتھ تحقیقی کام کرسکیں۔
\"28827427_1463085143817876_5693598375797819126_o\"

ممتاز اردو اسکالر ڈاکٹر نریش نے کہا کہ آپ ری سرچ کررہے ہیں، سرچ نہیں کررہے ہیں، سرچ کا کام پہلے ہوچکا ہے۔آپ تحقیق کا کام توکررہے ہیں مگر یہ سوچیں کہ تعلیمی استعداد کے معاملے میں آپ کہاں ہیں، جس ادیب و شاعر پر ہم کام کرنا چاہتے ہیں تو پہلے سے طے کرلیتے ہیں کہ اسے عظیم بنانا ہے،یہ غلط رویہ ہے۔ سہو کہاں نہیں ہوتا ہے۔ ہرشخص سے سہو ہوتا ہے۔ تحقیق میں اس کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔ آپ کی تحقیق کا مقصد ادراک کو وسعت دینا ہے اس کا خیال رکھیں۔
معروف فارسی اسکالر پروفیسر چندر شیکھر،استاذ شعبہ فارسی، دہلی یونیورسٹی نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ ریسرچ کے طریقۂ کار اور نصاب میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ میری تربیت بھی اسی غالب انسٹی ٹیوٹ میں ہوئی ہے۔ آج آپ اپنا نقطۂ نظر بدل سکتے ہیں اب تحقیق کے لیے ماحول زیادہ سازگار ہے۔ پہلے جعلی نسخے بہت تیار کئے جاتے تھے،انٹرنیٹ کی اہمیت اور اس کی خرابی اپنی جگہ مگر کوشش کیجیے کہ جو کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور مہیا ہیں تو اسے ہارڈ کاپی پر ہی پڑھیے۔ متن شناسی بہت ضروری ہے۔متن شناسی کے دوران حالات اور جغرافیے پر ضرور توجہ دیں ،مختلف لغات کا استعمال کریں ، فارسی اور اردووالوں سے میری اپیل ہوگی کہ وہ ورناکولر لینگوئجیز ضرور سیکھیں۔ تحقیقی کام صرف سند حاصل کرنے اور لیکچرشپ حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔
\"28828934_1463083077151416_7243136996857877708_o\"

پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی، سکریٹری غالب انسٹی ٹیوٹ نے استقبالیہ گفتگو میں کہا کہ میں آپ سب کا پرجوش استقبال کرتاہوں۔آپ سب ہمارے ادارے سے عرصے سے منسلک رہے ہیں۔ آپ سب ہمیشہ ہمارا ساتھ دیتے ہیں ۔ریسرچ اسکالر سمینار کے رواج کا منبع غالب انسٹی ٹیوٹ ہی ہے۔خوشی کی بات ہے کہ اب ہر جگہ ریسرچ اسکالر سمینار منعقد ہورہے ہیں۔غالب انسٹی ٹیوٹ نے اپنے پروگراموں کو بڑے اور معیاری افراد تک محدود نہیں رکھا۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ریسرچ اسکالر باہم ملیں اور ایک دوسرے کے کاموں کو سمجھیں اور ریسرچ کی بہتر تفہیم کرسکیں۔ اس سمینار کا مقصد ریسرچ اسکالروں کا آپسی تبادلہ خیال ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہندوستان اور ہندوستان کے باہر کی یونیورسٹیوں سے بھی اس سمینار کو اچھا ریسپانس ملتا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ اور غالب انسٹی ٹیوٹ جیسے دیگر ادارے فارسی کے فروغ ورواج کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ایک برس کے اندر غالب کی تمام فارسی کتابوں کے تراجم شائع ہوسکیں۔
\"28701254_1463083090484748_7026317821733081307_o\"

