سہ ماہی ’انداز بیاں‘ مجلّہ پر ابرار اجراوی کا تبصرہ

’انداز بیاں‘ کا بیانیہ

ابرار اجراوی

\"andaze-bayan-picture\"حقانی القاسمی اردو تنقید کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں۔ اردو تنقید کو تخلیق کا پیراہن عطا کرنے اور تنقید و تخلیق کو دو قالب و یک جان بنانے میں ان کا بنیادی کردار رہا ہے۔ وہ فرسودہ اور بنے بنائے راستوں پر چلنے کے قائل نہیں، وہ ادبی دنیا میں اپنی راہ خودبناتے ہیں، گلشن ادب میں نئے بیل بوٹے اگانے اورکائنات تخلیق میں گم شدہ وادیوں اور نئے تخلیقی جزیروں کی تلاش میں سرگرداںرہتے ہیں کہ ان کا اس فلسفے پر یقین ہے کہ اس پھیلے ہوئے وسیع و عریض جہان میں زبان و ادب کے نئے جزیروں کی تلاش اور گم شدہ منطقوں کی باز یافت از حد ضروری ہے۔ ہم کب تک مکھی پر مکھی مارتے رہیں گے، کب تک اکابر کے پھینکے ہوئے نوالوں کو نئے لیبل کے ساتھ بازار ادب میں فروخت کرتے رہیں گے اور ایک ہی موضوع کے تکرار کے جرم کا ارتکاب کرتے رہیں گے، کیوں کہ اس عمل سے نہ صرف یہ کہ ذہنی تخلیقی سوتوں کے خشک ہونے کا اندیشہ ہے، بلکہ علم و فن کی دنیا کے نقطۂ انجماد پر رک جانے کا اندیشہ بھی ہے، جو لفظوں اور تخلیقی اذہان کے قتل سے کم نہیں۔
درجن بھر کتابوں کے مصنف حقانی القاسمی صرف تخلیقی تنقید کو زندہ رکھنے اور اس کے نودمیدہ شجر میں نئے برگ و بار لانے کا ہی فرض منصبی انجام نہیں دے رہے ہیں، بلکہ ادبی رسالوں اور مجلوں کی دنیا پر عرصے سے طاری جمود کو توڑنے کا بھی عزم کیے ہوئے ہیں۔وہ اس میدان کے پرانے شہسوار ہیں، انھیں ادبی رسالوں کی ترتیب و ادارت اور تزئین و تصویر کا خاصا تجربہ حاصل ہے۔ وہ معروف ادیب و ناول نگارڈاکٹر صلاح الدین پرویز کے رسالہ استعارہ کے نائب مدیر کی حیثیت سے عرصے تک، اپنے منفرد انداز تحریر اور بے لاگ تبصروں کے سبب اردو قارئین کے دلوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس رسالہ کی اشاعت موقوف ہونے کے بعد انھوں نے غیر رسمی طور پر ایک اور مجلے کی ترتیب و ادارت کا کرب جھیلا،از اول تا آخر وہی اس کی رگوں میں خون بن کر گردش کرتے رہے، مگر وہ ان کے سوچ سمندر کی متلاطم لہروں کے لیے ناکافی تھا کہ کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے، اس لیے وہ اب نئے طرز کا یک موضوعی مجلہ’ اندازبیاں‘ لے کرپرستاران اردو کی مجلس میں حاضر ہوئے ہیں۔انداز بیاںموضوع سے لے کر مضامین تک اور گیٹ اپ سیٹ اپ تک جدت کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں۔
خواتین اکیسویں صدی میں بھی زندگی کے دھارے سے دور ہے، نہ ان کو زندگی کے دوسرے شعبوں میں قابل قبول مقام مل سکا ہے اور نہ ہی ادبی دنیا میں ان کی پذیرائی میں انصاف کا پیمانہ اختیار کیا گیا ہے،گلابی کرن اور جرائم میں ان کی بری کتھا کو پڑھ کر اور ان کے جسمانی خدو خال سے تو دل و دماغ کی آسودگی کا سامان فراہم کرنے میں کوئی عار اور کوئی شرم نہیں، مگر ان کی خود نوشتوں کو شجر ممنوعہ اور جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر انھیں تخلیقی نگار خانے میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ حقانی ادب میں حاشیائی سیاست اور صنفی امتیاز کے خلاف ہمیشہ عصا بدست رہے ہیں، اس لیے انداز بیاں کا زیر نظرپہلا شمارہ خواتین کی خود نوشتوں کے جائزے پر محیط ہے، جس میں صرف اردو کی نام ور خود نوشت نگار خواتین کے ادبی کارناموں اور ان کی خود نوشتوں کا ہی تذکرہ نہیں ہے، بلکہ اردو کے علاوہ مقامی ہندستانی زبانوں مراٹھی پنجابی، نیز عربی اور دوسری عالمی زبانوں میں لکھی گئی خواتین کی خود نوشتوں کابھی معروضی تنقیدی انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ شمارہ ۲۹۶؍صفحات پر مشتمل ہے۔ ابتدا میں حقانی القاسمی کا اداریہ’جنوں زاویہ‘ ہے، جس میں انھوں نے انداز بیاں کواپنے انداز جنوں سے تعبیر کیا ہے اور اس کے بعد’گلشن خیال‘ کے عنوان سے ملک و بیرون ملک کے ۲۴؍قلم کاروں کے مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔خود نوشت کا فن(رحمت یونس)،پاک و ہند کی خود نوشتیں(راشد اشرف)، خواتین کی خود نوشت سوانح عمریاں(شبانہ سلیم)، مراٹھی میں خود نوشت(صادقہ نواب سحر)،زہرا داؤدی کی آ پ بیتیاں(رضیہ حامد) دو آپ بیتیاں:سلسلۂ روز و شب اور یاد کی رہ گزر(عذرا نقوی)، بدن کی ممنوعہ کتاب(فیاض احمد وجیہ)، شورش دوراں(اکرم پرویز)،میرا بچپن بطور فکشن(عبد السمیع)،جو کہا نہیں گیا(شاہد الرحمن)، تہمینہ درانی کی مینڈا سائیں(سیمیں کرن)، خواتین کا خود نوشتوں کا طرز نگارش(شبانہ سلیم)، اردو کی باغی خواتین کی آپ بیتی(محمد نوشاد عالم) وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
مجلہ میں شامل ان مضامین سے خواتین کی خود نوشت نگاری کے نئے جہات و آفاق کا پتہ چلتا ہے۔ ان سے ان کی داخلی زندگی کے احوال و اسرار دوسروں پر منکشف ہوتے ہیں۔ان خواتین کا بچپن، جوانی، طالب علمی، عشق و معاشقے، آزادی کی تڑپ، علمی و ادبی فتوحات، گھریلو اور ازدواجی زندگی، سیاسی اور سماجی افکار سب کچھ ان خودنوشتوں میں سمٹ آئی ہیں۔اس شمارہ کا امتیاز یہ ہے کہ رسالے میںبیشتر نئے قلم کاروں کو جگہ دی گئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا، ان کی صلاحیتوں سے گمنامی اور شرمندگی کی پرت ہٹانا اور انھیں دنیائے تنقید میں متعارف کرانا اس رسالے کا خاص مقصد ہے۔ اداریہ’جنوں زاویہ‘ بہت ہی جامع اور بھرپور ہے، جس میں حقانی القاسمی نے خواتین کی خودنوشت نگاری کے آعاز و ارتقا پر تفصیل سے بحث کی ہے،عربی، فرنچ، جرمن، انگریزی اور مقامی زبانوں میں لکھی خواتین کی خود نوشت کے فن اور موضوع کو محور تحریر بنایا ہے۔ حقانی نے خود نوشت اور خواتین کی خود نوشتوں کے تعلق سے جن مسائل و مباحث کو اٹھایا ہے، اس سے خود نوشت نگاری کے میدان میں بحث و مباحثہ کے نئے در وا ہوتے ہیں۔ خواتین کی خود نوشت نگاری کے تعلق سے معاشرتی جبر اور ادبی دنیا کی بے زاری کا نوحہ کرتے ہوئے اداریہ میں لکھتے ہیں:
’میرے جنوں اور عورت کی زندگی کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ میرا جنوں جس طرح اذیتوں سے گزرتا رہا ہے، عورت کی زندگی بھی اسی طرح کے آزار سے عبارت ہے۔ زنجیروں میں جکڑا ہوا وجود جو مذہب اور سماج کے خوف سے اپنی اندرونی سچائیوں کو معاشرے کے روبرو ہیش نہیں کرسکتا۔ سہمی سہمی سی عورت اپنی بات کہنے کی کوشش ضرور کرتی ہے مگر مکمل طور پر ترسیل نہیں کرپاتی ۔یہی وجہ ہے کہ اس کا وجود احساس کی قبر میں تبدیل ہوجاتا ہے اور عورت اپنی زندہ سچائیوں کے ساتھ دفن ہوجاتی ہے۔ عورتوں کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے سینے میں بہت سارے سچ محفوظ ہیں مگر وہ سچائیاں خوف کے خول میں بند ہوکر رہ جاتی ہیں۔ کچھ عورتوں نے اپنی آپ بیتیوں میں ان سچائیوں کو بیان کرنے کے کوشش ضرور کی ہے مگر یہ سب آدھے سچ ہیں کہ عورت کا وجود مکمل طور پر خوف سے آزاد نہیں ہوا ہے۔ مذہبی اور سماجی زنجیروں میں جکڑا ہوا یہ وجود اپنے حقوق میں جنگ شاید ازل سے لڑارہا ہے اور اور ابد تک لڑتا رہے گا ‘‘
اس مجلے کا ہر مضمون جامع اور بھر پور ہے، جو خواتین کی خود نوشتوں کے مختلف جہات پر مبنی ہے۔ مصامین میں نہ صرف ان خود نوشتوں کے موضوعات کو حقائق کے میزان پر تولا گیا ہے، بلکہ ان کے اسلوب و طرز ادا کو بھی فن کی کسوٹی پر جانچا گیا ہے۔ ان خود نوشتوں کی تخلیقیت اور ان کی سوانحیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ مجلہ خواتین کی خود نوشتوں کے جائزے پر محیط ہونے کی وجہ سے ایک ادبی دستاویز کی حیثیت کا حامل ہے۔خود نوشت اور خواتین کی خود نوشت نگاری کے موضوع پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک اہم مرجع ثابت ہوگا۔امید ہے کہ حقانی القاسمی کی دیگر کتابوں اور تحریروں کی طرح اس کی بھی خوب پذیرائی ہوگی۔ اردو ادب کے شیدائی اور قدر داں اس کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔٭٭٭

Leave a Comment