’’سیّد الطاف علی بریلوی کی تعلیمی،علمی اورسیاسی خدمات‘‘

\"drzakia\"
٭ڈاکٹر ذکیہ رانی
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبۂ اردو،جامعہ کراچی۔

کشادہ چہرہ،عینک سے جھانکتی چمکتی آنکھیں،حساس،زود رنج ،سروقد،لہروں کی مانند ہمکتی، چہکتی،کہکشاں ناز!!کہکشاں دولفظوں کا مجموعہ ہے۔’’کاہ‘‘ سے کَہہ ہوا ’’کشاں‘‘سے مرادگھسیٹنا،روانی سے جانا۔گھاس کے بنڈل کو کھینچنے کے عمل سے زمین پر جو لکیریں بن جاتی ہیں اُسے کَہکشاں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔فارسی میں کَہکشاں آسمان کے ستاروں کا جھرمٹ،زمین پر خوبصورت نقش ونگار ،اوراُس پر ’’ناز‘‘ کا اضافہ اوراس پر مستزاد’’سیّد الطاف علی بریلوی‘‘ کی شخصیت پر سندی مقالہ!!!بقولِ شاعر ؎

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
کچھ تو لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

کہکشاں میں’ ناز ‘کی افزائش کے سارے امکانات موجود تھے اورہیں۔اس مقالے کی تکمیل میں ’’کہکشاں‘‘ باعتبارِ صفاتی اور’’ناز‘‘ باعتبارِ ادا دونوں کو اس انداز سے یکجا کردیا کہ مقالے کی تحقیق و تدوین کا عمل کہکشاں ناز کے اسمِ بامسمیٰ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔پہلی ملاقات ہو یاآخری موصوفہ کی شخصیت اپنا ایک جدا رنگ ڈھنگ ذہن پر ثبت کرتی ہے۔زیادہ دن نہیں گزرے پی ایچ۔ڈی کی سند لینے ہم ساتھ ہی گئے۔پھر وفاقی اردویونیورسٹی میں مختلف شعبہ جات کے باوصف ہماری دوستی اوریگانگت آج بھی برقرار ہے ان شاء اللہ رہے گی۔
ڈاکٹر کہکشاں ناز نے پی ایچ ۔ڈی کے لیے ہمہ جہت شخصیت سیّد الطاف علی بریلوی کاانتخاب کیا اور ’’سیّد الطاف علی بریلوی کی تعلیمی،علمی اورسیاسی خدمات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ ڈالا،سندملتے ہی مقالہ پاکستان اسٹڈیز سینٹر جامعہ کراچی سے شائع ہوا۔پاکستان اسٹڈیز سینٹر جامعہ کراچی کے تحت تاریخ،سماج،علوم وغیرہ پر ان گنت مقالات شائع ہوچکے ،دو ریسرچ جرنلز بھی باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پاکستان اسٹڈیز سینٹر جامعہ کراچی اس حوالے سے مبارکباد کا مستحق ہے کہ ایک اورمقالہ شائع ہوا اوراس سے سرسیّد شناسی میں مدد لی جاسکتی ہے۔مستقبل میں یہ کتاب اہم حوالہ جاتی ماخذ ہوگی۔ان شاء اللہ سیّد الطاف علی بریلوی کثیر الجہات شخصیت تھے۔بقول میر تقی میر ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