پروفیسر ارتضی کریم، ڈائرکٹر قومی کونسل براے فروغ اردو زبان نے سمینار کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ دوسروں پر منفی خیالات کا اظہار کرنے بعد اپنا بھی خیال رکھیے۔مستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہے۔یہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ اس عمر میں آپ کو ساری سہولیات دی جارہی ہیں۔ ہمارے زمانے میں یہ تصور نہیں تھا۔ آج یہ سب جو ہورہاہے وہ ہمارے زمانے کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کا دل بہت بڑا ہے انہوں نے ہماری درخواست پر غور کیا اور سمیناروں میں ریسرچ اسکالرز کو موقع ملنے لگا۔یونیورسٹی کا نظام تو وہی ہے مگر آج کیا ہوا کہ ریسرچ پیپر ماخذ کی حیثیت حاصل نہیں کرپاتے ،جب کہ پچھلے زمانے میں اکثر پیپر ماخذ کی حیثیت حاصل کرجاتے تھے،اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اس پر وقت دیں گے، جدوجہد کریں گے تو یقیناً آپ کی کتاب بھی ماخذ کی حیثیت حاصل کرے گی ۔ اردو کو اردو والوں کی نظر لگ گئی ہے۔ یہ معمولی اسٹیج نہیں ہے۔ ملک کے دوبڑے اداروں نے آپ کے اعزاز کے لیے یہ انتظام کیا ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ بیرون ممالک کے ریسرچ اسکالراس سمینار میں شریک ہورہے ہیں ۔ آپ تمام کا بہت بہت شکریہ میں آپ تمام کا استقبال کرتاہوں،میں اس سمینار کو اگزیکٹیو بورڈ میں ڈال دوں گا تاکہ یہ سمینار قومی کونسل براے فروغ اردو زبان کے تعاون اور اشتراک سے کبھی محروم نہ ہو۔
\"28516274_1463084887151235_5947741980965512052_o\"

افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سید رضا حیدر، ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ نے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام پروگراموں میں ریسرچ اسکالرز سمینار سب سے اہم ہے، ریسرچ اسکالرز سمینارکا سب سے بڑا فائدہ ریسرچ اسکالرز کوہوتا ہے، میری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسکالرز کو شامل کیا جائے،غیر ملکی یونیورسٹیز کے علاوہ ہندوستان کی تقریباًتمام یونیورسٹیوں کی نمائندگی یہاں ہورہی ہے ۔ ریسرچ اسکالرز سمینار کا بہتر انعقاد اس لیے ضروری ہے کہ آج کے اسکالر ہی کل کے ادیب وناقد ہیں۔انہی کو زبان کی بقا اور اس کے فروغ کو یقینی بنانا ہے۔اس لئے انہیں آگے بڑھانا ناگزیر ہے۔ آج اسکالرز کو تمام تر سہولتیں حاصل ہیں۔مگر آج ریسرچ کا معیار کیوں زوال کی طرف گامزن ہے یہ وہ سوال ہے، جس پر ہمیں غور کرنا ہے۔
\"860665fc-63c5-4b3b-9a93-35ef6894cb5d\"
افتتاحی اجلاس کے بعد بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کا پہلا اجلاس منعقد ہوا،جس کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آرٹس فیکلٹی کے ڈین اور شعبۂ اردو کے استاذ پروفیسر وہاج الدین علوی اور معروف شاعر و ناقد پروفیسر احمد محفوظ، استاذ شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اور نظامت غزالہ فاطمہ نے کی۔ اس سیشن میں علی ظفر، اسماء، مقصود حسین شاہ، مدثر رشید،محمد ریحان، سیدہ خاتون نے اپنے مقالات پیش کیے۔بین الاقوامی سمینار کے آخری سیشن کی صدارت شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹرابوبکر عباد اورفارسی کے معروف اسکالر ڈاکٹر شمیم الحق صدیقی نے کی ۔ اور نظامت امیر حمزہ نے کی۔ اس سیشن میں نازیہ تسکین،محمد مدثر، موسیٰ، ارشد احمد کوچے، روبی،سعیدالحسن،راشدہ خاتون، نور اشرف نے اپنے مقالات پیش کئے ۔افتتاحی اجلاس سے لے کر شام کے دوسرے اجلاس تک بڑی تعداد میں ہندوستان کی تقریباً پچاس یونیورسیٹیوں کے ریسرچ اسکالرز موجود تھے ۔بیرون ملک میں ترکی ،ایران ،بنگلہ دیش ،جاپان اور ماریشس کے بھی ریسرچ اسکالرز اس سمینار میں موجود تھے۔
\"aefc36c5-028e-4741-bbfa-45279ce711bc\"

بین الاقوامی ریسرچ اسکالرزسمینار کے دوسرے روز کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہرفاروقی نے کہاکہ مقالوں کا رجحان تنقید کی طرف ہے۔اچھے متون کی ترتیب وتدوین کے کام نہیں ہورہے ہیں۔شعری متن پڑھنے کی بھی صلاحیتیں ہم سے ختم ہورہی ہیں۔ تحقیق اور عام زندگی میں مقالات لکھنے میں فرق ہوتا ہے۔حوالہ جات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مقالہ لکھنے کے وقت حوالہ جات کی بڑی اہمیت ہے اور حوالے پورے دینے چاہئیں۔دس منٹ میں ایسا مقالہ لکھیں ۔جو آپ کا اور آپ کے موضوع کا کما حقہ تعارف کرادے۔اس اجلاس میں محمد آثار احمدانصاری،شاہین ترنم ،نوربانو، گلشن پنجارہ،وسیم اقبال نحوی،عرفان عسکری، شاذلی خان زینب نازاورخوشترزرّیں نے اپنے مقالات پیش کئے۔اس اجلاس کی نظامت عبدالرزاق نے کی ۔
\"5ae54b6f-b413-4068-b9c6-4fc64ed493f9\"

بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے دوسرے روز کے دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر خالد محمود نے کی انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ میں رسمی طور پر تمام مقالہ نگاروں کو مبارک باد دیتاہوں۔ہمارے طلبہ وطالبات کو پہلے اتنے مواقع نہیں ملتے تھے۔ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی بھی کریں اور ان کی اصلاح بھی۔اس طرح کے سمیناروں میں اظہارمافی الضمیر کی ادائیگی سے طلبہ وطالبات میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ، مشق اور اظہار کے طریقوں پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے ۔یہاں آکر مجھے احساس ہوا کہ کئی بار غیر ممالک کے لوگ بھی اکتساب علم کی وجہ سے اہل زبان سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔جاپان سے آئیں اسکالر نے سب سے اچھا مقالہ پیش کیا۔مجھے محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ اہل زبان نہیں ہیں۔ اس سمینار میں اپنی یونیورسٹی کے نمائندوں کو بھیجنے سے پہلے ان کی تیاری کرانی چاہیے اور پہلے شعبہ میں انہیں سننا چاہیے ،مشق کرانی چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اردو پر برا وقت آپڑا ہے مگر مجھے آپ سب کو دیکھ کر لگ رہاہے کہ اردو کا اچھا وقت آگیا ہے۔
\"2142b70a-85d5-439e-b68a-d96532d27ee2\"

پروفیسر شریف حسین قاسمی نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہا کہ آپ چاہیں جتنی اچھی باتیں کہیں مگر جیسے ہی آپ کا تلفظ خراب ہوتا ہے آپ کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ تلفظ کی درست ادائیگی ناگزیر ہے۔ میں آپ سب کو اور بالخصوص منتظم اداروں کو مبارک باد پیش کرتاہوں۔اساتذہ کو عبارت خوانی پر توجہ دینی چاہیے، جو درست عبارت نہیں پڑھ سکتا وہ عبارت کی درست تفہیم سے بھی محروم رہے گا۔ اس اجلاس کی نظامت صالحہ صدیقی نے کی۔ اس اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں جاپانی اسکالر مورا کامی آسوکانے شرکت کی اور اپنامقالہ پیش کیا ان کے علاوہ قمر جہاں، محمد شاداب شمیم، شاہدعالم، مسروراحمدحیدری، آصفہ زینب اور محمد ارشد نے اپنے مقالات پیش کیے۔