سیّد الطاف علی بریلوی جیسے اکابر اب ہمارے سماج سے اٹھتے جارہے ہیں یہ وہ چراغ تھے کہ جن کی روشنی چاردانگ عالم تھی۔ایسی شخصیت کا بطور تحقیق انتخاب مفید بھی ہوتا ہے مضربھی! مفید یوں کہ مواد بے شمار ہوتا ہے آپ لکھ لکھ کر مرجائیں اورمضریوں کہ کثیر الجہات شخصیات کا ایک بھی پہلو تشنہ رہا تو ایک آنچ کی کسر تصور کی جائے گی۔بہرحال ڈاکٹر کہکشاں اس پلِ صراط سے گزرچکیں،اور انھوں نے دانشمندی یہ کی کہ علمی، تعلیمی، سیاسی خدمات جو کہ مؤثر تھیں ان کو تحقیق کا موضوع بنایا اورپھر اس راہ پر چل پڑیں۔
سیّد الطاف علی بریلوی کا زمانہ حیات۱۹۰۵ء تا ۱۹۸۶ء بیسویں صدی کا منظرنامہ کہ جس میں پہلی جنگِ عظیم،تحریکِ خلافت،دوسری جنگِ عظیم ،تقسیم ہندوپاک،قیام پاکستان ،مارشل لاء جیسے ادوار ان کی نظروں سے گزرے اوروہ خود ان واقعات کے گواہ تھے۔ان کی تربیت بریلی کے مردم خیز شہر میں ہوئی۔جہاں روایات کی پاسداری جزو ایمان تصور کیا جاتا تھا نیز ان کی والدہ کی نگرانی اورذاتی اُپج نے ان میں ایسے اوصاف پیدا کردیئے کہ وہ منتظم،مقرر،صحافی،مصنف،محقق ہوئے۔اورہرہر جہت سے اپنی انفرادیت اورقابلیت کا لوہا منوایا۔بطور شخصیت ہم انھیں راہنما کہہ سکتے ہیں جبکہ وہ خودکوسرسیّد تحریک کا ادنیٰ مقلد سمجھتے رہے۔ان کی ذات میں استقلال،بردباری،ایثار،جدوجہدجیسے تمام اجزاء جو اُن کی شخصیت کا لازمی جزبن چکے تھے لہٰذا مذکورہ اجزاء مل کر ان کی شخصیت کو بے مثال بنائے ہیں ۔گوانھوں نے سرسیّد کو نہیں دیکھا مگرعلی گڑھ کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ اپنے علیگی ہونے پر فخر کیا اورپھر اسی روش پر گامزن ہوگئے کہ جس پر سرسیّد اپنی قوم کو دیکھنا چاہتے تھے۔تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے مستقرسے نہیں نکلے وہیں رہے اورانجمن مصنفین،بیت المصنف کی بنیاد رکھی،’’ مصنف ‘‘نامی پرچہ جاری کیا جس کے اداریے اس عہد کی علمی،سماجی،تعلیمی،پالیسیوں کی کہانی بیان کرتے ہیں حکومتِ وقت کو سرزنش بھی کی، تجاویز بھی دیں، جب نقار خانے میں طوطی کی سننے والا کوئی نہ رہا تو بابائے اردو اوردیگر اکابرین کی طرح انھوں نے بھی رخت سفر باندھا اورکراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔کراچی میں آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھ کر گویا علی گڑھ کی توسیع کی۔یہ توسیع فکرِ سرسیّد کی توسیع سمجھی جائے تو غلط نہ ہوگا۔کراچی میں علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن بھی اسی تسلسل کاحصہ ہے۔
سیّد الطاف علی بریلوی نے’’حیاتِ حافظ رحمت خاں ‘‘ روہیلہ لکھ کرجہاں روہیل کھنڈ کی تاریخ وتہذیب کو محفوظ کردیا وہیں اہلِ روہیلہ کی قومی حمیت کو بیدارکیا یہی کچھ کارنامہ ایجوکیشنل کانفرنس پاکستان کے ذریعے انجام دیا۔
سیّد الطاف علی بریلوی فکرِ سرسیّد کے پیروکار تھے۔انھوں نے سرسیّد کی پیروی میں بغیر کسی منفعت کے ملک وقوم کی ترقی کے لیے کوششیں کیں اوراپنے حصے کی خدمت بجا لائے۔
آج کا طالب علم یہ سوچتا ہے کہ علمی وادبی کارنامے انجام دینے والی شخصیت سوائے لکھنے پڑھنے کہ کوئی کام نہیں کرسکتی تو اس مقالے کا سوانحی باب موصوف کے مشاغل جیسے باغبانی کا شوق ،پرندوں کی افزائش کی دلچسپی رکھنے ،چھوٹوں بڑوں کا ادب لحاظ غرض یہ کہ تمام زندگی مختلف النوع دلچسپیوں کاا حوال بیان کرتا ہے۔اب سوچیئے کہ ایسی شخصیت اتنے بڑے کارناموں کی محرّک تھی۔دراصل یہ سب ہماری روایت اورتہذیب کا عکس تھا جو سیّد الطاف علی بریلوی کی شخصیت میں جمع ہوگیا تھا۔موصوف مشرقی تہذیب کا نمونہ اورمستقبل بین تھے۔مفصل احوال کے لیے مذکورہ مقالے کی خواندگی ضروری ہے۔
ڈاکٹر کہکشاں ناز،اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ مطالعۂ پاکستان ،وفاقی اردو یونیورسٹی کا مستقبل ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اس شعبہ کی ترقی میں موصوفہ فعال کردارادا کرنے والی ہیں اوراس کا یقین ہے کہ جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈیز سینٹر کے بعد کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی کا شعبہ اپنی تحقیق و علمی جہات کے ساتھ جانا جائے گا ،انشاء اللہ۔
ہم تو اس مضمون میں ڈاکٹر کہکشاں کی علمی کاوشوں کو سراہتے ہیں اورامید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی ایسے ہی تحقیقی مقالے لکھیں گی اوراعزازی جلد مرحمت فرمائیں گی۔نہ بھی عنایت فرمائیں ہم چھین لیں گے کہ حسابِ دوستاں در دل دارد۔
اللہ ڈاکٹر کہکشاں ناز کو مزید ترقیوں ،کامیابیو ں سے سرفراز کرے آمین اوروہ اسی طرح فرمانبردار بیٹی کی طرح والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بڑھاتی رہیں۔اللہ ان کے والدین اوربالخصوص والدہ کو دائمی صحت وتندرستی عطافرمائے۔آسانیاں عطافرمائے اورآسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔آمین۔بقول استادِ گرامی پروفیسرڈاکٹرشاداب احسانی ؎
محدود کر نہ ذہن کی ہنگامہ خیزیاں
وہ آئینہ تراش کہ دنیا دکھائی دے

Leave a Comment