دوسرے روز کے تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر عراق رضا زیدی اور پروفیسر اخلاق احمد آہن نے کی اس اجلاس کی نظامت فرمان چودھری نے کی۔اس اجلاس میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر اخلاق احمد آہن نے کہا کہ آپ کی تحقیق کے کام کا یہ ابتدائی زمانہ ہے۔ اس وقت موضوع کا انتخاب کرتے ہوئے آپ اختصاص کا خاص خیال رکھیں کسی خاص پہلو پر لکھیں اور سیر حاصل گفتگو کریں۔ کوئی مقالہ لکھنے سے پہلے اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں پر آپ کی نظر ہونی چاہیے۔ باز گوئی اور تکرار سے پرہیز کریں۔اردو فکشن دنیا میں ہماری عظیم فتوحات کی فہرست میں شامل ہے ۔ پروفیسر عراق رضا زیدی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ہم جب بھی کچھ کہیں تو اس کے پس منظر کو دیکھ لینا چاہیے۔تمام مقالہ نگاروں کو میں مبارک باد پیش کرتاہوں۔ آپ سب کو محنت کرنی ہے تاکہ زندگی کے طویل سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کرسکیں اور تحقیق وتنقید کے میدان میں کارنامے انجام دے سکیں ۔
اس اجلاس میں انجم پروین، ندامعید، اشتیاق احمد، محمد جاوید، نسرین صدیقہ، نغمہ تبسم ،جاوید عالم اور تکمینہ حبیب نے اپنے مقالات پیش کیے۔ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے دوسرے روز کے آخری اجلاس کی صدارت ڈاکٹر علی اکبر شاہ اور ڈاکٹر شعیب رضا خان وارثی نے کی اور نظامت شہباز رضا نے کی۔ اس اجلاس میں شاہد رضی، رہبررضا، سروری بیگم، امتیاز احمد، وصی الدین سردار، تنویر مظہر، محمد رفیق اور شیخ اصغرنے اپنے مقالات پیش کیے۔اس موقع پر دونوں صدور نے تمام مقالہ نگاروں کو مبارک باد دی ۔ان کے مقالوں پر تبصرے کیے اور انہیں اچھے اور بہتر تجزیے ،تنقیداور تحقیق کاسلیقہ بتایا ۔خیال رہے کہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے دوسرے روز کے تمام اجلاسوں میں یونیورسیٹیوں کے اساتذہ ،طلبہ وطالبات اور معززین شہر نے شرکت کی اور اپنی خوشی کا اظہارکیا۔آخر میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدر نے تمام مقالہ نگاروں ،صدورحضرات اور سامعین کا شکریہ ادا کیا اور کہاکہ ہماری کوشش رنگ لا رہی ہے ۔قومی کونسل برائے فروٖغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے خواب شرمندۂ تعبیرہورہے ہیں ۔
بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے اختتامی اجلاس کی صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ اس سمینار کے ذریعہ بہت سی یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات سے ملاقات کا موقع ملا۔ تحقیق ہر جگہ ہورہی ہے مگر تحقیق پر اس کے تقاضے کے مطابق توجہ نہیں دی گئی۔ ہمارے یہاں ہندوستان میں تحقیق کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور فن وثقافت سے توجہ ہٹ رہی ہے۔ تحقیق کا کام پوری زندگی کا کام ہے۔ تحقیق کے میدان میں تحقیق کے دوران کئی موضوعات ملتے ہیں ، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں ،جنہوں نے اپنے کاموں کو سرے سے مسترد کردیا اورپھر نئے راستوں کے مسافر ہوگئے۔ تحقیق کا مقصد آزادئ فکر وخیال کی پرورش ہے۔ علمی و تحقیقی دنیا میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔تحقیق کے کام میں ڈرنے گھبرانے کی نہیں ریاضت کی ضرورت ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ صرف دہلی نہیں دیگر شہروں میں بھی سمینار منعقد کررہاہے تاکہ اردو کی دنیا پھیلتی جائے۔
پروفیسر عتیق اللہ نے اپنی خصوصی تقریر میں کہاکہ جب شاگرد استاذ سے آگے نکلتا ہے تو اساتذہ کو خوشی ہوتی ہے۔ یہ سمینار اپنی نوعیت کا یکتا اور قرار واقعی بین الاقوامی سمینار ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ نے اس سمینار کا انعقاد کرکے طلبہ وطالبات کو فیسٹول منانے کا موقع دیا۔ آپ سب لغات کا استعمال ضرور کریں۔ تمام یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ایم اے کے نصاب میں فارسی کو ضرور شامل کریں۔ ماضی کے متون اور مخطوطات کو پڑھنے کے لیے فارسی کی شد بد ضروری ہے کلاسیکیت کی طرف ایک بار پھر سے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ قرات میں روانی علم کے حصول کو سازگار بناتی ہے۔ علم کے خزانے تک رسائی کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے, کوئی کتاب مکمل نہیں ہوتی کوئی مقالہ مکمل نہیں ہوتا۔ اپنے کام میں نئی بات لانے کے لئے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ قرات در قرات کے بعد آپ کسی متن کے ساتھ انصاف کرسکیں گے۔ نثر کی طرف ہمارے طلبہ کا رجحان بڑھ رہاہے۔ یہ دورشاعری سے دوری کا سبب بن رہاہے۔ انٹر نیٹ پر ضرورت سے زیادہ تکیہ کرلینے کی وجہ سے ہماری یادداشت کمزور ہورہی ہے، جب لسانیاتی ابہام پیدا ہوتا ہے تو ثقافتی ابہام پیدا ہوتاہی ہے۔ جدیدیت نے جو کچھ کیا تھا وہ سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ پروفیسر ارتضی کریم،ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ اس سمینار کے انعقادکا فن غالب انسٹی ٹیوٹ کو ہی آتا ہے۔ ہر سال بڑی محنت کے بعدیہ سمینار منعقد کرتاہے ۔اگلے بین الاقوامی سمینار میں ہماری کوشش ہوگی کہ تین حلقوں کے بجائے چار روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرزسمینارمنعقد ہوں۔ اگر تحقیق میں زوال آیا ہے یا تحقیق میں کوتاہی ہورہی ہے تویہ کیوں ہورہاہے؟ قاعدے سے ریسرچ کرنے والوں کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحقیق اور سندی تحقیق کا معیار کیوں زوال پذیر ہے اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے؟ طلبہ وطالبات کو بتانے کی ضرورت ہے کہ کلاسیکی شاعری ہے کیا؟ داستان ہے کیا؟ خواب میں جینا چھوڑیں اور زمینی سچائیوں کا سامناکریں ۔تحقیق تکرار کا نہیں تازہ کاری کا نام ہے۔ طلبہ وطالبات رسائل وجرائد اور کتابیں خریدیں اور ان کا مطالعہ کریں۔جو بھی متن آپ پڑھیں اسے اپنی نظر سے پڑھیں اور اس سے نئے معانی تلاش کریں۔ اگلے سال سے بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کو چار روزہ کردیں گے۔
اختتامی اجلاس
ڈاکٹر عباس رضانیّر،صدر شعبۂ اردو،لکھنؤ یونیورسٹی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود
اختتامی اجلاس میں ڈاکٹر سید رضا حیدر، ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ اس میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے بھرپور تعاون کیا اور اپنے اشتراک سے ہندوستان کی تقریبا تمام یونیورسیٹیوں کے طلبہ وطالبات نے مقالے پیش کئے۔ ڈاکٹر عباس رضا نیرنے کہا کہ غالب انسٹی اور قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نے شاندار سمینارکا انعقاد کیا ہے،جس دن آپ کے اشتہار واعلان آتے ہیں طلبہ وطالبات میں ہوڑ مچ جاتی ہے۔ اس سمینار میں ان اساتذہ سے بھی ملاقات ہوتی ہے، جو اردو تنقید کی راہیں طے کرتے ہیں۔ یہ سمینار بہار کے موسم میں اردو کے بہار کاموسم ہے، ہم سب اس سمینار سے مطمئن ہیں۔دیگر تحقیقات سے ادب کی تحقیق الگ چیز ہے۔ ادب لکھنے والا عام انسان نہیں ہے۔ متن پر کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
اختتامی اجلاس میں اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے ترکی کی استنبول یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالرآرزو سورین نے کہا کہ ایسا سمینار ترکی میں بھی نہیں ہوتا۔ یہاں شرکت سے میں خوش ہوں۔تہران یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر معصومہ غلامی نے کہاکہ اس سمینار میں شرکت میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ یہاں بیٹھ کر مقالے سن کر نئے نئے موضوعات پر لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ ماریشس کی بی بی سکینہ نے کہا کہ یہ بہت بڑا اسٹیج ہے، جہاں ہمیں پیپر پیش کرنے کا موقع ملا یہ میرا بڑا اعزاز ہے۔ جاپانی اسکالر مورا کامی آسوکا نے کہا کہ میں قومی کونسل اور غالب انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے مجھے موقع دیا۔ اس سمینار میں شرکت کرکے بہت کچھ مجھے سیکھنے کا موقع ملا۔
آخری روز کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسرعزیزالدین حسین ہمدانی وپروفیسر ابن کنول نے کی۔اس اجلاس کی نظامت محمد شفیق عالم نے کی۔اس اجلاس میں محمد توصیف خان،غلام نبی کمار،محمد ثناء اللہ ،اعجاز احمد،محمدصالح ظفر،محمد فیضان حسن نے اپنے مقالات پیش کیے ۔
آخری روز کے دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی عبیدالرحمان ہاشمی اور پروفیسر علیم اشرف خاں نے کی نظامت نورین علی حق نے کی اس اجلاس میں معصومہ غلامی ،بی بی سکینہ، صالحہ صدیقی، ایس ٹی نور اللہ، امتیاز احمد علیمی،محمد فرحان، نائلہ تبسم، احسن ایوبی ،ابراہیم وانی،تنویر احمد میر اورشہناز رحمان نے اپنے مقالات پیش کئے۔
آخری دن کے تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر انور پاشا اور پروفیسر رضوان قیصر نے کی ۔ اس اجلاس کی نظامت توحید حقانی نے کی ۔اس اجلاس میں آرزوسورین ،نورین علی حق ،نیلوفریاسمین،شہ نور حسین،افتخار احمد،محمد سلیم ،سمیہ بانو ،عابدعلی خان اور محمد معین خان نے اپنے مقالات پیش کیے ۔اختتامی اجلاس کے بعد تمام مقالہ نگاروں ،ناظموں اور ریسرچ اسکالرز مع سامعین کو سرٹی فکیٹ دیے گئے ۔اختتامی اجلاس میں اسٹیج پر موجودتمام ناقدین اور اساتذہ کے ہاتھوں ریسرچ اسکالرز شہاب الدین قاسمی کی کتاب بیسویں صدی کا وضاحتی اشاریہ نامی کتاب کی رسم اجرابھی ہوئی ۔
\"65c42f3e-f6db-40a3-bf43-7b9a605958d9\"
\"ab26dce1-d204-4d21-8b23-a5568df6933e\"

Leave a Comment